قیامت کے دن مشرکوں کا حشر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا حشر اپنے سامنے کرے گا پھر جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کی پرستش کرتے تھے انہیں لا جواب شرمندہ اور بےدلیل کرنے کے لئے ان سے فرمائے گا کہ جن جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے رہے آج وہ کہاں ہیں؟ سورۃ قصص کی آیت ( وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) 28 ۔ القصص:62 ) میں بھی یہ موجود ہے ۔ اس کے بعد کی آیت میں جو لفظ فتنتھم ہے اس کا مطلب فتنہ سے مراد حجت و دلیل ، عذرو معذرت ، ابتلا اور جواب ہے ۔ حضرت ابن عباس سے کسی نے مشرکین کے اس انکار شرک کی بابت سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ ایک وقت یہ ہو گا کہ اور ایک اور وقت ہو گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ۔ پس ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحد نمازی جنت میں جانے لگے تو کہیں گے آؤ ہم بھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کر دیں ، اس انکار کے بعد ان کی زبانیں بند کر دی جائیں گی اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہیاں دینے لگیں گے تو اب کوئی بات اللہ سے نہ چھپائیں گے ۔ یہ توجہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ نے فرمایا اب تو تیرے دل میں کوئی شک نہیں رہا ؟ سنو بات یہ ہے کہ قرآن میں ایسی چیزوں کا دوسری جگہ بیان و توجیہ موجود ہے لیکن بےعلمی کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچتیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ کچھ ٹھیک نہیں ۔ اس لئے کہ آیت مکی ہے اور منافقوں کا وجود مکہ شریف میں تھا ہی نہیں ۔ ہاں منافقوں کے بارے میں آیت ( يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ:18 ) ہے ۔ دیکھ لو کہ کس طرح انہوں نے خود اپنے اوپر جھوٹ بولا ؟ اور جن جھوٹے معبودوں کا افترا انہوں نے کر رکھا تھا کیسے ان سے خالی ہاتھ ہو گئے؟ چنانچہ دوسری جگہ ہے کہ جب ان سے یہ سوال ہو گا خود یہ کہیں گے ضلو عنا وہ سب آج ہم سے دور ہو گئے ، پھر فرماتا ہے بعض ان میں وہ بھی ہیں جو قرآن سننے کو تیرے پاس آتے ہیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ ان کے دلوں پر پردے ہیں وہ سمجھتے ہی نہیں ان کے کان انہیں یہ مبارک آوازیں اس طرح سناتے ہی نہیں کہ یہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور احکام قرآنی کو قبول کریں ، جیسے اور جگہ ان کی مثال ان چوپائے جانوروں سے دی گئی جو اپنے چروا ہے کی آواز تو سنتے ہیں لیکن مطلب خاک نہیں سمجھتے ، یہ وہ لوگ ہیں جو بکثرت دلائل و براہن اور معجزات اور نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان قبول نہیں کرتے ، ان ازلی بد قسمتوں کے نصیب میں ایمان ہے ہی نہیں ، یہ بے انصاف ہونے کے ساتھ ہی بےسمجھ بھی ہیں ، اگر اب ان میں بھلائی دیکھتا تو ضرور انہیں سننے کی توفیق کے ساتھ ہی توفیق عمل و قبول بھی مرحمت فرماتا ، ہاں انہیں اگر سوجھتی ہے تو یہ کہ اپنے باطل کے ساتھ تیرے حق کو دبا دیں تجھ سے جھگڑتے ہیں اور صاف کہہ جاتے ہیں کہ یہ تو اگلوں کے فسانے ہیں جو پہلی کتابوں سے نقل کر لئے گئے ہیں اس کے بعد کی آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ کفار خود بھی ایمان نہیں لاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکتے ہیں حضور کی حمایت کرتے ہیں آپ کو برحق جانتے ہیں اور خود حق کو قبول نہیں کرتے ، جیسے کہ ابو طالب کہ حضور کا بڑا ہی حمایتی تھا لیکن ایمان نصیب نہیں ہوا ۔ آپ کے دس چچا تھے جو علانیہ تو آپ کے ساتھی تھے لیکن خفیہ مخالف تھے ۔ لوگوں کو آپ کے قتل وغیرہ سے روکتے تھے لیکن خود آپ سے اور آپ کے دین سے دور ہوتے جاتے تھے ۔ افسوس اس اپنے فعل سے خود اپنے ہی تئیں غارت کرتے تھے لیکن جانتے ہی نہ تھے کہ اس کرتوت کا وبال ہمیں ہی یڑ رہا ہے ۔
وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا۔۔ : اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن جب ان سے ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے متعلق باز پرس ہوگی تو ان کے پاس کوئی بہانہ یا فریب اس کے سوا نہ ہوگا کہ وہ قسم کھا کر اپنے شرک کرنے ہی سے انکار کردیں گے۔ دیکھیے سورة مجادلہ (١٨) ۔ - دوسری آیت میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ دیکھیے سورة نساء (٤٢) دونوں باتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے وہ اہل توحید کو جنت میں داخل ہوتا دیکھیں گے تو اپنے شرک کا انکار کریں گے، پھر جب ان کے مونہوں پر مہر لگے گی اور ان کے ہاتھ، پاؤں اور جسم کا ہر حصہ بول کر گواہی دے گا تو پھر ان کی کوئی بات چھپ نہیں سکے گی۔
خلاصہ تفسیر - کیفیت عدم فلاح مشرکین - اور وہ وقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جس روز ہم تمام خلائق کو (میدان حشر میں) جمع کریں گے، پھر مشرکین سے (بواسطہ یا بلا واسطہ بطور زجر و توبیخ کے) کہیں گے کہ (بتلاؤ) تمہارے وہ شرکاء جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے (کہ تمہاری سفارش نہیں کرتے جس پر تم کو بھروسہ تھا) پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی (ظاہر) نہ ہوگا کہ وہ (اس شرک سے خود بیزاری اور نفرت کا اظہار کریں گے اور بدحواسی کے عالم میں) یوں کہیں گے قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی کہ ہم مشرک نہیں تھے (حق تعالیٰ نے فرمایا تعجب کی نظر سے) ذرا دیکھو تو کس طرح ( صریح) جھوٹ بولا اپنی جانوں پر اور جن چیزوں کو وہ جھوٹ موٹ تراشا کرتے تھے (یعنی ان کے بت اور جن کو وہ خدا کا شریک ٹھہراتے تھے) وہ سب غائب ہوگئے (تشنیع بر انکار قرآن وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ) اور ان (مشرکین) میں بعضے ایسے ہیں کہ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن پڑھنے کے وقت اس کے سننے کے لئے) آپ کی طرف کان لگاتے ہیں اور (چونکہ یہ سننا طلب حق کیلئے نہیں محض تماشے یا تمسخر کی نیت سے ہوتا ہے اس لئے اس سے ان کو کچھ نفع نہیں ہوتا، چنانچہ) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں اس سے کہ وہ اس (قرآن کے مقصود) کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ بھر دیا ہے (کہ وہ اس کو ہدایت کے لئے نہیں سنتے، یہ تو ان کے دلوں اور کانوں کی حالت تھی، اب ان کی بصارت اور نگاہ کو دیکھو) اگر وہ لوگ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدق نبوت کے) تمام دلائل کو (بھی) دیکھ لیں ان پر بھی ایمان نہ لاویں (ان کے عناد کی نوبت) یہاں تک (پہنچی ہے) کہ جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے خواہ مخواہ جھگڑتے ہیں (اس طور پر کہ) یہ لوگ جو کافر ہیں یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) تو کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پچھلے لوگوں سے (منقول) چلی آرہی ہیں (یعنی مذہب والے پہلے سے ایسی باتیں کرتے چلے آئے ہیں کہ معبود ایک ہی ہے اور یہ کہ انسان خدا کا پیغمبر ہوسکتا ہے، قیامت میں پھر زندہ ہونا ہے، جس کا حاصل عناد اور تکذیب ہے آگے اس سے ترقی کرکے جدال اور دوسروں کو بھی ہدایت