89۔ 1 اس سے مراد رسول اللہ کے مخالفیں، مشرکین اور کفار ہیں۔ 98۔ 2 اس سے مراد مہاجرین و انصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔
[٨٩] انبیاء کو تین خبریں عطا کی جاتی ہیں :۔ مذکورہ انبیاء کو تین چیزیں عطا کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک کتاب یعنی منزل من اللہ ہدایت نامہ دوسرے حکم سے مراد اللہ کی کتاب کا صحیح فہم، ان پر عمل کرنے کا طریق کار اور اس ہدایت کو عملی زندگی پر منطبق کرنے کی صورتیں اور مختلف نزاعات اور مقدمات میں صحیح قوت فیصلہ کی استعداد اور نبوت سے مراد اس ہدایت الٰہی کے مطابق لوگوں کی رہنمائی ہے۔- [٩٠] اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو نہ لائیں۔ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے بندے پیدا کردیئے ہیں جو ہماری نعمتوں کے قدردان ہیں۔ حق کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی ہدایت کی بات سے منہ نہیں موڑتے۔ ایسے ہی لوگ انبیاء کے حقیقی متبعین اور ان کے جانشین ہوتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ کے متبعین مہاجرین و انصار کی یہی صفات تھیں۔
فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔ : یعنی اگر یہ لوگ اس کتاب، حکم اور نبوت کو نہ مانیں ( اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو نہ ماننے والے کفار اور مشرکین ہیں) تو ہم نے ان (کتاب اور نبوت) کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں ( اس سے مراد مہاجرین انصار اور قیامت تک آنے والے ایمان دار ہیں) جو ان نعمتوں کا انکار نہیں کرتے۔
آٹھویں آیت میں یہی مضمون ارشاد فرمایا گیا اور اس کے آخر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے ارشاد فرمایا کہ : فَاِنْ يَّكْفُرْ بِهَا هٰٓؤ ُ لَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا، یعنی اگر آپ کے کچھ مخاطب آپ کی بات نہیں مانتے اور تمام انبیاء سابقین کی ہدایات پیش کردینے کے باوجود وہ انکار ہی پر تلے ہوئے ہیں تو آپ غم نہ کریں، کیونکہ ہم نے آپ کی دعوت و ہدایت کو ماننے اور اپنانے کے لئے ایک بڑی قوم کو مقدر کر رکھا ہے، وہ کفر و انکار کے پاس نہ جائیں گے، اس میں عہد مبارک کے موجودین مہاجرین و انصار بھی داخل ہیں، اور قیامت تک آنے والے مسلمان بھی، اور یہ آیت ان سب لوگوں کے لئے مایہ فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقام مدح میں ذکر فرمایا ہے، اللہم اجعلنا منھم واحشرنا فی زمرتھم۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ٠ۚ فَاِنْ يَّكْفُرْ بِہَا ہٰٓؤُلَاۗءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِہَا بِكٰفِرِيْنَ ٨٩- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حِكْمَةُ- : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها،- الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہزا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ها - هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ- [ النساء 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو .- ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(٨٩) جن انبیاء کرام (علیہم السلام) کا ہم نے ذکر کیا ہے یہ ایسے تھے کہ بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آسمان سے ان پر کتاب نازل کی اور علم وفہم اور نبوت عطا کی اس کے باوجود بھی یہ اہل مکہ اگر آپ کے دین اور نبوت کا انکار کریں تو ہم نے مدینہ منورہ میں ایسے لوگ مقرر کردیے ہیں جن کو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے دین اور ان کے راستہ کی توفیق عطا فرمائی ہے اور وہ اس کے منکر نہیں۔
(فَاِنْ یَّکْفُرْ بِہَا ہٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِہَا بِکٰفِرِیْنَ - مقام عبرت ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا رسول ‘ مبلغ ‘ داعی ‘ مربی ‘ مزکی اور معلّم پچھلے بارہ سال سے دن رات محنت کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اب تک صرف ڈیڑھ ‘ پونے دو سو افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ مکہ کے یہ لوگ اگر اس دعوت کی ناقدری کر رہے ہیں ‘ اس قرآن کی ناشکری کر رہے ہیں ‘ اس کا انکار کر رہے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس بارہ سال کی محنت کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل شکستہ نہ ہوں ‘ عنقریب ایک دوسری قوم بڑے ذوق وشوق سے اس دعوت پر لبیک کہنے جا رہی ہے۔ اس خوش قسمت قوم سے مراد انصار مدینہ ہیں۔ اور واقعی اس سلسلے میں اہل مکہ پیچھے رہ گئے اور اہل مدینہ بازی لے گئے۔ بقول شاعر : گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا - دُنیا کے حالات و اسباب کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ دین کے کام میں کیسے کیسے اسباب پیدا فرماتے ہیں اور کہاں کہاں سے کس کس طرح کے لوگوں کے دلوں کو پھیر کر ہدایت کی توفیق دے دیتے ہیں۔ مجھے اپنی دعوت رجوع الی القرآن کے بارے میں بھی اطمینان ہے کہ پاکستان میں اس کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی تو کیا ہوا ‘ یہ دعوت مختلف ذرائع سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ‘ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کی یہ انقلابی دعوت کس جگہ زمین کے اندر جڑ پکڑ لے اور ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :57 یہاں انبیاء علیہم السلام کو تین چیزیں عطا کیے جانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک کتاب یعنی اللہ کا ہدایت نامہ دوسرے حکم یعنی اس ہدایت نامہ کا صحیح فہم ، اور اس کے اصولوں کو معاملات زندگی پر منطبق کرنے کی صلاحیت اور مسائل حیات میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی خداداد قابلیت ۔ تیسرے نبوت ، یعنی یہ منصب کہ وہ اس ہدایت نامہ کے مطابق خلق اللہ کی رہنمائی کریں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :58 مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کافر و مشرک لوگ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کردیں ، ہم نے اہل ایمان کا ایک ایسا گروہ پیدا کر دیا ہے جو اس نعمت کی قدر کرنے والا ہے ۔
31: مشرکین عرب نبوت و رسالت ہی کے منکر تھے۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں جو پیغمبر گذرے ہیں ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تو عرب کے بت پرست بھی مانتے تھے ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ پیغمبر ہو سکتے ہیں اور ان کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے تو یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ نبوت کوئی چیز نہیں ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول بنا کر بھیجنے میں آخر کونسی اشکال کی بات ہے جبکہ آپ کی نبوت کے دلائل روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ 32: اس سے صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے۔