Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 لیکن وہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو اللہ کا شریک اپنا حمائتی و مددگار اور سفارشی سمجھتے تھے، غائب ہونگے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] یعنی اس دن کی دہشت اور اپنی بےبسی اور درماندگی کی بنا پر اپنے بچاؤ کی یہی راہ انہیں سجھائی دے گی کہ اس سے صاف مکر جائیں اور دنیا میں وہ جو کچھ کرتے رہے تھے دہشت کی وجہ سے سب بھول جائیں گے انہیں یہ یاد ہی نہ پڑے گا کہ وہ دنیا میں کس کس کو پوجتے اور کس کس قسم کا شرک کیا کرتے تھے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا۔۔ : یعنی وہاں ان کا شرک ان کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کے بنائے ہوئے حاجت روا اور مشکل کشا کہیں نظر آئیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخر آیت میں ارشاد فرمایا : اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ، اس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھئے کہ ان لوگوں نے اپنی جانوں پر کیسا جھوٹ بولا ہے، اور جو کچھ وہ اللہ پر افتراء کیا کرتے تھے آج سب غائب ہوگیا، اپنی جانوں پر جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وبال اس جھوٹ کا انہی کی جانوں پر پڑنے والا ہے، اور افتراء سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ان کو اللہ کا سہیم و شریک ٹھہرانا ایک افتراء تھا، آج حقیقت سامنے آکر اس افتراء کی قلعی کھل گئی، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افتراء سے مراد جھوٹی قسم ہے جو محشر میں کھائی تھی، پھر ہاتھوں پیروں اور اعضاء کی گواہی سے وہ جھوٹ کھل گیا۔- اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ افتراء سے مراد مشرکین کی وہ تاویلیں ہیں جو اپنے معبودات باطلہ کے بارے میں دنیا میں کیا کرتے تھے، مثلاً مانعبدھم الا لیقربونا الی اللّٰہ زلفی، ” یعنی ہم ان بتوں کو خدا سمجھ کر ان کی عبادات نہیں کرتے، بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے سفارش کرکے قریب کردیں گے “۔ محشر میں یہ افتراء اس طرح کھل گیا کہ ان کی سب سے بڑی مصیبت کے وقت کسی نے نہ ان کی سفارش کی، نہ ان کے عذاب میں کچھ کمی کا ذریعہ بنے۔- یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سوال و جواب ہوں گے معبودات باطلہ سب غائب ہوں گے، کوئی سامنے نہ ہوگا، اور قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ ارشاد ہے (آیت) احشروا الذین ظلموا وازواجھم وما کانوا یعبدون، ” یعنی قیامت میں حق تعالیٰ کا حکم یہ ہوگا کہ جمع کردو ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان کو جن کی یہ لوگ عبادت کیا کرتے تھے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں معبودات باطلہ بھی حاضر و موجود ہوں گے۔- جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ان کے غائب ہونے سے مراد یہ ہے کہ بحیثیت سہیم و شریک یا سفارش کرنے کے یہ غائب ہوں گے کہ ان لوگوں کو کوئی نفع نہ پہنچا سکیں گے ویسے حاضر و موجود ہوں گے، اس طرح دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہ رہا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں یہ سب ایک جگہ جمع کردیئے جائیں، پھر متفرق ہوجائیں، اور یہ سوال تفریق کے بعد کیا جائے۔- ان دونوں آیتوں میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ جل شانہ، نے مشرکین کو حشر کے ہولناک میدان میں جو یہ اختیار دیا کہ وہ آزادانہ جو چاہیں کہہ سکیں یہاں تک کہ جھوٹی قسم کھا کر انہوں نے شرک سے انکار کردیا، اس میں شاید اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت ایک ایسی خبیث عادت ہے جو چھوٹتی نہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ جو دنیا میں مسلمانوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھالیا کرتے تھے یہاں بھی باز نہ آئے اور پوری خلق خدا کے سامنے ان کی رسوائی ہوئی، اسی لئے قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے پر شدید وعید اور مذمت فرمائی گئی ہے، قرآن میں جا بجا کاذب پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کا ساتھی ہے، اور جھوٹ اور فجور دونوں جہنم میں جائیں گے (ابن حبان فی صحیحہ)- اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ وہ عمل کیا ہے جس سے آدمی دوزخ میں جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ عمل جھوٹ ہے (مسند احمد) اور شب معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کی دونوں باچھیں چیر دی جاتی ہیں۔ وہ پھر درست ہوجاتی ہیں، پھر چیر دی جاتی ہیں، اسی طرح یہ عمل اس کے ساتھ قیامت تک ہوتا رہے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین سے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جھوٹ بولنے والا ہے۔- اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی پورا مومن اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جھوٹ کو بالکل نہ چھوڑ دے یہاں تک کہ مزاح و مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔- نیز بیہقی وغیرہ میں بسند صحیح وارد ہے کہ مسلمان کی طبیعت میں اور بری خصلتیں تو ہو سکتی ہیں، مگر خیانت اور جھوٹ نہیں ہوسکتا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جھوٹ انسان کے رزق کو گھٹا دیتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُنْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝ ٢٤- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) الفری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا دیکھیے تو یا یہ کہ فرشتوں ان کی ڈھٹائی دیکھو تو سہی کس طرح ان لوگوں نے کھلم کھلا جھوٹ بول کر اپنے اوپر خود عذاب کو مسلط کرلیا۔- اور جن باطل چیزوں کی یہ پوجا کرتے تھے ان کے نفس خود ان سے متنفر ہوجائیں گے اور یا یہ کہ ان کے جھوٹ کا بالآخر خاتمہ ہوگیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (اُنْظُرْ کَیْفَ کَذَبُوْا عَلآی اَنْفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ۔ - ان کے یہ دعوے کہ فلاں دیوی بچائے گی اور فلاں دیوتا سفارش کرے گا ‘ سب نسیاً منسیاً ہوجائیں گے۔ عذاب کو دیکھ کر اس وقت ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani