90۔ 1 اس سے مراد انبیاء مذکورین ہیں۔ ان کی پیروی کا حکم مسئلہ توحید ميں اور ان احکام و شرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا جیسا کہ آیت شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا (الشوری) سے واضح ہے 90۔ 2 یعنی تبلیغی دعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عند اللہ ملے گا۔ 90۔ 3 جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انھیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مسقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ دیدہ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھنے والا معاملہ ہوگا۔
[٩١] سابقہ شریعتوں کا اتباع کس صورت میں :۔ یعنی تمام انبیاء کا دین یا دستور اساسی ایک ہی رہا ہے۔ جیسے توحید پرستی، شرک سے بےزاری اور اس کے خلاف جہاد، اللہ کی فرمانبرداری اور روز آخرت پر ایمان وغیرہ۔ لہذا جو کچھ ان کا دین تھا، آپ کو بھی وہی دین اختیار کرنا چاہیے، اسی ہدایت کی اتباع کیجئے اور شریعت ہر نبی کو الگ الگ اس کے زمانہ کے احوال، ظروف کے مطابق دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک اور اہم بات کا پتا چلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو حکم کسی بھی نبی کی شریعت میں مذکور ہو اور اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ نے وہ حکم بیان کرتے وقت اس پر نکیر نہ فرمائی ہو۔ وہ حکم محمدیہ کے لیے بھی واجب الاتباع ہوگا۔ قرآن کریم میں اس کی مثال اعضاء وجوارح کا قصاص ہے۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اسی طرح زخموں کا بھی ویسا ہی قصاص ہوگا۔ یہ تورات کا حکم ہے جسے قرآن نے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٤٥ میں بیان فرمایا ہے اور اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ لہذا یہ حکم امت محمدیہ کے لیے بھی قابل اتباع ہے اور رسول اللہ نے اس حکم کے مطابق دانت کے مقدمات کا فیصلہ فرمایا۔ اسی طرح تورات میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم تھا۔ آپ کے پاس ایک ایسے ہی شادی شدہ یہودی اور یہودن کا مقدمہ لایا گیا تو آپ نے ان کے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا اے اللہ سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جسے ان یہود نے مردہ کردیا تھا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود و اہل الذمۃ فی الزنا (مزید تفصیل سورة مائدہ کی آیت نمبر ٤٤ کے حاشیہ ٨٢ میں ملاحظہ فرمائیے) یعنی آپ نے بجائے نکیر کے اس حکم کو زندہ کرنے کی تحسین فرمائی۔ تو یہ رجم کا حکم امت محمدیہ کے لیے واجب الاتباع ہوا۔ اور احادیث رسول اللہ میں اس کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔- [٩٢] اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی رسالت بھی تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے اور یہ قرآن بھی اسی طرح سب لوگوں کے لیے کتاب ہدایت ہے اس کے بعد نہ کوئی نبی یا رسول آنے والا ہے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے تاقیامت کتاب نازل ہوگی۔
فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِه : یعنی توحید اور عقائد میں ان کی راہ پر قائم رہیے، کیونکہ تمام انبیاء ان باتوں میں متفق ہیں، باقی احکام میں سے بھی جو منسوخ نہیں ہوئے ان کی بھی پیروی کیجیے۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان انبیاء کی طرح آپ بھی دشمنوں کی ایذا رسانی پر صبر کیجیے۔ اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جن کاموں میں کوئی نیا حکم نہیں آیا ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے انبیاء کے طریق پر رہنے کا حکم تھا۔ مجاہد (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے پوچھا : ” کیا سورة ص میں سجدہ ہے ؟ “ تو انھوں نے (وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ ) سے لے کر (فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ) تک تلاوت کر کے فرمایا : ” ہاں، وہ (داؤد (علیہ السلام ) بھی ان لوگوں میں سے تھے جن کی پیروی کا آپ کو اس آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اس آیت میں داؤد (علیہ السلام) کے سجدے کا ذکر ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان انبیاء کی پیروی کا حکم ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : - ( أولئک الذین ہدی اللہ ۔۔ : ٤٦٣٢ ] - ۭاِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن و انس دونوں کی طرف بھیجے گئے اور آپ کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے۔
خلاصہ تفسیر - (اور ہم جو غم نہ کرنے کو اور صبر کرنے کو کہتے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایسا ہی کیا ہے چنانچہ) یہ حضرات (مذکورین) ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے (اس صبر کی) ہدایت کی تھی سو (اس باب میں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انہی کے طریق (صبر) پر چلئے (چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کی ہدایت کی گئی ہے، کیونکہ ان میں سے نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ نفع نہ کوئی ضرر ہے جس کی وجہ سے غم اور بےصبری ہو اور اس مضمون کے اظہار کے واسطے ان سے تبلیغ کے وقت) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں تم سے (اس تبلیغ قرآن) پر کچھ معاوضہ نہیں چاہتا (جس کے ملنے سے نفع اور نہ ملنے سے ضرر ہو، بےغرض نصیحت کرتا ہوں) یہ (قرآن) تو صرف تمام جہانوں کے واسطے ایک نصیحت ہے (جس کو ماننے سے تمہارا ہی نفع اور نہ ماننے سے تمہارا ہی نقصان ہے) اور ان (منکر) لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی، ویسی قدر نہ پہچانی جبکہ (منہ بھر کر) یوں کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز (یعنی کوئی کتاب) ابھی نازل نہیں کی (یہ کہنا ناقدر شناسی اس لئے ہے کہ اس سے مسئلہ نبوت کا انکار لازم آتا ہے، اور نبوت کا منکر اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتا ہے، اور تصدیق حق واجب ہے، پس اس میں قدر شناسی واجب میں اخلال ہوا، یہ تو تحقیقی جواب تھا، اور الزامی مسکت جواب دینے کے لئے) آپ (ان سے) یہ کہئے کہ (یہ تو بتلاؤ کہ) وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے (یعنی توریت جس کو تم بھی مانتے ہو) جس کی یہ کیفیت ہے کہ وہ (خود مثل) نور (کے واضح) ہے اور (جن کی ہدایت کے لئے وہ آئی تھی ان) لوگوں کے لئے وہ (بوجہ بیان شرائع کے ذریعہ) ہدایت ہے جس کو تم نے (اپنی اغراض نفسانیہ کے لئے) متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن (میں جتنے اوراق کو چاہا ان) کو ظاہر کردیتے ہو (جس میں تمہارے مطلب کے خلاف کوئی بات نہ ہوئی) اور بہت سی باتوں کو (جو اپنے مطلب کے خلاف ہیں، یعنی جن اوراق میں وہ لکھی ہوئی ہیں ان کو) چھپاتے ہو اور (اس کتاب کی بدولت) تم کو بہت سی ایسی باتیں تعلیم کی گئیں جن کو (قبل کتاب ملنے کے) نہ تم (یعنی قوم بنی اسرائیل جو کہ وقت نزول آیت موجود تھی) جانتے تھے اور نہ تمہارے (قریب سلسلہ کے) بڑے (جانتے تھے، مطلب یہ کہ جس توریت کی یہ حالت ہے کہ اس کو اولا تو تم مانتے ہو، دوسرے بوجہ نور و ہدیٰ ہونے کے ماننے کے قابل بھی ہے، تیسرے ہر وقت تمہارے استعمال میں ہے، گو وہ استعمال شرمناک ہے، لیکن اس کی وجہ سے گنجائش انکار تو نہیں رہی، چوتھے تمہارے حق میں وہ بڑی نعمت اور منت کی چیز ہے، اسی کی بدولت عالم بنے بیٹھے ہو، اس حیثیت سے بھی اس میں گنجائش انکار نہیں، یہ بتلاؤ کہ اس کو کس نے نازل کیا ہے، اور چونکہ اس سوال کا جواب ایسا متعین ہے کہ وہ لوگ بھی اس کے سوا کوئی جواب نہ دیتے، اس لئے خود ہی جواب دینے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہے کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وہی) کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے (کتاب مذکور کو) نازل فرمایا ہے (اور اس سے ان کا دعویٰ عام باطل ہوگیا) پھر (یہ جواب سنا کر) ان کو ان کے مشغلہ میں بیہودگی کے ساتھ لگا رہنے دیجئے (یعنی آپ کا منصبی کام ختم ہوگیا، نہ مانیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فکر میں نہ پڑیں ہم آپ ہی سمجھ لیں گے) اور (جس طرح توریت ہماری نازل کی ہوئی کتاب تھی اسی طرح) یہ (قرآن) بھی (جس کی تکذیب یہود کے قول مذکور سے اصل مقصود ہے) ایسی ہی کتاب ہے جس کو ہم نے (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) نازل کیا ہے جو بڑی (خیرو) برکت والی ہے (چنانچہ اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا موجب فلاح و نفع دارین ہے اور) اپنے سے پہلے (نازل شدہ) کتابوں (کے منزل من اللہ ہونے) کی تصدیق کرنے والی ہے (سو ہم نے اس قرآن کو نفع خلائق اور تصدیق کتب الٓہیہ کے لئے نازل فرمایا) اور (اس لئے نازل فرمایا کہ) تاکہ آپ (اس کے ذریعہ سے) مکہ والوں کو اور آس پاس والوں کو (خصوصیت کے ساتھ عذاب الٓہی سے جو کہ مخالفت پر ہوگا) ڈرائیں (اور یوں انذار عام بھی کریں (آیت) ( لیکون للعالمین نذیرًا) اور (آپ کے انداز کے بعد گو سب ایمان نہ لاویں لیکن) جو لوگ آخرت کا (پورا) یقین رکھتے ہیں (جس سے عذاب کا اندیشہ ہوجائے اور اس سے بچنے کی فکر پڑجائے اور ہمیشہ طلب طریق نجات اور یقین حق کی دھن لگ جائے خوا کسی دلیل نقلی سے یا تجویز عقلی سے) ایسے لوگ (تو) اس (قرآن) پر ایمان لے (ہی) آتے ہیں اور (ایمان و اعتقاد کے ساتھ اس کے اعمال کے بھی پابند ہوتے ہیں، کیونکہ عذاب سے نجات کامل مجموعہ پر موعود ہے، چنانچہ) وہ اپنی نماز پر مداومت رکھتے ہیں (اور جب اس عبادت پر جو کہ ہر روز پانچ بار مکرر اور شاق ہے مداومت کرتے ہیں تو دوسری عبادات کے جو کہ گاہ گاہ اور سہل ہیں بدرجہ اولیٰ پابند ہوں گے، حاصل یہ کہ کسی کے ماننے نہ ماننے کی فکر نہ کیجئے جو اپنا بھلا چاہیں گے مان لیں گے، جو نہ چاہیں گے نہ مانیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا کام کیجئے) اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تہمت لگائے (اور مطلق نبوت یا خاص نبوت کا منکر ہو، جیسا اوپر بعض کا قول آیا ہے، مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْء اور بعض کا قول تھا (آیت) (ابعث اللہ بشرا رسولاً ) یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے، حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی (جیسے مسیلمہ وغیرہ) اور (اسی طرح اس سے بھی زیادہ ظالم کون ہوگا) جو شخص کہ یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ تعالیٰ نے (حسب دعویٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نازل کیا ہے، اسی طرح کا میں بھی لا (کر دکھاتا ہوں (جیسا نضر یا عبداللہ مذکور کہتا تھا، غرض یہ سب لوگ بڑے ظالم ہیں) اور (ظالموں کا حال یہ ہے کہ) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان کو) اس وقت دیکھیں (تو بڑا ہولناک منظر دکھلائی دے) جبکہ یہ ظالم لوگ (جن کا ذکر ہوا) موت کی (روحانی) سختیوں میں (گرفتار) ہوں گے اور (موت کے) فرشتے (جو ملک الموت کے اعوان ہیں ان کی روح نکالنے کے واسطے ان کی طرف) اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے (اور شدت کے ظاہر کرنے کو یوں کہتے جاتے ہوں گے کہ) ہاں (جلدی) اپنی جانیں نکالو (کہاں بچاتے پھرتے تھے، دیکھو) آج (مرنے کے ساتھ ہی) تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی (یعنی جس میں تکلیف جسمانی بھی ہو اور ذلت روحانی بھی ہو) اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی (جھوٹی) باتیں بکتے تھے (جیسے مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اور اُوْحِيَ اِلَيَّ اور سَاُنْزِلُ وغیرہا) ۔ اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات (کے قبول کرنے) سے (جو کہ ذریعہ ہدایت تھی) تکبر کرتے تھے، (یہ کیفیت تو موت کے وقت ہوگی) اور (جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرما دیں گے) تم ہمارے پاس (یارو مدگار سے) تنہا تنہا (ہوکر) آگئے (اور اس حالت سے آئے) جس طرح ہم نے اول بار (دنیا میں) تم کو پیدا کیا تھا (کہ نہ بدن پر کپڑا نہ پاؤں میں جوتا) اور جو کچھ ہم نے تم کو (دنیا میں سازوسامان) دیا تھا، (جس پر تم بھولے بیٹھے تھے) اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے (ساتھ کچھ نہ لاسکے، مطلب یہ کہ مال و دولت کے بھروسہ پر نہ رہنا، یہ سب یہاں ہی رہ جاوے گا) اور (تم میں جو بعض کو اپنے باطل معبودوں کی شفاعت کا بھروسہ تھا سو) ہم تو تمہارے ہمراہ (اس وقت) تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے (جس سے ثابت ہوا کہ واقع میں بھی تمہارے ساتھ نہیں ہیں) جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں (ہمارے) شریک ہیں (کہ تمہارا جو معاملہ عبادت ہمارے ساتھ ہوتا تھا وہی ان کے ساتھ ہوتا تھا) واقعی تمہارے (اور ان کے) آپس میں تو قطع تعلق ہوگیا (کہ آج تم ان سے بیزار اور وہ تم سے بیزار، شفاعت کیا کریں گے) اور وہ تمہارا دعویٰ (جو مذکور ہوا) سب تم سے گیا گزرا ہوا (کچھ کام کا نہ نکلا تو اب پوری پوری مصیبت پڑے گی) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں حضرت خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ کے عظیم الشان انعامات اور ان کے بلند درجات کا ذکر تھا، جن میں پوری نسل آدم (علیہ السلام) کو عموماً اور اہل مکہ و عرب کو خصوصاً عملی صورت میں یہ دکھلانا مقصود تھا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کو اپنا مقصد زندگی ٹھہرا لے اور اس کے لئے اپنی محبوب چیزوں کی قربانی پیش کرے جیسے حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام نے پیش کی کہ ماں باپ اور قوم و وطن سب کو اللہ کے لئے چھوڑ دیا، پھر بناء بیت اللہ کی عظیم خدمت کے لئے ملک شام کے سبزہ زاروں کو چھوڑ کر مکہ کا ریگستان اختیار کیا، بیوی اور بچہ کو جنگل میں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم ہوا تو فوری تعمیل کی اکلوتے محبوب بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا تو اپنے حدِّ اختیار تک اس کی مکمل تعمیل کر دکھائی، ایسے اطاعت گزاروں کا اصل بدلہ تو قیامت کے بعد جنت ہی میں ملے گا، لیکن دنیا میں بھی حق تعالیٰ ان کو وہ مرتبہ اور دولت عطا فرماتے ہیں جس کے سامنے ساری دنیا کی دولتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ - حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اپنی قوم و برادری کو اللہ کے لئے چھوڑا تو اس کے بدلہ میں ان کو انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت ملی جو بیشتر ان کی اولاد ہی میں ہیں، عراقی اور شامی وطن کو چھوڑا تو اللہ کا گھر اور بلد امین اور امّ القریٰ یعنی مکہ نصیب ہوا، ان کی قوم نے ان کو ذلیل کرنا چاہا تو اس کے بدلہ میں ان کو ساری دنیا اور قیام تک آنے والی نسلوں کا امام اور پیشوا بنادیا کہ دنیا کی مختلف اقوام و مذاہب آپ کے بڑے بڑے اختلاف کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم پر متفق چلے آئے ہیں۔- اس سلسلہ میں سترہ انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست شمار کی گئی تھی جن میں سے بیشتر حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد و ذریت میں داخل ہیں، اور یہ بتلایا گیا تھا کہ یہ سب وہ بزرگ ترین ہستیاں ہیں جن کو حق تعالیٰ نے سارے عالم کے انسانوں میں سے اپنے دین کی خدمت کے لئے منتخب فرمایا اور ان کو سیدھا راستہ دکھلایا ہے۔- مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرما کر اہل مکہ کو سنایا گیا ہے کہ کسی قوم کے آباو اجداد محض باپ داد ہونے کی حیثیت سے قابل تقلید نہیں ہوسکتے کہ ان کے ہر قول و فعل کو قابل اتباع سمجھا جائے، جیسا کہ عموماً عرب اور اہل مکہ کا خیال تھا، بلکہ تقلید و اتباع کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جس کی پیروی کرتے ہیں وہ خود بھی ہدایت کے صحیح راستہ پر ہے یا نہیں، اس لئے انبیاء (علیہم السلام) کی ایک مختصر فہرست شمار کرکے فرمایا گیا کہ اولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، پھر فرمایا فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی ہدایت اور طریق کار کو اختیار فرماویں۔- اس میں ایک ہدایت تو اہل عرب اور تمام امت کو یہ ہے کہ تقلید آبائی کی وہم پرستی کو چھوڑیں، اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ بزرگوں کا اتباع کریں۔- دوسری ہدایت خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انہی انبیاء سابقین کا طریق اختیار فرمائیں۔- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں فروعی اور جزوی اختلافات پہلے بھی ہوتے رہے، اور ملت اسلام میں بھی ان سے مختلف بہت سے احکام نازل ہوئے ہیں تو پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انبیاء سابقین کے طریق پر چلنے اور عمل کرنے کا کیا مطلب ہوا ؟ دوسری آیات اور روایات حدیث کے پیش نظر اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تمام فروعی اور جزوی احکام میں انبیاء سابقین کا طریق کار اختیار کرنے کا حکم نہیں، بلکہ اصول دین، توحید، رسالت، آخرت میں ان کا طریق اختیار کرنا مقصود ہے جو کسی پیغمبر کی شریعت میں اَدَل بدل نہیں ہوئے، آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کا یہی ایک عقیدہ اور طریقہ رہا ہے، باقی فروعی احکام جن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، ان میں بھی طریقہ کار مشترک رہا اور جن میں حالات کے بدلنے کی وجہ سے بتقاضائے وقت و حکمت کوئی دوسرا حکم دیا گیا اس کی تعمیل کی گئی۔- یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول یہ تھا کہ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی کوئی خاص ہدایت نہ آئی تھی تو آپ فروعی معاملات میں بھی پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے طریقہ کار پر چلتے تھے (مظہری وغیرہ)- اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصیت کے ساتھ ایک ایسے اعلان کا حکم دیا گیا جس کا اعلان تمام انبیاء سابقین بھی کرتے چلے آئے ہیں، وہ یہ کہ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ” یعنی میں تمہاری زندگی سنوارنے کے لئے جو ہدایات تمہیں دے رہا ہوں اس پر تم سے کوئی فیس اور معاوضہ نہیں لیتا، تم اس کو مان لو تو میرا کوئی نفع نہیں اور نہ مانو تو کوئی نقصان نہیں، یہ تو تمام دنیا جہان کے لوگوں کے لئے نصیحت و خیر خواہی کا پیغام ہے، تعلیم و تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہ لینا تمام انبیاء (علیہم السلام) میں ہمیشہ مشترک چلا آیا ہے، اور تبلیغ کے مؤ ثر ہونے میں اس کا بڑا دخل ہے۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ ٠ۭ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا ٠ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ ٩٠ۧ- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ( اقتده)- فيه إعلال بالحذف لمناسبة البناء، وزنه افتعه .- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
استدلال انبیاء - قول باری ہے ( اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو) اللہ تعالیٰ نے ہمیں توحید باری پر استدلال کرنے کے لیے ان انبیاء کرام کا طریقہ اپنانے کا حکم دیا جن کا یہاں ذکر ہوا ہے ۔ جیسا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے استدلال کے متعلق پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ اس آیت کے عموم سے انبیا نے سابقین کی شریعتوں کی پیروی کے لزوم پر استدلال کیا گیا ہے کہ آیت نے صرف توحید پر استدلال کے لیے سابقہ شریعتوں کی پیروی کی تخصیص نہیں کی بلکہ تمام باتوں میں ان کی پیروی لازم کردی ہے۔ ہم نے اصول فقہ میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
(٩٠) ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ کی ہدایت کی تھی تو ان اخلاق حسنہ یعنی صبر و استقلال قناعت وغیرہ پر آپ بھی چلیے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ میں توحید اور قرآن کریم پر تم سے کسی قسم کی اجرت طلب نہیں کرتا بلکہ قرآن کی طرف بلاتا ہوں یہ قرآن کریم تو جن وانس کے لیے ایک نصیحت ہے۔
آیت ٩٠ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰٹہُمُ اقْتَدِہْ ط) - یعنی ابھی جن ابنیاء و رسل کا ذکر ہوا ہے ‘ سترہ ناموں کا خوبصورت گلدستہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے ‘ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ تھے۔ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا جا رہا ہے کہ آپ بھی ان کے طریقے کی پیروی کریں۔ اس آیت سے ایک بہت اہم نکتہ اور اصول یہ سامنے آتا ہے کہ سابق انبیاء کی شریعت کا ذکر کرتے ہوئے جن احکام کی نفی نہ کی گئی ہو ‘ وہ ہمارے لیے بھی قابل اتباع ہیں۔ مثلاً رجم کی سزا قرآن میں مذکور نہیں ہے ‘ یہ سابقہ شریعت کی سزا ہے ‘ جس کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح قتل مرتد کی سزا کا ذکر بھی قرآن میں نہیں ہے ‘ یہ بھی سابقہ شریعت کی سزا ہے ‘ جس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس نکتے سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ جب تک قرآن و سنت میں سابقہ شریعت کے کسی حکم کی نفی نہیں ہوتی وہ حکم اسلامی شریعت میں برقرار رہتا ہے۔- (قُلْ لَّآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًاط اِنْ ہُوَ الاَّ ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ) - یہ قرآن تو بس اہل عالم کے لیے ایک نصیحت ہے ‘ یاد دہانی ہے ‘ جو چاہے اس سے کسب فیض کرے ‘ جو چاہے اس سے نور حاصل کرے ‘ جو چاہے اس سے صراط مستقیم کی راہنمائی اخذ کرلے۔