[١٨٥] یہی توحید خالص کا نمونہ ہے جس پر سیدنا ابراہیم عمل پیرا تھے اور جس کا تقاضا یہ تھا کہ میری تمام بدنی عبادات بھی اللہ کے لیے ہیں اور مالی عبادات بھی۔ واضح رہے کہ نسک کا معنیٰ گو قربانی ہی کیا جاتا ہے مگر اس کے وسیع معنیٰ میں سب مالی عبادات مثلاً صدقہ، خیرات، نذر و نیاز اور منت وغیرہ سب کچھ اس میں آجاتا ہے۔ پھر میرے جینے کا مقصد ہی شرک کو ختم کرنا اور اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہے تاآنکہ اسی راہ میں مجھے موت آجائے۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ ۔۔ : ” اَلنُّسُکُ “ کا معنی عبادت ہے، یہ ذبح، قربانی اور حج کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ) [ الحج : ٣٤ ] ” اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کی، تاکہ وہ ان پالتو چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں۔ “ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی : (وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۭ ) [ البقرۃ : ١٢٨] ” اور ہمیں ہماری عبادت (یا حج) کے طریقے دکھا۔ “ ” اَلصَّلاَۃُ “ قلبی، زبانی اور جسم کے تمام اعضاء کی عبادت کا مجموعہ ہے۔ ” وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا ‘ مصدر بھی ہوسکتے ہیں اور ظرف زمان بھی، یعنی مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی قلبی، زبانی اور جسمانی عبادات، مثلاً قیام، رکوع اور سجود، یہ سب غیر اللہ کے لیے تھیں، اسی طرح ان کی قربانیاں اور زندگی اور موت کا وقت سب انھی کی نذر تھا، ہاں کبھی اللہ تعالیٰ کو بھی شامل کرلیتے تھے۔ فرمایا، ان سے صاف کہہ دیجیے کہ میرا تو یہ سب کچھ ایک اللہ کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے یہی حکم ہے اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو ایک اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے والا اور اس کا فرماں بردار بنانے والا ہوں، میرا جینا اور مرنا بھی اس اکیلے کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے ساتھ شرک کو ختم کرنے کے لیے ہے، حتیٰ کہ اسی پر میری موت آجائے۔
تیسری آیت میں فرمایا (آیت) قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، اس میں لفظ ” نُسُک “ کے معنی قربانی کے بھی آتے ہیں، اور حج کے ہر فعل کو بھی نُسُک کہتے ہیں، اعمال حج کو ” مناسک “ کہا جاتا ہے، اور لفظ مطلق عبادت کے معنی میں بھی مستعمل ہوتا ہے، اسی لئے ناسک بمعنی عابد بولا جاتا ہے، اس جگہ ان میں سے ہر ایک معنی مراد لئے جاسکتے ہیں، اور مفسرین صحابہ وتابعین سے یہ سب تفسیریں منقول بھی ہیں، مگر مطلق عبادت کے معنی اس جگہ زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں، معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ ” میری نماز اور میری تمام عبادات اور میری پوری زندگی اور پھر موت یہ سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔- اس میں فروع اعمال میں سے اول نماز کا ذکر کیا، کیونکہ وہ تمام اعمال صالحہ کی روح اور دین کا عمود ہے، اس کے بعد تمام اعمال و عبادات کا اجمالی ذکر فرمایا، اور پھر اس سے ترقی کرکے پوری زندگی کے اعمال و احوال کا ذکر کیا، اور آخر میں موت کا، ان سب کا ذکر کرکے فرمایا کہ ہماری یہ سب چیزیں صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں، اور یہی ایمان کامل اور اخلاص کامل کا نتیجہ ہے، کہ انسان اپنی زندگی کے ہر حال میں اور ہر کام میں اس کو پیش نظر رکھے کہ میرا اور تمام جہان کا ایک رب ہے، میں اس کا بندہ اور ہر وقت اس کی نظر میں ہوں، میرا قلب، دماغ، آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ پیر، قلم اور قدم اس کی مرضی کے خلاف نہ اٹھنا چاہئے، یہ وہ مراقبہ ہے کہ اگر انسان اس کو اپنے دل دماغ میں مستحضر کرلے تو صحیح معنی میں انسان اور کامل انسان ہوجائے، اور گناہ و معصیت اور جرائم کا اس کے آس پاس بھی گزر نہ ہو۔ - تفسیر در منشور میں اسی آیت کے تحت میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان اس آیت کو بار بار پڑھا کرے اور اس کو وظیفہ زندگی بنالے۔- اس آیت میں نماز اور تمام عبادات کا اللہ کے لئے ہونا تو ظاہر ہے کہ ان میں شرک یا ریاء یا کسی دنیوی مفاد کا دخل نہ ہونا مراد ہے، اور زندگی اور موت کا اللہ کے لئے ہونا، اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میری موت وحیات ہی اس کے قبضہ قدرت میں ہے، تو پھر زندگی کے اعمال و عبادات بھی اسی کے لئے ہونا لازم ہے، اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جتنے اعمال زندگی سے وابستہ ہیں وہ بھی صرف اللہ کے لئے ہیں، جیسے نماز، روزہ اور لوگوں کے ساتھ معاملات کے حقوق و فرائض وغیرہ اور جو اعمال موت سے متعلق ہیں، یعنی وصیت اور اپنے بعد کے لئے جو ہر انسان کوئی نظام چاہتا اور سوچتا ہے وہ سب اللہ رب العالمین کے لئے اور اسی کے احکام کے تابع ہے۔- پھر فرمایا (آیت) وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ” یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی قول وقرار اور اخلاص کامل کا حکم دیا گیا ہے، اور میں سب سے پہلا فرمانبردار مسلمان ہو “۔ مراد یہ ہے کہ اس امت میں سب سے پہلا مسلمان میں ہوں، کیونکہ ہر امت کا پہلا مسلمان خود وہ نبی یا رسول ہوتا ہے جس پر وحی نازل کی جاتی ہے۔- اور پہلا مسلمان ہونے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ مخلوقات میں سب سے پہلے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور مبارک پیدا کیا گیا ہے، اس کے بعد تمام آسمان و زمین اور مخلوقات وجود میں آئے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد ہے : اول ما خلق اللّٰہ تعالیٰ نوری (روح المعانی)
