Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 آیت میں خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورة نساء آیت نمبر 140 میں بھی مضموں گزر چکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ یا عملا ان کا استخفاف کیا جارہا ہو یا اہل بدعت و اہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الہی کا باعث ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٥] یہ مضمون پہلے سورة نساء کی آیت نمبر ١٤٠ میں گزر چکا ہے۔ حاشیہ وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ ۔۔ : یعنی جب تم ایسے لوگوں کی مجلس دیکھو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کا مذاق اڑا رہے ہوں، یا عملاً ان کی بےقدری کر رہے ہوں، یا وہ اہل بدعت ہوں جو اپنی بےجا تاویلوں اور تحریفات سے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں، یا ان پر نکتہ چینی کر رہے ہوں اور الٹے سیدھے معنی پہنا کر ان کا مذاق اڑا رہے ہوں، تو اس مجلس سے اس وقت تک کنارہ کرو جب تک وہ دوسری باتوں میں مشغول نہ ہوجائیں اور اگر شیطان کے بھلانے سے اس مجلس میں بیٹھ ہی جاؤ تو یاد آنے کے بعد ان ظالموں کی مجلس میں بیٹھے نہ رہو۔ سورة نساء (١٤٠) میں یہ حکم پہلے بھی گزر چکا ہے، اس میں یہ بھی ہے : ( اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ) ” بیشک اس وقت تم بھی ان جیسے ہو گے۔ “ اہل بدعت کی صحبت اس صحبت سے بھی کئی درجے بدتر ہے جس میں گناہوں کا علانیہ ارتکاب ہو رہا ہو، خصوصاً اس شخص کے لیے جو علمی اور ذہنی طور پر پختہ نہ ہو اور بدعتیوں کی غلط تاویلوں کی غلطی سمجھنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔ ہاں، اہل علم ان کی غلط باتوں پر تنقید کے لیے اور کلمۂ حق بلند کرنے کے لیے ایسی مجلسوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (اے مخاطب) جب تک ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات (اور احکام) میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں (کے پاس بیٹھنے) سے کنارہ کش ہوجا، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جاویں اور اگر تجھ کو شیطان بھلا دے (یعنی ایسی مجلس میں بیٹھنے کی ممانعت یاد نہ رہے) تو (جب یاد آوے) یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالموں کے پاس مت بیٹھ (بلکہ فوراً اٹھ کھڑا ہو) اور (اگر کوئی واقعی دنیوی یا دینی ضرورت ایسی مجلس میں جانے کی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ) جو لوگ (ممنوعات شرعیہ سے جن میں بلا ضرورت ایسی مجلس میں جانا بھی داخل ہے) احتیاط رکھتے ہیں، ان پر ان (طاعنین و مکذبین) کی باز پرس (اور گناہ طعن) کا کوئی اثر نہ پہنچے گا (یعنی بضرورت وہاں جانے والے گنہگار نہ ہوں گے) لیکن ان کے ذمہ (بشرط قدرت) نصیحت کردینا ہے شاید وہ (طعنے دینے والے) بھی (ان خرافات سے) احتیاط کرنے لگیں (خواہ قبول اسلام کرکے خواہ ان کے لحاظ سے) اور (کچھ مجلس تکذیب کی تخصیص نہیں، بلکہ) ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہ جنہوں نے اپنے (اس) دین کو (جس کا ماننا ان کے ذمہ فرض تھا یعنی اسلام کو) لہو ولعب بنا رکھا ہے (کہ اس کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں) اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے (کہ اس کی لذات میں مشغول ہیں، اور آخرت کے منکر ہیں، اس لئے اس تمسخر کا انجام نظر نہیں آتا) اور (کنارہ کشی و ترک تعلقات کے ساتھ ایسے لوگوں کو) اس قرآن کے ذریعہ سے (جس سے یہ تمسخر کر رہے ہیں) نصیحت بھی کرتا رہ تاکہ کوئی شخص اپنے کردار (بد) کے سبب (عذاب میں) اس طرح نہ پھنس جاوے کہ کوئی غیر اللہ نہ اس کا مددگار ہو اور نہ سفارشی ہو اور یہ کیفیت ہو کہ اگر (بالفرض) دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے (کہ اس کو خرچ کر کے عذاب سے بچ جاوے) تب بھی اس سے نہ لیا جاوے (تو نصیحت سے یہ فائدہ ہے کہ اعمال بد کے انجام پر متنبہ ہوجاتا ہے، آگے ماننا نہ ماننا دوسرا جانے، چنانچہ) یہ (تمسخر کرنے والے) ایسے ہی ہیں کہ (نصیحت نہ مانی اور) اپنے کردار (بد) کے سبب (عذاب میں) پھنس گئے (جس کا آخرت میں اس طرح ظہور ہوگا کہ) ان کے لئے نہایت تیز (کھولتا ہوا پانی) پینے کے لئے ہوگا اور (اس کے علاوہ اور اس طرح بھی) دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب (کہ کردار بد یہی ہے، جس کا ایک شعبہ تمسخر تھا) آپ (سب مسلمانوں کی طرف سے ان مشرکین سے) کہہ دیجئے کہ کیا ہم اللہ کے سوا (تمہاری مرضی کے موافق) ایسی چیز (کی عبادت کریں کہ) نہ وہ (اس کی عبادت کرنے کی صورت میں) ہم کو نفع پہنچانے پر قادر ہو وے اور نہ وہ (اسکی عبادت نہ کرنے کی صورت میں) ہم کو نقصان پہنچانے پر قادر ہو وے (مراد اس سے آلہہ باطلہ ہیں کہ بعض کو تو اصلاً قدرت نہیں اور جن کو کچھ ہے بالذات نہیں اور معبود میں کم از کم اپنے موافق اور مخالف کو نفع و ضرر پہنچانے کی قدرت ہونی چاہئے تو کیا ہم ایسوں کی عبادت کریں) اور کیا (معاذ اللہ) ہم (اسلام سے) الٹے پھر جاویں، بعد اس کے کہ ہم کو خدا تعالیٰ نے (طریقِ حق کی) ہدایت کردی ہے (یعنی اول تو شرک خود ہی فبیح ہے، پھر خصوصاً بعد اختیار اسلام کے تو اور زیادہ شنیع ہے ورنہ ہماری تو وہ مثال ہوجاوے) جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطانوں نے کہیں جنگل میں (بہکا کر راہ سے) بےراہ کردیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو (اور) اس کے کچھ ساتھی بھی تھے کہ وہ اس کو ٹھیک راستہ کی طرف (پکار پکار کر) بلاتے رہے ہیں کہ (ادھر) ہمارے پاس آ (مگر وہ غایت حیرت سے نہ سمجھتا ہے نہ آتا ہے، ایسی ہی ہماری حالت ہوجاوے کہ راہ اسلام پر ہو کر اپنے ہادی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا ہوں، اور مضلین کے پنجہ میں گرفتار ہو کر گمراہ ہوجاویں اور وہ ہادی پھر بھی خیر خواہی سے دعوت اسلام کرتے رہیں اور ہم گمراہی کو نہ چھوڑیں، یعنی کیا ہم تمہارے مرضی پر عمل کرکے اپنی ایسی مثال بنالیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہہ دیجئے کہ (جب اس مثال سے معلوم ہوا کہ راہ سے بےراہ ہونا برا ہے اور یہ) یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ اللہ ہی کا (بتلایا ہوا) راہ ہے (اور وہ اسلام ہے، پس یقینا اس کا ترک کرنا بےراہ ہونا ہے، پھر ہم کب چھوڑ سکتے ہیں) اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ ہم شرک کیسے کرسکتے ہیں) ہم کو (تو) یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پورے مطیع ہوجاویں پروردگار عالم کے (جو منحصر ہے اسلام میں) اور یہ (حکم ہوا ہے) کہ نماز کی پابندی کرو ( جو کہ توحید پر ایمان کی ظاہر تر علامت ہے) اور (یہ حکم ہوا ہے کہ) اس سے (یعنی اللہ سے) ڈرو (یعنی مخالفت نہ کرو، جس میں سب سے بڑھ کر شرک ہے) اور وہی (اللہ) ہے جس کے پاس تم سب (قیامت کے دن قبروں سے نکل کر حساب کے لئے) جمع کئے جاؤ گے (وہاں مشرکین کو اپنے شرک کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا) اور وہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو بافائدہ پیدا کیا (جس میں بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے خالق کے وجود اور توحید پر استدلال کیا جائے پس یہ بھی توحید کی ایک دلیل ہے) اور (اوپر جو تحشرون میں حشر یعنی قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کی خبر دی ہے اس کو بھی کچھ مستبعد مت سمجھو کیونکہ وہ قدرت الٓہیہ کے سامنے اس قدر آسان ہے کہ) جس وقت اللہ تعالیٰ اتنا کہہ دے گا کہ (حشر) تو ہوجا بس وہ (حشر فوراً ) ہو پڑے گا اس کا (یہ) کہنا با اثر ہے (خالی نہیں جاتا) اور (حشر کے روز) جب کہ صور میں (بحکم الٓہی دوسری بار فرشتہ کی) پھونک ماری جائے گی، ساری حکومت (حقیقتاً بھی ظاہراً بھی) خاص اسی (اللہ) کی ہوگی (اور وہ اپنی حکومت سے موحدّین و مشرکین کا فیصلہ کرے گا) وہ (اللہ) جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا (پس مشرکین کے اعمال و احوال کا بھی اس کو علم ہے) اور وہی حکمت والا (اس لئے مناسب مناسب جزاء ہر ایک کو دے گا اور وہی ہے) پوری خبر رکھنے والا (اس لئے کسی امر کا اخفاء اس سے ممکن نہیں) ۔