23۔ 1 فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں، بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کر کے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں۔ ثم لم یکن قیلھم عند فتنتنا ایاھم اعتذارا مما سلف منھم من الشرک باللہ۔ (جب ہم انھیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں جو انہوں نے شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے کوئی چارا نہ ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی پھر یہ انکار کس طرح کریں گے ؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رض) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کر کے اپنے شرک کرنے سے انکار کردیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگادے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہو سکیں گے (ابن کثیر)
[٢٦] مشرکین مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے کہ اگر بالفرض قیامت ہوئی بھی اور ہماری بازپرس بھی ہوئی تو ہمارے یہ لات و عزیٰ ہمیں بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن تو دہشت ہی اس قدر ہوگی کہ نہ عابد اپنے معبود کو پہچان سکے گا اور نہ معبود عابد کو، حالانکہ عابد و معبود سب وہاں حاضر ہوں گے۔ اس وقت جب اللہ مشرکوں سے پوچھے گا کہ بتاؤ تمہارے معبود کدھر ہیں۔ جنہیں تم میرا شریک بنایا کرتے تھے ؟ اس وقت وہ اپنے شرکیہ اعمال سے صاف مکر جائیں گے اور قسمیں اٹھا کر کہہ دیں گے کہ ہم نے تو کبھی کسی کو تیرا شریک بنایا ہی نہ تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس سب سے بڑی امتحان گاہ میں اول تو ایک عرصہ دراز ایسا گزرے گا کہ امتحان شروع ہی نہ ہوگا، یہاں تک کہ یہ لوگ تمنا کرنے لگیں گے کہ کسی طرح امتحان اور حساب جلد ہوجائے، انجام کچھ بھی ہو، یہ تردّد اور تذبذب کی تکلیف تو جائے، اسی طول قیام اور عرصہ دراز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ ثُمَّ کے ساتھ فرمایا ثُمَّ نَقُولُ ، اسی طرح دوسری آیت میں مشرکین کی طرف سے جو جواب مذکور ہے وہ بھی لفظ ثُمَّ کے ساتھ آیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ بھی بڑے وقفہ کے بعد بہت غور و فکر اور سوچ بچار کرکے یہ جواب دیں گے کہ واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین ” یعنی اللہ رب العالمین کی قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم تو مشرک نہ تھے “۔ اس آیت میں ان کے جواب کو لفظ فتنة سے تعبیر فرمایا ہے، اور یہ لفظ امتحان و آزمائش کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور کسی پر فریفتہ و مفتون ہوجانے کے لئے بھی۔ اور یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں پہلی صورت میں ان کے جواب امتحان کو امتحان سے تعبیر کردیا گیا ہے، اور دوسری صورت میں مراد یہ ہوگی کہ یہ لوگ دنیا میں ان بتوں اور خود ساختہ معبودوں پر مفتون تھے، اپنے جان و مال ان پر قربان کرتے تھے، مگر آج وہ ساری محبت و فریفتگی ختم ہوگئی، اور ان کا جواب بجز اس کے کچھ نہ ہوا کہ ان سے برات اور علیحدگی کا دعویٰ کریں۔- ان کے جواب میں ایک عجیب چیز یہ ہے کہ میدان قیامت کے ہولناک مناظر اور ربُّ الارباب کی قدرت کاملہ کے عجیب و غریب واقعات دیکھنے کے بعد ان کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ ربُّ العالمین کے سامنے کھڑے ہو کر جھوٹ بولیں اور وہ بھی اس شر ومد کے ساتھ کہ اسی کی ذات کبریاء کی قسم بھی کھا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔- عامہ مفسرین نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کا یہ جواب کچھ عقل و ہوش اور انجام بینی پر مبنی نہیں، بلکہ فرط ہیبت سے بوکھلاہٹ کی بناء پر ہے، اور ایسی حالت میں آدمی جو کچھ منہ میں آئے بالا کرتا ہے، لیکن میدان حشر کے عام واقعات و حالات میں غور کرنے کے بعد یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان کی پوری کیفیت اور حالت کو سامنے لانے کے لئے ان کو یہ قدرت بھی دے دی کہ وہ آزادانہ جو چاہیں کہیں جس طرح دنیا میں کہا کرتے تھے، تاکہ کفر و شرک کے گناہ عظیم کے ساتھ ان کا یہ عیب بھی اہل محشر کے سامنے آجائے کہ یہ جھوٹ بولنے میں بھی یکتا ہیں کہ اس ہولناک موقع پر بھی جھوٹ بولنے سے نہیں جھجکتے، قرآن مجید کی ایک دوسری (آیت) فیحلفون لہ کما یحلفون لکم سے اسی کی طرف اشارہ ہوتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ جس طرح مسلمانوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں اسی طرح خود رب العالمین کے سامنے بھی دروغ حلفی سے نہ چوکیں گے۔- محشر میں جب یہ قسمیں کھا کر اپنے شرک و کفر سے انکاری ہوجائیں گے تو اس وقت قادر مطلق ان کے مونہوں پر مہر سکوت لگا دیں گے اور ان کے اعضاء وجوارح ہاتھ پاؤں کو حکم دیں گے کہ تم شہادت دو کہ یہ لوگ کیا کیا کرتے تھے، اس وقت ثابت ہوگا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان یہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی خفیہ پولیس تھی، وہ تمام اعمال و افعال کو ایک ایک کرکے سامنے رکھ دیں گے، اسی کے متعلق سورة یسین میں ارشاد ہے :۔- (آیت) الیوم نختم علی افواھھم، اس مشاہدہ قدرت کے بعد کسی کو یہ جرأت نہ رہے گی کہ پھر کوئی بات چھپائے یا جھوٹ بولے۔- قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے : (آیت) ولا یکتمون اللّٰہ حدیثا، ” یعنی اس روز وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے “۔ اس کا مطلب حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہی بتلایا کہ پہلے پہلے تو خوب جھوٹ بولیں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے، لیکن جب خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت کوئی غلط بات کہنے کی جرأت نہ رہے گی۔- غرض احکم الحاکمین کی عدالت میں مجرم کو اپنا بیان دینے کا پورا موقع آزادی کے ساتھ دیا جائے گا، اور جس طرح وہ دنیا میں جھوٹ بولتا تھا اس وقت بھی اس کا یہ اختیار سلب نہ ہوگا کیونکہ قادر مطلق اس کے جھوٹ کا پردہ خود اس کے ہاتھ پاؤں کے حوالہ سے چاک کردیں گے۔- یہی وجہ ہے کہ موت کے بعد جو پہلا امتحان حدیث میں ہے کہ منکر نکیر جب کافر سے سوال کریں گے من ربک وما دینک، یعنی تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے ؟ تو کافر کہے گا ھاہ ھاہ لا ادری، ” یعنی ہائے ہائے میں کچھ نہیں جاتنا “۔ اس کے برخلاف مومن ربی اللّٰہ ودینی الاسلام، سے جواب دے گا، معلوم ہوتا ہے کہ اس امتحان میں کسی کو جھوٹ بولنے کی جرأت نہ ہوگی، ورنہ کافر بھی وہی جواب دے سکتا تھا جو مسلمان نے دیا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ امتحان لینے والے فرشتے ہوں گے، نہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں، اور نہ ایسی قدرت کہ ہاتھ پاؤں کی گواہی لے لیں، اگر وہاں جھوٹ بولنے کا اختیار انسان کو ہوتا تو فرشتے تو اس کے جواب کے مطابق ہی عمل کرتے اور وہ نظام مختل ہوجاتا، بخلاف میدان حشر کے امتحان کے کہ وہاں سوال و جواب براہ راست عالم وخبیر اور قادر مطلق کے ساتھ ہوگا، وہاں کوئی جھوٹ بولے بھی تو چل نہیں سکے گا۔- تفسیر بحر محیط اور مظہری میں بعض حضرات کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے شرک سے انکار کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو کھلے طور پر کسی مخلوق کو خدا یا خدا کا نائب نہیں کہتے تھے۔ مگر ان کا عمل یہ تھا کہ خدائی کے سارے اختیارات مخلوق کو بانٹ رکھے تھے، اور انہی سے اپنی حاجتیں مانگتے، انہی کے نام کی نذر و نیاز کرتے، انہی سے روزی، تندرستی، اولاد اور ساری مرادیں مانگا کرتے تھے، یہ لوگ اپنے آپ کو مشرک نہ سمجھتے تھے، اس لئے میدان حشر میں بھی قسم کھا کر یہی کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی کو واضح فرمائیں گے۔- دوسرا سوال اس آیت میں یہ ہوتا ہے کہ بعض آیات قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کفار و فجار سے کلام نہ فرمائیں گے، اور اس آیت سے صاف یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ان سے خطاب اور کلام ہوگا۔- جواب یہ ہے کہ خطاب و کلام بطور اکرام و اعزاز یا قبولیت دعاء نہ ہوگا، زجر و توبیخ کے خطاب کی نفی اس آیت میں مراد نہیں، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ خطاب جو اس آیت میں مذکور ہے بواسطہ ملائکہ ہو، اور جس آیت میں خطاب و کلام الٓہی کی نفی کہ گئی ہو اس میں مراد کلام بلا واسطہ ہے۔
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللہِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ٢٣- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔
7: شروع میں تو وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں جھوٹ بول جائیں گے، لیکن پھر قرآن کریم ہی نے سورۃ یس (65:36) اور سورۃ حم السجدہ (21:41) میں بیان فرمایا ہے کہ خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے، اور ان کا سارا جھوٹ کھل جائے گا۔ اس موقع کے لیے سورۃ نساء (42:4) میں پیچھے گذرا ہے کہ وہ کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔ اور آگے اسی سورت کی آیت نمبر 130 میں آرہا ہے کہ وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے۔