Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

معجزات کے عدم اظہار کی حکمت کافر لوگ بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں یہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ مثلاً عرب کی کل زمین میں چشموں اور آبشاروں کا جاری ہو جانا وغیرہ ، فرماتا ہے کہ قدرت الٰہی سے تو کوئی چیز باہر نہیں لیکن اس وقت حکمت الہیہ کا تقاضا یہ نہیں ۔ اس میں ایک ظاہری حکمت تو یہ ہے کہ تمہارے چاہے ہوئے معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو اصول الہیہ کے مطابق تم سب کو اسی جگہ ہلاک کر دیا جائے گا جیسے تم سے اگلے لوگوں کے ساتھ ہوا ، ثمودیوں کی نظیر تمہارے سامنے موجود ہے ہم تو جو چاہیں نشان بھی دکھا سکتے ہیں اور جو چاہیں عذاب بھی کر سکتے ہیں ، چرنے چگنے والے جانور اڑنے والے پرند بھی تمہاری طرح قسم قسم کے ہیں مثلاً پرند ایک امت ، انسان ایک امت ، جنات ایک امت وغیرہ ، یا یہ کہ وہ بھی سب تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں ، سب پر اللہ کا علم محیط ہے ، سب اس کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں ، نہ کسی کا وہ رزق بھولے نہ کسی کی حاجت اٹکے نہ کسی کی حسن تدبیر سے وہ غافل خشکی تری کا ایک ایک جاندار اس کی حفاظت میں ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) 11 ۔ ہود:6 ) یعنی جتنے جاندار زمین پر چلتے پھرتے ہیں سب کی روزیاں اللہ کے ذمہ ہیں وہی ان کے جیتے جی کے ٹھکانے کو اور مرنے کے بعد سونپے جانے کے مقام کو بخوبی جانتا ہے اس کے پاس لوح محفوظ میں یہ سب کچھ درج بھی ہے ، ان کے نام ، ان کی گنتی ، ان کی حرکات و سکنات سب سے وہ واقف ہے اس کے وسیع علم سے کوئی چیز خارج اور باہر نہیں اور مقام پر ارشاد ہے آیت ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ٤اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْ ڮ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) 29 ۔ العنکبوت:60 ) بہت سے وہ جاندار ہیں جن کی روزی تیرے ذمہ نہیں انہیں اور تم سب کو اللہ ہی روزیاں دیتا ہے وہ باریک آواز کو سننے والا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ہے ، ابو یعلی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی دو سال کی خلافت کے زمانہ میں سے ایک سال ٹڈیاں دکھائی ہی نہیں دیں تو آپ کو بہت خیال ہوا اور سام عراق یمن وغیرہ کی طرف سوار دوڑائے کہ دریافت کر آئیں کہ ٹڈیاں اس سال کہیں نظر بھی پڑیں یا نہیں؟ یمن و الا قاصد جب واپس آیا تو آپ نے ساتھ مٹھی بھر ٹڈیاں بھی لیتا آیا اور حضرت فاروق اعظم کے سامنے ڈال دیں آپ نے انہیں دیکھ کر تین مرتبہ تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ۔ ان تمام امتوں میں سے سب سے پہلے ٹڈی ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بالکل اس طرح جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور موتی یکے بعد دیگرے جھڑنے لگ گئے ، پھر فرماتا ہے سب کا حشر اللہ کی طرف ہے یعنی سب کو مت ہے ، چوپایوں کی موت ہی ان کا حشر ہے ، ایک قول تو یہ ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ میدان محشر میں بروز قیامت یہ بھی اللہ جل شانہ کے سامنے جمع کئے جائیں گے جیسے فرمایا آیت ( وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ) 81 ۔ التکویر:5 ) مسند احمد میں ہے کہ دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ جواب ملا کہ میں کیا جانوں؟ فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور ان کے درمیان وہ فیصلہ بھی کرے گا ، ابن جریر کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اڑنے والے ہر ایک پرند کا علم بھی ہمارے سامنے بیان کیا گیا ہے ، مسند کی اور روایت میں ہے کہ بےسینگ بکری قیامت کے دن سینگ والی بکری سے اپنا بدلہ لے گی ۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ تمام مخلوق چوپائے بہائم پرند وغیرہ غرض تمام چیزیں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی ۔ پھر ان میں یہاں تک عدل ہو گا کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے جناب باری فرمائے گا تم مٹی ہو جاؤ ۔ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ۔ صور والی حدیث میں یہ مرفوعاً بھی مروی ہے ۔ پھر کافروں کی مال بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی کم علمی اور کج فہمی میں ان بہروں گونگوں کے مثل ہیں جو اندھیروں میں ہوں ۔ بتاؤ تو وہ کیسے راہ راست پر آ سکتے ہیں؟ نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں نہ کچھ دیکھ سکیں ۔ جیسے سورہ بقرہ کی ابتداء میں ہے کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو آگ سلگائے جب آس پاس کی چیزیں اس پر روشن ہو جائیں اس وقت آگ بجھ جائے اور وہ اندھیریوں میں رہ جائے اور کچھ نہ دیکھ سکے ۔ ایسے لوگ بہرے گونگے اندھے ہیں وہ راہ راست کی طرف لوٹ نہیں سکتے اور آیت میں ہے آیت ( اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ ) 24 ۔ النور:40 ) یعنی مثل ان اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جس کی موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر سے ابر چھایا ہو اندھیروں پر اندھیریاں ہوں کہ ہاتھ بھی نظر نہ آ سکے ۔ جسے قدرت نے نور نہیں بخشا وہ بےنور ہے ۔ پھر فرمایا ساری مخلوق میں اللہ ہی کا تصرف ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر کر دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کر دے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کردیا جائے، جس طرح بنی اسرئیل پر کیا گیا۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ تو یقینا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے امتحان کا مسئلہ ختم ہوجاتا۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فورا انھیں اسی دنیا ہی میں سخت سزا دے دی جاتی یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔ 37۔ 