8۔ 1 نور سے مراد قرآن، یا اسلام یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، یا دلائل وبراہین ہیں منہ سے بجھا دیں کا مطلب ہے، وہ طعن کی وہ باتیں ہیں جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہیں۔ 8۔ 2 یعنی اس کو آفاق میں پھیلانے والا اور دوسرے تمام دینوں پر غالب کرنے والا ہے۔ دلائل کے لحاظ سے، یا مادی غلبے کے لحاظ سے یا دونوں لحاظ سے۔
[١٠] اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے دشمن اقوام کے منصوبے :۔ اس آیت کی مخاطب ساری ہی دشمن اسلام قومیں ہیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں یا یہودی یا مشرکین ہوں یا منافقین۔ فتح مکہ سے پہلے تک یہ سب طاقتیں یہی سمجھ رہی تھیں کہ اسلام بس ایک ٹمٹماتا چراغ ہے۔ جو ہوا کے ایک ہی جھونکے سے بجھ سکتا ہے اور بجھ جائے گا۔ بلکہ فتح مکہ کے بعد یہ تاثر پوری طرح زائل نہ ہوا۔ فتح مکہ کے بعد قبیلہ ثقیف اور ہوازن نے اسی ارادہ سے جنگ کی کہ اسلام کو ملیا میٹ کردیں۔ پھر اس کے بعد ایک عامر نامی عیسائی راہب نے منافقین مدینہ سے ساز باز کی اور قیصر روم کو مسلمانوں پر چڑھا لانے کے لیے روانہ ہوگیا۔ جس کے نتیجہ میں غزوہ تبوک بپا ہوا۔ روایات کے مطابق اس موقع پر عیسائیوں کے دو لاکھ افراد پر مشتمل لشکر کا آنا متوقع تھا۔ لیکن اللہ نے انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی توفیق ہی نہ دی۔ سب اسلام دشمن طاقتیں آغاز اسلام سے لے کر جلتی بھنتی اور کڑھتی ہی رہیں اور انجام کار ہوا یہ کہ اسلام کی روشنی سارے عرب پھر اس کے بعد ساری دنیا میں پھیل گئی۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جبکہ اسلام کا مستقبل بالکل مبہم تھا اور بعض غیر جانبدار قسم کے قبائل اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللہ ِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَ اللہ ُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ ۔: ان آیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ٔ توبہ (٣٢، ٣٣) کی تفسیر۔
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ ٨- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - طفی - طَفِئَتِ النارُ وأَطْفَأْتُهَا . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ التوبة 32] ، يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ الصف 8] ، والفرق بين الموضعین أنّ في قوله : يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا - يقصدون إِطْفَاءَ نورِ الله، وفي قوله : لِيُطْفِؤُا يقصدون أمرا يتوصّلون به إلى إِطْفَاءِ نور اللہ - ( ط ف ء ) طفئت ( س ) النار کے معنی آگ بجھجانے کے ہیں ۔ اور اطفا تھا ( افعال ) کے معنی پھونک سے بجھادینے کے قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ التوبة 32] یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے ( پھونک مار کر بجھادین يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ الصف 8] یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے چراغ کی روشنی کو منہ سے ( پھونک مارکر ) بجھادیں ۔ ان دونوں آیتوں میں معنوی طور پر یہ فرق پایا جاتا ہے کہ یریدون ان یطفوا کے معنی نور الہی کو بجھانے کا قصد کرنے کے ہیں مگر لیطفوا کے معنی ایسے امر کا قصد کرنے کے ہیں جو اطفاء نور کا سبب بن سکے - نور ( روشنی)- النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122]- ( ن و ر ) النور - ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔- اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔- نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول - جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی - دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ - فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٨۔ ٩) یہود و نصاری دین الہی یا یہ کہ کتاب اللہ کو جھوٹا ثابت کرنے کی فکر میں کہ اپنی زبان درازوں سے اس پر اثر اندازی کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور اپنی کتاب کے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے، اگرچہ یہود و نصاری اور مشرکین عرب اس سے کتنے ہی بددل کیوں نہ ہوں۔ اسی نے رسول اکرم کو توحید یا قرآن اور دین اسلام دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو تمام بقیہ ادیان پر غالب کردے۔- چناچہ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ کوئی ایسا شخص نہ باقی رہا ہو مگر یہ کہ وہ دین اسلام میں داخل ہوگیا ہو یا اس نے جذیہ ادا کردیا ہو اگرچہ یہ یہود و نصاری اور مشرکین کو ناگوار گزرے۔
