Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سطوت و اتمام نور ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا باندھے اور اس کے شریک و سہیم مقرر کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اگر یہ شخص بےخبر ہوتا جب بھی ایک بات تھی یہاں تو یہ حالت ہے کہ وہ توحید اور اخلاص کی طرف برابر بلایا جا رہا ہے ، بھلا ایسے ظالموں کی قسمت میں ہدایت کہاں؟ ان کفار کی چاہت تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے رد کر دیں ، ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سورج کی شعاع کو اپنے منہ کی پھونک سے بےنور کرنا ہے ، جس طرح اس کے منہ کی پھونک سے سورج کی روشنی کا جاتا رہنا محال ہے ۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ کا دین ان کفار سے رد ہو جائے ، اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا ، کافر برا مانیں تو مانتے رہیں ۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین کی حقانیت کو واضح فرمایا ، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر سورہ برات میں گذر چکی ہے ۔ فالحمد اللہ

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی اللہ کی اولاد قرار دے، یا جو جانور اس نے حرام قرار نہیں دیئے ان کو حرام باور کرائے۔ 7۔ 2 جو تمام دینوں میں اشرف اور اعلٰی ہے، اس لئے جو شخص ایسا ہو، اس کو کب یہ زیب دیتا ہے یہ وہ کسی پر بھی جھوٹ گھڑے، چہ جائیکہ اللہ پر جھوٹ باندھے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] نصاریٰ نے اللہ پر کیا کیا بہتان باندھے ؟ اس سے مراد عیسائیوں کے وہ مختلف قسم کے بہتان ہیں جو انہوں نے اللہ پر لگا رکھے تھے۔ کبھی کہتے کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کا بیٹا ہے۔ کبھی کہتے کہ یہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور کبھی کہتے کہ عیسیٰ ہی اللہ ہے۔ اور اللہ عیسیٰ کے جسم میں حلول کر آیا ہے۔ ان کے علاوہ ان کی بہتان بازیاں یہ تھیں کہ اناجیل کی عبارتوں میں خود ہی اپنی حسب پسند اضافے بھی کرلیتے تھے اور جو چیزیں موجود تھیں ان کی تاویل یا انکار بھی کردیتے تھے۔ اور ان سب باتوں سے بڑھ کر ظلم یہ کیا کہ جب نبی آخرالزمان نے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی تو اپنے اختراع کردہ بہتانوں کو حقیقی بنیادبنا کر بنائے فاسد علی الفاسد کے مصداق اس نبی کو جھٹلا دیا۔ جو لوگ اللہ پر افترا کرنے میں بھی اتنے جری اور دلیر ہوگئے ہوں انہیں ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے ؟ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ ایسے ظالموں کو زبردستی راہ ہدایت پر لے آئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہ ِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی ۔۔۔۔۔: یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اسلام میں داخل ہونے کی اور اللہ کا فرماں بردار بن جانے کی دعوت دی جا رہی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ دے ۔ اللہ پر جھوٹ یہ ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے رسول کو ، جس کی بشارت اس سے پہلے ان کے نبی عیسیٰ و موسیٰ (علیہما السلام) دے چکے تھے ، انہوں نے جادوگر اور اس کی لائی ہوئی بینات کو جادو کہہ دیا ۔ دیدہ و دانستہ جھوٹ باندھنے والے ایسے ظالم لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا ۔ یہی مضمون سورة ٔ انعام ( ٢٠، ٢١) میں بیان ہوا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَہُوَ يُدْعٰٓى اِلَى الْاِسْلَام۝ ٠ ِۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٧ ۚ- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور یہودیوں سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر بہتان لگاتے ہیں حالانکہ رسول اکرم ان کو توحید کی طرف بلا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے یہودیوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیا کرتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ” اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تراشے “- وَہُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ” درآں حالیکہ اسے بلایا جا رہاہو اسلام کی طرف “- یعنی اب اللہ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کو دعوت ایمان و اسلام دے رہے ہیں اور تم لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت اور قرآن کے بارے میں اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔- وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ ” اور اللہ ایسے ظالموں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔ “- اب اگلی آیت میں یہودیوں کی ان کوششوں اور سازشوں کا ذکر ہے جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے خلاف شروع کر رکھی تھیں۔ یہ آیت زیر مطالعہ مضمون کے کلائمکس کا درجہ رکھتی ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :10 یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو جھوٹا مدعی قرار دے ، اور اللہ کے اس کلام کو جو اس کے نبی پر نازل ہو رہا ہو ، نبی کا اپنا گھڑا ہوا کلام ٹھہرائے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :11 یعنی اول تو سچے نبی کو جھوٹا مدعی کہنا ہی بجائے خود کچھ کم ظلم نہیں ہے ، کجا کہ اس پر مزید ظلم یہ کیا جائے کہ بلانے والا تو خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف بلا رہا ہو اور سننے والا جواب میں اسے گالیاں دے اور اس کی دعوت کو زک دینے کے لیے جھوٹ اور بہتان اور افترا پردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: جس شخص کو اِسلام کی دعوت دی جائے، اور وہ کسی پیغمبر کی رِسالت کا انکار کرے تو درحقیقت وہ اﷲ تعالیٰ پر یہ جھوٹ باندھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا۔