2 جو اللہ کے حکم و مشیت کی حکمت کا ادراک نہیں کرسکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] یعنی ایسے حسی معجزہ کا مطالبہ کرنا جس سے انسان کو کامل یقین حاصل ہوجائے نادانی کی بات ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بات اللہ کے دستور ابتلاء کے منافی ہے اور ایسے جبری اور اضطراری ایمان کا کچھ فائدہ بھی نہیں۔ جیسے موت کے وقت جب انسان غیب کے پردے اٹھنے کے بعد سب کچھ دیکھ لیتا ہے تو پھر اس وقت اس کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ ۔۔ : منکرین نبوت یہ شبہ بھی پیش کرتے تھے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہیں تو اپنے ساتھ نظر آنے والا ایسا معجزہ کیوں نہیں لاتے جسے دیکھ کر ہر شخص کو معلوم ہوجائے کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا رسول ہے۔ - اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ اللہ ایسا کرنے پر قادر ہے، مگر اس کی حکمت اور مصلحت یہ ہے کہ اگر صاف کھلی نشانی آجائے، جیسے اونٹنی جو صالح (علیہ السلام) کے عہد میں بھیجی گئی تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ان کی مدت مہلت ختم ہوجائے گی اور فوراً عذاب آجائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا ہے کہ ان کو ہلاک نہ کیا جائے، مگر ان کے اکثر اس بات کو نہیں جانتے۔ (رازی) دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٥٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ ٠ۭ قُلْ اِنَّ اللہَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يُّنَزِّلَ اٰيَۃً وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٣٧- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قادر - الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه .- ( ق د ر ) القدرۃ - ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) حارث بن عامر اور اس کے ساتھی اور ابوجہل ولید بن صغیرہ، امیہ بن خلف، ابی بن خلف، نضر بن حارث کہتے ہیں کہ آپ کے پروردگار کی طرف آپ کی نبوت کے لیے کوئی معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا، آپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجیے کہ تمہارے مطالبہ کے مطابق ایسا ہی ہوجاتا مگر اکثر ان میں سے اس کے نزول کے انجام سے بیخبر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ط) - ان کے پاس دلیل بس یہی ایک رہ گئی تھی کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہیں تو ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتار دی جاتی ؟ اسی ایک حجت پر انہوں نے ڈیرہ لگا لیا تھا۔ باقی ساری دلیلوں میں وہ مات کھا رہے تھے۔ دراصل انہیں بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ ان حالات میں کوئی حسی معجزہ دکھانا اللہ تعالیٰ کی مشیت میں نہیں ہے۔ اس صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت کی تنگی (ضیق) کا اندازہ اس سے لگائیں کہ قرآن میں بار بار اس کا ذکر آتا ہے۔ سورة الحجر میں اسی کیفیت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : (وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَ نَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ) ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ بھنچتا ہے ان باتوں سے جو یہ کہہ رہے ہیں۔۔- (قُلْ اِنَّ اللّٰہَ قَادِرٌ عَلآی اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَۃً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) ۔- یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کا معجزہ دکھانے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس طرح ان کی مہلت ختم ہوجائے گی۔ یہ ہماری رحمت ہے کہ ابھی ہم یہ معجزہ نہیں دکھا رہے۔ یہ بد بخت لوگ جس موقف پر مورچہ لگا کر بیٹھ گئے ہیں اس کی حساسیت کا انہیں علم ہی نہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ معجزہ نہ دکھانا ان کے لیے ہماری رحمت کا ظہور ہے اور ہم ابھی انہیں مزید مہلت دینا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ دودھ ابھی اور بلویا جائے ‘ شاید اس میں سے کچھ اور مکھن نکل آئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :25 سننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں ، جنہوں نے اپنی عقل و فکر کو معطل نہیں کر دیا ہے ، اور جنھوں نے اپنے دل کے دروازوں پر تعصب اور جمود کے قفل نہیں چڑھا دیے ہیں ۔ ان کے مقابلہ میں مردہ وہ لوگ ہیں جو لکیر کے فقیر بنے اندھوں کی طرح چلے جا رہے ہیں اور اس لکیر سے ہٹ کر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، خواہ وہ صریح حق ہی کیوں نہ ہو ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :26 نشانی سے مراد محسوس معجزہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ معجزہ نہ دکھائے جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو دکھانے سے عاجز ہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے جسے یہ لوگ محض اپنی نادانی سے نہیں سمجھتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: اس آیت میں فرمائشی معجزات نہ دکھانے کی ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ پچھلی قوموں کو جب کبھی ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھایا گیا ہے تو یہ ساتھ ہی تنبیہ بھی کردی گئی ہے کہ اگر اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو انہیں اس دُنیا ہی میں ہلاک کردیا جائے گا، چنانچہ کئی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کفار مکہ میں اکثر لوگ ہٹ دھرم ہیں اور وہ فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے، اس لئے اﷲ تعالیٰ کی سنت کے مطابق وہ ہلاک ہوں گے۔ اور اﷲ تعالیٰ کو ابھی یہ منظور نہیں ہے کہ انہیں عذابِ عام کے ذریعے ہلاک کیا جائے۔ لہٰذا جو لوگ فرمائشی معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں وہ اس کے انجام سے ناواقف ہیں۔ ہاں جن لوگوں کو ایمان لانا ہے وہ مطلوبہ معجزات کے بغیر دوسرے دلائل اور معجزات دیکھ کر خود ایمان لے آئیں گے۔