38۔ 1 یعنی انھیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انھیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت و علم کے تحت داخل ہیں۔ 38۔ 2 کتاب دفتر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭ ( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ ) 016:089 (ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے) ۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔ 38۔ 3 یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال (ثبوت) کیا ہے، جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا حساب کتاب بھی ہوگا، جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی نے فرمایا، کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (صحیح مسلم) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے یعنی سب کو موت آئے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں اور حدیث مذکور جس میں بکری سے بدلہ لیے جانے کا ذکر ہے بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب و کتاب کی اہمیت و عظمت کو واضح کرنا ہے یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کر کے ظالم سے مظلوم کو بدلہ دلا دیا جائے گا پھر دونوں معدوم کر دئیے جائیں گے۔ ( فتح القدیر) وغیرو اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
[٤٣] یعنی سب جانداروں کو خواہ وہ حشرات الارض ہوں یا پرندے ہوں یا چرندے ہوں، اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے جیسے تمہیں ہوتی ہے اور یہ سب انواع اللہ کے قوانین کی پابند ہیں اور اپنی فطری حدود سے سر مو تجاوز نہیں کرتیں اور نہ کرسکتی ہیں۔ ان سب جانداروں کو وحی کے ذریعہ وہ علوم سکھائے جاتے ہیں جو ان کی نوع کے لیے اور نوع کی بقا کے لیے کارآمد اور ضروری ہیں اور ان چیزوں سے منع کیا جاتا ہے جو ان کے لیے مضر ہیں۔ مثلاً گائے، بھینس اور بھیڑ بکری وغیرہ پر حرام ہے کہ وہ گوشت کھائیں اور اگر وہ اس جرم کا ارتکاب کریں گے تو اس کا انہیں ضرور نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح شیر پر گھاس کھانا حرام اور گوشت کھانا فرض ہے۔ اس کا الٹ کرے گا تو سخت نقصان اٹھائے گا اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ شہد کی مکھیوں کو بذریعہ وحی سکھا دیا کہ وہ اس قسم کا گھر تیار کریں۔ پھر پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر شہد بنائیں اور بہرحال اپنی سردار مکھی یعسوب کی اطاعت کریں۔ الغرض ہر نوع کی طرف وحی کی جاتی ہے اور اس کی شریعت جداگانہ ہے۔ اب انسان کو جو قوت ارادہ و اختیار دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ابتلاء و آزمائش بھی انسان ہی کے لیے ہے۔ انسان کی بہتری اور نجات اسی صورت میں ہے کہ وہ کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کیے بغیر اپنے عقل و ارادہ سے کام لے کر دوسری انواع کی طرح اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنا لے۔- [٤٤] جانوروں کا حشر :۔ اس آیت سے نیز ایک دوسری آیت ( وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ۽) 81 ۔ التکوير :5) سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا بھی قیامت کے دن حشر ہوگا ان سے کفر و شرک اور ایمان و اعمال کا محاسبہ تو نہیں ہوگا مگر جو ظلم کسی جانور نے دوسرے پر زیادتی سے کیا ہوگا اس کا بدلہ ضرور دلایا جائے گا کیونکہ اتنی عقل انہیں بھی بخشی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :- سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حق ادا کروائے جائیں گے حتیٰ کہ سینگ والی بکری سے بےسینگ والی بکری کا بدلہ دلوایا جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب تحریم الظلم)
وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : یعنی زمین پر چلنے والا کوئی جانور ( دیکھیے سورة نور : ٤٥) اور کوئی دو پروں سے اڑنے والا پرندہ نہیں، مگر سب تمہاری طرح امتیں ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ طائر کا معنی ہی پرندہ ( اڑنے والا) ہے، پھر ان الفاظ کی کیا ضرورت تھی کہ جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے ؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات تیز دوڑنے والے کو بھی پرندہ کہہ دیا جاتا ہے، جیسے کہہ دیا جائے کہ گھوڑا اڑتا جا رہا تھا۔ ” دو پروں “ کے لفظ نے یہ احتمال ختم کردیا اور بتادیا کہ یہاں مراد حقیقی پرندہ ہے، جو پروں سے اڑتا ہے، صرف تیز رفتار مراد نہیں۔ - اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ : یعنی زمین پر چلنے والے اور اڑنے والے تمام جانور تمہاری طرح کی امتیں ہیں، تمہاری طرح پیدا ہوتی ہیں، جوانی کو پہنچتی ہیں، پھر مرجاتی ہیں، تمہاری طرح ان کا پیدا کرنا، ان کی روزی کا سامان اور ہر ضرورت پوری کرنا اور ان کی مصلحتوں کا اہتمام کرنا سب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ (دیکھیے سورة ہود : ٦) جس طرح اللہ تعالیٰ ان کی مصلحتوں کی رعایت کرتا ہے اسی طرح تمہاری تمام مصلحتوں کا بھی خیال رکھتا ہے، ان لوگوں کے مطالبے کے مطابق نشانیاں اور معجزے نازل کرنا خود ان کی مصلحت کے خلاف ہے۔ - مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ : ” الْكِتٰبِ “ سے مراد لوح محفوظ ہے، جو مخلوقات کے تمام احوال پر حاوی ہے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کے بیان کی اس میں کمی رہ گئی ہو۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قلم خشک ہوچکا ہے اس پر جو تم کرنے والے ہو۔ “ [ بخاری، القدر، باب جف القلم علی علم اللہ۔۔ قبل ح : ٦٥٩٦ ] ” الْكِتٰبِ “ سے مراد یہاں قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے۔ رازی نے فرمایا ( یہی معنی زیادہ ظاہر ہے) اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دین کے متعلق تمام اصول (بنیادی امور) بیان کردیے اور جن جزئیات کا ذکر نہیں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے بیان فرما دی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ) [ النحل : ٨٩ ] ” ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ وہ ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ “ اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ پیغمبر جس چیز کا حکم دیں اسے بجا لاؤ اور جس چیز سے منع کردیں اس سے رک جاؤ، فرمایا : ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ ) [ الحشر : ٧ ] خلاصہ یہ کہ حدیث نبوی بھی کتاب الٰہی ہے اور دین کی کوئی ایسی بات نہیں جو ” الکتاب ‘ ( قرآن و حدیث) میں بیان نہ کردی گئی ہو۔ - ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ : کفار کو متنبہ کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کے کسی جانور یا پرندے کے حالات سے ناواقف نہیں ہے اور اس کا نامۂ اعمال محفوظ ہے اور اس کا بدلہ بھی اسے ملے گا تو تم اپنے بارے میں یہ کیوں سمجھ رہے ہو کہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (رازی)- اس آیت : (ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ ) اور ایک دوسری آیت : (وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَت) [ التکویر : ٥ ] ( اور جب جنگلی جانور اکٹھے کیے جائیں گے) سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا بھی قیامت کے دن حشر ہوگا۔ ان سے کفر و شرک اور ایمان و اعمال کا محاسبہ تو نہیں ہوگا، مگر جو ظلم کسی جانور نے دوسرے پر کیا ہوگا اس کا بدلہ ضرور دلوایا جائے گا، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ضرور بالضرور حق داروں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے، حتیٰ کہ بےسینگ بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٨٢ ] بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ بات بطور تمثیل بیان کی گئی ہے، کیونکہ جانور تو مکلف ہی نہیں ہیں، مگر حدیث میں ” بدلے “ کے صریح الفاظ اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔
اور چھٹی آیت وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز انسانوں کے ساتھ تمام جانور بھی زندہ کئے جاویں گے، اور ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز تمام جانور، بہائم اور پرندے بھی دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ کا انصاف اس حد تک ہے کہ اگر کسی سینگ والے جانور نے بےسینگ کے جانور کو دنیا میں مارا تھا تو آج اس کا انتقام اس سے لیا جائے گا، ( اسی طرح دوسرے جانوروں کے باہمی مظالم کا انتقام لیا جائے گا) اور جب ان کے آپس کے حقوق و مظالم کے بدلے اور انتقام ہو چکیں گے تو ان کو حکم ہوگا کہ سب مٹی ہوجاؤ، اور تمام جانور اسی وقت پھر مٹی کا ڈھیر ہو کر رہ جائیں گے، یہی وہ وقت ہوگا جب کہ کافر کہے گا : یلیتنی کنت ترابا، یعنی کاش میرا بھی یہی معاملہ ہوجاتا کہ مجھے مٹی بنادیا جاتا، اور عذاب جہنم سے بچ جاتا۔- اور امام بغوی رحمة اللہ علیہ نے ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ (رض) ہی سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز سب اہل حقوق کے حق ادا کئے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ کی بکری کا انتقام سینگ والی بکری سے بھی لیا جاوے گا۔- حقوق خلق کی انتہائی اہمیت - یہ سب کو معلوم ہے کہ جانور کسی شریعت اور احکام کے مکلف نہیں، ان کے مکلف صرف انسان اور جن ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مکلف سے جزاء و سزاء کا معاملہ نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے علماء نے فرمایا ہے کہ محشر میں جانوروں کا انتقام ان کے مکلف ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ رب العالمین کے غایت عدل و انصاف کی وجہ سے ہے کہ ایک جاندار کسی جاندار پر کوئی ظلم کرے تو اس کا بدلہ دلوایا جائے گا باقی ان کے کسی اور عمل پر جزاء و سزاء نہ ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلق اللہ کے باہمی حقوق و مظالم کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ غیر مکلف جانوروں کو بھی اس سے آزاد نہیں کیا گیا، مگر افسوس ہے کہ بہت سے دیندار اور عبادت گزار آدمی بھی اس میں غفلت برتتے ہیں۔
وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ٠ۭ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ يُحْشَرُوْنَ ٣٨- دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - جنح - الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین :- ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ،- ( ج ن ح )- الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - ( فرط) تَّفْرِيطُ ، افراط - والْإِفْرَاطُ : أن يسرف في التّقدّم : تَّفْرِيطُ : أن يقصّر في الفَرَط، يقال : ما فَرَّطْتُ في كذا . أي : ما قصّرت . قال تعالی: ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ [ الأنعام 38] ، ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] الافراط کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کر جانے کے ہیں ۔ اور تفریط کے معنی فرط یعنی تقدم میں کوتاہی کرنے کے ہیں اور تفریط کے معنی فرط یعنی تقدم میں کوتاہی کرنے کے چناچہ محاورہ ہے : ۔ مافرطت فی کذا میں نے فلاں معاملہ میں کوتاہی نہیں کی ۔ قرآن میں ہے : ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ [ الأنعام 38] ہم نے کتاب ( یعنی لوح محفوظ میں ) کسی چیز ( کے لکھنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر ( افسوس ہے ) جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔
(٣٨) آسمان و زمین میں جتنے بھی انسان اور مخلوقات ہیں، وہ کھانے اور تقاضہ بشری کے پورا کرنے میں تم جیسے ہیں ،- ان میں سے بھی ایک ایک کی بات کو سمجھتا ہے، جیسا کہ تم میں سے ایک دوسرے کی بات کو سمجھتا ہے، مزید تم لوگوں کے لیے اب اور کیا دلیل ومعجزہ ہوگا، لوح محفوظ میں جو بھی ہم نے لکھا ہے، ان میں سے ہر ایک چیز کا قرآن کریم میں (اشارتا) ذکر کردیا ہے، اور پھر یہ پرندے اور تمام جانور تمام مخلوقات کے ساتھ قیامت کے دن اپنے پروردگار کے سامنے جمع کیے جائیں گے۔
آیت ٣٨ (وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلا طآءِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ ط) - ان تمام جانوروں ‘ پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کے رہنے سہنے کے بھی اپنے اپنے طور طریقے اور نظام ہیں ‘ ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں آج کی سائنسی تحقیق سے ثابت شدہ ہیں۔ چیونٹیوں کی ایک ملکہ ہوتی ہے ‘ جس کے ماتحت وہ رہتی اور کام وغیرہ کرتی ہیں۔ اسی طرح شہد کی مکھیوں کی بھی ملکہ ہوتی ہے۔- (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ ) ۔- قرآن میں ہم نے ہر طرح کے دلائل دے دیے ہیں ‘ ہر طرح کے شواہد پیش کردیے ہیں ‘ ہر طرح سے استشہاد کردیا ہے۔ ان سب کو آخر کار اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں پر ہر ایک کو اپنے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا۔
اس آیت نے یہ بتایا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ؛ بلکہ تمام جانوروں کو بھی قیامت کے بعد حشر کے دن زندہ کرکے اٹھایا جائے گا، تم جیسی ہے اصناف ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہیں دوسری زندگی دی جائے گی اسی طرح ان کو بھی دوسری زندگی ملے گی، ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ جانوروں نے دنیا میں ایک دوسرے پر جو ظلم کئے ہوں گے میدان حشر میں مظلوم جانور کو حق دیا جائے گا کہ وہ ظالم سے بدلہ لے، اس کے بعد چونکہ وہ حقوق اللہ کے مکلف نہیں ہیں اس لئے ان پر دوبارہ موت طاری کردی جائے گی، یہاں اس حقیقت کو بیان فرمانے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ کفار عرب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ سارے کے سارے انسان جو مر کر مٹی ہوچکے ہوں گے، ان کو دوبارہ کیسے جمع کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ صرف انسانوں ہی کو نہیں جانوروں کو بھی زندہ کیا جائے گا ؛ حالانکہ جانوروں کی تعداد انسانوں سے کہیں زیادہ ہے، رہا یہ معاملہ کہ دنیا کی ابتداء سے انتہا تک کے بے شمار انسانوں اور جانوروں کے گلے سڑے اجزاء کا کیسے پتہ لگایا جائے گا تو اس کا جواب اگلے جملے میں یہ دیا گیا ہے کہ لوح محفوظ میں ہر بات درج ہے اور یہ ایسا ریکارڈ ہے جس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے، لہذا نہ انسانوں کو جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل ہے نہ جانوروں کا۔