73۔ 1 حق کے ساتھ یا بافائدہ پیدا کیا یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ کھیل کود کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔ 73۔ 1 یوم فعل محذوف واذکر یا واتقوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو کہ اس کے لفظ کُن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہوجائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے، لیکن کن کے لئے ؟ ایمانداروں کے لئے۔ دوسروں کو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔ 73۔ 2 صور سے مراد نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہی کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انھیں کہا جائے تو اس کے منہ میں پھونک مار دیں ابن کثیر ابو داؤد اور ترندی میں ہے۔ الصور قرن ینفخ فیہ (صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے نفخۃ الصعق جس سے تمام لوگ بےہوش ہوجائیں گے نفخۃ الفناء جس سے تمام لوگ فنا ہو جائیں گے نفخۃ الانشاء جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔
[٨٠] تخلیق کائنات کا مقصد :۔ یعنی اس لیے زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا کہ اس سے تعمیری نتائج پیدا ہوں۔ محض کھیل اور شغل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جیسے بچے مٹی سے کھیلتے ہوئے اس سے مختلف شکلیں بناتے ہیں پھر انہیں خود ہی ڈھا کر مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ - بلکہ زمین و آسمان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس خاص مقصد کا اگرچہ قرآن میں صریح الفاظ میں ذکر نہیں آیا تاہم بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کی خدمت پر مامور ہیں اور انسان ہی ساری کائنات میں اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کو ہی قوت تمیز اور ارادہ و اختیار دیا گیا ہے تاکہ اسے آزمایا جاسکے کہ آیا وہ اختیاری امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے یا نہیں ؟ گویا انسان کی تخلیق کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے پھر اس جہان کے بعد اسے فنا کر کے ایک دوسرا جہان پیدا کیا جائے گا اور جو کچھ اچھے یا برے اعمال انسان نے اس دنیا میں سر انجام دیئے ہوں گے اس دوسرے جہان میں ان کی جزا و سزا ملے گی اور یہ دنیا اور آخرت سارے کا سارا ایک مربوط نظام ہے۔
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، لیکن بےمقصد اور کھیل کے لیے نہیں بلکہ حق، یعنی خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے، وہ مقصد کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا : ( لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَل) [ الملک : ١ ] ” تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ “ اور انسان اور جن کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا : (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْن) [ الذاریات : ٥٦ ] ” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا، مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ “ دوسری آیت میں فرمایا : ( وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ ) [ الجاثیۃ : ١٣ ] ” اور اس نے تمہاری خاطر جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے مسخر کردیا۔ “ اور فرمایا : (ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۤ ) [ البقرۃ : ٢٩ ] ” وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ بھی ہے سب تمہارے لیے پیدا فرمایا۔ “ معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ انسان کے فائدے اور اس کی آزمائش کے لیے ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ - وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ : یعنی حشر کے دن جب وہ تمام مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ کے لفظ ” کن “ کہنے سے تمام مردے زندہ ہوجائیں گے۔ - وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ: یعنی دنیا میں مجازی طور پر جن کو بادشاہ کہا جاتا تھا ان کی مجازی بادشاہت بھی ختم ہوجائے گی، اللہ فرمائے گا : (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) [ المؤمن : ١٦ ] ” آج کس کی بادشاہی ہے، صرف اللہ کی جو ایک ہے، زبردست ہے۔ “ نیز دیکھیے سورة فاتحہ میں ” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “ کی تفسیر۔ ” الصُّوْرِ “ کیا چیز ہے ؟ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی آیا، اس نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول صور کیا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس سے مراد وہ سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ “ [ أحمد : ٢؍١٦٢، ح : ٦٥١٤۔ ترمذی، صفات المؤمنین، باب صفۃ القیامۃ۔۔ : ٢٤٣٠ ] اس لیے عام طور پر اس کا ترجمہ نرسنگا کیا جاتا ہے۔ - دوسری حدیث میں ہے : ” صور پھونکنے والا فرشتہ اس وقت سے تیار عرش کی طرف دیکھ رہا ہے جب سے اسے صور دیا گیا ہے اور وہ آنکھ بھی نہیں جھپک رہا کہ کہیں اسی اثنا میں اسے حکم نہ دے دیا جائے۔ “ [ مستدرک حاکم : ٤؍٥٥٨، ح : ٨٦٧٦۔ الصحیحۃ : ٢؍٦٥، ح : ١٠٧٨ ] پس صحیح یہی ہے کہ صور ایک قرن ( نرسنگا) ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ” الصُّوْرِ “ ” صُوْرَۃٌ“ کی جمع ہے اور اس سے مراد مخلوق کی صورتیں ہیں تو یہ قول قرآن و سنت کی رو سے مردود ہے۔ مزید دیکھیے سورة نمل (٨٧) پہلے ایک صور پھونکا جائے گا، ساری خلقت گھبرا جائے گی، پھر دوبارہ پھونکا جائے گا تو ساری خلقت فنا ہوجائے گی، پھر تیسری دفعہ پھونکا جائے گا تو ساری خلقت زندہ ہو کر ایک جگہ جمع ہوجائے گی۔ بعض نے لکھا ہے کہ نفخہ اصل میں دو بار ہوگا، پہلے کو نفخۂ فزع یا صعق کہا جاتا ہے، گویا پہلے گھبراہٹ پھر بےہوشی اور نتیجتاً فنا، یعنی دونوں ایک ہی ہیں اور دوسرے کو نفخۂ قیام۔ واللہ اعلم (ابن کثیر، قرطبی) - عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭ“ سے مراد بندوں کے اعتبار سے غیب (پوشیدہ) اور ” َالشَّهَادَةِ ۭ“ کا معنی حاضر ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں، سب حاضر ہی حاضر ہے۔ - وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ : یعنی جو رب یہ صفات رکھتا ہے وہی اس لائق ہے کہ تم اس کی فرماں برداری اختیار کرو، اس کے بندے بن کر رہو اور سمجھو کہ تمہیں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اچھے یا برے ہر عمل کا بدلہ پانا ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ٠ۭ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ٠ۥۭ قَوْلُہُ الْحَقُّ ٠ۭ وَلَہُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ٠ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ ٠ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ٧٣- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(٧٣) اور اسی نے زمین و آسمان کو حق و باطل کے ظاہر کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور جس دن وہ صور سے کہے گا کہ جو کہ سینگ کی طرح ہوگا، ہوجا تو تمام آسمان اس رب کے حکم سے ختم ہوجائیں گے اور دوسرا آسمان تبدیل ہوگا یا یہ کہ جس دن وہ قیامت قائم ہونے کا حکم دے گا تو قیامت قائم ہوجائے گی اور بعث بعد الموت حق ہے وہی بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور وہ ہر ایک ظاہر اور پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے اور وہ اپنے حکم اور فیصلہ میں بڑی حکمتوں والا ہے اور تمام مخلوق اور ان کے اعمال کی پوری خبر رکھنے والا ہے، یعنی تارح بن ناحور سے فرمایا کہ کیا تم مختلف قسم کے بتوں کی جو کہ چھوٹے بڑے نر اور مادہ ہیں عبادت کرتے ہو تم تو ان کی پوجا کی وجہ سے علانیہ کفر اور ظاہری گمراہی میں مبتلا ہو،
آیت ٧٣ (وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ ط) - یعنی یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے تحت پیدا کیے ہیں۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا گیا : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج) (آیت ١٩١) اے رب ہمارے ‘ تو نے یہ سب باطل (بےمقصد) پیدا نہیں کیا۔ گویا حق کا لفظ یہاں باطل کے مقابلے میں آیا ہے۔- (وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ ط) - جب وہ چاہے گا اس کائنات کی بساط کو لپیٹ دے گا۔ اسی نے اسے حق کے ساتھ بنایا ہے اور اسی کے حکم کے ساتھ یہ لپیٹ دی جائے گی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط) (الانبیاء : ١٠٤) جس دن ہم (ان تمام خلاؤں ‘ فضاؤں اور) آسمانوں کو ایسے لپیٹ دیں گے جیسے کتابوں کا طومارلپیٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سورة الزمر میں ارشاد ہوا : (وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌم بِیَمِیْنِہٖ ط) (آیت ٦٧) اور (اس روز) آسمان اللہ کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔- (قَوْلُہُ الْحَقُّ ط) ۔- اس کا فرمان شدنی ہے۔ اس کا کُنْ کہہ دینا برحق ہے۔ اسے تخلیق کے لیے کسی اور شے کی ضرورت نہیں ‘ مادہ ( ) یا توانائی ( ) کچھ بھی اسے درکار نہیں۔- (وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ ط) ۔- اگرچہ حقیقت میں تو اب بھی بادشاہی اسی کی ہے لیکن ابھی جھوٹے سچے کئی بادشاہ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے ہیں ‘ جو مختلف ڈراموں کے مختلف کردار ہیں۔ مگر یہ سب کے سب اس دن نسیاً منسیا ہوجائیں گے اور پوچھا جائے گا : (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط) اور پھر جواب میں خود ہی فرمایا جائے گا : (لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ۔ ) (المؤمن) - (عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ ) ۔- اس سورة مبارکہ میں اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور پھر ان کی نسل کے بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے۔ انبیاء کے ناموں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ تو سورة النساء کے آخر میں ہم دیکھ آئے ہیں ‘ وہاں ہم نے ١٣ انبیاء و رسل کے نام پڑھے تھے۔ اب یہاں اس سے ذرا بڑا گلدستہ سجایا گیا ہے ‘ جس میں ١٧ انبیاء و رسل کے نام شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر یہاں ذرا تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کی قوم کا کیا انجام ہوا ‘ اس کی تفصیل قرآن میں مذکور نہیں ہے۔ اسی لیے آپ ( علیہ السلام) کے معاملے کو یہاں اس سورة میں الگ کرلیا گیا ہے ‘ کیونکہ اس سورة میں صرف التّذکیر بآلاء اللّٰہ کی مثالیں ہیں ‘ جبکہ سورة الاعراف میں ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّام اللّٰہ کے تحت التذکیر بِاَیَّام اللّٰہ کا ظہور نظر آتا ہے۔ چناچہ حضرت نوح ‘ حضرت ھود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سورة الاعراف میں ہے۔ یہی وہ چھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کی قوموں پر عذاب آیا اور ان کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :46 قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے یا حق کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔ یہ ارشاد بہت وسیع معانی پر مشتمل ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی ہے ۔ یہ ایشورجی کی لِیلا نہیں ہے ۔ یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے وہ اس سے کھیلتا رہے اور پھر یونہی اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے ۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے ، ایک مقصد عظیم اس کے اندر کارفرما ہے ، اور اس کا ایک دور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اس پورے کام کا حساب لے جو اس دور میں انجام پایا ہو اور اسی دور کے نتائج پر دوسرے دور کی بنیاد رکھے ۔ یہی بات ہے جو دوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً ۔ ”اے ہمارے رب ، تو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا ہے“ ۔ اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ ۔ ” ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پیدا نہیں کیا ہے“ ۔ اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ۔ ” تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے“ ؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظام کائنات حق کی ٹھوس بنیادوں پر قائم کیا ہے ۔ عدل اور حکمت اور راستی کے قوانین پر اس کی ہر چیز مبنی ہے ۔ باطل کے لیے فی الحقیقت اس نظام میں جڑ پکڑنے اور بار آور ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ باطل پرستوں کو موقع دیدے کہ وہ اگر اپنے جھوٹ اور ظلم اور ناراستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اپنی کوشش کر دیکھیں ۔ لیکن آخر کار زمین باطل کے ہر بیج کو اگل کر پھینک دے گی اور آخری فرد حساب میں ہر باطل پرست دیکھ لے گا کہ جو کوششیں اس نے اس شجر خبیث کی کاشت اور آبیاری میں صرف کیں وہ سب ضائع ہو گئیں ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس ساری کائنات کو بربنائے حق پیدا کیا ہے اور اپنے ذاتی حق کی بنا پر ہی وہ اس پر فرماں روائی کر رہا ہے ۔ اس کا حکم یہاں اس لیے چلتا ہے کہ وہی اپنی پیدا کی ہوئی کائنات میں حکمرانی کا حق رکھتا ہے ۔ دوسروں کا حکم اگر بظاہر چلتا نظر بھی آتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ ، فی الحقیقت نہ ان کا حکم چلتا ہے ، نہ چل سکتا ہے ، کیونکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنا حکم چلائیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :47 صُور پھونکنے کی صحیح کیفیت کیا ہوگی ، اس کی تفصیل ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صُور پھونکا جائے گا اور سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ پھر نامعلوم کتنی مدت بعد ، جسے اللہ ہی جانتا ہے ، دوسرا صُور پھونکا جائے گا اور تمام اولین و آخرین ازسر نو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدان حشر میں پائیں گے ۔ پہلے صور پر سارا نظام کائنات درہم برہم ہوگا اور دوسرے صُور پر ایک دوسرا نظام نئی صورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہو جائے گا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :48 یہ مطلب نہیں ہے کہ آج پادشاہی اس کی نہیں ہے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس روز جب پردہ اٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آجائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب جو بااختیار نظر آتے تھے ، یا سمجھے جاتے تھے ، بالکل بے اختیار ہیں اور پادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :49 غیب وہ سب کچھ جو مخلوقات سے پوشیدہ ہے ۔ شھادت وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر و معلوم ہے ۔
26: یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک برحق مقصد سے پیدا کیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ یہاں اچھے کام کریں انہیں انعام سے نوازا جائے اور جو لوگ بدکار اور ظالم ہوں انہیں سزا دی جائے یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہو جس میں جزا اور سزا کا یہ مقصد پورا ہو اور آگے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس مقصد کے لئے قیامت میں لوگوں کو دوبارہ زندگی دینا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے، جب وہ چاہے گا تو قیامت کو وجود میں آنے کا حکم دے گا اور وہ وجود میں آجائے گی اور چونکہ وہ غائب وحاضر ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے لوگوں کو مرنے کے بعد اکھٹا کرنا بھی اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے البتہ چونکہ وہ حکمت والا ہے اس لئے وہ اسی وقت قیامت قائم فرمائے گا جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا۔ 27: اگرچہ دنیا میں حقیقی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ لیکن یہاں ظاہری طور پر بہت سے حکمران مختلف ملکوں پر حکومت کرتے ہیں، لیکن صور پھونکے جانے کے بعد یہ ظاہری حکومتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اور ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی۔