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢ ۙ- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نسك - النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] .- ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینم مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں - قول باری ہے ( قل ان صلاتی و نس کی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔ کہو میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میراجینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے) سعید بن جبیر، قتادہ ، ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ ( نس کی) سے مراد ” حج اور عمرہ میں میرا طریقہ “ ہے ۔ حسن کا قول ہے ( نس کی) سے مراد ” میرا دین “ ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے اس سے مراد ” میری عبادت “ ہے۔ تاہم اس لفظ پر اس ذبح اور قربانی کے معنی زیادہ غالب میں جس کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں ” فلان ناسک “ ( فلاں ناسک ہے) یعنی اللہ کے لیے عبادت کرتا ہے۔ عبداللہ بن ابی رافع نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے ( انی وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلاتی و نس کی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذالک امرت و انا اول المسلمین۔ میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سب سے یکسو ہو کر، اور میں مشریکن میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری عبادت، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھانے والا میں ہوں) حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت عائشہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگتے ( سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔ اے میرے اللہ تیریذات پاک ہے اور تمام تعریفوں کے ساتھ متصف ہے اور تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیرا مرتبہ بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں)- ہمارے نزدیک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی دعا قول باری ( فسبح بحمد ربک حین تقوم۔ جب تم کھڑے ہو تو اپنے رب کی تعریف کی تسبیح کرو) کے نزول سے قبل پڑھا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوگئی اور اس میں آپ کو نماز کے لیے کھڑے ہونے کے وقت تسبیح کا حکم دیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی دعا ترک کردی۔ یہ امام ابوحنیفہ کا اور امام محمد کا قول ہے ۔ امام ابو یوسف کے نزدیک دونوں دعائیں پڑھی جائیں گی اس لیے کہ دونوں دعائیں مروی ہیں ۔ قول باری ( ان صلاتی) سے نمازعید مراد لینے کی گنجاش ہے۔ قول باریی ( ونسکی) سے اضحیہ یعنی قربانی مراد ہے اس لیے کہ اضحیہ کو نسک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اسی طرح تقرب الٰہی کے طورپ ر ہر ذبیحہ کو نسک کہا جاتا ہے، قول باری ہے ( ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک۔ روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ ادا کرے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( النسک شاۃ قربانی ایک بکری کی ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو فرمایا تھا ( ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوٰۃ ثم الذبح۔ آج کے دن ہماری سب سے پہلی عبادت نماز ہوگی اور پھر ذبح یعنی قربانی) آپ نے نماز اور قربانی دونوں کو نسک کا نام دیا۔ جب آپ نے لفظ نسک کو نماز کے ساتھ مقرون کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس سے عید کی نماز اور قربانی دونوں مراد ہیں۔ آیت قربانی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ قول باری ہے ( وبذلک امرت) اور امر کا صیغہ وجوب کا مقتضی ہوتا ہے۔ قول باری ( وانا اول المسلمین) کے متعلق حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ” میں اس امت میں سب سے پہلا مسلمان ہوں “۔
(١٦٢۔ ١٦٣) اور آپ اس کی کچھ تفصیل بیان فرمادیجیے کہ میری پانچوں نمازین اور میرا دین و حج اور میری قربانی اور میری عبادت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رضامندی کے لیے ہے جو کہ جن وانس کا پروردگار ہے اور میں سب موحدین اور عابدین میں پہلا ہوں۔
آیت ١٦٢ (قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) - یہاں دوبارہ قل کہہ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا گیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو یہ اعلان کرنے کے لیے کہا جارہا ہے ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ہم میں سے ہر ایک کو یہ حکم پہنچ رہا ہے۔ کاش ہم میں سے ہر ایک یہ اعلان کرنے کے قابل ہو سکے کہ میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔ لیکن یہ تب ممکن ہے جب ہم اپنی زندگی واقعۃً اللہ کے لیے وقف کردیں۔ دنیوی زندگی کی کم از کم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر حد تک اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں ضرور صرف کریں ‘ لیکن اس ساری تگ و دَو کو اصل مقصود زندگی نہ سمجھیں ‘ بلکہ اصل مقصود زندگی اللہ کی اطاعت اور اقامت دین کی جدوجہد ہی کو سمجھیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :143 اصل میں لفظ ”نُسُک“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی قربانی کے بھی ہیں اور اس کا اطلاق عمومیت کے ساتھ بندگی و پرستش کی دوسری تمام صورتوں پر بھی ہوتا ہے ۔