یہ آیت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ سورة التوبہ میں اس طرح آئی ہے :- یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ۔ - ” یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں اپنے منہ (کی پھونکوں ) سے اور اللہ کو ہر گز منظور نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے نور کا اتمام فرما کر رہے ‘ چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ “- اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوں سے بجھانے کے استعارے میں یہود مدینہ کی ان بودی کوششوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف اس وقت کر رہے تھے ۔ یعنی وہ سامنے آکر براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈا کرتے ‘ افواہیں اڑاتے ‘ درپردہ سازشوں کے جال بنتے رہتے ‘ کبھی قریش کے پاس جاتے کہ تم مدینہ پر حملہ کرو اور کبھی کسی دوسرے قبیلے کو سبز باغ دکھا کر مسلمانوں کے خلاف ابھارتے ۔ سورة الحشر میں ان کی بزدلی اور اندرونی کمزوری کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : لاَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآئِ جُدُرٍط (آیت ١٤) کہ یہ لوگ کھلے میدان میں اکٹھے ہو کر تمہارا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتے ‘ ہاں چھپ چھپا کر دیواروں کی اوٹ سے وہ تم پر ضرور وار کریں گے۔ مولانا ظفر علی خاں نے اس آیت کے مضمون کی ترجمانی اپنے ایک شعر میں یوں کی ہے : ؎- نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن - پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا - یہاں یہ اصولی نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس آیت اور اس مضمون کی حامل قرآن کی اور بہت سی دوسری آیات کے مفہوم کا دائرہ صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہودیوں اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں ‘ بلکہ ان میں تاقیامِ قیامت ہر زمانے کے یہودیوں اور ان کی ان سازشوں کا ذکر ہے جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ موجودہ دور میں اگرچہ یہ لوگ پوری عیسائی دنیا کو اپنی مٹھی میں لے کر عالم اسلام کے خلاف صف آراء ہوچکے ہیں ‘ مگر قرائن بتاتے ہیں کہ ان کے فیصلے کا وقت اب قریب آ لگا ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کے مطابق اللہ کے نور کا اتمام یعنی روئے ارضی پر دین اسلام کا غلبہ تو ایک طے شدہ امر ہے۔ اس کے لیے قیامت سے پہلے دنیا کو ایک انتہائی خوفناک جنگ کا سامنا کرنا ہے۔ اس جنگ میں یہودی اور عیسائی مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔ احادیث میں اس جنگ کو الَمْلَحْمَۃُ الْعُظْمٰیکا نام دیا گیا ہے ‘ جبکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی اصطلاح میں اسے ” ہرمجدون “ ( ) کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں یہودی مکمل طور پر نیست و نابود ہوجائیں گے اور اسلام واحد طاقت کے طور پر پوری دنیا پر غالب آجائے گا۔ یہ ہے آیت کے الفاظ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ کے مفہوم کا خلاصہ جس کی تفصیل ہمیں احادیث میں ملتی ہے۔
سورة الصَّف حاشیہ نمبر :12 یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات 3 ہجری میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا ، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی ، اور سارا عرب اس دین کو مٹا دینے پر تلا ہوا تھا ۔ احد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پہنچی تھی ، اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی ، اور گرد و پیش کے قبائل ان پر شیر ہو گئے تھے ۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا ۔ یہ ایک صریح پیشن گوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ اللہ کے سوا اس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے ؟ انسانی نگاہیں تو اس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لیے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں ۔