69۔ 1 مِنْ حِسَابِھِمْ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزاد (جھٹلانے) کرنے والوں سے ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے کہ اللہ کا جو گناہ استہزاد کرنے والوں کو ملے گا وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔ 69۔ 2 یعنی اجتناب و علیحدگی کے باوجود وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدر ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔
[٧٦] کفار مکہ کی مجالس استہزاء میں بیٹھنے کی ممانعت اور استثنائی صورت :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جو لوگ مجلسوں میں بیٹھ کر اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے گناہوں کا بار انہی پر ہے اور جو لوگ ایسی مجلسوں میں شامل ہونے یا بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں ان پر نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص اس غرض سے ایسی مجلسوں میں جائے کہ انہیں جا کر سمجھائے اور نصیحت کرے تو یہ جائز بلکہ ضروری ہے۔ ممکن ہے وہ اس نصیحت سے متاثر ہو کر اپنی کرتوتوں سے باز آجائیں۔ تاہم یہ حکم صرف مجالس سے ہی مخصوص نہیں بلکہ عام ہے۔ ظالموں کے گناہوں کا بار انہیں پر ہے جو لوگ ان سے اجتناب کرتے ہیں اور ان سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے۔ ان پر نہیں بلکہ نھی عن المنکر کا فریضہ ہر شخص پر اور ہر ضرورت کے وقت واجب ہے اور اس سے بعض لوگوں کو فی الواقع ہدایت نصیب ہو ہی جاتی ہے۔
وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ ۔۔ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی اگر کوئی متقی شخص چاہے کہ ایسے جاہلوں کے پاس نصیحت کے لیے بھی نہ بیٹھے تو اس کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ نہ بیٹھے تو اس پر ان کے گمراہ رہنے کا کوئی گناہ نہیں، البتہ انھیں نصیحت کرے تو بہتر ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ڈر جائیں تو اسے نصیحت کرنے کا ثواب مل جائے۔ (موضح) اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ پرہیزگار لوگ اگر ان کی مجلس میں نصیحت کے لیے بیٹھ جائیں تو کچھ حرج نہیں ہے، لیکن ہم نے جو کنارہ کرنے کا حکم دیا ہے تو اس نصیحت کے پیش نظر کہ شاید تمہارے کنارہ کرنے کی وجہ سے وہ اس قسم کی بےہودگی سے باز آجائیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر)
جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ان کی مجلس میں جانے کی مطلقاً ممانعت رہی تو ہم مسجد حرام میں نماز اور طواف سے بھی محروم ہوجائیں گے، کیونکہ وہ لوگ تو ہمیشہ وہاں بیٹھے رہتے ہیں، (یہ واقعہ ہجرت اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے) اور ان کا مشغلہ ہی عیب جوئی اور بدگوئی ہے، اس پر دوسری آیت اس کے بعد والی نازلی ہوئی : وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ ، یعنی جو لوگ احتیاط رکھنے والے ہیں وہ اگر اپنے کام سے مسجد حرام میں جائیں تو ان شریر لوگوں کے اعمال بد کی ان پر کوئی ذمہ داری نہیں، ہاں اتنی بات ان کے ذمہ ہے کہ حق بات ان کو پہنچا دیں کہ شاید وہ اس سے نصیحت حاصل کر کے صحیح راستہ پر آجائیں۔
وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ ٦٩- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔
(٦٩) جو آپ کے ساتھ اور قرآن کریم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ان کی مجالس کو چھوڑ دیجیے تاکہ ان کا مذاق اور ان کی عیب جوئی قرآن کریم اور آپ کے علاوہ دوسری چیزوں میں ہو۔- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت مکہ مکرمہ میں تھے تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا تو آپ کے بعض اصحاب (رض) کو یہ چیز شاق گزری تو پھر اللہ تعالیٰ نے بغرض نصیحت ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دی چناچہ فرما دیا کہ جو لوگ کفر وشرک فواحش اور مذاق اڑانے سے بچتے ہیں، ان پر ان کے مذاق اڑانے اور ان کے گناہ اور کفر وشرک کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، لیکن ان کے ذمہ قرآن کریم کے ذریعے نصیحت کردینا ہے تاکہ ایسے لوگ کفر وشرک فواحش اور قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استہزاء سے بچیں۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :45 مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی نافرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے ، پھر وہ کیوں خواہ مخواہ اس بات کو اپنے اوپر فرض کرلیں کہ ان نافرمانوں سے بحث و مناظرہ کر کے ضرور انہیں قائل کر کے ہی چھوڑیں گے ، اور ان کے ہر لغو و مہمل اعتراض کا جواب ضرور ہی دیں گے ، اور اگر وہ نہ مانتے ہوں تو کسی نہ کسی طرح منوا کر ہی رہیں گے ۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے پیش کر دیں ۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اتر آئیں تو اہل حق کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دماغی کشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں ۔ ضلالت پسند لوگوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو ان لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنی چاہیے جو خود طالب حق ہوں ۔