Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ جہاد کا ایک انتہائی نیک عمل بتلایا گیا جو اللہ کو بہت محبوب ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] جہاد کے سلسلہ میں تین ہدایات :۔ یہ ارشاد الٰہی تو ایک عام حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ قول و فعل کا تضاد اللہ کے ہاں سخت ناپسندیدہ چیز ہے اور اس کا خصوصی پہلو یہ ہے کہ مکی زندگی کے دوران جبکہ مسلمانوں کو صرف صبر اور برداشت کا حکم تھا کئی مسلمان یہ آرزو کرتے تھے کہ انہیں کافروں سے لڑائی کی اجازت ملنی چاہیے اور اگر ہمیں یہ اجازت مل جائے تو ہم کافروں کو تہس نہس کردیں۔ مگر جب اجازت مل گئی تو بعض لوگ یوں کہنے لگے کہ پروردگار ہم پر قتال کو فرض کرنے کی اتنی بھی کیا جلدی پڑی تھی (٤: ٧٧) اور کچھ لوگوں کے تو یہ حکم سن کر رنگ ہی اڑ گئے۔ انہیں یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ بس ابھی موت آئی کہ آئی (٤٧: ٢٠) قول و فعل میں اس قدر تضاد اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اور جو بات اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جہاد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین شرطیں بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ یہ جہاد محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ہو، کوئی دوسری غرض اس سے وابستہ نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ دشمن کے سامنے اس طرح صف بندی کی جائے کہ اس میں کوئی رخنہ باقی نہ رہنے پائے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے پائے ثبات میں کسی طرح کی لغزش یا تزلزل نہ آنے پائے۔ اور اپنی جگہ پر اس قدر جم کر مضبوطی سے کھڑے ہو کہ یوں معلوم ہو، جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اِنَّ اللہ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ ۔۔۔۔۔:” مرصوص “” الرصاص “ سیسہ (سکہ)” رص یرص رصا “ ( ن) ایک چیز کو دوسری کے ساتھ خوب جوڑ دینا ، چمٹا دینا ۔ اس میں سیسے کے اجزا کے باہم متصل ہونے کی تشبیہ ملحوظ ہے۔ ” بنیان “” بنی یبنی بنائ “ (ض) سے مصدر یہ بمعنی اسم مفعول بنائی ہوئی عمارت۔” بنیان مرصوص “ ایسی عمارت جس کے اجزاء ایک دوسرے سے سیسے کی طرح ملے ہوئے ہوں۔- ٢۔ اس جگہ اس آیت کا آنا دلیل ہے کہ پہلی آیات کا تعلق قتال فی سبیل اللہ سے ہے۔- ٣۔ اس آیت سے قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں کی فضیلت ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں ۔ ابو سعیدخدری (رض) بیان کرتے ہیں :( قبل یا رسول اللہ ای الناس افضل ؟ فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومن بجاھد فی سبیل اللہ بنفسہ وما لہ ، قالوا ثم من ؟ قال مومن فی شعب من الشعاب یتقی اللہ و یدع الناس من شرہ) (بخاری ، الجھاد والسیر، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ۔۔۔۔: ٢٧٨٦)” لوگوں نے کہا ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سے افضل ( سب سے بہتر) کون ہے ؟ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ مومن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ جہاد کرتا ہے “۔ انہوں نے کہا : ’ ’ پھر کون ؟ “ فرمایا :” وہ مومن جو گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں ہے ، اللہ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے “۔- ٤۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبوبیت انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن میں یہ اوصاف موجود ہوں ، ایک یہ کہ وہ جان بچانے والے نہ ہوں بلکہ لڑنے والے اور جان و مال قربان کرنے والے ہوں ۔ دوسرا یہ کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی سر بلندی کے لیے لڑیں ۔ تیسرا یہ کہ وہ صف باندھ کر نظم و تربیت کے ساتھ لڑیں ، اس میں اطاعت امیر بھی شامل ہے کہ جہاں ان کی ذمہ داری لگا دی جائے وہاں ڈٹے رہیں ، اس کے بغیر نہ صف بنتی ہے نہ قائم رہتی ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ عقیدہ و مقصد میں ، ایک دوسرے سے محبت میں اور ایک دوسرے پر اعتماد میں پوری طرح یک جان ہوں ، جس طرح ” بنیان مرصوص “ میں کوئی رخنہ نہیں ہوتا ان میں بھی کسی قسم کا کوئی رخنہ نہ پایا جائے۔ پھر جس طرح ” بنیان مرصوص “ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتی ان کے قدم بھی کسی صورت میدان سے اکھڑنے نہ پائیں ، جیسا کہ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ تمام اوصاف پائے جاتے تھے ۔ دیکھئے سورة ٔ فتح کی آیت (٢٩) (اشد اء علی الکفار رحماء بینھم) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اگلی آیات میں اس اصل معاملہ کا ذکر ہے جو اس سورت کے نزول کا سبب بنا یعنی اس کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ محبوب ہے، اس کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ، یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب وہ صف قتال ہے جو اللہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے قائم ہو اور مجاہدین کے عزم و ہمت کی وجہ سے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہو کہ ان کے قدموں میں کوئی تزلزل نہ آنے پائے۔- اس کے بعد حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کی راہ میں دشمنوں کی ایذا میں سہنے کا ذکر ہے اور اس کے بعد پھر مسلمانوں کو جہاد کی تلقین کی گئی، حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے واقعات جن کا ذکر اس جگہ آیا ہے اس میں بھی بہت سے علمی و عملی فوائد اور ہدایات ہیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے کہ انہوں نے جب بنی اسرائیل کو اپنی نبوت کے ماننے اور اطاعت کرنے کی دعوت دی تو دو چیزوں کو خصوصیت سے ذکر فرمایا ایک یہ کہ وہ کوئی انوکھے رسول نہیں، انوکھی باتیں لے کر نہیں آئے بلکہ وہ باتیں ہیں جو پہلے انبیاء (علیہم السلام) کہتے آئے ہیں اور پہلی آسمانی کتابوں میں مذکور ہیں اور بعد میں بھی جو آخری پیغمبر آنے والے ہیں وہ بھی اسی قسم کی ہدایات لے کر آئیں گے۔- یہاں پہلی کتابوں میں سے تورات کا خصوصیت سے ذکر غالباً اس لئے کیا کہ بنی اسرائیل پر نازل ہونے والی قریبی کتاب وہی تھی ورنہ تصدیق انبیاء تو سب پچھلی کتابوں کو شامل اور عام ہے، نیز اس میں اشارہ اس طرف بھی ہے کہ شریعت عیسوی اگرچہ مستقل شریعت ہے مگر اس کے اکثر احکام شریعت موسوی اور تورات کے احکام ہی کے مطابق ہیں، صرف چنداحکام ہیں جو بدلے گئے ہیں، یہ تو پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کا مضمون تھا، دوسری چیز یہ کہ بعد میں آنے والے رسول کی خوشخبری سنائی، اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی ہدایات بھی اسی کے مطابق ہوں گی، اس لئے اس پر ایمان لانا عین تقاضائے عقل و دیانت ہے۔- ساتھ ہی جس آنے والے رسول کی خوشخبری عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو سنائی، اس کا نام پتہ بھی انجیل میں بتلا دیا گیا، اس میں بنی اسرائیل کو اس کی ہدایت ہے کہ جب وہ رسول تشریف لائیں تو تمہارا فرض ہوگا کہ ان پر ایمان لاؤ اور ان کی اطاعت کرو وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَد میں اسی کا بیان ہے، اس میں آنے والے رسول کا نام احمد بتلایا گیا ہے، ہمارے نبی خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام محمد بھی تھا اور احمد بھی اور بھی متعدد نام تھے، مگر انجیل میں آپ کا نام احمد بتلانے میں شاید یہ مصلحت ہو کہ محمد نام رکھنے کا عرب میں قدیم سے دستور تھا، اس لئے اس نام کے دوسرے آدمی بھی عرب میں تھے، بخلاف احمد کے، یہ نام عرب میں معروف نہیں تھا، وہ آپ کی ذات ہی کے ساتھ مخصوص تھا۔- انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت :- یہ سب کو معلوم ہے اور خود یہود و نصاریٰ کو بھی اس کا اقرار کرنا پڑا ہے کہ تورات و انجیل میں تحریف ہوئی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں تحریف اتنی ہوئی ہے کہ اصل کلام کا پہچاننا بھی آسان نہیں رہا، موجودہ تحریف شدہ انجیل کی بنا پر آج کل کے عیسائی قرآن کی اس خبر کو تسلیم نہیں کرتے کہ انجیل میں کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد لے کر خوشخبری دی گئی ہو، اس کا مختصر جواب وہ کافی ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکا ہے۔