سے روکنے کا کام شروع کیا) اور پھر یہ لوگ اس (قرآن) سے اوروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی (اس سے نفرت ظاہر کرنے کے لئے) دور دور رہتے ہیں اور (ان حرکتوں سے) یہ لوگ اپنے ہی کو تباہ کر رہے ہیں اور (حماقت اور غایت بغض سے) کچھ خبر نہیں رکھتے (کہ ہم کس کا نقصان کر رہے ہیں، ہمارے اس فعل سے رسول اور قرآن کا تو اس سے کچھ بگڑتا نہیں) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت میں یہ مذکور تھا کہ ظالموں کافروں کو فلاح نصیب نہ ہوگی، متذکرہ آیات میں اس کی تفصیل و تشریح ہے، پہلی اور دوسری آیت میں اس سب سے بڑے امتحان کا ذکر ہے جو محشر میں رب الارباب کے سامنے ہونے والا ہے، ارشاد فرمایا (آیت) وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا، یعنی وہ دن یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہم ان سب کو یعنی ان مشرکین کو اور ان کے بنائے ہوئے معبودوں کو جمع کریں گے۔ ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤ ُ كُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ، یعنی پھر ہم ان سے یہ سوال کریں گے کہ تم جن معبودوں کو ہمارا سہیم و شریک اور اپنا حاجت روا مشکل کشا سمجھا کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟- اس میں لفظ ثم اختیار فرمایا گیا ہے جو تراخی اور دیر کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ محشر میں جمع ہونے کے بعد فوراً ہی سوال جواب نہیں ہوگا، بلکہ عرصہ دراز تک حیرت و تذبذب کے عالم میں کھڑے رہیں گے، مدّت کے بعد حساب کتاب اور سوالات شروع ہوں گے۔- ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ اللہ تعالیٰ تم کو میدان حشر میں ایسی طرح جمع کردیں گے جیسے تیروں کو ترکش میں جمع کردیا جاتا ہے، اور پچاس ہزار سال اسی طرح رہو گے، اور ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے روز ایک ہزار سال سب اندھیرے میں رہیں گے۔ آپس میں بات چیت بھی نہ کرسکیں گے (یہ روایت حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے ذکر کی ہے)- اس روایت میں جو پچاس ہزار اور ایک ہزار کا فرق ہے یہی فرق قرآن کی دو آیتوں میں بھی مذکور ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ان کان مقدارہ خمسین الف سنة، ” یعنی اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی “ اور دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) ان یوما عند ربک کالف سنة، ” یعنی ایک دن تمہارے رب کے پاس ایک ہزار سال کا ہوگا “۔ اور وجہ اس فرق کی یہ ہے کہ یہ روز شدت تکلیف و مشقت کے اعتبار سے دراز ہوگا، اور درجات محنت و مشقت کے مختلف ہوں گے، اس لئے بعضوں کے لئے یہ دن پچاس ہزار سال کا اور بعض کے لئے ایک ہزار سال کا محسوس ہوگا۔
وَيَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ٢٢- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- زعم - الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول .- ( ز ع م ) الزعمہ - اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔
(٢٢۔ ٢٣) او قیامت کے دن ہم تمام لوگوں کو جمع کرلیں گے، پھر ان معبودان باطل کے بچاریوں سے کہیں گے کہ جن معبودوں کی تم عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں انہیں لے کر آؤ وہ آج کدھر ہیں۔ پھر ان کا عذر اور جواب اپنی بےگناہی کے عذر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔
آیت ٢٢ (وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) - تمہارا گمان تھا کہ وہ تمہیں ہماری پکڑ سے بچا لیں گے۔