25۔ 1 یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بےفائدہ ہے۔ 25۔ 2 علاوہ ازیں مجازاۃ علی کفرھم ان کے کفر کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر اور ان کے کان حق کو سننے سے عاجز ہیں۔ 25۔ 3 اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد و جحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بےسند کہانیاں کہتے ہیں۔
[٢٨] صفات کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ وہ باتیں اس لیے دھیان سے سنتے ہیں کہ دیکھیں وہ کون کونسی بات پر اعتراض کرسکتے ہیں اور کون سی بات کا مذاق اڑا سکتے ہیں ان کی نیت کبھی بخیر نہیں ہوسکتی کہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے آئیں۔ لہذا ہدایت کی باتوں کو وہ ایسے سنی ان سنی کردیتے ہیں جیسے ثقل سماعت کی وجہ سے وہ سن ہی نہیں سکے اور جب سنتے ہی نہیں تو اسے سمجھنے کی خاک کوشش کریں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی بات کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے مسببات یا ان اسباب سے نتائج پیدا کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے۔ اب لوگ اس کی دعوت کو قبول کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں یا کتنے قبول کرتے ہیں اور کتنے نہیں کرتے۔ یہ نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ لیکن اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسباب اختیار کرنے سے متوقع نتائج حاصل ہوجاتے ہیں ایسے نتائج کی نسبت بھی اللہ ہی کی طرف ہوگی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے نتائج کی نسبت اپنی طرف کر کے فرمایا کہ ( وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا 46) 17 ۔ الإسراء :46) ورنہ حقیقی مجرم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے جن سے اس قسم کے نتائج برآمد ہوئے۔- [٢٩] حق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور پرانا ہے لہذا محض پرانا ہونا غلط ہونے کی دلیل نہیں : انبیاء جتنے بھی دنیا میں آتے رہے سب دعوت حق ہی پیش کرتے رہے اور ان کے منکر اور ہٹ دھرم بھی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ یہ پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ دین کے معاملہ میں کوئی نئی بات وہی پیش کرسکتا ہے جسے حق سے دشمنی ہو اور وہ اپنے ذہن سے کوئی نئی بات گھڑ کر اسے حق کے نام سے پیش کر دے کسی نئے فرقہ کی بنیاد ڈال دے۔ اس طرح اسے اس دنیا میں تو شاید بعض لوگوں کی پیشوائی کا مقام حاصل ہوجائے لیکن حقیقتاً وہ خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا شخص ہوگا۔
وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُ اِلَيْكَ ۚ ۔۔ : یعنی کان لگا لگا کر سنتے ہیں، جب قیامت کے دن گزشتہ کافروں پر گزرنے والے کچھ احوال بیان فرمائے تو موجودہ کافروں کا بھی کچھ حال بیان فرمایا۔ ( رازی) فرمایا کہ مشرکین آپ کے پاس آکر بڑے غور سے قرآن سنتے ہیں، لیکن ضد اور عناد کی وجہ سے ہدایت حاصل کرنا ان کا مقصد ہی نہیں ہوتا، اس لیے انھیں سننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے حق کو پہچان کر نہ ماننے اور ان کی بدنیتی کی وجہ سے ہم نے انھیں یہ سزا دی ہے کہ ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دیے ہیں، جن کی وجہ سے وہ کان لگا کر سننے کے باوجود نہ سمجھتے ہیں، نہ سنتے ہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) اب قرآن جیسا عظیم معجزہ دیکھ کر وہ ایمان نہیں لائے تو یہ امید مت رکھیں کہ وہ کوئی بھی معجزہ دیکھ کر ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو برحق جاننے کے باوجود ان کی ضد اور عناد یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ آپ کے پاس آکر جب وہ آپ سے جھگڑتے ہیں اور ان انکار کرنے والوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح دلائل کا کوئی جواب نہیں سوجھتا تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی فرضی کہانیاں ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں اخلاق، حکمت اور شریعت کی باتیں ہیں اور اس میں جو قصے بیان کیے گئے ہیں، وہ سب سچے واقعات ہیں اور صرف عبرت و نصیحت کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّسْتَمِــعُ اِلَيْكَ ٠ۚ وَجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا ٠ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا ٠ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْكَ يُجَادِلُوْنَكَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ٢٥- اسْتِمَاعُ- والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي :- من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب - اسمانع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كن - الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] . والکِنَانُ :- الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ.- نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ- [ الواقعة 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة .- ( ک ن ن ) الکن - ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ - الکنان ۔- پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔- وقر - الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] والوَقْرُ :- الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً- [ نوح 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] قيل : هو من الوَقَارِ.- وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها .- ( و ق ر ) الوقر - ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔- سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطراوأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(٢٥) اور ان کفار مکہ میں سے بعض لوگ آپ کی طرف سے قرآن کریم کی تلاوت کو سننے کے لیے آپ کی طرف کان لگاتے ہیں جن میں سے ابوسفیان بن حرب، ولید بن صغیرہ، نضربن حارث، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف، ابی بن خلف اور حارث بن عامر ہیں، مگر ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے تاکہ آپ کے کلام کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کان بند کردیے ہیں تاکہ حق اور ہدایت کی بات کو نہ سمجھ سکیں اور ایک معنی یہ بھی بیان کیے ہیں کہ سیدھے راستے کو سمجھنے سے ان کے کان عاری ہوگئے ہیں۔