- اور مفصل جواب کے لئے حضرت مولانا رحمتہ اللہ کیرانوی (رح) کی کتاب اظہار الحق کا مطالعہ کیا جائے جو مذہب عیسائیت کی حقیقت اور انجیل میں تحریفات اور باوجود تحریفات کے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارتیں موجود ہونے کے متعلق بینظیر کتاب ہے، خود بڑے عیسائیوں کے مقولے چھپے ہوئے ہیں کہ اگر ” دنیا میں یہ کتاب شائع ہوتی رہی تو عیسائیت کا کبھی فروغ نہیں ہو سکتا “۔- یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی تھی پھر ترکی، انگریزی میں اس کے ترجمے چھپے، مگر اس کے شواہد موجود ہیں کہ عیسائی مشن نے اس کتاب کو گم کردینے میں اپنی پوری کوشش صرف کی ہے، اس کا اردو ترجمہ اب تک نہیں ہوا تھا، حال میں اس کا اردو ترجمہ دارالعلوم کراچی کے مدرس مولانا اکبر علی صاحب نے اور تحقیقات جدیدہ مفید موجودہ زمانے کی مطبوعہ انجیلوں سے مولانا محمد تقی صاحب استاذ دارالعلوم نے لکھی ہیں جو تین جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، اس کی تیسری جلد میں صفحہ 182 سے صفحہ 362 تک انہی بشارتوں کی تفصیل موجودہ انجیلوں کے حوالے سے اور شبہات کے جوابات مذکور ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝ ٤- إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- صف - الصَّفُّ : أن تجعل الشیء علی خط مستو، کالناس والأشجار ونحو ذلك، وقد يجعل فيما قاله أبو عبیدة بمعنی الصَّافِّ «1» . قال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] ، يحتمل أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الصَّافِّينَ ، وقال تعالی: وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] ، وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] ، يعني به الملائكة . وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] ، أي : مُصْطَفَّةً ، وصَفَفْتُ كذا : جعلته علی صَفٍّ. قال : عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، وصَفَفْتُ اللّحمَ : قدّدته، وألقیته صفّا صفّا، والصَّفِيفُ : اللّحمُ المَصْفُوفُ ، والصَّفْصَفُ : المستوي من الأرض كأنه علی صفٍّ واحدٍ. قال : فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً- [ طه 106] ، والصُّفَّةُ من البنیان، وصُفَّةُ السَّرج تشبيها بها في الهيئة، والصَّفُوفُ :- ناقةٌ تُصَفُّ بين مَحْلَبَيْنِ فصاعدا لغزارتها، والتي تَصُفُّ رجلَيْها، والصَّفْصَافُ : شجرُ الخلاف .- ( ص ف ف ) الصف - ( ن ) کے اصل معنی کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا کے ہیں جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا اور بقول ابوعبیدہ کبھی صف بمعنی صاف بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ نَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا[ الصف 4] جو لوگ خدا کی راہ میں ایسے طور پر ) پرے جما کر لڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیشک محبوب کرو گار ہیں ۔ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا [ طه 64] پھر قطار باندھ کر آؤ ۔ وَجاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا [ الفجر 22] اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے ۔ میں صفا مصدر بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی صافین ( اسم فاعل ) بھی اور آیات : ۔ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ [ الصافات 165] اور ہم صف باندھتے رہتے ہیں ۔ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا[ الصافات 1] قسم ہے صف بستہ جماعتوں ن کی میں صافون اور صافات سے مراد فرشتے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پرند بازو پھیلائے ہوئے ۔ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْها صَوافَ [ الحج 36] تو ( قربانی کرنے کے وقت قطار میں کھڑے ہوئے اونٹوں پر خدا کا نام لو ۔ اور صففت کذا کے معنی کسیچیز کی صف لگانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] صف میں لگائے تختوں پر ۔ صفقت اللحم کے معنی گوشت کے پار چوں کو بریاں کرنے کے لئے سیخ کشیدہ کرنے کے ہیں اور سیخ کشیدہکئے ہوئے پار چوں کو صفیف کہا جاتا ہے : ۔ الصفصف ہموار میدان گویا وہ ایک صف کی طرح ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَذَرُها قاعاً صَفْصَفاً لا تَرى فِيها عِوَجاً وَلا أَمْتاً [ طه 106] اور زمین کو ہموار میدان کر چھوڑے گا جس میں نہ تم کجی ( اور پستی ) دیکھو گے اور نہ ٹیلا ) اور نہ بلندی ۔ الصفۃ کے معنی سایہ دار چبوتر ہ یا بر آمدہ کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر زین کی گدی کو صفۃ السراج کہا جاتا ہے ۔ الصفوف وہ اونٹنی جو زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے دو یا تین برتن بھرے یا وہ جو دودھ دوہنے کے وقت اپنی ٹانگوں کو ایک قطار میں رکھ کر کھڑی ہوجائے ۔ الصفصاف بید کا درخت ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - رص - قال تعالی: كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، أي : محکم كأنما بني بالرَّصَاصِ ، ويقال : رَصَصْتُهُ ورَصَّصْتُهُ ، وتَرَاصُّوا في الصلاة . أي : تضایقوا فيها . وتَرْصِيصُ المرأة : أن تشدّد التّنقّب، وذلک أبلغ من التَّرَصُّصُ.- ( ر ص ص ) رص ( ن ) کے معنی دو چیزوں کو باہم ملا کر جوڑ دینے کے ہیں اور رصاص سیسہ کو کہتے ہیں اور اسی سے فرمایا : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] گویا ایک مضبوط دیوار ہیں جس میں سیسہ پلا دیا گیا ہے ۔ اور رصصتہ ( ن ) ورصصتہ ( تفعیل ) کے ایک ہی معنی ہیں یعنی کسی چیز کو سیسہ پلا کر مضبوط کرنا اور جوڑنا اور تراصوا فی الصلوۃ کے معنی ہیں نماز کی صف میں باہم پیوستہ ہو کر کھڑے ہونا اور ترصیص المرءۃ کے معنی ہیں عورت کا نقاب کو مضبوطی سے باندھنا اور اس میں ترصص سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ ان کو جہاد فی سبیل اللہ پر ابھارتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو میدان جنگ میں سیسہ پلائی عمارت کی طرح ملکر اور جم کر لڑتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ ۔ ” اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔ “- آج کے زمانے میں ” بنیانِ مرصوص “ کو کہا جائے گا۔ ایسی دیواریں بڑے بڑے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ البتہ پرانے زمانے میں اگر کسی دیوار کو غیر معمولی طور پر مضبوط کرنا مقصود ہوتا توچنائی کرنے کے بعد اس کے اندر پگھلا ہوا تانبا ڈالا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں عام طور پر ” بنیانِ مرصوص “ کا ترجمہ ” سیسہ پلائی ہوئی دیوار “ کے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اس طریقہ سے ” سیسہ پلائی ہوئی دیوار “ بنانے کا تصورسورۃ الکہف کی آیت ٩٦ میں بھی ملتا ہے۔ ذوالقرنین بادشاہ نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے حفاظت کے لیے لوہے کے تختوں کی مدد سے دیوار کھڑی کرنے کے بعد حکم دیا تھا : اٰ تُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا ۔ ” اب لائو میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں “۔ بہرحال یہاں ” بنیانِ مرصوص “ سے مراد میدانِ جنگ میں مجاہدین کی ایسی صفیں ہیں جن میں کوئی رخنہ یا خلا نہ ہو اور ایک ایک مجاہد اپنی جگہ پر اس قدر مضبوطی سے کھڑا ہو کہ دشمن کے لیے صف کے کسی ایک حصے کو بھی دھکیلنا ممکن نہ ہو۔ - یہاں ضمنی طور پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ نماز کے لیے ہماری صف بندی کی بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ایک صف کے تمام نمازیوں کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا چاہیے اور ان کے پیروں کے محاذات بھی ایک ہونے چاہئیں ‘ یعنی تمام لوگوں کے پائوں ایک سیدھ میں ہوں تاکہ صف سیدھی رہے۔ دو آدمیوں کے درمیان خلا بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جماعت کی صف میں دو نمازیوں کے درمیان خلا کی جگہ سے شیطان گزر جاتا ہے ۔ جماعت کے لیے صف بندی کا اہتمام کرانا دراصل امام کی ذمہ داری ہے ‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ البتہ اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ شدت بھی مناسب نہیں ‘ جیسے بعض لوگ غیر معمولی طور پر ٹانگیں پھیلا کر دوسرے نمازی کے پائوں پر اپنا پائوں چڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے کو فت کا باعث بنتے ہیں۔- بہرحال ہمارے لیے اس آیت کا اصل پیغام یہ ہے کہ اسلام میں سب سے بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ” قتال فی سبیل اللہ “ ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں سب سے اعلیٰ خیر یا نیکی کو کہتے ہیں۔ ہر فلسفہ اخلاق میں ایک ” خیر اعلیٰ “ ( ) یا بلند ترین نیکی ( ) کا تصور ہوتا ہے۔ چناچہ اس آیت کے اصل پیغام کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کریں تو یوں کہیں گے کہ اسلام کے نظام فکر اور اس کے نظریہ اخلاق میں بلند ترین نیکی یا ” خیر اعلیٰ “ ( ) قتال فی سبیل اللہ ہے۔ چناچہ جو کوئی اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہو اسے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان اس کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگی۔ جو شخص اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و قربت کا دعویٰ بھی نہ کرے۔ بقول غالب ؔ ع ” جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں “- یہاں سورت کے پہلے حصے کا مطالعہ مکمل ہوگیا۔ اب آئندہ چار آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ ان کا طرزعمل کیا تھا۔ یہود کی تاریخ کے حوالے سے دراصل مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ قول و عمل کا تضاد اور ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی سے پہلوتہی ہی وہ اصل جرم تھا جس کی پاداش میں یہود اس مقام اور منصب سے معزول کردیے گئے جس پر اب تم فائز کیے گئے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :3 اس سے اول تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرہ سہنے کے لیے تیار ہوں ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے اس میں تین صفات پائی جانی چاہئے ۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو ۔ دوسری یہ کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑے ۔ تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلہ میں ا سکی کیفیت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی سی ہو ۔ پھر یہ آخری صفت بجائے خود اپنے اندر معنی کی ایک دنیا رکھتی ہے ۔ کوئی فوج اس وقت تک میدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک اس میں حسب ذیل صفات پیدا نہ ہو جائیں : عقیدہ اور مقصد میں کامل اتفاق ، جو اس کے سپاہیوں اور افسروں کو آپس میں پوری طرح متحد کر دے ۔ ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد جو کبھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا کہ سب فی الواقع اپنے مقصد میں مخلص اور ناپاک اغراض سے پاک ہوں ۔ ورنہ جنگ جیسی سخت آزمائش کسی کا کھوٹ چھپا رہنے نہیں دیتی اور اعتماد ختم ہو جائے تو فوج کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے بلکہ الٹا ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں ۔ اخلاق کا ایک بلند معیار ، جس سے اگر فوج کے افسر اور سپاہی نیچے گر جائیں تو ان کے دل میں نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ عزت ، اور نہ وہ آپس میں متصادم ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔ اپنے مقصد کا ایک ایسا عشق اور اسے حاصل کرنے کا ایسا پختہ عزم جو پوری فوج میں سرفروشی و جانبازی کا ناقابل تسخیر جذبہ پیدا کر دے اور وہ میدان جنگ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائے ۔ یہی تھیں وہ بنیادیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ایک ایسی زبردست عسکری تنظیم اٹھی جس سے ٹکرا کر بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہو گئیں اور صدیوں تک دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے نہ ٹھر سکی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani