26۔ 1 یعنی عام لوگوں کو آپ سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔ 26۔ 2 لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا بگڑے گا ؟ اس طرح کے کام کر کے وہ خود ہی بےشعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔
[٣٠] گویا وہ دہرے مجرم ہیں اور جو لوگ ان کی کوششوں کی وجہ سے راہ حق سے دور رہتے ہیں۔ ان کے گناہوں میں سے حصہ رسدی گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہے ہیں لہذا ایسے لوگوں کی ہلاکت کس قدر شدید ہوگی ؟ اور اس بات کی انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں کیسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں ؟
وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْــــَٔـوْنَ عَنْهُ ۚ: یعنی صرف قرآن پر طعن کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ قرآن سننے سے اور لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے سے بھی روکتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہیں۔ آج کل مسلمانوں میں سے بہت سے شرک و بدعت میں مبتلا مولوی بھی اہل توحید کی تقریریں سننے سے لوگوں کو منع کرتے ہیں اور خود بھی نہیں سنتے، بلکہ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ کہیں حق واضح ہوجانے کے بعد اسے قبول کر کے ہمارے چنگل سے نہ نکل جائیں۔ - وَاِنْ يُّهْلِكُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَهُمْ : یعنی ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، بلکہ اپنی ہی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہی نہیں کہ ایسا کرنے سے ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔
وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْــــَٔـوْنَ عَنْهُ عائمہ مفسرین ضحاک رحمة اللہ علیہ، قتادہ رحمة اللہ علیہ، محمد بن حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک یہ آیت عام کفار مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جو لوگوں کو قرآن سننے اور اس کا اتباع کرنے سے منع کرتے تھے۔ اور خود بھی اس سے دور دور رہتے تھے، اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے یہ بھی منقول ہے کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب اور دوسرے ان چچاؤں کے متعلق ہے جو لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء رسانی سے روکتے اور آپ کی حمایت کرتے تھے، مگر نہ قرآن پر ایمان لاتے نہ اس پر عمل کرتے، اس صورت میں يَنْهَوْنَ عَنْهُ کی ضمیر بجائے قرآن کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہوگی (مظہری بروایت ابن ابی حاتم عن سعید بن ابی ہلال)
وَہُمْ يَنْہَوْنَ عَنْہُ وَيَنْــــَٔـوْنَ عَنْہُ ٠ۚ وَاِنْ يُّہْلِكُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ٢٦- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- (ينهون)- ، فيه إعلال بالحذف، أصله ينهاون، جاءت الألف والواو ساکنتین، حذفت الألف لالتقاء الساکنين، وزنه يفعون .- (ينأون)- ، فيه إعلال جری مجری ينهون .- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
(٢٦۔ ٢٧) حارث بن عامر نے آپ سے دلائل نبوت کا مطابلہ کیا، اس پر فرمان الہی نازل ہوا کہ اگر یہ لوگ تمام دلائل کو بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور یہ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو قرآن کے نازل ہونے کے بارے میں پوچھتے ہیں اور جب انکو اس کی اطلاع کردی جاتی ہے تو خصوصا نضر بن حارث کہتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بیان کرتے ہیں یہ تو بس گزرے ہوئے لوگوں کے کچھ جھوٹے افسانے ہیں اور ابوجہل اور اس کے ساتھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رکتے اور دور رہتے ہیں اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ ابوطالب لوگوں کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے سے روکتے ہیں مگر خود آپ کی پیروی نہیں کرتے مگر یہ خود ہلاک ہورہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جن لوگوں کو آپ کی اطاعت سے روکتے ہیں، ان سب کا گناہ ان پر ہے، اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے ہوں گے تو دنیا میں واپسی اور آسمانی کتابوں اور رسول کی تکفیر نہ کرنے کی تمنا کریں گے اور ہر ایک طریقہ سے ایمان والوں کے ساتھ ہونے کی تمنا کریں گے۔- شان نزول : (آیت) ” وھم ینھون عنہ “۔ (الخ)- امام حاکم (رح) وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ مشرکین کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچانے سے روکتے تھے اور خود آپ کے دین کو قبول نہیں کرتے تھے اور ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن ابی ہلال سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچاؤں کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ تعداد میں دس تھے علانیہ طور پر تو وہ آپ کی مدد میں لوگوں پر بھاری تھے مگر خفیہ طور پر تمام لوگوں سے آپ پر زیادہ سخت تھے۔
آیت ٢٦ (وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْءَوْنَ عَنْہُ ج) ۔- یہاں آپس میں ملتے جلتے دو افعال استعمال ہوئے ہیں ‘ ایک کا مادہ ’ ن ہ ی ‘ ہے اور دوسرے کا ’ ن ء ی ‘ ہے۔ نَھٰی یَنْھٰی (روکنا) تو معروف فعل ہے اور نہی کا لفظ اردو میں بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا (یَنْہَوْنَ عَنْہُ ) کے معنی ہیں وہ روکتے ہیں اس سے۔ کس کو روکتے ہیں ؟ اپنے عوام کو۔ ان کی لیڈری اور سرداری عوام کے بل پر ہی تو ہے۔ عوام برگشتہ ہوجائیں گے تو ان کی لیڈری کہاں رہے گی۔ عوام کو اپنے قابو میں کرنا اور ان کی عقل اور سمجھ پر اپنا تسلط قائم رکھنا ایسے نام نہادلیڈروں کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک طرف تو وہ اپنے عوام کو راہ ہدایت اختیار کرنے سے روکتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود اس سے گریز اور پہلو تہی کرتے ہیں۔ نَاٰی یَنْاٰی نَأْیًا کا مفہوم ہے دور ہونا ‘ کنی کترانا جیسے سورة بنی اسرائیل (آیت ٨٣) میں فرمایا : (وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰبِجَانِبِہٖ ج) اور انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس پر انعام کرتے ہیں تو منہ پھیرلیتا اور پہلوتہی کرتا ہے۔ چناچہ (یَنْءَوْنَ عَنْہُ ط) کے معنی ہیں وہ اس سے گریز کرتے ہیں ‘ کنی کتراتے ہیں۔