Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت عیسیٰ کی طرف سے خاتم الانبیاء کی پشین گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلیم اللہحضرت موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو؟ اس میں گویا ایک طرح سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے ، چنانچہ آپ بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا ہرا ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو ، جیسے اور جگہ ہے الخ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا ، پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی ، جیسے اور جگہ ہے الخ ، یعنی ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے اور جگہ ہے الخ ، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے ایسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے ، یہاں بھی ارشاد ہتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا ، پھر حضرت عیسیٰ کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ توراۃ میں میری خوش بری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی عربی مکی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پس حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں ، آپ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول ، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختمہو گئی ، صحیح بخاری شریف میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بہت سے نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں ، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ، ابو داود میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے یہ چند ہیں ، فرمایا میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں حاشر ہوں میں مقفی ہوں ، میں نبی الرحمتہ ہوں ، میں نبی التوبہ ہوں ، میں نبی الملممہ ہوں ، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے ، قرآن کریم میں ہے ۔ الخ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی ، اور جگہ فرمان ہے الخ ، اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں ، ایک مرتبہ صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ کی خوش خبری ہوں میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چم اٹھے ( ابن اسحاق ) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں ، مسند احمد میں ہے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ حضرت آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے ۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں ۔ میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا ، حضرت عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں ، مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے ۔ ہم میں حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت جعفر حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت عثمان بن مطعون حضرت ابو موسیٰ وغیرہ بھی تھے ۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لئے تحفے بھی بھیجے جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری وقم نے ہمیں اس لئے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حالے کر دیجئے ، نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو چنانچہ یہ مسلمان صحابہ دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ، پوچھا گیا کیوں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف بھیجا اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں ، اب عمرو بن عاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور ود بادشاہ کو بھڑکانے کے لئے وہ بیج میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد حضرت عسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مخلاف ہیں ، اس پر بادشاہ نے پوچھا بتاؤ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں روح اللہ ہیں جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں ۔ اے جماعت مہاجرین تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹسے میں آزاد ہہوتا تو میں یقیناً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ کی جوتیاں اٹھاتا آپ کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے ۔ ان مہاجرین کرام میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود تو جلد ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی ۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگی ۔ یہ پورا واقعہ حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے ۔ تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابں میں ملاحظہ ہو ، ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے ، ہاں آپ کے امر کی شہرت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث حضرت عیسیٰ کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت داء خلیل اور نوید مسح کی طرف کی ہے اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لئے تھا کہ اہل مکہ میں آپ کی رشوع شہرت کا باعث یہ خواب تھا ، اللہ تعالیٰ آپ پر بیشمار درود و رحمت بھیجے ۔ پھر ارشاد ہتا ہے کہ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے سچے رسول ہیں، بنی اسرائیل انہیں اپنی زبان سے ایذا پہنچاتے تھے، حتٰی کہ بعض جسمانی عیوب ان کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ وہ بیماری ان کے اندر نہیں تھی۔ 5۔ 2 یعنی علم کے باوجود حق سے اعراض کیا اور حق کے مقابلے میں باطل کو خیر کے مقابلے میں شر کو اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے دلوں کو مستقل طور پر ہدایت سے پھیر دیا۔ کیونکہ یہی سنت اللہ چلی آرہی ہے۔ کفر وضلالات پر دوام واستمرار ہی دلوں پر مہر لگنے کا باعث ہوتا ہے پھر فسق کفر اور ظلم اس کی طبیعت اور عادت بن جاتی ہے جس کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اپنی سنت کے مطابق گمراہ کیا ہوتا ہے اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے جسے اس طریقے سے اللہ نے گمراہ کیا ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] بنی اسرائیل کا اپنے نبی سیدنا موسیٰ کو تکلیفیں پہنچانا :۔ تمام انبیاء کو اپنے مخالفین اور دشمنوں سے دکھ اور مصائب پہنچتے ہی رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ قابل افسوس بات یہ ہوتی ہے کہ اپنے ہی لوگ دکھ پہنچانے لگیں۔ اس سلسلہ میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو جس قدر پریشان کیا اور دکھ پہنچایا تھا۔ شاید ہی کسی دوسری قوم نے پہنچایا ہو۔ حالانکہ انہیں خوب معلوم تھا بلکہ یقین تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے حکم کے مطابق ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو طرح طرح کی کٹ حجتیاں اور سوال کر کرکے آپ کو پریشان کردیا۔ فرعون سے نجات پاکر آگے روانہ ہوئے ہی تھے کہ ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہنے لگے : موسیٰ ہمیں بھی اس طرح کا ایک بت بنادو۔ جس کی ہم پوجا کیا کریں۔ میدان تیہ میں ان کو بلا مشقت من وسلویٰ مل رہا تھا تو کہنے لگے : موسیٰ ہم تو یہ غذا کھا کر تنگ آگئے ہیں اور جی بھر گیا ہے۔ لہذا اب سبزیاں اور دالیں کھانا چاہتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تورات لینے گئے تو بعد میں ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کردی اور کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو بھول کر طور پر چلے گئے۔ ہمارا اور اس کا معبود تو یہ ہے وہ وہاں کیا لینے چلے گئے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کتاب تورات لے کر آئے تو کہنے لگے۔ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ ہم تو جب تک واضح طور پر اللہ کو دیکھ نہ لیں یہ کتاب ماننے کو تیار نہیں۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں ارض شام میں جہاد کرنے کو کہا تو کہنے لگے موسیٰ وہاں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں ہم ان سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اگر جہاد اتنا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا رب دونوں جا کر ان سے جہاد کرو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ اپنی قوم کی ایسی ہی باتوں سے تنگ آکر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی تھی۔ پروردگار میرا اختیار تو صرف اپنی ذات پر اور اپنے بھائی پر ہے لہذا اس نافرمان قوم سے ہمارا ساتھ چھڑا دے (٥: ٢٥) انبیاء اپنی دشمن قوم کے لیے تو ایسی دعا مانگتے ہی رہے ہیں۔ مگر کسی نبی نے غالباً اپنی قوم کے حق میں ایسی دعا کبھی نہیں مانگی۔- [٥] اپنے نبی کی شان میں گستاخیاں کرتے کرتے اور دکھ پہنچاتے پہنچاتے ان کی فطرت ہی کچھ ایسی ٹیڑھی بن چکی تھی کہ کسی حکم کو بھی وہ سچے ایمانداروں کی طرح تسلیم کرلینے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ بلکہ اس میں میں میخ نکال کر اس کا کچھ الٹا ہی مطلب نکال لیتے تھے۔ پھر جب انہوں نے کجروی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے بھی انہیں اسی راہ پر ڈال دیا۔ کیونکہ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ وہ ٹیڑھی راہ اختیار کرنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر ڈال دے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَاِذْ قَالَ مُوسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ ۔۔۔۔۔: قتال فی سبیل اللہ کی فضیلت کے ذکر اور اس سے گریز پر ملامت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب ذکر فرمایا ، جس میں انہوں نے ان کی اس اذیت رسانی کا شکوہ اور اس پر ملامت کی جو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ روا رکھی کہ جب وہ انہیں اپنے لیے اللہ کا رسول جانتے اور مانتے تھے تو ان پر لازم تھا کہ وہ ان کی تکریم کرتے ، ان کی اطاعت کرتے اور ان کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ، مگر انہوں نے ان کے ساتھ عام رویے میں ، ان کے احکام کی تعمیل میں اور جہاد کے لیے نکلنے کے معاملے میں ، غرض ہر طرح سے انہیں تکلیف پہنچائی ۔ یہاں جس ایذاء کی طرف خصوصاً اشارہ ہے اور جس کی وجہ سے انہیں موسیٰ (علیہ السلام) سے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” القوم الفسقین “ کا لقب ملا وہ ان کا جہاد کے لیے نکلنے سے صاف انکار ہے۔ مقصود مسلمانوں کو ان کا طریقہ اپنانے سے اجتناب کی تلقین ہے۔ تکریم و اطاعت کے معاملے میں ان کی ایذاء کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ احزاب (٦٩) کی تفسیر اور جہاد کے لیے نکلنے سے ان کے صاف انکار کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ مائدہ (٢٠ تا ٢٦) کی تفسیر۔- ٢۔ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہ ُ قُلُوْبَہُمْ :” زاغوا “ ” زاغ یزیغ زیغا “ (ض ( ٹیڑھا ہونا۔” ازاع “ اس سے باب افعال ہے ، ٹیڑھا کردیا ۔ یعنی جب وہ اطاعت کے بجائے ہر کام میں ٹیڑھے چلے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی راہ پر ڈال دیا ، کیونکہ وہ ٹیڑھی راہ پر چلنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر نہیں چلاتا ، کیونکہ اس سے آزمائش کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(نولہ ماتولی) ( النسائ : ١١٥)” ہم اسے اسی طرح پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا “۔- ٣۔ وَ اللہ ُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ : جہاد سے انکار کی وجہ سے سورة ٔ مائدہ کی آیت (٢٥) میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اور سورة ٔ مائدہ ہی کی آیت (٢٦) میں اللہ تعالیٰ نے قوم موسیٰ کی ” القوم الفسقین “ کا خطاب دیا ہے۔- ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے علاوہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے منافقین سے بھی بہت اذیت پہنچی ۔ زبانی اذیت کے علاوہ جہاد کے مواقع پر انہوں نے کئی دفعہ غداری کی ، جنگ احد کے موقع پر عبد اللہ ابھی تین سو (٣٠٠) آدمیوں کو ، جو لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ تھے ، عین میدان جنگ سے نکال کرلے گیا ۔ جنگ خندق میں بھی انہوں نے کفار سے مل کر سازشوں میں اور مسلمانوں کی حوصلہ شکنی میں کوئی کمی نہیں کی ۔ سورة ٔ آل عمران (١٥٤ تا ١٦٨) اور سورة ٔ احزاب (٩ تا ٢٠) میں اللہ تعالیٰ نے اس کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ زبانی اذیت کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (٥٨، ٦١، ٧٤) ، احزاب (٥٧) اور منافقون (٨) ۔ اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے اعلان ہی سے کفار کی طرف سے مسلسل اور بےپناہ تکلیفیں پہنچیں ، مگر اپنی جماعت میں شامل لوگوں کی طرف سے ایذا کا احساس زیادہ ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دلائی ہے کہ اگر کچھ منافق قسم کے لوگ آپ کو تکلیف دیتے ہیں اور جہاد میں جانے سے پس و پیش کرتے ہیں تو آپ غم نہ کریں ، آپ کے ساتھ تو پھر بھی جہاد کرنے والوں اور جان و مال قربان کرنے والوں کی عظیم جماعت موجود ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو تو اپنوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی ، ان کی قوم نے جہاد کے لیے نکلنے ہی سے صاف انکار کردیا ۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ چیزیں تقسیم تو ایک آدمی نے کہا :” یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کے چہرے کا ارادہ نہیں کیا گیا “۔ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بتائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوئے حتیٰ کہ میں نے غصے کے آثار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرۂ مبارک میں دیکھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یرحم اللہ موسیٰ لقد اوذی باکثر من ھذا فصبر) (بخاری ، الدعوات ، باب قول اللہ تبارک و تعالیٰ ) (وصل علیھم) ۔۔۔۔: ٦٣٣٦)” اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ، انہیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی مگر انہوں نے صبر کیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی ذکر فرمایا، کیونکہ ان کے ساتھ بھی چند لوگوں کے سوا بنی اسرائیل نے ایسا ہی سلوک کیا ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ۝ ٠ ۭ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٥- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] ، قوله تعالی:- فَآذُوهُما [ النساء 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة 222] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ فَآذُوهُمَا ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ لِمَ تُؤْذُونَنِي ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے جبکہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے منافقوں سے کہا کہ مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو اور ان کی قوم ان کو نامرد کہا کرتی تھی۔- جیسا کہ سورة احزاب میں واقعہ گزر گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ لوگ حق و ہدایت سے دور رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو حق و ہدایت سے اور دور کردیا یا یہ کہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو توحید سے ہٹا دیا اور اللہ تعالیٰ تو ایسے فاسقوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰــقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ ” اور یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم کے لوگو تم کیوں مجھے ایذا دے رہے ہو ؟ “- یہ جس ایذا کا ذکر ہے وہ ذاتی نوعیت کی بھی ہوسکتی ہے ۔ ظاہر ہے انبیاء و رسل بھی آخر انسان تھے اور طبع بشری کے تحت ہر طرح کی تکلیف کو محسوس بھی کرتے تھے ۔ جیسے سورة الاحزاب کی آیت ٦٩ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ایک تکلیف دہ معاملے کا ذکر آیا ہے یا جیسے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ کی طرف سے بھی ذاتی نوعیت کی تکالیف پہنچائی جاتی رہیں اور منافقین کے طرزعمل سے بھی شدید ذہنی و قلبی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بنی اسرائیل کی طرف سے اصل اور سب سے بڑی ایذا وہ تھی جو حکم جہاد سے ان کے انکار کی وجہ سے آپ (علیہ السلام) کو پہنچی تھی۔ اپنی قوم کے اس انکار کے بعد آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی تھی اس کے ایک ایک لفظ میں شدت ِتکلیف کے احساسات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ملاحظہ ہوں آپ (علیہ السلام) کی دعا کے یہ الفاظ :- قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ (المائدۃ)- ” موسٰی (علیہ السلام) نے عرض کیا : پروردگار ‘ مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی (ہارون (علیہ السلام) کی جان) کے ‘ تو اب تفریق کردے ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان۔ “- وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْکُمْ ” جبکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “- میرے نزدیک یہاں لفظ ” رسول “ نبی کے معنی میں آیا ہے۔ دراصل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کی طرف ” نبی “ کی حیثیت سے تھی ‘ بطور ” رسول “ نہیں تھی ۔ جبکہ قوم فرعون کی طرف آپ (علیہ السلام) بحیثیت ” رسول “ مبعوث ہوئے تھے : - وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَئِہٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الزخرف)- ” اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو اس نے کہا کہ (دیکھو) میں تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں۔ “- کسی قوم کی طرف ” رسول “ کی بعثت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہمیشہ یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم پر اپنے رسول کی فرمانبرداری لازم ہوتی تھی ۔ چناچہ جو قوم اپنے رسول (علیہ السلام) کی دعوت کو رد کردیتی تھی اسے ہلاک کردیا جاتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا اطلاق بنی اسرائیل پر نہیں ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پے در پے نافرمانی کے باوجود انہیں ہلاک نہیں کیا گیا ۔ دوسری طرف قوم فرعون آپ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کردی گئی۔ چناچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت نبی کی تھی ‘ جبکہ آلِ فرعون کی طرف آپ (علیہ السلام) ” رسول “ مبعوث ہو کر آئے تھے ۔ - فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط ” پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ “- یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں لوگوں کی ہدایت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ایک بنیادی اصول اور قانون بیان ہوا ہے ۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید کی ان آیات کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو گمراہ کرنے یا ان کے دلوں پر مہر کردینے کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہدایت کے راستے کو پہچان لینے کے بعد بھی اسے اختیار نہ کرے بلکہ گمراہی کی روش پر ہی چلتے رہنے کو ترجیح دے ‘ پھر وہ اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مہلت کی حدود پھلانگ کر ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں سے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہ ہو ( ) تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اس شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیتا ہے ‘ یعنی بندہ جب سمجھتے بوجھتے ہوئے ٹیڑھا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اس کا دل ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا کردیتا ہے۔ (اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک )- وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ ” اور اللہ فاسقوں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :4 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بے وفائیاں ان کے ساتھ کیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، آیت 51 ۔ 55 ۔ 60 ۔ 67 تا 71 ۔ النساء ، 153 ۔ المائدہ ، 20 تا 26 ۔ الاعراف 138 تا 141 ۔ 148 تا 151 ۔ طٰہٰ 86 تا 98 ۔ بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے ۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج 20:5 ۔ 21 11:14 ۔ 12 ۔ 2:16 ۔ 3 ۔ 3:17 ۔ 4 ۔ گنتی 1:11 ۔ 15 ۔ 1:14 ۔ 10 ۔ 16 مکمل ۔ 1:20 ۔ 5 یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ اختیار کی تھی ، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :5 یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے ، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کو زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے ۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے ۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی ( ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا ، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے ۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی وہ توفیق ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سرگرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے ، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو ۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: حضرت موسی علیہ السلام کو اُن کی قوم نے کس کس طرح تکلیفیں پہنچائیں، اس کی تفصیل سورۃ بقرہ(۲:۶۲) وغیرہ میں گذر چکی ہے۔ 4: یعنی جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کرنے کی یہ سزا دی گئی کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دِل ایسے ٹیڑھے کردئیے کہ اب ان میں حق بات قبول کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