6۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انکار کیا، اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ اس طرح نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں، وہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ و ہارون اور داوٗد و سلیمان (علیہم السلام) پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لاؤ، اس لیے کہ میں تورات کی تصدیق کر رہا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔ 6۔ 2 یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشخبری سنائی چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشسارۃ عیسیٰ " میں اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا مصداق ہوں۔ احمد یہ فاعل سے اگر مبالغے کا صیغہ 0 ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا۔ اور اگر یہ مفعول سے ہوں تو معنی ہوں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر) 6۔ 2 یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ معجزات کو جادو سے تعبیر کیا گیا، جس طرح گذشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کہتی رہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لئے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے تھے۔
[٦] (مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ ) 61 ۔ الصف :6) کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم اپنے سے پہلے کی نازل شدہ کتاب کی تصدیق کرنے والے تھے وہ شریعت موسوی یعنی تورات کی تعلیم کے ہی پیرو تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا وجود تورات کی باتوں کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ میں ان چیزوں کا مصداق بن کر آیا ہوں جن کی خبر میرے متعلق تورات میں دی گئی تھی۔- [٧] تورات اور انجیل دونوں کے صرف تراجم ہی ملتے ہیں۔ اصل نسخے کہیں بھی موجود نہیں :۔ احمد کے دو معنی ہیں ایک اپنے پروردگار کی بہت زیادہ حمد بیان کرنے والا۔ دوسرے وہ جس کی بندوں میں سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو۔ اور یہ دونوں صفات آپ کی ذات اقدس میں پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں۔ میں ماحی ہوں، اللہ میری وجہ سے کفر کو مٹائے گا، میں حاشر ہوں۔ یعنی لوگ میری پیروی پر حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب (تمام پیغمبروں کے بعد آنے والا) بھی ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة الصف) رہی یہ بات کہ آیا یہ نام موجودہ بائیبل میں موجود ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تورات اور انجیل دونوں میں تحریف ہونے کے باوجود آپ کی ایسی واضح صفات اب بھی مذکور ہیں۔ جن کو دیکھ کر آپ کو پہچانا جاسکتا تھا۔ یہود مدینہ نبی آخرالزمان کے منتظر تھے۔ اور ان میں سے بعض منصف مزاج لوگ انہی مذکورہ صفات کی بنا پر ایمان بھی لے آئے تھے۔ - خ انجیل سیدنا عیسیٰ کے بہت بعد تالیف ہوئی :۔ رہی موجودہ انجیل تو یہ منزل من اللہ کتاب تو ہے نہیں۔ مختلف لوگوں کے تالیف کردہ نسخے ہیں۔ جو آپ کی زندگی کے بڑی مدت بعد تالیف کئے گئے۔ آج کل جو چار اناجیل بائیبل ہمیں ملتی ہیں۔ ان کے مؤلفین میں سے کوئی بھی سیدنا عیسیٰ کا صحابی یا حواری نہ تھا۔ البتہ انجیل برناباس کے مولف کا دعویٰ ہے کہ وہ آپ کا صحابی ہے۔ لیکن اس انجیل کی اشاعت اور طباعت پر کلیسا کی طرف سے پابندی لگادی گئی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ انجیل برناباس توحید باری تعالیٰ کو واضح طور پر بیان کرتی تھی۔ جبکہ چوتھی صدی مسیح میں عیسائیوں میں عقیدہ تثلیث سرکاری طور پر رائج ہوچکا تھا۔ لہذا کلیسا نے اس انجیل پر پابندی لگا دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس انجیل کے شاذ و نادر نسخے آج بھی مختلف لائبریوں میں مل جاتے ہیں۔ - خ تحریف کے باوجود ان کتابوں میں آپ کی ایسی علامات موجود ہیں جن کی بنا پر عبداللہ بن سلام اور نجاشی نے تصدیق کی :۔ تحریف کے علاوہ دوسری مشکل یہ ہے کہ تورات ہو یا انجیل کوئی بھی الہامی کتاب اپنی اصلی زبان میں محفوظ نہیں ہے۔ صرف مختلف زبانوں میں ترجمے ہی ملتے ہیں۔ ان کی اصلی زبان سریانی تھی۔ اور تراجم یونانی، لاطینی، انگریزی اور اردو وغیرہ میں ہیں۔ لہذا پوری تحقیق کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود جب نجاشی شاہ حبشہ نے مہاجرین حبشہ کو اپنے دربار میں بلایا اور سیدنا جعفر بن ابی طالب سے آپ کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا : مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت سیدنا عیسیٰ بن مریم نے دی تھی (مسند احمد بروایت عبداللہ بن مسعود (رض) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بھی انجیل میں آپ کی ایسی واضح علامات موجود تھیں جن کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں ذرہ بھر تامل نہ ہوا۔- [٨] جَائَ ھُمْ میں جاءَ کی ضمیر کے مرجع عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں اور احمد بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے پاس آئے جو اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے۔ مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتے تھے یا کوڑھی اور پھلبہری والے پر ہاتھ پھیرتے تو وہ تندرست ہوجاتا تھا تو ایسی باتیں دیکھ کر بنی اسرائیل نے ان معجزات کو صریح جادو کہہ دیا۔ اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور بتائی ہوئی صفات کے مطابق جب آپ مبعوث ہوگئے تو انہیں بنی اسرائیل نے آپ کی تعلیمات کو فریب کاری اور شعبدہ بازی پر محمول کیا۔ اور ایمان نہ لانے کی خاطر طرح طرح کے الزام عائد کرنے لگے۔
١۔ وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ۔۔۔۔۔:” مصدقا لما بین یدی من التورۃ “ کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی درست ہیں ، ایک یہ کہ میں اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تردید نہیں بلکہ تصدیق کرنے والا ہوں ۔ دیکھئے سورة ٔ مائدہ (٤٦) کی تفسیر ۔ دوسرا یہ کہ میرا وجود ان بشارتوں کو سچا ثابت کرنے والا ہے جو میرے متعلق تورات میں دی گئی ہیں ، میں ان کا مصداق ہوں ، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔- ٢۔ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ : اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسم مبارک ” احمد “ کی صراحت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی خوش خبری دی تھی۔ جبیر بن معطم (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ، آپ فرما رہے تھے :( ان لی اسماء ، انا محمد وانا احمد وانا الما حی الذی یمحواللہ بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی ، وانا العاقب) ( بخاری ، التفسیر ، باب قولہ تعالیٰ :(یاتی من بعدی احمد ): ٤٨٩٦)” میرے کئی نام ہیں ، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ( مٹانے والا ) ہوں کہ میرے ساتھ اللہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ( اکٹھا کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے پیچھے جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ( سب نبیوں کے بعد آنے والا) ہوں “۔- ” احمد “ ( افعل) اسم تفصیل ہے جو اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں کے معنی میں آتا ہے۔ اسم فاعل کے معنی میں ہو تو مطلب ہوگا ۔” بہت زیاد ہ حمد کرنے والا “ اور حقیقت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرنے والے اور آپ کی امت کے لوگ ” احمددوں “ ( بہت زیاد ہ حمد کرنے والے) ہیں ۔ اگر اسم مفعول کے معنی میں ہو تو معنی ہے ” جس کی بہت تعریف کی گئی “۔ اس صورت میں یہ اسم مبارک ” محمد “ کا ہم معنی ہے۔ اسم تفصیل کے اسم مفعول کے معنی میں آنے کی مثال قرآن مکید میں ملتی ہے ، فرمایا :(اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِینَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہٰٓؤُلَآئِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا ) (النسائ : ٥١)” کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں “۔ اس آیت میں ” اھدی “ اسم فاعل کے معنی میں ( زیادہ ہدایت دینے والے) نہیں بلکہ اس مفعول کے معنی میں ہے، یعنی ” زیادہ ہدایت دیے گئے “۔ اسی طرح سورة ٔ فاطر ( ٤٢) میں بھی ” اھدی “ اسم مفعول کے معنی میں ہے۔- عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس بشارت میں دو چیزیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں ، ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے زمانے کی تعیین کی وہ مسیح (علیہ السلام) کے بعد آئے گا ، دوسرا اسم مبارک ” احمد “ کی صراحت ، تا کہ آپ کے متعلق کوئی ابہام یا پوشیدگی نہ رہے ۔ جہاں تک نام کا تعلق ہے تو قرآن کے بیان کے مطابق یہ بات یقین ہے کہ انجیل میں یہ نام موجود تھا ۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن کا یہ بیان غلط ہوتا تو نزول قرآن کے زمانے کے نصرانی ضرور اس کی تردید کرتے ۔ موجودہ انجیلوں میں اس نام کا مذکور نہ ہونا اس کی نفی کی دلیل نہیں بن سکتا ، کیونکہ اس وقت اصل انجیل دنیا میں موجود ہی نہیں ۔ ہمارے سامنے جو انجیلیں عربی ، انگریزی یا اردو میں ہیں یہ سب ترجمہ در ترجمہ ہیں ۔ ان ترجموں میں باہمی اختلاف اس قدر ہے جتنا خود ان انجیلوں میں ہے۔ یہ ترجمہ کرنے والے حضرات ہر لفظ کا ترجمہ کرتے جاتے ہیں خواہ وہ کسی کا نام ہو ، حالانکہ نام میں تبدیلی یا اس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ۔ پھر جب کتمان حق اور تحریف کی عادت بھی ہو تو بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی ۔ اس کے باوجود زمانے کی تعیین کے ساتھ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کے ساتھ انجیل میں یہ بشارت کئی جگہ موجود ہے جو آپ کے سوا کسی اور منطبق نہیں ہوتی ۔ یہاں انجیل یوحنا سے چند حوالے نقل کیے جاتے ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی گئی ہے۔ مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا :” اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ، یعنی سچائی کا روح۔ “ (یوحنا، باب ١٤، فقرہ : ١٦، ١٧) ” لیکن مدد گار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا “۔ ( یوحنا ، باب ١٤، فقرہ : ٢٦)” اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا ، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں “۔ ( یوحنا ، باب ١٤، فقرہ : ٣٠) ” لیکن جب وہ مدد گار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا ، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا “۔ ( یوحنا ، باب ١٥ ، فقرہ : ٢٦) ” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا ۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا ، لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا “۔ ( یوحنا ، باب ١٦ ، فقرہ : ١٢، ١٣)- یہ حوالے یوحنا کی انجیل سے نقل کیے گئے ہیں جو نصرانیوں کے تمام فرقوں کے ہاں مسلم ہے۔ انجیل برناباس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ” محمد “ کی صراحت بار بار آئی ہے ، مگر موجودہ نصرانی جو پال کے پیروکار ہیں وہ چونکہ اسے نہیں مانتے ، اس لیے یوحنا کی انجیل کے حوالے نقل کیے گئے ہیں ۔ ان میں رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت ایسی صفات کے ساتھ دی گئی ہے جو آپ کے سوا کسی اور پر صادق ہی نہیں آتیں ۔ مثلاً ” وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے “۔ اور ” وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا “ ۔ اور ” دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں “۔ غوری کیجئے مسیح (علیہ السلام) کے بعدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کون ہے جس پر یہ صفات صادق آتی ہوں۔- ٣۔ فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ : بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد مسیح (علیہ السلام) ہیں ، کیونکہ آیت کے شروع میں ان کے خطاب کا ذکر ہے ، مگر راجح بات یہ ہے کہ اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، یعنی پھر جب وہ ” احمد “ جس کی بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے پہچاننے کے باوجود کھلا جادو کہہ کر جھٹلا دیا ، جیسا کہ فرمایا :(فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللہ ِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ) (البقرہ : ٨٩)” پھر جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے انہوں نے پہچان لیا تو انہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا ، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے “۔ ابن جریر طبریٰ نے یہی معنی کیا ہے اور ابن کثیر اور بہت سے مفسرین نے اسی معنی پر اکتفا کیا ہے ، اس کی تائید بعد کی آیت میں ” وھو ید عیٰ الی الاسلام “ کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے ، کیونکہ اس سورت کے نزول کے وقت اسلام کی دعوت والے احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے نہ کہ مسیح (علیہ السلام) ۔- ٤۔ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ : یعنی آپ جو نشانیاں اور معجزات لے کر آئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ یہ کھلا جادو ہے ، یا مبالغے کے لیے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کے بجائے مجسم جادو کہہ دیا ، جیسے ” زید عادل “ کے بجائے ” زید عدل “ کہہ دیتے ہیں۔
وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ٠ ۭ فَلَمَّا جَاۗءَہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ ٦- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال :- عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جبکہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد جو ایک رسول آئیں گے جن کا نام مبارک احمد ہوگا ان کی خوشخبری دینے والا ہوں۔- چناچہ جب ان لوگوں کے پاس حضرت عیسیٰ یا محمد اوامرو نواہی اور معجزات لے کر آئے تو وہ کہنے لگے یہ تو محض جھوٹ اور جادو ہے۔
آیت ٦ وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِ ‘ یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْکُمْ ” اور یاد کرو جب عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف “- اس آیت میں بنی اسرائیل کے دوسرے دور کا ذکر ہے جب ان کی طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) رسول بن کر آئے۔ بحیثیت رسول آپ (علیہ السلام) کی بعثت کا ذکر سورة آل عمران کی آیت ٤٩ کے الفاظ وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ میں آیا ہے۔- مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰٹۃِ ” میں تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں اس کی جو میرے سامنے موجود ہے تورات میں سے “- وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ” اور بشارت دیتا ہوا ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے ‘ ان کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا۔ “- فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ ” پھر جب وہ (عیسیٰ (علیہ السلام) آئے ان کے پاس واضح نشانیوں کے ساتھ تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ “- اس کے بعد حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ساتھ بنی اسرائیل کا تیسرا دور شروع ہوا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بعد بنی اسرائیل کو واضح طور پر بتادیا گیا : عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْج وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ٧ (بنی اسرائیل : ٨) ” ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے ‘ اور اگر تم نے وہی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے “۔ یعنی اے بنی اسرائیل تم ہمارے لاڈلے تھے ‘ ہم نے تمہیں خود برگزیدہ کیا تھا : وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـھُمْ عَلَی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الدخان) مگر تم نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو راندئہ درگاہ بنالیا۔ بہرحال ہماری رحمت اور محبت کے دروازے اب بھی تمہارے لیے کھلے ہیں۔ اگر تم لوگ توبہ کر کے اپنی روش درست کرلو تو ہم اب بھی تمہیں اپنی آغوش رحمت میں لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس کے لیے تمہیں خود کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈالنا ہوگا اور قرآن کو اپنا راہبر ماننا ہوگا : اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ وَیُـبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا ۔ (بنی اسرائیل) ” یقینا یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی ہے اور بشارت دیتا ہے ان اہل ایمان کو جو نیک عمل بھی کریں کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ “- تم پر واضح ہونا چاہیے کہ اب ہمارے قصر ِرحمت کا شاہدرہ قرآن ہے۔ اگر تم ہماری رحمت کی پناہ میں آنا چاہتے ہو تو تمہیں اسی شاہدرہ کی راہ سے گزر کر آنا ہوگا۔ لیکن اگر تم نے اپنے طرزعمل کی اصلاح نہ کی ‘ اپنی نافرمانیاں اسی طرح جاری رکھیں تو پھر ہم بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا کہ ماضی میں تمہارے ساتھ ہوتا رہا ہے : وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۔ جیسے ماضی میں ہمارے حکم پر تم لوگ بخت نصر ( ) ‘ یونانیوں ‘ شامیوں ‘ رومیوں ‘ وغیرہ کے ہاتھوں بار بار نشان عبرت بنتے رہے ہو ویسے ہی ایک مرتبہ پھر ہم تمہیں تمہاری بداعمالیوں کی سزا دلوائیں گے۔ (بیسویں صدی میں نازیوں کے ہاتھوں یہود کا جو انجام ہوا وہ بھی عبرت انگیز ہے۔ ان کا اپنا دعویٰ ہے کہ ” ہولوکاسٹ “ میں ٦٠ لاکھ افراد مارے گئے۔ )
سورة الصَّف حاشیہ نمبر :6 یہ بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانی کا ذکر ہے ۔ ایک نافرمانی وہ تھی جو انہوں نے اپنے دور عروج کے آغاز میں کی ۔ اور دوسری نافرمانی یہ ہے جو اس دور کے آخری اور قطعی اختتام پر انہوں نے کی جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان پر خدا کی پھٹکار پڑ گئی ۔ مدعا ان دونوں واقعات کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا کے رسول کے ساتھ بنی اسرائیل کا سا طرز عمل اختیار کرنے کے نتائج سے خبردار کیا جائے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :7 اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صحیح ہیں : ایک یہ کہ میں کوئی الگ اور نرالا دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے ۔ میں توراۃ کی تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تصدیق کر رہا ہوں ، جس طرح ہمیشہ سے خدا کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق توراۃ میں موجود ہیں ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ تم میری مخالفت کرو ، تمہیں تو اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء نے دی تھی وہ آگیا ۔ اور اس فقرے کو بعد والے فقرے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں ۔ اس تیسرے معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کا اشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں : خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا ۔ تم اس کی سننا ۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا ۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا ۔ ( استثناء ، باب18 ۔ آیات 15 ۔ 19 ) یہ توراۃ کی صریح پیشن گوئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی ۔ اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کروں گا ۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم بھائیوں سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی دوسری ایسی قوم ہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ ہو ۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی نبی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ میں تمہارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا ۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لا محالہ بنی اسماعیل ہی ہو سکتے ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی بنا پر ان کے نسبی رشتہ دار ہیں ۔ مزید براں اس پیشن گوئی کا مصداق بنی اسرائیل کا کوئی نبی اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایک نبی نہیں ، بہت سارے نبی آئے ہیں جن کے ذکر سے بائیبل بھری پڑی ہے ۔ دوسری بات اس بشارت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کے مانند ہو گا ۔ اس سے مراد ظاہر ہے کہ شکل صورت یا حالات زندگی میں مشابہ ہونا تو نہیں ہے ، کیونکہ اس لحاظ سے کوئی فرد بھی کسی دوسرے فرد کے مانند نہیں ہوا کرتا ۔ اور اس سے مراد محض وصف نبوت میں مماثلت بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ وصف ان تمام انبیاء میں مشترک ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد آئے ہیں ، اس لیے کسی ایک نبی کی یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وصف میں ان کے مانند ہو ۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے مشابہت کے خارج از بحث ہو جانے کے بعد کوئی اور وجہ مماثلت ، جس کی بنا پر آنے والے ایک نبی کی تخصیص قابل رحم ہو ، اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ وہ نبی ایک مستقل شریعت لانے کے اعتبار سے حضرت موسیٰ کے مانند ہو ۔ اور یہ خصوصیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی ، کیونکہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نبی بھی آئے تھے وہ شریعت موسوی کے پیرو تھے ، ان میں سے کوئی بھی ایک مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا ۔ اس تعبیر کو مزید تقویت پیشین گوئی کے ان الفاظ سے ملتی ہے کہ یہ تیری ( یعنی بنی اسرائیل کی ) اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا ۔ اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے ۔ اور بنی اسرائیل کی جس درخواست کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی شریعت ہم کو دی جائے تو ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے ۔ ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی ۔ ( ملاحظہ ہو البقرہ ، آیات 55 ۔ 56 ۔ 63 ۔ الاعراف ، آیات 155 ۔ 171 ۔ بائیبل ، کتاب خروج 17:19 ۔ 18 ) ۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کر لی ہے ، اس کا ارشاد ہے کہ میں ان کے لیے ایک ایسا نبی برپا کروں گا جس کے منہ میں مَیں اپنا کلام ڈالوں گا ۔ یعنی آئندہ شریعت دینے کے اس وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورِب پہاڑ کے دامن میں پیدا کیے گئے تھے ، بلکہ اب جو نبی اس منصب پر مامور کیا جائے گا اس کے منہ میں بس اللہ کا کلام ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے خلق خدا کو سنا دے گا ۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے ؟ حضرت موسیٰ کے بعد مستقل شریعت صرف آپ ہی کو دی گئی ، اس کے عطا کرنے کے وقت کوئی ایسا مجمع نہیں ہوا جیسا حورب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کو ہوا تھا ، اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات پیدا نہیں کیے گئے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :8 یہ قرآن مجید کی ایک بڑی اہم آیت ہے ، جس پر مخالفین اسلام کی طرف سے بڑی لے دے بھی کی گئ ہے اور بدترین خیانت مجرمانہ سے بھی کام لیا ہے ، کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف صاف نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی تھی ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے ۔ 1 ۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی احمد بتایا گیا ہے ۔ احمد کے دو معنی ہیں ۔ ایک ، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو ۔ دوسرے ، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو ، یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو ۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام تھا ۔ مسلم اور ابو داؤد طیالِسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انا محمد و انا احمد والحاشر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی مضمون کی روایات حضرت جبیر بن مطعم سے امام مالک ، بخاری ، مسلم ، دارمی ، ترمذی اور نسائی نے نقل کی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسم گرامی صحابہ میں معروف تھا ، چنانچہ حضرت حصان بن ثابت کا شعر ہے : صلی الالٰہ و من یحف بعرشہ والطیبون علی المبارک احمد اللہ نے اور اس کے عرش کے گرد جمگھٹا لگائے ہوئے فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے با برکت احمد پر درود بھیجا ہے ۔ تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک صرف محمد ہی نہ تھا بلکہ احمد بھی تھا ۔ عرب کا پورا لٹریچر اس بات سے خالی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی کا نام احمد رکھا گیا ہو ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد احمد اور غلام احمد اتنے لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک تمام امت میں آپ کا یہ اسم گرامی معلوم و معروف رہا ہے ۔ اگر حضور کا یہ اسم گرامی نہ ہوتا تو اپنے بچوں کے نام غلام احمد رکھنے والوں نے آخر کس احمد کا غلام ان کو قرار دیا تھا ؟ 2 ۔ انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے ۔ ایک مسیح ، دوسرے ایلیاہ ( یعنی حضرت الیاس کی آمد ثانی ) ، اور تیسرے وہ نبی انجیل کے الفاظ یہ ہیں اور یوحنا ( حضرت یحیٰ علیہ السلام ) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ، تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں ۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے ، نہ ایلیا نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے ؟ ( باب 1 ۔ آیات 19 ۔ 25 ) یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت مسیح اور حضرت الیاس کے علاوہ ایک اور نبی کے بھی منتظر تھے ، اور وہ حضرت یحیٰ نہ تھے ، اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ وہ نبی کہہ دینا گویا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بالکل کافی تھا ، یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ جس کی خبر توراۃ میں دی گئی ہے مزید برآں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا ، کیونکہ جب حضرت یحییٰ سے یہ سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے ، تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟ 3 ۔ اب وہ پیشین گوئیاں دیکھیے جو انجیل یوحنا میں مسلسل باب 14 سے 16 تک منقول ہوئی ہیں : اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے ۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے ( 14:16 ۔ 17 ) ۔ میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں ۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا ۔ ( 25:14 ۔ 26 ) اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ( 30:14 ) ۔ لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا ، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے ، تو وہ میری گواہی دے گا ( 26:15 ) ۔ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا ( 7:16 ) ۔ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا ۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا ۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے ۔ اس لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا ( 12:16 ۔ 15 ) ۔ 4 ۔ ان عبارتوں کے معنی متعین کرنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسیح علیہ السلام اور ان کے ہم عصر اہل فلسطین کی عام زبان آرامی زبان کی وہ بولی تھی جسے سریانی ( ) کہا جاتا ہے ۔ مسیح کی پیدائش سے دو ڈھائی سو برس پہلے ہی سلوقی ( ) اقتدار کے زمانے میں اس علاقے سے عبرانی رخصت ہو چکی تھی اور سریانی نے اس کی جگہ لے لی تھی ۔ اگرچہ سلوقی اور پھر رومی سلطنتوں کے اثر سے یونانی زبان بھی اس علاقے میں پہنچ گئی تھی ، مگر وہ صرف اس طبقے تک محدود رہی جو سرکار دربار میں رسائی پاکر ، یا رسائی حاصل کرنے کی خاطر یونانیت زدہ ہو گیا تھا ۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی ( ) استعمال کرتے تھے جس کے لہجے اور تلفظات اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے ، اور اس ملک کے عوام یونانی سے اس قدر ناواقف تھے کہ جب 70ء میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد رومی جنرل تیتُس ( ) نے اہل یروشلم کو یونانی میں خطاب کیا تو اس کا ترجمہ سریانی زبان میں کرنا پڑا ۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو تی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ لامحالہ سریانی زبان ہی میں ہو گا ۔ دوسری بات یہ جاننی ضروری ہے کہ بائیبل کی چاروں انجیلیں ان یونانی بولنے والے عیسائیوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے ۔ ان تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعہ سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی شکل میں پہنچی تھیں اور ان سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے درج کیا تھا ۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی 70ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے ، اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد غالباً ایشیائے کوچک کے شہر افسُس میں لکھی گئی ہے ۔ مزید یہ کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اس یونانی زبان میں محفوظ نہیں ہے جس میں ابتداءً یہ لکھی گئی تھیں ۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کر کے جمع کیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی سے پہلے کا نہیں ہے ۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ رد و بدل ہوئے ہوں گے ۔ اس معاملہ کو جو چیز خاص طور پر مشتبہ بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تغیر و تبدل کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں ۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ( ایڈیشن 1946 ) کے مضمون بائیبل کا مصنف لکھتا ہے : اناجیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتاب میں شامل کر دینا ۔ ……… یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنہیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا ، اور وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کر دیں ……… بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہو گئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا ۔ اس صورت حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے ۔ تیسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی تقریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی رہی اور کہیں نویں صدی عیسوی میں جا کر عربی زبان نے اس کی جگہ لی ان سریانی بولنے والے اہل فلسطین کے ذریعہ سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء کو حاصل ہوئیں وہ ان لوگوں کی معلومات کی بہ نسبت زیادہ معتبر ہونی چاہییں جنہیں سریانی سے یونانی اور پھر یونانی سے لاطینی زبانوں میں ترجمہ در ترجمہ ہو کر یہ معلومات پہنچیں ۔ کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے ۔ 5 ۔ ان ناقابل انکار تاریخی حقائق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا عبارات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کا سردار ( سرور عالم ) ہو گا ، ابد تک رہے گا ، سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا ، اور خود ان کی ( یعنی حضرت عیسیٰ کی ) گواہی دے گا ۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں روح القدس اور سچائی کی روح وغیرہ الفاظ شامل کر کے مدعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ، مگر اس کے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے جس کی تعلیم عالمگیر ، ہمہ گیر ، اور قیامت تک باقی رہنے والی ہو گی ۔ اس شخص خاص کے لیے اردو ترجمے میں مددگار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا ، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار ہے کہ وہ تھا ۔ مگر اس کے معنی متعین کرنے میں خود عیسائی علماء کو سخت زحمت پیش آئی ہے ۔ اصل یونانی زبان میں کے کئی معنی ہیں : کسی جگہ کی طرف بلانا ، مدد کے لیے پکارنا ، انذار و تنیہ ، ترغیب ، اکسانا ، التجا کرنا ، دعا مانگنا ۔ پھر یہ لفظ ہی بینی مفہوم میں یہ معنی دیتا ہے : تسلی دینا ، تسکین بخشنا ، ہمت افزائی کرنا ۔ بائیبل میں اس لفظ کو جہاں جہاں استعمال کیا گیا ہے ، ان سب مقامات پر اس کے کوئی معنی بھی ٹھیک نہیں بیٹھتے ۔ اور ائجن ( ) نے کہیں اس کا ترجمہ کیا ہے اور کہیں مگر دوسرے مفسرین نے ان دونوں ترجموں کو رد کر دیا کیونکہ اول تو یہ یونانی گرامر کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں ، دوسرے تمام عبارتوں میں جہاں یہ لفظ آیا ہے ، یہ معنی نہیں چلتے ۔ بعض اور مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا ہے ، مگر یونانی زبان کے استعمالات سے یہ معنی بھی اخذ نہیں کیے جا سکتے ۔ ترتولیان اور آگسٹائن نے لفظ کو ترجیح دی ہے ، اور بعض اور لوگوں نے ، اور ، اور وغیرہ الفاظ اختیار کیے ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر ، لفظ پیریکلیٹس ) ۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی میں ایک دوسرا لفظ موجود ہے جس کے معنی ہیں تعریف کیا ہوا ۔ یہ لفظ بالکل محمد‘’ کا ہم معنی ہے ، اور تلفظ میں اس کے اور کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ کیا بعید ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بے تکلف رد و بدل کر لینے کے خوگر رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشین گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املا میں یہ ذرا سا تغیر کر دیا ہو ۔ اس کی پڑتال کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کیا جا سکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے دراصل کونسا لفظ استعمال کیا گیا تھا ۔ 7 ۔ لیکن فیصلہ اس پر بھی موقوف نہیں ہے کہ یوحنا نے یونانی زبان میں دراصل کونسا لفظ لکھا تھا ، کیونکہ بہرحال وہ بھی ترجمہ ہی تھا اور حضرت مسیح کی زبان ، جیسا کہ اوپر بیان کر چکے ہیں فلسطین کی سریانی تھی ، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو لفظ استعمال کیا ہو گا وہ لا محالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہیے ۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں ابن ہشام کی سیرت میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اسی کتاب سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے ۔ محمد بن اسحاق کے حوالہ سے ابن ہشام نے یُحَنّس ( یوحنا ) کی انجیل کے باب 15 ، آیات 23 تا 27 ، اور باب 16 آیت 1 کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی فارقلیط کے بجائے سریانی زبان کا لفظ مُنحَمَنَّا استعمال کیا گیا ہے ۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ مُنحَمَنَّا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں برقلیطس ہیں ( ابن ہشام ، جلد اول ، ص 248 ) ۔ اب دیکھیے کہ تاریخی طور پر فلسطین کے عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی ، یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اول سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا ۔ ابن اسحاق نے 768ء میں اور ابن ہشام نے 868ء میں وفات پائی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولتے تھے ، اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کی عیسائی رعایا سے ربط پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا ۔ نیز اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے ، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کونسا لفظ ہے ۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ مُنحَمَنّا استعمال ہوا ہے ، اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہے ، تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لے کر آپ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی ، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں دراصل لفظ استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت سے بدل دیا ۔ 8 ۔ اس سے بھی قدیم تر تاریخی شہادت حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا ، اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا : مَرحَباً بِکُم وَبِمَن جِئتُم مِن عِندِہ ، اَشھَدُ اَنَّہ رَسُولُ اللہِ وَاَنَّہُ الَّذِی نَجِدُ فِی الاِنجِیل ، وَ اَنَّہ الَّذِی بَشَّرَ بِہ عِیسَی بن مَریَمَ ۔ ( مسند احمد ) ۔ یعنی مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی ۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے بھی منقول ہوا ہے ۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی کی پیشین گوئی کر گئے ہیں ، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صاف نشاندہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ نبی ہیں ۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا ۔ 9 ۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں ، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم اناجیل ( ) قرار دے رکھا ہے ، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برناباس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت ( ) کہتا ہے ۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے ۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس ( ) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی ۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا ۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا 1738ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا ۔ 1907ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہو گیا تھا مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کر دیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی ۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا ، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے ۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کر دیا گیا اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا ۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ کا پی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے ۔ مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے ، اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں ۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب کسی مسلمان کی تصنیف کر دہ نہیں ہو سکتی ۔ دوسرے ، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا ۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا ۔ گَبری ، یعقوبی ، مسعودی ، البیرونی ، ابن حذم اور دوسرے مصنفین ، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے ، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا ۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں ، اور وہ بھی اس کے ذکر سے خالی ہیں ۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے ۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اول ( ) کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن ( ) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی ، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کر دیا گیا تھا ، ان میں انجیل برناباس ( ) بھی شامل تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام ، اسپین ، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ 10 ۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتیں نقل کی جائیں ، اس کا مختصر تعارف کر ا دینا ضروری ہے ، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو جائے اور یہ بھی سمجھ میں آ جائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں ۔ بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار دے کر شامل کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا ۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرت کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں ۔ جن ذرائع سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے ۔ یہ برناباس کون تھا ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروان مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے ۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا ، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برناباس ہے یا کوئی اور ۔ متی ، اور مرقس نے حواریوں ( ) کی جو فہرست دی ہے ، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے ۔ ایک توما ، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے ، دوسرا شمعون قنانی ، جس کی جگہ وہ یہوواہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے ۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے ۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہو گا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے توما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جا سکے ، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کر لینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے ۔ اس انجیل کو اگر کوئی شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس کا مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدرجہا برتر ہے ۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا ۔ چاروں انجیلوں کی بے ربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں ۔ توحید کی تعلیم ، شرک کی ترید ، صفات باری تعالیٰ ، عبادات کی روح ، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں ۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا ۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ کی زبان ، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہو گا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو ، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں ، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، اور جو انبیاء کو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے ۔ توحید ، رسالت اور آخرت کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے ۔ نماز ، روزے اور زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں ۔ ان کی نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برناباس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے ، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے ۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤد و سلیمان کو نبی قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے ۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے ۔ آخرت اور قیامت اور جنت و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔ 11 ۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخالف ہیں ، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں ، کیونکہ وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کر چکے تھے ۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے ، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے ، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے ، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے ۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں ، یونانیوں ، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کر دی ، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا ۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا ۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف و الہام کو بنیاد بنایا ۔ اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی ( ) دنیا قبول کر لے ۔ اس نے اعلان کر دیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے ۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کر دیں ۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا ۔ حتیٰ کہ اس نے مسیح کی اُلوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدم کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا ۔ مسیح کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی ، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا ، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہو گیا جس کے مقابلے میں وہ مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھہر سکے ۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی اُلوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے ۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز ( 325ء ) میں نیقیہ ( ) کی کونسل نے پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا ۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہو گئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا ۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں ، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھہرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ 367 میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس ( ) کے ایک خط کے ذریعہ معتبر و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا ، پھر اس کی توثیق 382ء میں پوپ ڈیمیسس ( ) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی ، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس ( ) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کر دی جو غیر مسلم تھیں ۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں ، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا ۔ انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی ۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں ، ختنہ کو غیر ضروری ٹھہراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کر دیتے ہیں ، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے ۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا ، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی ۔ اس پر حضرت عیسیٰ سخت پریشان ہوئے ۔ انہوں نے بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے ۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰ سے صادر ہوتے تھے ، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آ جائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی ، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے ۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دی تھی ۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکریوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجناب کو اٹھا لے گئے ، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو حضرت عیسیٰ کی تھی ۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ ۔ اس طرح یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے ۔ حالانکہ نزول قرآن سے 115 سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادری اسے رد کر چکے تھے ۔ 12 ۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل برناباس درحقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے
5: احمد حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام ہے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسی نام سے آپ کی بشارت دی تھی۔ اس قسم کی ایک بشارت آج بھی انجیل یوحنا میں تحریف شدہ حالت میں موجود ہے۔ اِنجیل یوحنا کی عبارت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا : اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے (یوحنا ۱۴:۱۶)۔ یہاں جس لفظ کا ترجمہ مددگار کیا گیا ہے، وہ اصل یونانی میں ’’فار قلیط‘‘ ( ) تھا جس کے معنیٰ ہیں ’’قابلِ تعریف شخص‘‘ اور یہ ’’احمد‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے لیکن اس لفظ کو ’’ ‘‘ سے بدل دیا گیا ہے، جس کا ترجمہ ’’مددگار‘‘ اور بعض تراجم میں ’’وکیل‘‘ یا ’’شفیع‘‘ کیا گیا ہے۔ اگر ’’فارقلیط‘‘ کا لفظ مدِ نظر رکھا جائے تو صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’وہ تمہارے پاس اُس قابلِ تعریف شخص (احمد) کو بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا‘‘۔ اس میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کسی خاص علاقے یا کسی خاص زمانے کے لئے نہیں ہوں گے، بلکہ آپ کی نبوّت قیامت تک آنے والے ہر زمانے کے لئے ہوگی۔ نیز برنا باس کی اِنجیل میں کئی مقامات پر حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتیں موجود ہیں۔ اگرچہ عیسائی مذہب والے اس انجیل کو معتبر نہیں مانتے، لیکن ہمارے نزدیک وہ اُن چاروں اِنجیلوں سے زیادہ مستند ہے جنہیں عیسائی مذہب میں معتبر مانا گیا ہے۔ اس کے مفصل دلائل میں نے اپنی کتاب ’’عیسائیت کیا ہے؟‘‘ میں بیان کئے ہیں۔