- معارف و مسائل - اہل باطل کی مجلسوں سے پرہیز کا حکم - آیات مذکورہ میں مسلمانوں کو ایک اہم اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ جس کام کا خود کرنا گناہ ہے اس کے کرنے والوں کی مجلس میں شریک رہنا بھی گناہ ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ :- پہلی آیت میں لفظ یخوضون، خوض سے بنا ہے، جس کے اصلی معنی پانی میں اترنے اور اس میں گزرنے کے ہیں، اور لغو و فضول کاموں میں داخل ہونے کو بھی خوض کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ، (آیت) وکنا نحوض مع الخائضین اور فی خوضھم یلعبون، وغیر آیات اس کی شاہد ہیں۔- اسی لئے خوض فی الایات کا ترجمہ اس جگہ عیب جوئی یا جھگڑے کا کیا گیا ہے، یعنی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو دیکھیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں محض لہو و لعب اور استہزاء و تمسخر کے لئے دخل دیتے ہیں اور عیب جوئی کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اپنا رخ پھیر لیں۔- اس آیت کا خطاب عام ہر مخاطب کو ہے، جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی داخل ہیں، اور امت کے افراد بھی، اور درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب بھی عام مسلمانوں کو سنانے کے لئے ہے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بچپن میں بھی کبھی ایسی مجالس میں شریک نہیں ہوئے، اس لئے کسی ممانعت کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضرورت نہ تھی۔- پھر اہل باطل کی مجلس سے رخ پھیرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ اس مجلس سے اٹھ جائیں، دوسرے یہ کہ وہاں رہتے ہوئے کسی دوسرے شغل میں لگ جائیں، ان کی طرف التفات نہ کریں، لیکن آخر آیت میں بتلا دیا گیا کہ مراد پہلی ہی صورت ہے، کہ ان کی مجلس میں بیٹھے نہ رہیں، وہاں سے اٹھ جائیں۔- آخر آیت میں فرمایا کہ اگر تم کو شیطان بھلا دے، یعنی بھول کر ان مجلس میں شریک ہوگئے خواہ اس طرح کہ ایسی مجلس میں شریک ہونے کی ممانعت یاد نہ رہی، یا اس طرح کہ یہ یاد نہ رہا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف تذکرے اپنی مجلس میں کیا کرتے ہیں، تو اس صورت میں جس وقت بھی یاد آجائے اسی وقت اس مجلس سے اٹھ جانا چاہئے، یاد آجانے کے بعد وہاں بیٹھا رہنا گناہ ہے، دوسری ایک آیت میں بھی یہی مضمون ارشاد ہوا ہے، اور اس کے آخر میں یہ فرمایا ہے کہ اگر تم وہاں بیٹھے رہے تو تم بھی انہی جیسے ہو۔ - امام رازی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ اس آیت کا اصل منشاء گناہ کی مجلس اور مجلس والوں سے اعراض اور کنارہ کشی ہے، جس کی بہتر صورت تو یہی ہے کہ وہاں سے اٹھ جائے لیکن اگر وہاں سے اٹھنے میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا خطرہ ہو تو عوام کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ کنارہ کشی کی کوئی دوسری صورت اختیار کرلیں، مثلاً کسی دوسرے شغل میں لگ جائیں، اور ان لوگوں کی طرف التفات نہ کریں، مگر خواص جن کی دین میں اقتداء کی جاتی ہے ان کے لئے وہاں سے بہر حال اٹھ جانا ہی مناسب ہے۔- اس کے بعد فرمایا وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ ، یعنی اگر تجھ کو شیطان بھلا دے، اس کا خطاب اگر عام مسلمانوں کو ہے تو بات صاف ہے کہ بھول اور نسیان ہر انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، اور اگر خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ کے رسول و نبی پر بھی بھول اور نسیان کا اثر ہوجایا کرے تو ان کی تعلیمات پر کیسے اعتماد و اطمینان رہ سکتا ہے ؟- جواب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو بھی کسی خاص حکمت و مصلحت کے تحت بھول تو ہو سکتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً ان کو تنبیہ بذریعہ وحی ہوجاتی ہے جس سے وہ بھول پر قائم نہیں رہتے، اس لئے بالآخر ان کی تعلیمات بھول اور نسیان کے شبہ سے پاک ہوجاتی ہیں۔- بہرحال آیت کے اس جملہ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص سہو و نسیان سے کسی غلطی میں مبتلا ہوجائے تو وہ معاف ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک حدیث میں ارشاد ہے :- رفع عن امتی الخطاء والنسیان وما استکرھوا علیہ - ” یعنی میری امت سے خطاء اور بھول کا اور اس کام کا گناہ معاف کردیا گیا ہے جو کسی نے زبردستی اس سے کرا دیا ہو “۔