Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ابراہیم علیہ السلام اور آزر میں مکالمہ حضرت عباس کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہم السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا ۔ آزر سے مراد بت ہے ۔ آپ کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا ۔ حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام ہاجرہ تھا یہ حضرت ابراہیم کی سریہ تھیں ۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ کے والد کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد اور سدی فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو ۔ واللہ اعلم ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں ۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ کی زبان سے نکلا ۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو ۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے واللہ اعلم ۔ آزَر اور آزُر دونوں قرأت یں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت لابیہ سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے ۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود ۔ بعض اسے اتتخذ کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں ۔ گویا حضرت ابراہیم یوں فرماتے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور نے فرمایا تمہاری طرف ہی آ رہا ہے اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا حضور نے ان سے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا اپنے گھر سے ، اپنے بال بچوں میں سے ، اپنے کنبے قبیلے میں سے ۔ دریافت فرمایا کیا ارادہ ہے؟ کیسے نکلے ہو؟ جواب دیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں ۔ آپ نے فرمایا پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے میں ہی اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمصان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں ، اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گر پڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکالے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کر گئی حضور نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ دیکھو انہیں سنبھالو اسی وقت حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہو چکی ہے حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہو گئے آپ نے منہ پھیر لیا پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں ۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لئے امن و امان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں ۔ اجھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو چنانچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لئے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لئے ہے ، لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا ۔ یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بجوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لئے اور صرف اس لئے الگ ہوا ہوں کہ آپ کی ہدایت کو قبول کروں آپ کی سنتوں پر علم کروں آپ کی حدیثیں لوں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گھاس پھوس کھاتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں ۔ آپ مجھ اسلام سکھائیے حضور نے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑ گیا یہ گر پڑے اور گردن ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں ۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے ۔ تم نے سنا ہو گا کہ باری تعالیٰ فرماتا ہے جو ایمان لائیں اور ظلم نہ کریں وہ امن و ہدایت والے ہیں یہ انہی میں سے تھے ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) پھر فرمایا ابراہیم علیہ السلام کو یہ دلیلیں ہم نے سکھائیں جن سے وہ اپنی قوم پر غالب آ گئے جیسے انہوں نے ایک اللہ کے پرستار کا امن اور اس کی ہدایت بیان فرمائی اور خود اللہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی آیت ( نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ ) 6 ۔ الانعام:83 ) کی یہی ایک قرأت ہے ، اضافت کے ساتھ اور بے اضافت دونوں طرح پڑھا یا گیا ہے جیسے سورۃ یوسف میں ہے اور معنی دونوں قرأت وں کے قریب قریب برابر ہیں ۔ تیرے رب کے اقوال رحمت والے اور اس کے کام بھی حکمت والے ہیں ۔ وہ صحیح راستے والوں کو اور گمراہوں کو بخوبی جانتا ہے جیسے فرمان ہے جن پر تیرے کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا ولیکون کا واؤ زائدہ ہے ۔ جیسے ولتستبین میں اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر ہے یعنی اس لئے کہ وہ عالم اور یقین والے ہو جائیں ، رات کے اندھیرے میں خلیل اللہ ستارے کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ میرا رب ہے جب وہ غروب ہو جاتا ہے تو آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ پروردگار نہیں کیونکہ رب دوام والا ہوتا ہے وہ زوال اور انقلاب سے پاک ہوتا ہے ۔ پھر جب چاند چڑھتا ہے تو یہی فرماتے ہیں جب وہ بھی غروب ہو جاتا ہے تو اس سے بھی یکسوئی کر لیتے ہیں ۔ پھر سورج کے طلوع ہونے پر اسے سب سے بڑا پا کر سب سے زیادہ روشن دیکھ کر یہی کہتے ہیں جب وہ بھی ڈھل جاتا ہے تو اللہ کے سوا تمام معبودوں سے بیزار ہو جاتے ہیں ۔ اور پکار اٹھتے ہیں کہ میں تو اپنی عبادت کے لئے اللہ کی ذات کو مخصوص کرتا ہوں جس نے ابتداء میں بغیر کسی نمونے کے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے میں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف لوٹتا ہوں اور میں مشرکوں میں شامل رہنا نہیں چاہتا ، مفسرین ان آیتوں کی بابت دو خیال ظاہر کرتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ بطور نظر اور غور و فکر کے تھا دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا ۔ ابن عباس سے دوسری بات ہی مروی ہے ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے اس کی دلیل میں آپ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا ۔ امام محمد بن اسہاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے کہ نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں ، وہیں حضرت خلیل اللہ پیدا ہوئے ، تو جب آپ اس غار سے باہر نکلے تب آپ نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے ، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے ۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارہ میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی ۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں ۔ پوجتے تھے ، چاند ، عطارد ، زہرہ ، سورج ، مریخ ، مستری ، زحل ۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے ، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے آدنیٰ سے شروع کیا اور اعلی تک لے گئے ۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں ۔ یہ مقررہ جال سے چلتا ۔ مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا ۔ تو جبکہ وہ خود بیشمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے ۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہے پھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے ، ان کی عبادت سے ، ان کی عقیدت سے ، ان کی محبت سے دور ہوں ۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو ۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے جیسے قرآنی ارشاد ہے کہ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے ، یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسللام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:51 ) یعنی ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟ اور آیت میں ہے آیت ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 16 ۔ النحل:120 ) ابراہیم تو بڑے خلوص والے اللہ کے سچے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں پسند فرما لیا تھا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی دنیا کی بھلائیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی انہیں صالح لوگوں میں ملا دیا تھا اب ہم تیری طرف وحی کر رہے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کا تابعدار رہ وہ مشرک نہ تھا ، بخاری و مسلم میں ہے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ۔ کتاب اللہ میں ہے آیت ( فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 30 ۔ الروم:30 ) اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں اور آیت میں ہے تیرے رب نے آدم کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکال کر انہیں ان کی جانوں پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا سب کا رب نہیں ہوں؟ سب نے اقرار کیا کہ ہاں بیشک تو ہمارا رب ہے پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاء اللہ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمان ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے ۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے ۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 مورخین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا، لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہذا یہ صحیح ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨١] یعنی جس دن اللہ تعالیٰ اس جہان کو درہم برہم کرنا چاہے گا۔ تو فرشتہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا۔ اس سے زمین پر آباد تمام مخلوق مرجائے گی۔ پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ صور میں پھونکا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- خ نفخہ صور دو بار ہوگا۔ اور عجب الذنب :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ صور دو بار پھونکا جائے گا اور ان دونوں میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا چالیس دن کا ؟ کہنے لگے میں نہیں کہہ سکتا لوگوں نے کہا چالیس ماہ کا ؟ کہنے لگے میں نہیں کہہ سکتا پھر لوگوں نے پوچھا چالیس برس کا ؟ کہنے لگے میں نہیں کہہ سکتا اس کے بعد ابوہریرہ (رض) نے کہا : اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جسیے سبزہ اگ آتا ہے۔ دیکھو آدمی کے بدن کی ہر چیز گل سڑ جاتی ہے مگر ایک ہڈی (کی نوک) وہ اس مقام کی ہڈی ہے جہاں جانور کی دم ہوتی ہے قیامت کے دن اسی ہڈی سے مخلوق کو جوڑ جاڑ دیا جائے گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورة النبا آیت نمبر ١٨)- خ معبود حقیقی کی چند صفات :۔ معبودان باطل اور ان کے پرستاروں کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں معبود حق کی یعنی اپنی ایسی چھ صفات بیان فرمائیں جو صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے کسی باطل معبود میں ان کا پایا جانا ناممکن ہے اور وہ یہ ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین یعنی اس کائنات کو تعمیری نتائج کا حامل بنا کر پیدا کیا ہے (٢) پھر وہ اس کائنات میں وسعت بھی پیدا کرتا رہتا ہے اور تغیر و تبدل بھی۔ جب اسے کچھ کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ اس کے ہوجانے کا حکم دے دیتا ہے اور وہ چیز یا حادثہ وجود میں آنا شروع ہوجاتا ہے۔ (٣) اس کی ہر بات کا ہر حکم سچا اور ٹھوس حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ (٤) جس دن اسے اس کائنات کو ختم کر کے روز آخرت میں لانا منظور ہوگا۔ تو اس عالم آخرت میں بھی اسی کی مکمل طور پر فرمانروائی ہوگی۔ (٥) اس کے لیے غیب اور شہادت سب کچھ یکساں، اس کی نظروں کے سامنے اور اس کے علم میں ہے شہادت سے مراد وہ اشیاء ہیں جو کسی انسان کے سامنے موجود ہیں یا ان تک انسان کی دسترس ہوچکی ہے یا ایسے طبعی قوانین جو انسان کے علم میں آ چکے ہیں اور غیب سے مراد ایسی اشیاء ہیں جو انسان کے علم میں نہیں آئیں خواہ وہ ماضی سے تعلق رکھتی ہوں یا مستقبل سے یا ایسے تمام قوانین جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی ایسی سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ (٦) اس کے ہر کام میں اور ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور موجود ہوتی ہے خواہ انسان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ ہر چیز کی قلیل سے قلیل مقدار تک سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ اٰزَرَ ۔۔ : اوپر کی آیات میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے دلائل بیان کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے غلط عقائد پر تنقید کی گئی اور اب شرک کی تردید کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بطور تائید بیان فرمایا کہ وہ توحید کے سب سے بڑے داعی اور شرک سے بےزار تھے اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ دیکھو انھوں نے کس طرح قوم سے علیحدگی اختیار کی۔ مشرکین مکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے دعوے دار تھے، جب ابراہیم (علیہ السلام) موحد تھے تو اب شرک کے جواز پر تمہارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام آزر تھا۔ اب پہلی کتابوں میں اگر ان کا نام آرخ یا تارخ لکھا ہو تو قرآن کی بات ہی حق ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آرخ یا تارخ اس کا لقب ہوگا، مگر یہ کہنا کہ ان کے باپ کا نام آزر نہیں تھا بلکہ یہ نام چچا کا تھا، بالکل ہی بےدلیل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (نام) سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے، بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو (جو اس اعتقاد میں تیرے شریک ہیں) صریح غلطی میں دیکھ رہا ہوں (اور ستاروں کے متعلق آگے گفتگو آئے گی، درمیان میں ابراہیم (علیہ السلام) کا صحت نظر کے ساتھ موصوف ہونا کہ ما قبل و ما بعد دونوں سے اس کا تعلق ہے فرماتے ہیں) اور ہم نے ایسی ہی (کامل) طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات (بچشم معرفت) دکھلائیں، تاکہ وہ (خالق کی ذات وصفات کے) عارف ہوجاویں اور تاکہ (ازدیار معرفت سے) کامل یقین کرنے والوں سے ہوجاویں (آگے ستاروں کے متعلق گفتگو کہ تتمہ مناظرہ کا ہے مذکور ہے کہ اوپر کی گفتگو تو بتوں کے متعلق ہوچکی) پھر (اسی دن یا کسی اور دن) جب رات کی تاریکی ان پر (اسی طرح اور سب پر) چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا (کہ چمک رہا ہے) آپ نے (اپنی قوم سے مخاطب ہوکر) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور میرے احوال میں متصرف) ہے (بہت اچھا، اب تھوڑی دیر میں حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے، چناچہ تھوڑے عرصہ کے بعد وہ افق میں جا چھپا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (اور محبت لوازم اعتقاد ربوبیت سے ہے پس حاصل یہ ہوا کہ میں رب نہیں سمجھتا) پھر (اسی شب میں یا کسی دوسری شب میں) جب چاند کو دیکھا (کہ) چمکتا ہوا (نکلا ہے) تو (پہلے ہی کی طرح) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور متصرف فی الاحوال) ہے (بہتر اب تھوڑی دیر میں اس کی کیفیت بھی دیکھنا چناچہ وہ بھی غروب ہوگیا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرا رب (حقیقی) ہدایت نہ کرتا رہے (جیسا اب تک ہدایت کرتا رہتا ہے) تو میں بھی (تمہاری طرح) گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں پھر (یعنی اگر چاند کا قصہ اسی قصہ کو کب کی شب کا تھا تب تو کسی شب کو صبح کو اور اگر چاند کا قصہ اسی قصہ کو کب کی شب کا نہ تھا تو قصہ قمر کی شب کی صبح کو یا اس کے علاوہ کسی اور شب کی صبح کو) جب آفتاب دیکھا (کہ بڑی آب و تاب سے) چمکتا ہوا (نکلا ہے) تو (پہلی دو بار کی طرح پھر) فرمایا کہ (تمہارے خیال کے موافق) یہ میرا (اور تمہارا) رب (اور متصرف فی الاحوال) ہے (اور) یہ تو سب (مذکورہ ستاروں) میں بڑا ہے (اس پر خاتمہ کلام کا ہوجاوے گا، اگر اس کی ربوبیت باطل ہوگئی تو چھوٹوں کی بدرجہ اولیٰ باطل ہوجاوے گی، غرض شام ہوئی تو وہ بھی غروب ہوگیا) سو جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار (اور نفور) ہوں (یعنی برأت ظاہر کرتا ہوں، اعتقاداً تو ہمیشہ سے بیزار ہی تھے) میں (سب طریقوں سے) یک سو ہو کر اپنا رخ (ظاہر کا اور دل کا) اس (ذات) کی طرف (کرنا تم سے ظاہر) کرتا ہوں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور میں (تمہاری طرح) شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں (نہ اعتقاداً نہ قولاً نہ عملاً ) اور ان سے ان کی قوم نے (بیہودہ) حجت کرنا شروع کی (وہ یہ کہ رسم قدیم ہے (آیت) وجدنا اباءنا لھا عابدین، اور معبودان باطلہ کے انکار پر ڈرایا بھی کہ کبھی تم کو یہ کسی آفت میں نہ پھنسا دیں کما یدل علیہ الجواب بقولہ ولا اخاف الخ) آپ نے (پہلی بات کے جواب میں تو یہ) فرمایا کہ کیا تم اللہ (کی توحید) کے معاملہ میں مجھ سے (باطل) حجت کرتے ہو، حالانکہ اس نے مجھ کو (استدلال صحیح کا) طریقہ بتلا دیا ہے (جس کو میں تمہارے روبرو پیش کرچکا ہوں، اور محض رسم قدیم ہونا اس استدلال کا جواب نہیں ہو سکتا، پھر اس سے احتجاج تمہارے لئے بیکار اور میرے نزدیک غیر قابل التفات) اور (دوسری بات کے جواب میں یہ فرمایا کہ) میں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ (استحقاق عبادت میں) شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھ کو کوئی صدمہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ ان میں خود صفت قدرت ہی مفقود ہے اور اگر کسی چیز میں ہو بھی تو استقلال قدرت مفقود ہے) ہاں لیکن اگر پروردگار ہی کوئی امر چاہے (تو وہ دوسری بات ہے وہ ہوجاوے گی لیکن اس سے آلہہ دار باب باطلہ کی قدرت کا ثبوت یا ان سے خوف کی ضرورت کب لازم آئی اور) میرا پروردگار (جس طرح قادر مطلق ہے جیسا ان اشیاء سے معلوم ہوا اسی طرح وہ) ہر چیز کو اپنے (احاطہ) علم میں (بھی) گھیرے ہوئے ہے (غرض قدرت و علم دونوں اسی کے ساتھ مختص ہیں، اور تمہارے آلہہ کو نہ قدرت ہے نہ علم ہے) کیا تم (سنتے ہو اور) پھر (بھی) خیال نہیں کرتے اور (جس طرح میرے نہ ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمہارے معبود علم وقدرت سے محض معریٰ ہیں، اسی طرح یہ بات بھی تو ہے کہ میں نے کوئی کام ڈر کا کیا بھی تو نہیں تو پھر) میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے (اللہ تعالیٰ کے ساتھ استحقاق عبادت اور اعتقاد ربوبیت میں) شریک بنایا ہے، حالانکہ (تم کو ڈرنا چاہئے دو وجہ سے، اول تم نے ڈرکا کام یعنی شرک کیا ہے، جس پر عذاب مرتب ہوتا ہے، دوسرے خدا کا عالم اور قادر ہونا معلوم ہوچکا ہے، مگر) تم اس بات (کے وبال) سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن (کے معبود ہونے) پر اللہ تعالیٰ نے تم پر کوئی دلیل (لفظاً یا معنیً ) نازل نہیں فرمائی (مطلب یہ کہ ڈرنا چاہئے تم کو پھر الٹا مجھ کو ڈراتے ہو) سو (بعد اس تقریر کے انصاف سے سوچ کر بتلاؤ کہ) ان دو (مذکورہ) جماعتوں میں سے (یعنی مشرکین و موحدین میں سے) امن کا (یعنی اس کا کہ اس پر خوف کا) اگر تم (کچھ) خبر رکھتے ہو۔- معارف و مسائل - ان سے پہلی آیات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین عرب کو خطاب اور بت پرستی چھوڑ کر صرف خدا پرستی کی دعوت کا بیان تھا۔- ان آیات میں اسی دعوت حق کی تائید ایک خاص انداز میں فرمائی گئی ہے، جو طبعی طور پر اہل عرب کے لئے دلنشین ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تمام عرب کے جدِّ امجد ہیں اور اسی لئے سارا عرب ان کی تعظیم پر ہمیشہ سے متفق چلا آیا ہے، ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مناظرہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے بت پرستی کے خلاف اپنی قوم کے ساتھ کیا تھا، اور پھر سب کو توحید حق کا سبق دیا تھا۔- پہلی آیت میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ تم نے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود بنا لیا ہے، میں تم کو اور تمہاری ساری قوم کو گمراہی میں دیکھتا ہوں۔- مشہور یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام ہے اور اکثر مورخین نے ان کا نام تارخ بتلایا ہے اور یہ کہ آزر ان کا لقب ہے، اور امام رازی رحمة اللہ علیہ اور علماء سلف میں سے ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ اور چچا کا نام آزر ہے، ان کا چچا آزر نمرود کی وزارت کے بعد شرک میں مبتلا ہوگیا تھا، اور چچا کو باپ کہنا عربی محاورات میں عام ہے، اسی محاورہ کے تحت آیت میں آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ فرمایا گیا ہے، زرقانی نے شرح مواہب میں اس کے کئی شواہد بھی نقل کئے ہیں۔- اصلاح عقائد و اعمال کی دعوت اپنے گھر اور خاندان سے شروع کرنی چاہئے - آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد ہوں یا چچا بہر حال نسبی طور پر ان کے قابل احترام بزرگ تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے دعوت حق اپنے گھر سے شروع فرمائی، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کا حکم ہوا ہے (آیت) وانذر عشیرتک الاقربین، یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ماتحت سب سے پہلے اپنے خاندان ہی کو کوہ صفا پر چڑھ کر دعوت حق کے لئے جمع فرمایا۔- تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر خاندان کے کوئی واجب الاحترام بزرگ دین کے صحیح راستہ پر نہ ہوں تو ان کو صحیح راستہ کی طرف دعوت دینا احترام کے خلاف نہیں بلکہ ہمدردی و خیر خواہی کا تقاضا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت حق اور اصلاح کا کام اپنے قریبی لوگوں سے شروع کرنا سنت انبیاء ہے۔- دو قومی نظرئیے، مسلمان ایک قوم اور کافر دوسری قوم - نیز اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے خاندان اور قوم کی نسبت اپنی طرف کرنے کے بجائے باپ سے یہ کہا کہ تمہاری قوم گمراہی میں ہے، اس میں اس عظیم قربانی کی طرف اشارہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کی راہ میں اپنی مشرک برادری سے قطع تعلق کرکے ادا کی اور اپنے عمل سے بتلا دیا کہ مسلم قومیت رشتہ اسلام سے قائم ہوتی ہے، نسبی اور وطنی قومیتیں اگر اس سے متصادم ہوں تو وہ سب چھوڑ دینے کے قابل ہیں - ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد - فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد - قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو ذکر کرکے آئندہ آنے والی امتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، ارشاد ہے : (آیت) قد کانت لکم اسوة حسنة، یعنی امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اسوہ حسنہ اور قابل اقتداء ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا یہ عمل کہ انہوں نے اپنی نسبی اور وطنی برادری سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے غلط معبودوں سے بیزار ہیں، اور ہمارے تمہارے درمیان بغض و عداوت کی دیوار اس وقت تک حائل ہے جب تک تم ایک اللہ کی عبادت اختیار نہ کرلو۔ - معلوم ہوا کہ یہ دو قومی نظرئیے ہیں جس نے پاکستان بنوایا ہے، اس کا اعلان سب سے پہلے خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے، امّتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسری تمام امتوں نے حسب ہدایت یہی طریقہ اختیار کیا، اور عام طور پر مسلمانوں میں قومیت اسلام معروف ہوگئی، حجة الوداع کے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قافلہ ملا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم کس قوم سے ہو، تو جواب دیا نحن قوم مسلمون (بخاری) اس میں عرب کے سابقہ دستور کے مطابق کسی قبیلہ یا خاندان کا نام لینے کے بجائے مسلمون کہہ کر اس حقیقی قومیت کا بتلا دیا جو دنیا سے لے کر آخر تک چلنے والی ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس جگہ اپنے باپ سے خطاب کے وقت تو برادری کی نسبت ان کی طرف کرکے اپنی بیزاری کا اعلان فرمایا اور جس جگہ قوم سے اپنی بیزاری اور قطع تعلقی کا اعلان کرنا تھا وہاں اپنی طرف منسوب کرکے خطاب کیا، جیسے اگلی آیت میں ہے اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ، یعنی اے میری قوم میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ نسب و وطن کے لحاظ سے تم میری قوم ہو، لیکن تمہارے مشرکانہ افعال نے مجھے تمہاری برادری سے قطع تعلق کرنے پر مجبور کردیا۔ - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی برادری اور ان کے باپ دوہرے شرک میں مبتلا تھے کہ بتوں کی بھی پرستش کرتے تھے، اور ستاروں کی بھی، اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی دونوں مسئلوں پر اپنے باپ اور اپنی قوم سے مناظرہ کیا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِيْمُ لِاَبِيْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً۝ ٠ۚ اِنِّىْٓ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٧٤- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- صنم - الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ- [ الأنبیاء 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك .- ( ص ن م ) الصنم - کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔- ضَلل - وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان .- جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤۔ ٧٥) اور اسی طرح ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمان و زمین کی تمام مخلوقات مثلا چاند، سورج، ستارے بچشم معرفت دکھلائے تاکہ وہ اس بات پر کامل یقین رکھنے والے ہوجائیں کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے، وہی تمام آسمان و زمین کا اور جو کچھ ان میں مخلوقات ہیں، اس کا خالق ہے یا یہ کہ جس رات ان کو آسمان پر بلایا، اس رات ساتویں آسمان پر سے تمام چیزیں دکھائیں حتی کہ ساتویں زمین تک کی انہوں نے ساری چیزوں کو دیکھا تاکہ ان کو خطرات پر کامل یقین ہوجائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً ج) - یہاں پر خصوصی طور پر لفظ آزر جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کے نام کے طور پر آیا ہے ‘ یہ میرے نزدیک تورات میں مندرج نام کی نفی کرنے کے لیے آیا ہے۔ تورات میں آپ ( علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ لکھا گیا ہے اور اس کی یہاں تصحیح کی گئی ہے ‘ ورنہ یہاں یہ فقرہ لفظ آزر کے بغیر بھی کافی تھا۔ اس واضح نشاندہی کے باوجود بھی بعض لوگ مغالطے میں پڑگئے ہیں اور انہوں نے تورات میں مذکور نام ہی اختیار کیا ہے۔ جیسے اہل تشیع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا نام تارخ ہی کہتے ہیں اور آزر جس کا ذکر یہاں آیا ہے اس کو آپ ( علیہ السلام) کا چچا کہتے ہیں۔ انہوں نے یہ موقف کیوں اختیار کیا ہے ‘ اس کی ایک خاص وجہ ہے ‘ جو پھر کسی موقع پر بیان ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :50 یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دیا ہے اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم علیہ السلام بھی کر چکے ہیں ۔ اور جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں سے ان کی جاہل قوم جھگڑ رہی ہے اسی طرح کل حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کر چکی ہے ۔ اور کل جو جواب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دیا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرووں کی طرف سے ان کی قوم کو بھی وہی جواب ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس راستہ پر ہیں جو نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام اور نسل ابراہیمی کے تمام انبیاء کا راستہ رہا ہے ۔ اب جو لوگ ان کی پیروی سے انکار کر رہے ہیں انہیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر ضلالت کی راہ پر جا رہے ہیں ۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ عرب کے لوگ بالعموم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور مقتدا مانتے تھے ۔ خصوصاً قریش کے تو فخر و ناز کی ساری بنیاد ہی یہ تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور ان کے تعمیر کردہ خانہ خدا کے خادم ہیں ۔ اس لیے ان کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عقیدہ توحید کا اور شرک سے ان کا انکار اور مشرک قوم سے ان کی نزاع کا ذکر کرنے کے معنی یہ تھے کہ قریش کا سارا سرمایہ فخر و ناز اور کفار عرب کا اپنے مشرکانہ دین پر سارا اطمینان ان سے چھین لیا جائے اور ان پر ثابت کر دیا جائے کہ آج مسلمان اس مقام پر ہیں جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور تمہاری حیثیت وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لڑنے والی جاہل قوم کی تھی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے معتقدوں اور قادری النسب پیرزادوں کے سامنے حضرت شیخ کی اصل تعلیمات اور ان کی زندگی کے واقعات پیش کر کے یہ ثابت کر دے کہ جن بزرگ کے تم نام لیوا ہو ، تمہارا اپنا طریقہ ان کے بالکل خلاف ہے اور تم نے آج انہی گمراہ لوگوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جن کے خلاف تمہارے مقتدا تمام عمر جہاد کرتے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani