Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تمام رسول انسان ہی ہیں اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں ۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لئے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے ، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور کی رسالت کے قائیل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا جیسے قران ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت ( اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ) 10 ۔ یونس:2 ) یعنی کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا ) 17 ۔ الاسراء:94 ) لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے ، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے ۔ یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کر کے فرماتا ہے کہ انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے ؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی ، کفر کے اندھیروں کو جھانٹنے ، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے ، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو ، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو ، قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے ، پجھلی سچی خبریں اس میں موجود ، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری؟ تو خود کہدے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جھالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی ؟ یہ کتاب یعنی قران کریم ہمارا اتارا ہوا ہے ، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لئے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو ، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دے دے ۔ من حولھا سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف:158 ) یعنی اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں اور آیت میں ہے ( ۣوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ) 6 ۔ الانعام:19 ) تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں اور فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 11 ۔ ہود:17 ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور آیت میں فرمایا گیا آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ) 25 ۔ الفرقان:1 ) یعنی اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے اور آیت میں ارشاد ہے آیت ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) یعنی اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر قبول کرلیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 قَدَر کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انھیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے ؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ ) 10 ۔ یونس :2) کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کردیا ہے ؟ دوسرے مقام پر فرمایا (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17 ۔ الاسراء :94) ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے ؟ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر 8 کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ہی بات ہے تو ان سے پوچھو موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کس نے نازل کی تھی (جس کو یہ مانتے ہیں) 91۔ 2 آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کردیتے ہو اور جنکو چاہتے ہو چھپالیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے اور تیسرے آیت کی ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ واللّٰہ اَعْلَمُ 91۔ 3 یہود سے متعلقْ ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔ 91۔ 4 یہ مَنْ اَ نُزَ لَ (کس نے اتارا) کا جواب ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] قرآن کا نزول بشر پر ؟ یہ خطاب یہود کو ہے جنہوں نے رسول دشمنی، بغض وعناد کی بنا پر ایک ایسی حقیقت کا انکار کردیا جو ان کے اپنے ہاں بھی مسلم تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے دو طرح سے جواب دیئے ایک یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت ہی نہیں کیونکہ نہ تو اللہ خود لوگوں سے کلام کرتا ہے اور نہ ہی اس کام کے لیے انسانوں کے لیے کوئی فرشتہ بھیجتا ہے۔ اس کی ممکنہ صورت یہی ہے کہ اللہ اپنا کلام فرشتوں کے ذریعہ صرف نبی پر نازل فرمائے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تو تم تسلیم کرتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) بشر تھے، آدم کی اولاد سے تھے اور ان کے ماں باپ بھی موجود تھے تو ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کس نے اتاری تھی ؟ اگر یہ کتاب اللہ نے نہیں اتاری تھی تو پھر تم اسے اتنا سنبھال سنبھال کر کیوں رکھتے ہو ؟ اور اس کتاب میں جو ہدایت کی باتیں اور علم کی روشنی ہے کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور ایسی باتیں بتاسکتا ہے ؟ جو ہدایت کی باتیں اس کتاب میں موجود ہیں انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباؤ اجداد۔ پھر ایسی کتاب اللہ کے سوا کوئی اتار سکتا تھا ؟ تمہارا اس کتاب کا کچھ حصہ لوگوں کو بتانا اور اپنی خواہشات کے مطابق کچھ حصہ کو چھپانا یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے اور تمہارے لیے حجت ہے ورنہ اگر یہ کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔- خ بشر اور رسول کی بحثیں فضول ہیں یہ ایسے سوال تھے جن کا جواب نہ دینے میں ہی یہود نے اپنی عافیت سمجھی۔ کیونکہ اس کا جواب ان کے خلاف پڑتا تھا لہذا اللہ نے خود ہی اس کا جواب بتادیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ تورات تو اتارنے والا اللہ ہی ہے اور اس نے اسے ایک بشر ہی پر نازل کیا تھا۔ وہی فضول قسم کی بحثیں، مثلاً چونکہ فلاں بشر ہے اس لیے وہ نبی نہیں ہوسکتا یا چونکہ فلاں نبی ہے اس لیے بشر نہیں ہوسکتا۔ تو انہیں ان بحثوں میں ہی الجھا رہنے دیجئے۔ ایسے لوگ ہدایت کے طالب نہیں ہوتے۔- [٩٣۔ الف ] دور نبوی میں تورات کی صورت :۔ اس آیت کے اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں جو تورات یہود کے پاس تھی وہ مجلد کتاب کی صورت میں نہیں تھی بلکہ الگ الگ اوراق کی صورت میں تھی اور یہود کے لیے ایسی صورت میں بددیانتی کرنا نسبتاً بہت آسان تھا وہ جن آیات کو چھپانا چاہتے وہ ورق ہی غائب کردیتے تھے اور جو کچھ اس کتاب میں تحریف کرنا اور من ما فی تاویل یا شرح کرنا مقصود ہوتی تو الگ نیا ورق لکھ کر اس میں شامل کردیتے تھے۔ رجم کی آیت یا رسول اللہ سے متعلقہ آیات کو وہ اسی طرح چھپا جاتے تھے کہ ایسے اوراق درمیان سے نکال کر انہیں غائب کردیتے تھے اور اس بات کی یعنی تورات کے الگ الگ اوراق پر لکھا ہونے کی تائید اس حدیث سے ہوجاتی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر کو ایسے چند اوراق مل گئے جنہیں انہوں نے رسول اللہ کے سامنے پڑھنا شروع کردیا۔ جس سے آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار نمودار ہوگئے اور یہ حدیث اپنے مناسب مقام پر گزر چکی ہے۔- دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تورات کی کئی آیات ایسی بھی تھیں جن کا صحیح مطلب علمائے یہود کو اس وقت معلوم ہوا جب قرآن کی تعلیم عام ہوئی۔ اس سے پہلے نہ علمائے ہود کو ان آیات کے مفہوم کا علم تھا اور نہ ان کے آباؤ اجداد کو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ ۔۔ : یہ خطاب یہود کو ہے، جنھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی اور بغض و عناد کی بنا پر ایسی حقیقت کا انکار کردیا جسے وہ خود بھی مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ اس آیت میں ان کے اعتراض کا دو طرح سے جواب دیا گیا، ایک یہ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر اور اسے پہچاننے کا جو حق تھا اس کے مطابق انھوں نے اسے پہچانا ہی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ خود لوگوں سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کام کے لیے کوئی فرشتہ بھیجتا ہے۔ اس کی ممکن صورت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام فرشتوں کے ذریعے سے صرف نبی پر نازل فرمائے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تو تم بھی مانتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) بشر تھے، آدم کی اولاد سے تھے، ان کے ماں باپ بھی تھے، تو ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کس نے اتاری تھی ؟ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے نہیں اتاری تھی تو پھر تم اسے اتنا سنبھال سنبھال کر کیوں رکھتے ہو ؟ اور اس کتاب میں جو ہدایت کی باتیں اور علم کی روشنی ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ایسی باتیں بتاسکتا ہے ؟ جو ہدایت کی باتیں اس کتاب میں موجود ہیں، انھیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباء و اجداد، پھر تمہارا اس کتاب کا کچھ حصہ لوگوں کو بتانا اور اپنی خواہشات کے مطابق کچھ حصہ چھپانا، یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور تمہارے لیے حجت ہے، ورنہ اگر یہ کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیجیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علوم اور معارف اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ملے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر رسولوں پر بالعموم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بالخصوص وحی کے نازل ہونے کا انکار تم کیسے کرسکتے ہو ؟ یہ سارا خطاب کفار مکہ کو بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کو وہ بھی مانتے تھے۔ ” قَرَاطِيْسَ “ یہ ” قِرْطَاسٌ“ کی جمع ہے، یعنی ورق، کاغذ، یعنی یہودی تورات کو ایک کتاب کی طرح جمع کرنے کے بجائے الگ الگ ورقوں کی صورت میں رکھتے تھے اور اپنے مطلب کا ورق نکال کر دکھا دیتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت ان لوگوں کے جواب میں آئی ہے جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی بشر پر کوئی کتاب نازل ہی نہیں فرمائی۔ یہ کتابوں اور رسولوں کا قضیہ سرے سے غلط ہے۔- اس کے کہنے والے اگر مکہ کے بت پرست ہیں جیسا کہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تو معاملہ ظاہر ہے کہ وہ کسی کتاب اور نبی کے قائل نہ تھے، اور اگر یہود ہیں جیسا کہ دوسرے مفسرین نے اختیار فرمایا اور آیت کا سلسلہ کلام بظاہر اس کی تائید میں ہے تو پھر ان کا ایسا کہنا محض غصہ اور جھنجھلاہٹ کا نتیجہ تھا، جو خود ان کے بھی مذہب کے خلاف تھا، امام بغوی رحمة اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ اسی لئے یہود بھی اس شخص سے ناراض ہوگئے جس نے یہ بات کہی تھی، اور اسی غلطی کی وجہ سے اس کو مذہبی پیشوائی کے عہدہ سے ہٹا دیا تھا۔- اس آیت میں حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ جن لوگوں نے یہ بیہودہ کلمہ کہا انہوں نے حق تعالیٰ کو پہچاننے کی طرح نہیں پہچانا، ورنہ یہ گستاخانہ کلمہ ان کے منہ سے نہ نکلتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے جو مطلق آسمانی کتابوں کا انکار کرتے ہیں یہ کہہ دیجئے کہ اگر بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نہیں بھیجی، تو یہ بتلاؤ کہ یہ تورات جس کو تم بھی مانتے ہو اور اسی کی وجہ سے قوم کے چودھری بنے بیٹھے ہو یہ کس نے نازل کی ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ تم وہ ٹیڑھے چلنے والے ہو کہ جس کتاب تورات کو تم آسمانی کتاب کہتے اور مانتے ہو اس کے ساتھ بھی تمہارا یہ معاملہ ہے کہ تم نے اس کو بندھی ہوئی کتاب کے بجائے متفرق اوراق میں لکھ چھوڑا ہے، تاکہ جب تمہارا جی چاہیے کسی ورق کو درمیان سے نکال دو ، اور اس کے مضمرات سے انکار کردو، جیسے تورات کی وہ آیات جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامات اور صفات کے متعلق تھیں ان کو تم نے نکال دیا ہے، آیت کے آخری جملہ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ کا یہی مطلب ہے، قراطیس، قرطاس کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ورق، کاغذ۔- اس کے بعد انہی لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤ ُ كُمْ یعنی قرآن کے ذریعہ تمہیں تورات و انجیل سے زائد بھی وہ علم دیا گیا ہے جس کی نہ تمہیں اس سے پہلے خبر تھی، نہ تمہارے باپ داداوں کو۔ - آخر آیت میں فرمایا : قُلِ اللّٰهُ ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ یعنی اس سوال کا جواب کہ جب اللہ نے کوئی کتاب ہی نہیں بھیجی تو تورات کس نے نازل کی وہ تو کیا دیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمائی ہے، اور جب ان پر حجت تمام ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ختم ہوگیا، اب وہ جس لہو ولعب میں کھوئے ہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّہُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا۝ ٠ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ۝ ٠ۭ قُلِ اللہُ۝ ٠ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِيْ خَوْضِہِمْ يَلْعَبُوْنَ۝ ٩١- قدر - تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين :- أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] .- والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه - وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه،- ، ، تقدیرالہی ِ ، ،- کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔- - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - قرطس - القِرْطَاسُ : ما يكتب فيه . قال اللہ تعالی: وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام 7] ، قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام 91] .- ( ق ر ط س ) القرطاس ۔ ہر وہ چیز جس پر لکھا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً فِي قِرْطاسٍ [ الأنعام 7] اور اگر ہم تم پر کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب نازل کرتے قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتابَ الَّذِي جاءَ بِهِ مُوسی نُوراً وَهُدىً لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَراطِيسَ [ الأنعام 91] کہو کہ جو کتاب موسیٰ لیکر آئے تھے اسے کسی نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحہ ہ علیحہ ہ اوراق ( میں نقل ) کر رکھا ہے ۔- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- خوض - الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ- [ التوبة 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ- [ الأنعام 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث :- تفاوضوا .- ( خ و ض ) الخوض - ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔- لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩١) ان منکر لوگوں نے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدر پہچاننا واجب تھی دیسی قدر نہ پہچانی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام میں سے کسی پر کوئی کتاب نازل نہیں کی، یہ آیت مالک بن صیف یہودی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں کی۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مالک سے فرمائیے یہ تو بتا کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے جو خود بھی نور اور روشنی ہے اور لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے جس کو تم نے اپنی اغراض کے تحت مختلف اوراق میں لکھ چھوڑا ہے، ان میں سے بہت سی باتوں کو جن میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت نہیں ہے، ظاہر کرتے ہو اور بہت سی ان باتوں کو جن میں آپ کی نعت وصفت ہے چھپاتے ہو۔- اور کتاب میں بہت سی ایسی باتوں کی تعلیم دی گئی، مثلا احکام وحدود حلال و حرام اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف وصفت جن کی اس سے پہلے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو کچھ بھی خبر نہیں تھی، سو اگر یہ آپ کو جواب میں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ ان سے فرما دیجیے کہ یہ کتاب حق بھی اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے اور اس کے بعد ان کو ان کے بیہودہ مشغلہ تکذیب وگمراہی میں لگا رہنے دیجیے۔- شان نزول : (آیت) ” وما قدرو اللہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ مالک بن صیف نام ایک یہودی نے آکر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاصمہ کرنا شروع کردیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے اس ذات کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں جس نے توریت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی ہے کیا تو نے توریت میں یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ موٹی آدمی سے بغض فرماتے ہیں اور وہ خود موٹا تھا یہ سن کر غصہ میں آگیا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی تو اس سے اس کے ساتھیوں نے کہا کہ تیرا منہ کالا ہو۔ (یعنی تو رسوا ہو) اس کا مطلب ہے کہ نہ حضرت موسیٰ پر کوئی کتاب نازل ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان منکروں نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر پہچاننا واجب تھی ویسی قدر نہیں پہچانی، یہ روایت مرسل ہے۔- اور ابن جریر (رح) نے اسی طرح عکرمہ (رض) سے روایت نقل کی ہے اور دوسری حدیث سورة نساء میں گزر چکی ہے۔- اور ابن جریر (رح) نے ابن ابی طلحہ (رض) کے طریق سے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ یہودی کہنے لگے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کوئی کتاب نازل نہیں کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب اس ردّو قدح کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو مکہ کے لوگ یہودیوں کے سکھانے پڑھانے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر رہے تھے۔ اب تک اس سورة میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ خالص مکہ کے مشرکین کی طرف سے تھی اور انہی کے ساتھ سارا مکالمہ اور مناظرہ تھا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ دونوں سورتیں (سورۃ الانعام اور سورة الاعراف) مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔ اس وقت تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور نبوت کے دعوے کا چرچا مدینہ منورہ میں بھی پہنچ چکا تھا اور اہل کتاب (یہود) نے خطرے کو بھانپ کر وہیں بیٹھے بیٹھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کردی تھیں۔ وہ ضد اور ہٹ دھرمی میں یہاں تک کہہ بیٹھے تھے کہ ان مسلمانوں سے تو یہ مشرک بہتر ہیں جو بتوں کو پوجتے ہیں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کی ایک بات وہ ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے ۔- آیت ٩١ (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍ ط) - وحی الٰہی کے بارے میں یہ صاف انکار ) ( ان لوگوں کا تھا جو خود کو الہامی کتاب کے وارث سمجھتے تھے۔ اہل مکہ تو چونکہ آسمانی کتابوں سے واقف ہی نہیں تھے اس لیے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور وحی کا ذکر یہود سے کیا اور ان سے رائے پوچھی۔ اس پر یہودیوں کا جواب یہ تھا کہ یہ سب خیال اور وہم ہے ‘ اللہ نے کسی انسان پر کبھی کوئی چیز اتاری ہی نہیں۔ اب اہل مکہ نے یہودیوں کے پڑھانے پر قرآن مجید پر جب یہ اعتراض کیا تو اس کے جواب میں مشرکین مکہ سے خطاب نہیں کیا گیا ‘ بلکہ برا ہِ راست یہود کو مخاطب کیا گیا جن کی طرف سے یہ اعتراض آیا تھا ‘ اور ان سے پوچھا گیا کہ اگر اللہ نے کسی انسان پر کبھی کچھ نازل ہی نہیں کیا تو :- (قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ ) - تو کیا تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے من گھڑت تھی ؟ کیا انہوں نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیا تھا ؟ - (تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا ج) - یہود اپنی الہامی کتاب کے ساتھ جو سلوک کرتے رہے تھے وہ بھی انہیں جتلا دیا۔ یہودی علماء نے تورات کے احکام کو نہ صرف پسند اور ناپسند کے خانوں میں تقسیم کردیا تھا بلکہ اپنی من مانی فتویٰ فروشیوں کے لیے اس کو اس طرح چھپا کر رکھا تھا کہ عام لوگوں کی دسترس اس تک ناممکن ہو کر رہ گئی تھی۔ - (وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلاآ اٰبَآؤُکُمْ ط) (قُلِ اللّٰہُلا) - یعنی پھر خود ہی جواب دیجیے کہ تمہاری اپنی الہامی کتابیں تورات اور انجیل بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہیں اور اب یہ قرآن بھی اللہ ہی نے نازل فرمایا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :59 پچھلے سلسلہ بیان اور بعد کی جوابی تقریر سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ قول یہودیوں کا تھا ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ یہ تھا کہ میں نبی ہوں اور مجھ پر کتاب نازل ہوئی ہے ، اس لیے قدرتی طور پر کفار قریش اور دوسرے مشرکین عرب اس دعوے کی تحقیق کے لیے یہود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے پوچھتے تھے کہ تم بھی اہل کتاب ہو ، پیغمبروں کو مانتے ہو ، بتاؤ کیا واقعی اس شخص پر اللہ کا کلام نازل ہوا ہے؟ پھر جو کچھ جواب وہ دیتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرگرم مخالفین جگہ جگہ بیان کرکے لوگوں کو برگشتہ کرتے پھرتے تھے ۔ اسی لیے یہاں یہودیوں کے اس قول کو ، جسے مخلافین اسلام نے حجت بنا رکھا تھا ، نقل کر کے اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ شُبہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک یہودی جو خود توراۃ کو خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب مانتا ہے ، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ لیکن یہ شبہ صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر بسا اوقات آدمی کسی دوسرے کی سچی باتوں کو رد کرنے کے لیے ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جن سے خود اس کی اپنی مسلمہ صداقتوں پر بھی زد پڑ جاتی ہے ۔ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو رد کرنے پر تلے ہوئے تھے اور اپنی مخالفت کے جوش میں اس قدر اندھے ہو جاتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تردید کرتے کرتے خود رسالت ہی کی تردید کر گزرتے تھے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا جب یہ کہا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر علم حق اور ہدایت نامہ زندگی نازل نہیں کیا ہے وہ یا تو بشر پر نزول وحی کو ناممکن سمجھتا ہے اور یہ خدا کی قدرت کا غلط اندازہ ہے ، یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے انسان کو ذہانت کے ہتھیار اور تصرف کے اختیارات تو دے دیے مگر اس کی صحیح رہنمائی کا کوئی انتظام نہ کیا ، بلکہ اسے دنیا میں اندھا دھند کام کرنے کے لیے یونہی چھوڑ دیا ، اور یہ خدا کی حکمت کا غلط اندازہ ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :60 یہ جواب چونکہ یہودیوں کو دیا جارہا ہے اس لیے موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کے نزول کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ خود اس کے قائل تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ تسلیم کرنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ نازل ہوئی تھی ، ان کے اس قول کی آپ سے آپ تردید کردیتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ۔ نیز اس سے کم از کم اتنی بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور ہو چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: یہاں سے بعض یہودیوں کی تردید مقصود ہے۔ آنحضرتﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ ان کے ایک سردار مالک بن صیف نے غصے میں آکر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اللہ نے کسی اِنسان پر کچھ نازل نہیں کیا۔ 34: یعنی پوری کتاب کو ظاہر کرنے کے بجائے تم نے اسے حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ جو حصے تمہارے مطلب کے مطابق ہوتے ہیں اُن کو تو عام لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتے ہو، مگر جو حصے تمہارے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، انہیں چھپا لیتے ہو۔