- امام جصاص رحمة اللہ علیہ نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ” اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ہر ایسی مجلس سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا شریعت اسلام کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، اور اس کو بند کرنا یا کرانا یا کم از کم حق بات کا اظہار کرنا اس کے قبضہ و اختیار میں نہ ہو، ہاں اگر ایسی مجلس میں بہ نیت اصلاح شریک ہو اور ان لوگوں کو حق بات کی تلقین کرے تو مضائقہ نہیں “۔ اور آخر آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ یاد آجانے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھو، اس سے امام جصاص رحمة اللہ علیہ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ایسے ظالم، بےدین اور دریدہ دہن لوگوں کی مجلس میں شرکت کرنا مطلقاً گناہ ہے، خواہ وہ اس وقت کسی ناجائز گفتگو میں مشغول ہوں یا نہ ہوں، کیونکہ ایسے لوگوں کو ایسی بیہودہ گفتگو شروع کرتے ہوئے دیر کیا لگتی ہے، وجہ استدلال کی یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ظالموں کے ساتھ بیٹھنے کو منع فرمایا گیا ہے، اس میں یہ شرط نہیں کہ وہ اس وقت بھی ظلم کرنے میں مشغول ہوں۔- قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بھی یہی مضمون واضح طور پر بیان ہوا ہے فرمایا ہے (آیت) ولا ترکنوا الی الذین، یعنی ظالم لوگوں کے ساتھ میل جول اور میلان نہ رکھو، ورنہ تمہیں بھی جہنم کی آگ سے پالا پڑے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖ۝ ٠ۭ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٦٨- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- خوض - الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ- [ التوبة 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ- [ الأنعام 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث :- تفاوضوا .- ( خ و ض ) الخوض - ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیم کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ظالموں کی ہم نشینی کی ممانعت - قول باری ہے ( واذا رایت الذین یخوضون فی ایاتنا فاعرض عنھم اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم دیکھوں کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جائو) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں سے دور ہٹ جانے کا حکم دیا۔ جو اللہ کی آیات یعنی قرآن پر تکذیب اور حقارت کا اظہار کر کے نکتہ چینیاں کرتے ہیں، تا کہ اس کے ذریعے ان کے روپے پر اپنی نفرت کا اظہار ہوجائے نیز ان کی اس روش کی عملی طور پر تردید بھی ہوجائے جس کے نتیجے میں وہ اس سے باز آ جائیں اور گفتگو کا موضوع بدل کر کوئی اور بات شروع کردیں۔ - یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب ملحدین اور کفار کی طرف سے کفر اور شرک نیز خدا کے بارے میں گستاخی کا اظہار ہو اور ہمارے لیے اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر ہاتھ اور زبان سے اس کی تردید ممکن نہ ہو اور ہم کسی طرح اس کا سدباب نہ کرسکیں تو ایسی صورت میں ان لوگوں کی ہم نشینی ترک کرنا فرض ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن باتوں پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے ان پر عمل پیرا ہونا ہم پر بھی فرض ہے الا یہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو کسی حکم کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ تخصیص ثابت کر دے، اس صورت میں اس حکم پر عمل کرنا ہم پر فرض نہیں ہوگا۔ قول باری ہے ( واما ینسینک الشیطان اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھلاوے میں ڈال دے) مراد یہ ہے کہ اگر شیطان کبھی تمہیں کسی اور مشغولیت کی بنا پر بھلاوے میں ڈال دے اور تم نسیان کی اس حالت میں ان کے پاس بیٹھے رہو اور وہ دردیہ دہنی کرتے رہیں لیکن تمہیں ان کی خالست کی ممانعت یا د نہ آئے تو اس صورت میں تم پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔ پھر ارشاد ہوا ( فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین ۔ جس وقت یاد آ جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو) یعنی جب تمہیں اللہ کی نہی یاد آ جائے تو اس کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔- اس میں تمام ظالم لوگوں کے پاس بیٹھنے کی ممانعت کے حکم میں عموم ہے خواہ ان کا تعلق اہل شرک و کفر سے ہو یا کسی اور مذہب کے پیروکاروں سے ہو، اس لیے کہ ظالم کا اسم ان تمام قسم کے لوگوں پر واقع ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص میں اپنی جان خطرے میں پڑجانے کے خوف سے ظالموں کی اس دریدہ دہنی کو ہاتھ یا زبان سے روک دینے کی استطاعت نہ ہو اور دوسری طرف ان کی اس قبیح حرکت کے خلاف حجت قائم ہوچکی ہو تو اب کسی شخص کے لیے یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ اس پر انہیں ٹوکے اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیے بغری ان کی مجالست اختیار کرے خواہ وہ اس وقت اپنے اس ظالمانہ اور گستاخانہ رویے کا اظہار کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں۔ اس لیے کہ ایسے لوگوں کی مجالست کے سلسلے میں وارد نہی کے اندر عموم ہے۔ اگر کوئی شخص نفرت یا ناپسندیدگی کا اظہار کیے بغیر ان کی مجالست اختیار کرلیتا ہے تو وہ گویا ان کی اس غلط کاری پر اپنی رضا مندی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔- اس کی نظیر یہ قول باری ہے ( لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل) تا آخر آیت۔ اس آیت کی تفیسر میں مروی اقوال کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے۔ نیز یہ قول باری ہے ( ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار۔ اور ظالموں کی طرف اپنے جھکائو کا اظہار نہ کرو کہ اس کی وجہ سے کہیں تمہیں آگے نہ چھو جائے۔ قول باری ہے ( وذرالذین اتخذوا دینھم لعباولھوا وغرتھم الحیوۃ الدنیا و ذکر بہ ان تمسل نفس بما کسبت، چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہوجائے) قتادر (رض) کا قول ہے کہ یہ آیت اس قول باری ( اقتلوا المشرکین) کی بناء پر منسوخ ہوچکی ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ منسوخ نہیں ہوئی لیکن اس میں تہدید اور دھمکی کا پہلو موجود ہے جس طرح اس قول باری مییں یہی پہلو پایا جاتا ہے۔ ( زرنی ومن خلقت وحیسدا۔ مجھے اپنی مخلوقات کے ساتھ تنہا چھوڑ دو )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ ) - اردو میں غور وخوض کی ترکیب کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ غور اور خوض دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں اور معانی کے اعتبار سے دونوں کی آپس میں مشابہت ہے۔ ’ غور ‘ مثبت انداز میں کسی چیز کی تحقیق کرنے کے لیے بولا جاتا ہے جب کہ ’ خوض ‘ منفی طور پر کسی معاملے کی چھان بین کرنے اور خواہ مخواہ میں بال کی کھال اتارنے کے معنی دیتا ہے ۔- (حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ ط) یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں ۔- جب کسی محفل میں لوگ اللہ اور اس کی آیات کا تمسخر اڑا رہے ہوں تو ان سے کنارہ کشی کرلو ‘ اور جب وہ کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کرنے لگیں تو پھر تم ان کے پاس جاسکتے ہو۔- (وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ ) ۔- یعنی کسی محفل میں گفتگو شروع ہوئی اور کچھ دیر تک تمہیں احساس نہیں ہوا کہ یہ لوگ کس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں ‘ لیکن جونہی احساس ہوجائے کہ ان کی گفتگو اور انداز گفتگو قابل اعتراض ہے تو احتجاج کرتے ہوئے فوراً وہاں سے واک آؤٹ کر جاؤ۔ اب چونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے تمہارا ان کے پاس جانا ایک ضرورت ہے لہٰذا ایسی محفلوں کے بارے میں کسی بہترصورت حال کے منتظر رہو ‘ اور جب ان لوگوں کا رویہ مثبت ہو تو ان کے پاس دوبارہ جانے میں کوئی حرج نہیں۔ یعنی وہی قَا لُوْا سَلٰمًا والا انداز ہونا چاہیے کہ علیحدہ بھی ہوں تو لٹھ مار کر نہ ہوا جائے بلکہ چپکے سے ‘ متانت کے ساتھ کنارہ کرلیا جائے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :44 یعنی اگر کسی وقت ہماری یہ ہدایت تمہیں یاد نہ رہے اور تم بھولے سے ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے رہ جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani