[٩٣۔ ب ] قرآن بابرکت کتاب کیسے ؟ یہ قرآن کریم ہی کے بابرکت ہونے کا نتیجہ تھا کہ اس نے عرب جیسی جاہل قوم کو، جو قبائلی عصبیت کی وجہ سے ہر وقت برسرپیکار اور لڑتی مرتی رہتی تھی۔ ایک مہذب قوم بنا کر چند ہی سالوں میں اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ان کے اخلاق و عادات اس قدر اعلیٰ بن گئے کہ یہی جاہل، وحشی اور اجڈ قوم تمام اقوام عالم کی پیشوا بن گئی۔ بڑی بڑی طاقتوں کو سرنگوں کیا اور دنیا کے ایک کثیر حصہ پر قابض ہو کر ان میں علوم و تہذیب پھیلانے کا سبب بن گئی۔ قرآن کی تعلیم نے انہیں ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر عزت کے بلند مقامات پر پہنچا دیا۔- [٩٤] قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے پر چار دلائل :۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ ایک بشر پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ جنہیں سب لوگ بشر تسلیم کرتے تھے پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کتاب قرآن فی الواقع اللہ کا کلام ہے تو اس پر چار دلائل پیش کئے گئے۔ ایک یہ کہ یہ کتاب اتنی خیر و برکت والی ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو اور شعبے کے لیے تمہیں ہدایت فراہم کرتی ہے جو عقائد صحیحہ اور اخلاق فاضلہ اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتی ہے اور اس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اصول پیش کیے گئے ہیں۔ اور اس کے منزل من اللہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جو سابقہ کتب سماویہ کی ہیں۔ کوئی نئی بات پیش نہیں کرتی بلکہ انہی چیزوں کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو پہلی کتب میں پیش کی گئی تھیں۔ تیسرے یہ کہ اس کتاب کا مقصد غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنا اور انہیں ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے اور آپ کو ہدایت کی گئی کہ آپ اس کام کا آغاز اس مرکزی شہر مکہ اور اس کے پاس کی بستیوں سے کیجئے اور چوتھی بات جو بطور نتیجہ بتائی گئی یہ ہے کہ اس کتاب سے ہدایت صرف وہ لوگ پائیں گے جو اپنی خواہشات نفس کے غلام نہ ہوں بلکہ اللہ اور روز آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہوں اور اس کی واضح علامت کے طور پر نماز کی باقاعدگی سے محافظت کرتے ہوں۔ اور یہ سب ایسی باتیں ہیں جو کسی انسان کی تصنیف شدہ کتاب میں نہیں ہوسکتیں۔
وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي : اس آیت میں مکہ کو ” ام القریٰ “ کہا گیا ہے، جس کا معنی ہے تمام بستیوں کی جڑ یا ان کا مرکز اور ” وَمَنْ حَوْلَهَا ۭ‘ سے مراد قبائل عرب اور آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں، خواہ عرب ہوں یا عجم۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً )” مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ “ [ بخاری، الصلاۃ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ( جعلت لی الأرض۔۔ ) : ٤٣٨ ] نیز دیکھیے سورة انعام (٩) ، سورة اعراف (١٥٨) اور سورة سبا ( ٢٨) ۔ - وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ : کیونکہ قرآن مجید آخرت کی راہ بتلاتا ہے۔ - وَهُمْ عَلٰي صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ : کیونکہ نماز تمام عبادتوں کی اصل اور آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اس شخص کا ایمان آخرت پر صحیح اور درست ہے جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور نماز کی نگہداشت اور نگرانی کرتا ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا یا نماز کی حفاظت نہیں کرتا اس کا آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔
ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف نازل ہونے والی کتابوں کے بارے میں ان پر حجت تمام کرنے کے بعد تیسری آیت میں ارشاد فرمایا : وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ، یعنی جس طرح تورات کا خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونا انھیں بھی تسلیم ہے اسی طرح یہ قرآن بھی ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے حق و صدق ہونے کے واسطے ان کے لئے یہ شہادت کافی ہے کہ قرآن ان سب چیزوں کی تصدیق کرتا ہے جو تورات و انجیل میں نازل ہوئی ہیں، اور تورات و انجیل کے بعد اس کے نازل کرنے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ یہ دونوں کتابیں تو بنی اسرائیل کے لئے بھیجی گئی تھیں، ان کے دوسری شاخ بنی اسماعیل جو عرب کہلاتے ہیں اور ام القریٰ یعنی مکہ اور اس کے اردگرد بستے ہیں، ان کی ہدایت کے لئے کوئی خاص پیغمبر اور کتاب اب تک نہ آئی تھی، اب یہ قرآن ان کے لئے خصوصاً اور پورے عالم کے لئے عموماً نازل کیا گیا ہے، مکہ معظمہ کو قرآن کریم نے ام القریٰ فرمایا، یعنی تمام شہروں اور بستیوں کی جڑ اور بنیاد، اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی روایات کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتداء یہیں سے ہوئی ہے، نیز یہ کہ سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے (مظہری) ام القریٰ کے ساتھ وَمَنْ حَوْلَهَا فرمایا، یعنی مکہ کے تمام اطراف جس میں پورا عالم مشرق و مغرب اور جنوب و شمال داخل ہے۔- آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا : وَالَّذِيْنَ يُؤ ْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَة ” یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ اس میں یہود اور مشرکین کی ایک مشترک بیماری پر تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ بےفکری کہ جس کو چاہا مانا جس کو چاہا رد کردیا، اور اس کے خلاف محاذ بنا لیا، یہ اس مرض کا اثر ہے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، جس شخص کو آخرت اور یوم الحسنات پر ایمان ہوگا اس کو خوف خدا ضرور اس طرف متوجہ کرے گا، کہ دلائل میں غور کرے، اور حق بات کو قبول کرنے میں آبائی رسوم جاہلیت کی پروا نہ کرے۔- اور اگر غور کیا جائے تو آخرت سے بےفکری ہی اُمّ الامراض ہے، کفر و شرک بھی اسی کا نتیجہ ہوتا ہے اور سارے گناہ اور معاصی بھی، آخرت پر یقین رکھنے والے سے اگر کبھی کوئی غلطی اور گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اور بالآخر توبہ کرکے آگے کے لئے گناہ سے بچنے کا عزم کرتا ہے، اور درحقیقت خوف خدا اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی اور جرائم سے باز رکھتی ہے، اسی لئے قرآن کریم کی کوئی سورت بلکہ کوئی رکوع بھی شاید اس سے خالی نہیں کہ جس میں فکر آخرت کی طرف متوجہ نہ کیا گیا ہو، اللہم اجعل جملة ھمو منا ھما واحداھم الآخرۃ۔
وَہٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَہَا ٠ۭ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ ٩٢- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- صِّدِّيقُ- : من کثر منه الصّدق، وقیل : بل يقال لمن لا يكذب قطّ ، وقیل : بل لمن لا يتأتّى منه الکذب لتعوّده الصّدق، وقیل : بل لمن صدق بقوله واعتقاده وحقّق صدقه بفعله، قال :- وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 41] ، وقال : وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 56] ، وقال : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة 75] ، وقال :- فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء 69] ، فَالصِّدِّيقُونَ هم قوم دُوَيْنَ الأنبیاء في الفضیلة علی ما بيّنت في «الذّريعة إلى مکارم الشّريعة»- صدیق وہ ہے جو قول و اعتقاد میں سچا ہو اور پھر اپنی سچائی کی تصدیق اپنے عمل سے بھی کر دکھائے ۔ قرآن میں ہے ؛وَاذْكُرْ فِي الْكِتابِ إِبْراهِيمَ إِنَّهُ كانَ صِدِّيقاً نَبِيًّا [ مریم 41] اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے ۔ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ [ المائدة 75] اور ان کی والدہ ( مریم ) خدا کی ولی تھی ۔ اور آیت ؛مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ [ النساء 69] یعنی انبیاء اور صدیق اور شہداء میں صدیقین سے وہ لوگ مراد ہیں جو فضیلت میں انبیاء سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الی پکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔- «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] - بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ - أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
(٩٢) اور یہ قرآن کریم بذریعہ جبریل امین ہم نے نازل کیا ہے جو مومن کے لیے رحمت ومغفرت کا باعث ہے اور توریت، انجیل، زبور اور تمام کتب سماویہ کو بیان اور توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت میں موافقت کرنے والا ہے تاکہ آپ اس قرآن کریم کے ذریعے خصوصیت کے ساتھ مکہ والوں اور تمام شہر والوں کو ڈرائیں مکہ کو ام القری اس کی عظمت کی بنا پر کہنے لگا جاتا ہے یا یہ کہ تمام زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے، اس لیے اس کو ام القری (تمام شہروں، بستیوں کی ماں) کہتے ہیں۔- اور جو لوگ بعث بعد الموت اور جنت کی نعمتوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر ایمان لے آتے ہیں، اور پانچوں نمازوں کے اوقات کی پابندی کرتے ہیں۔
آیت ٩٢ (وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا ط) - قُریٰ جمع ہے قریہ کی اور اُمُّ القُریٰ کا مطلب ہے بستیوں کی ماں ‘ یعنی کسی علاقے کا سب سے بڑا شہر۔ ہر ملک میں ایک سب سے بڑا اور سب سے اہم شہر ہوتا ہے ‘ اسے دار الخلافہ کہیں یا دار الحکومت۔ وہ بڑا شہر پورے ملک کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ عرب میں اس وقت کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی جس کا کوئی دارالحکومت ہوتا ‘ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر مکہ مکرمہ کو پورے عرب میں ایک مرکزی شہر کی حیثیت حاصل تھی۔ خانہ کعبہ کی وجہ سے یہ شہر مذہبی مرکز تھا۔ عرب کے تمام قبائل یہاں حج کے لیے آتے تھے۔ کعبہ ہی کی وجہ سے قریش مکہ کو خطے کی تجارتی سر گرمیوں میں ایک خاص اجارہ داری ( ) حاصل تھی۔ چناچہ اہل مکہ کے ہاں پیسے کی ریل پیل تھی اور عام لوگ خوشحال تھے۔ یہاں تجارتی قافلوں کا آنا جانا سارا سال لگا رہتا تھا۔ یمن سے قافلے چلتے تھے جو مکہ سے ہو کر شام کو جاتے تھے اور شام سے چلتے تھے تو مکہ سے ہو کر یمن کو جاتے تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر شہر مکہ بجا طور پر علاقے میں اُمُّ القریٰ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف یہ کتاب مبارک نازل کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمُّ الْقریٰ میں بسنے والوں کو خبردار کریں اور پھر ان کو بھی جو اس کے ارد گرد بستے ہیں۔ یہاں پر وَمَنْ حَوْلَھَا کے الفاظ میں جو فصاحت اور وسعت ہے اسے بھی سمجھ لیں۔ ماحول کا دائرہ بڑھتے بڑھتے لامحدود ہوجاتا ہے۔ اس کا ایک دائرہ تو بالکل قریبی اور ہوتا ہے ‘ پھر اس سے باہر ذرا زیادہ فاصلے پر ‘ اور پھر اس سے باہر مزید فاصلے پر۔ یہ دائرہ پھیلتے پھیلتے پورے کرۂ ارض پر محیط ہوجائے گا۔ اگر دور نبوی میں کرۂ ارض کی آبادی کو دیکھا جائے تو اس وقت براعظم ایک لحاظ سے تین ہی تھے ‘ ایشیا ‘ یورپ اور افریقہ۔ امریکہ بہت بعد میں دریافت ہوا ہے جبکہ آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا بھی معلوم دنیا کا حصہ نہ تھے۔ دنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو ایشیا ‘ یورپ اور افریقہ تینوں براعظم جہاں پر مل رہے ہیں ‘ تقریباً یہ علاقہ وہ ہے جسے اب مڈل ایسٹ یا مشرق وسطیٰ کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ نام (مڈل ایسٹ) اس علاقے کے لیے ہے ‘ یعنی درست نام نہیں ہے ‘ لیکن بہرحال یہ علاقہ ایک نقطۂ اتصال ہے جہاں ایشیا ‘ یورپ اور افریقہ آپس میں مل رہے ہیں اور اس جنکشن پر یہ جزیرہ نمائے عرب واقع ہے۔ یہ علاقہ اس اعتبار سے پوری دنیا کے لیے بھی ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناچہ مَنْ حَوْلَھَا کے دائرے میں پوری دنیا شامل سمجھی جائے گی ۔- (وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ) - یعنی قرآن کے مخاطب لوگوں میں سے کچھ تو مشرک ہیں اور کچھ وہ ہیں جو بعث بعد الموت کے سرے سے ہی منکر ہیں ‘ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے کا ذرا سا بھی تصور موجود ہے وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ اشارہ صالحین اہل کتاب کی طرف ہے۔
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :61 پہلی دلیل اس بات کے ثبوت میں تھی کہ بشر پر خدا کا کلام نازل ہو سکتا ہے اور عملاً ہوا بھی ہے ۔ اب یہ دوسری دلیل اس بات کے ثبوت میں ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یہ خدا ہی کا کلام ہے ۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے چار باتیں شہادت کے طور پیش کی گئی ہیں: ایک یہ کہ یہ کتاب بڑی خیر و برکت والی ہے ، یعنی اس میں انسان کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اصول پیش کیے گئے ہیں ۔ عقائد صحیحہ کی تعلیم ہے ، بھلائیوں کی ترغیب ہے ، اخلاق فاضلہ کی تلقین ہے ، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی ہدایت ہے ، اور پھر یہ جہالت ، خودغرضی ، تنگ نظری ، ظلم ، فحش اور دوسری ان برائیوں سے ، جن کا انبار تم لوگوں نے کتب مقدسہ کے مجموعہ میں بھر رکھا ہے ، بالکل پاک ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس سے پہلے خدا کی طرف سے ہدایت نامے آئے تھے یہ کتاب ان سے الگ ہٹ کر کوئی مختلف ہدایت پیش نہیں کرتی بلکہ اسی چیز کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو ان میں پیش کی گئی تھی ۔ تیسرے یہ کہ یہ کتاب اسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں اللہ کی طرف سے کتابوں کے نزول کا مقصد رہا ہے ، یعنی غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانا اور کج روی کے انجام بد سے خبردار کرنا ۔ چوتھے یہ کہ کتاب کی دعوت نے انسانوں کے گروہ میں سے ان لوگوں کو نہیں سمیٹا جو دنیا پرست اور خواہش نفس کے بندے ہیں ، بلکہ ایسے لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا ہے جن کی نظر حیات دنیا کی تنگ سرحدوں سے آگے تک جاتی ہے ، اور پھر اس کتاب سے متاثر ہو کر جو انقلاب ان کی زندگی میں رونما ہوا ہے اس کی سب سے زیادہ نمایاں علامت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان اپنی خدا پرستی کے اعتبار سے ممتاز ہیں ۔ کیا یہ خصوصیات اور یہ نتائج کسی ایسی کتاب کے ہو سکتے ہیں جسے کسی جھوٹے انسان نے گھڑ لیا ہو جو اپنی تصنیف کو خدا کی طرف منسوب کر دینے کی انتہائی مجرمانہ جسارت تک کر گزرے؟