آیت ٢٥ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ ج) ۔- مکہ میں قریش کے سرداروں کے لیے جب عوام کو ایمان لانے سے روکنا مشکل ہوگیا تو انہوں نے بھی علماء یہود کی طرح ایک ترکیب نکالی۔ وہ بڑے اہتمام کے ساتھ آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھتے اور بڑے انہماک سے کان لگا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سنتے۔ وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم سب کچھ بڑی توجہ سے سن رہے ہیں ‘ تاکہ عام لوگ دیکھ کر یہ سمجھیں کہ واقعی ہمارے ذی فہم سردار یہ باتیں سننے ‘ سمجھنے اور ماننے میں سنجیدہ ہیں ‘ مگر پھر بعد میں عوام میں آکر ان باتوں کو ردّ کردیتے۔ عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ ان کی ایک چال تھی ‘ تاکہ عوام یہ سمجھیں کہ ہمارے یہ سردار سمجھدار اور ذہین ہیں ‘ یہ لوگ شوق سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں جاتے ہیں اور پورے انہماک سے ان کی باتیں سنتے ہیں ‘ پھر اگر یہ لوگ اس دعوت کو سننے اور سمجھنے کے بعد ردّ کرر ہے ہیں تو آخراس کی کوئی علمی اور عقلی وجوہات تو ہوں گی۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں ان کی اس سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ کی باتیں بظاہر بڑی توجہ سے کان لگا کر سنتے ہیں۔- (وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًاط وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا ط) ۔- اللہ نے ان کے دلوں اور دماغوں پر یہ پردے کیوں ڈال دیے ؟ یہ سب کچھ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جب نبی کے مخاطبین اس کی دعوت کے مقابلے میں حسد ‘ تکبر اور تعصب دکھاتے ہوئے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں تو ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ (آیت ٧) میں فرمایا گیا : (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌز) ۔ لہٰذا ان کا بظاہرتوجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو سننا ان کے لیے مفید نہیں ہوگا۔- (حَتّٰیٓ اِذَا جَآءُ وْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ ) - یہ جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سنا رہے ہیں یہ پرانی باتیں اور پرانے قصے ہیں ‘ جو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہودیوں اور نصرانیوں سے سن رکھے ہیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :17 یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قانون فطرت کے تحت جو کچھ دنیا میں واقع ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرماتا ہے ، کیونکہ دراصل اس قانون کا بنانے والا اللہ ہی ہے اور جو نتائج اس قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں وہ سب حقیقت میں اللہ کے اذن و ارادہ کے تحت ہی رونما ہوا کرتے ہیں ۔ ہٹ دھرم منکرین حق کا سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہ سننا اور داعی حق کی کسی بات کا ان کےدل میں نہ اترنا ان کی ہٹ دھرمی اور تعصب اور جمود کا فطری نتیجہ ہے ۔ قانون فطرت یہی ہے کہ جو شخص ضد پر اتر آتا ہے اور بے تعصبی کے ساتھ صداقت پسند انسان کا سا رویہ اختیار کرنے پر تیار نہیں ہوتا ، اس کے دل کے دروازے ہر اس صداقت کے لیے بند ہوجاتے ہیں جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو ۔ اس بات کو جب ہم بیان کریں گے تو یوں کہیں گے کہ فلاں شخص کے دل کے دروازے بند ہیں ۔ اور اسی بات کو جب اللہ بیان فرمائے گا تو یوں فرمائے گا کہ اس کے دل کے دروازے ہم نے بند کر دیے ہیں ۔ کیونکہ ہم صرف واقعہ بیان کرتے ہیں اور اللہ حقیقت واقعہ کا اظہار فرماتا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :18 نادان لوگوں کا عموماً یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص انہیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات کیا کہی ، یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں ۔ گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے ۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا ۔ خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر جو لوگ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے ہیں وہ سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امر حق کر پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبع علم سے فائدہ اٹھا کر کچھ پیش کرے گا وہ اسی پرانی بات کو دہرائے گا ۔ البتہ نئی بات صرف وہی لوگ نکال سکتے ہیں جو خدا کی روشنی سے محروم ہو کر ازلی و ابدی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے ذہن کی اپچ سے کچھ نظریات گھڑ کر انہیں حق کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ایسے نادرہ کار ہو سکتے ہیں کہ وہ بات کہیں جو ان سے پہلے کبھی دنیا میں کسی نے نہ کہی ہو ۔