اس سورت کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول میں مفسرین کے اقوال یہ ہیں ( ا ) بعض تو کہتے ہیں یہ حضرت ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ، نسائی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے کہنے سننے سے ایسا ہوا تھا کہ ایک لونڈی کی نسبت آپ نے یہ فرمایا تھا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ، ابن جریر میں ہے کہ ام ابراہیم کے ساتھ آپ نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کے گھر میں بات چیت کی جس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ میرے گھر میں اور میرے بستر پر؟ چنانچہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کہ حلال آپ پر حرام کیسے ہو جائے گا ؟ تو آپ نیقسم کھائی کہ اب ان سے اس قسم کی بات چیت نہ کروں گا ۔ اس پر یہ آیت اتری ، حضرت زید فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا یہ کہہ دینا کہ تو مجھ پر حرام ہے لغو اور فضول ہے ، حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ تو مجھ پر حرام ہے اللہ کی قسم میں تجھ سے صحبت داری نہ کروں گا ۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں پس حرام کرنے کے باپ میں تو آپ پر عتاب کیا گیا اور قسم کے کفارے کا حکم ہوا ، ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ یہ دونوں عورتیں کون تھیں؟ فرمایا عائشہ اور حفصہ اور ابتدا قصہ ام ابراہیم قطبیہ کے بارے میں ہوئی ۔ حضرت حفضہ کے گھر میں ان کی باری والے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے تھے ۔ جس پر حضرت حفضہ کو رنج ہوا کہ میری باری کے دن میرے گھر اور میرے بستر پر؟ حضور نے انہیں رضامند کرنے اور منانے کے لئے کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں ، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں ، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا اللہ نے اس کی اطلاعق اپنے نبی کو دے دی اور یہ کل آیتیں نازل فرمائیں ، آپ نے کفارہ دے کر اپنی قسم توڑ دی اور اس لونڈی سے ملے جلے ، اسی واقعہ کو دلیل بنا کر حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو کہے فلاں چیز مجھ پر حرام ہے اسے قسم کا کفارہ دینا چاہئے ، ایک شخص نے آپ سے یہی مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں تو آپ نے فرمایا وہ تجھ پر حرام نہیں ، سب سے زیادہ سخت کفارہ اس کا تو راہ اللہ غلام آزاد کرنا ہے ۔ امام احمد اور بہت سے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی ، لونڈی یا کسی کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو اس پر کفارہ واجب ہو جاتا ہے ۔ امام شافعی وغیرہ فرماتے ہیں صرف بیوی اور لونڈی کے حرام کرنے پر کفارہ ہے کسی اور پر نہیں ، اور اگر حرام کہنے سے نیت طلاق کی رکھی تو بیشک طلاق ہو جائے گی ، اسی طرح لونڈی کے بارے میں اگر آزادگی کی نیت حرام کا لفظ کہنے سے رکھی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گی ۔ ( 2 ) ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت اس عورت کے باب میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنا نفس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کیا تھا ، لیکن یہ غریب ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ ان آیتوں کا اترنا آپ کے شہد حرام کر لینے پر تھا ۔ ( 3 ) صحیح بخاری میں اس آیت کے موقعہ پر کہ حضرت زینب بنت بخش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پیتے تھے اور اس کی خاطر ذرا سی دیر وہاں ٹھہرتے بھی تھے اس پر حضرت عائشہ حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئیں وہ کہے کہ یا رسول اللہک آج تو آپ کے منہ سے گوند کی سی بدبو آتی ہے شاید آپ نے مغافیر کھایا ہو گا چنانچہ ہم نے یہی کیا آپ نے فرمایا نہیں میں نے تو زینب کے گھر شہد پیا ہے اب قسم کھاتا ہو کہ نہ پیوں گا یہ کسی سے کہنا مت ، امام بخاری اس حدیث کو کتاب الایمان والندوہ میں بھی کچھ زیادتی کے ساتھ لائے ہیں جس میں ہے کہ دونوں عورتوں سے یہاں مراد عائشہ اور حفصہ ہیں رضی اللہ عنہما اور چپکے سے بات کہنا یہی تھا کہ میں نے شہد پیا ہے ، کتاب الطلاق میں امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو لائے ہیں ۔ پھر فرمایا ہے مغافیر گوندے کے مشابہ ایک چیز ہے جو شور گھاس میں پیدا ہوتی ہے اس میں قدرے مٹھاس ہوتی ہے ۔ صحیح خباری شریف کی کتاب الطلاق میں یہ حدیث حضرت عائشہ سے ان لافاظ میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد بہت پسند تھا عصر کی نماز کے بعد اپنی بیویوں کے گھر آتے اور کسی سے نزدیکی کرتے ایک مرتبہ آپ حضرت حفضہ کے گئے اور جتنا وہاں رکتے تھے اس سے زیادہ رکے مجھے غیرت سوار ہوئی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت نے ایک کپی شہد کے انہیں بطور ہدیہ کے بھیجی ہے ، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا اور اتنی دیر روک رکھا میں نے کہا خیر اس کسی حیلے سے ٹال دوں گی چنانچہ میں نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تمہارے پاس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئیں اور قریب ہوں تو تم کہنا کہ آج کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے آپ فرمائیں گے نہیں تم کہنا پھر یہ بدبو کیسی آتی ہے؟ آپ فرمائیں گے مجھے حفضہ نے شہد پلایا تھا تو تم کہنا کہ شاید شہد کی مکھی نے عرفط نامی خار دار درخت چوسا ہو گا ، میرے پاس آئیں گے میں بھی یہی کہوں گی ، پھر اے صفیہ تمہارے پاس جب آئیں تو تم بھی یہی کنا ، حضرت سودہ فرماتی ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر آئے ابھی تو دروازے ہی پر تھے جو میں نے ارادہ کیا کہ تم نے جو مجھ سے کہا میں آپ سے کہہ دوں کیونکہ میں تم سے بہت ڈرتی تھی لیکن خیر اس وقت تو خاموش رہی جب آپ میرے پاس آئے میں نے تمہارا تمام کہنا پورا کر دیا ، پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے میں نے بھی یہی کہا پھر حضرت صفیہ کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی کہا پھر جب حضرت حفضہ کے پاس گئے تو حضرت حفضہ نے شہد کا شربت پلانا چاہا آپ نے فرمایا مجھے اس کی حاجت نہیں ، حضرت سودہ فرمانے لگیں افسوس ہم نے اسے حرام کرا دیا میں نے کہا خاموش رہو ، صحیح مسلم کی اس حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے سخت نفرت تھی اسی لئے ان بیویوں نے کہا تھا کہ آپ نے مغافیر کھایا ہے اس میں بھی قدرے بدبو ہوتی ہے ، جب آپ نے جواب دیا کہ نہیں میں نے تو شہد پیا ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ پھر اس شہد کی مکھی نے عرفط درخت کو چوسا ہو گا جس کے گوند کا نام مغافیر ہے اور اس کے اثر سے اس شہد میں اس کی بو رہ گئی ہو گی ، اس روایت میں لفظ جرست ہے جس کے معنی جوہری نے کئے ہیں کھایا اور شہد کی مکھیوں کو بھی جو راس کہتے ہیں اور جرس مد ہم ہلکی آواز کو کہتے ہیں ، عرب کہتے ہیں جبکہ پرنددانہ چگ رہا ہو اور اس کی چونچ کی آواز سنائی دیتی ہو ، ایک حدیث میں ہے پھر وہ جنتی پرندوں کی ہلکی اور میٹھی سہانی آوازیں سنیں گے ، یہاں بھی عربی میں لفظ جرس ہے ، اصمعی کہتے ہیں میں حضرت شعبہ کی مجلس میں تھا وہاں انہوں نے اس لفظ جرس کو جرش بڑی شین کے ساتھ پڑھا میں نے کہا چھوٹے سین سے ہے حضرت شعبہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یہ ہم سے زیادہ اسے جانتے ہیں یہی ٹھیک ہے تم اصلاح کر لو ، الغرض شہد نوشی کے واقعہ میں شہد پلانے والیوں میں دو نام مروی ہیں ایک حضرت حفضہ کا دوسرا حضرت زینب کا بلکہ اس امر پر اتفاق کرنے والیوں میں حضرت عائشہ کے ساتھ حضرت حفضہ کا نام ہے پس ممکن ہے یہ وہ واقعہ ہوں ، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم ، آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ حضرت عمر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت ان تتوبا الخ ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں حضرت عمر راستہ چھوڑ جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لئے ہوئے پیچھے پیچھے گیا آپ حاجت ضروری سے فارغی ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا ، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المومنین جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ابن عباس افسوس ، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لئے جواب دیا اس سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ہیں رضی اللہ عنہما پھر حضرت عمر نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا ۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں حضرت امیہ بن زید کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ یہ نئی بات کیسی؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں؟ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیواں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑ گیا سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو؟ جواب ملا کہ سچ ہے ۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا ۔ کیا تم اس سے غافل ہوگئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہو جائے اور وہ کہیں کی نہ رہے؟ خبردار آئندہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جواب نہ دینا نہ آپ سے کچھ طلب کرنا جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو ، حضرت عائشہ کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر ہیں ۔ اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کر لی تھیں ایک دن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذارتا اور ایک دن وہ ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے ، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے عشاء کے وقت آ گئے اور میرا دروازہ کھڑ کھڑا کر مجھے آوازیں دینے لگے میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خریت تو ہے؟ اس نے کہا آج تو بڑا بھاری کام ہو گیا میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آ پہنچا ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا افسوس حفصہ برباد ہو گئی اور اس نے نقصان اٹھایا مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفضہ کے پاس گیا دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں میں نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں ، آپ ہم سے الگ ہو کر اپین اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے میں نے کہا جاؤ میرے لئے اجازت طلب کرو وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا میں وہاں سے واپس چلا آیا مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں ، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لئے اجازت طلبب کرو اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا ، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی میں گیا دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں ، میں نے کہا اللہ اکبر یا رسول اللہک بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کر دی ، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ اور میرا یہ خبر پا کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوایں بھی ایسا کرتی ہیں یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہو جائے اور وہ ہلاک ہو جائیں بیان کیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے ۔ میں نے پھر اپنا حفصہ کے پاس جانا اور انہیں حضرت عائشہ کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے میں نے کہا اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں؟ آپ نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ کی بیٹھک ( دربار خاص ) میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی ، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے؟ یہ سنتے ہی آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے اللہ سے طلب بخشش کیجئے ، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھالی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہہ کی ، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گذر گیا کہ موقعہ ملے تو حضرت عمر سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گذر چکی ، صحیح مسلم میں ہے کہ طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ، اس میں یہ بھی ہے حضرت عمر جس طرح حضرت حفضہ کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح حضرت عائشہ کے پاس بھی ہو آئے تھے ، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے حضرت رباح تھا رضی اللہ عنہ ، یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے ، جبرائیل ، میکائیل اور میں اور ابو بکر اور جملہ مومن ہیں ، حضرت عمر فرماتے ہیں الحمد اللہ میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا ، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخبیر یعنی ( عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا Ĉ ) 66- التحريم:5 ) اور ( وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ Ć ) 66- التحريم:4 ) ، آپ پر نازل ہوئیں ، مجھے جب آپ سے معلوم ہوا کہا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی ، اسی کے بارے میں آیت الخ آخر تک اتری یعنی جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے ۔ حضرت عمر یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہی ہوں اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت ابو بکر حضرت عمر ہیں ، بعض نے حضرت عثمان کا نام بھی لیا ہے بعض نے حضرت علی کا ۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف حضرت علی کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ کی بیویاں غیرت میں آ گئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دے گا پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری ، پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں بدری قیدیوں کے بارے میں مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المومنین کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدم تمیں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المومنین کے پاس ہپنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود نصیحت کرنے کے لئے کم ہیں جو تم آ گئے؟ اس پر میں خاموش ہو گیا لیکن قرآن میں آیت عسی ربہ الخ ، نازل ہوئی ، صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المومنین حضرت ام سلمہ تھیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت حفضہ کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور حضرت ماریہ سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا تم ( حضرت ) عائشہ کو خبر نہ کرنا میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت ( حضرت ) ابو بکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے ۔ حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ کو خبر کر دی پس حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر اللہ نے خبر پہنچائی ، صدیقہ نے کہا میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک کہا آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کرلیں آپ نے حرام کر لی اس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ǻ ) 66- التحريم:1 ) ، نازل ہوئی ( طبرانی ) لیکن اس کی سند مخدوش ہے ، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسی ظاہر ہو گئی ۔ ترجمہ کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے سائحات کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورہ برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گذر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے ، دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں ، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم ، پھر فرمایا ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لئے جی خوش رہے ، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے ، معجم طبرانی میں ابن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو حضرت آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد حضرت مریم ہیں جو حضرت عمران کی بیٹی تھیں ، ابن عساکر میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں تو حضرت جبرائیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے نہ تکلیف ہے نہ شورو غل جو چھدے ہوئی موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے مکانات ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خدیجہ اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے ، عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے ، حضرت ابو امامہ سے ابو یعلی میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کر دیا ہے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مبارک ہو ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے ۔
1۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی ؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب بنت جحش (رض) کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ (رض) دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں گوشت مچھلی کی سی بو ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے تو زینب (رض) کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں جن سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے تھے یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ (رض) موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ (رض) آگئیں انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ نے حضرت حفصہ کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ (رض) کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ (رض) کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔
[١] آپ کا شہد نہ پینے پر قسم کھانا اور رازداری کی تلقین کرنا :۔ رسول اللہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ آپ نماز عصر کے بعد اپنے سب گھروں میں اپنی بیویوں کے ہاں چکر لگایا کرتے تھے۔ تاکہ گھریلو حالات سے پوری طرح باخبر رہیں اور خیروعافیت کی صورت معلوم ہوتی رہے۔ ایک دفعہ جب آپ سیدہ زینب بنت جحش (رض) کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو شہد کا شربت پلایا۔ اس طرح آپ کو وہاں کچھ دیر لگ گئی۔ دوسرے دن بھی آپ کو سیدہ زینب بنت جحش (رض) نے شربت پلایا اور چونکہ آپ کو شہد اور اس کا شربت بہت پسند تھا۔ لہذا یہ بھی ایک طرح سے روزمرہ کا معمول بن گیا کہ سیدنا زینب (رض) کے ہاں آپ کو کچھ دیر لگ جاتی تھی۔ یہ بات دوسری بیویوں اور بالخصوص سیدہ عائشہ (رض) اور سیدہ حفصہ (رض) کو ناگوار گزری۔ کیونکہ آپ کی بیویوں میں سے ہر ایک یہی چاہتی تھی کہ وہی زیادہ تر آپ کی توجہات کا مرکز بنے۔ چناچہ سیدہ عائشہ (رض) اور سیدہ حفصہ (رض) نے آپ کی اس عادت یعنی سیدہ زینب (رض) کے ہاں شہد کا شربت پینے کی عادت کو چھڑانے کی یہ ترکیب سوچی۔ کہ آپ سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے تو مغافیر (ایک قسم کا گوند جس کی بو ناگوار ہوتی ہے) کی بو آتی ہے پھر جب ایک بیوی نے بھی یہی بات کہی اور دوسری نے بھی ایسی بات کہی تو آپ کو وہم ہونے لگا کہ شاید ایسی بدبو واقعی آرہی ہو اور آپ کو بدبودار چیزوں سے سخت نفرت بھی تھی۔ اور ان بیویوں کی دلجوئی بھی مقصود تھی۔ لہذا آپ نے قسم کھالی کہ میں آئندہ سیدہ زینب (رض) کے ہاں سے شہد نہیں پیا کروں گا۔ امام بخاری نے مختصراً اس واقعہ کو یوں روایت کیا ہے :- سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ سیدہ زینب بنت جحش (رض) کے ہاں ٹھہرے رہتے اور شہد پیا کرتے تھے۔ میں اور حفصہ (رض) نے آپس میں طے کیا کہ ہم سے جس کے پاس آپ تشریف لائیں، وہ یوں کہے : کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ مجھے تو آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے (پھر ایسا ہی کیا) آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش (رض) کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ کبھی شہد نہ پیوں گا۔ اور تم یہ بات کسی کو مت بتانا (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة تحریم) - خ حلال وحرام کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ ضمناً اس آیت سے کئی اہم امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً :- ١۔ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ کسی نبی حتیٰ کہ رسول اللہ کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال یا حرام یا کسی حلال چیز کو حرام یا کسی حرام چیز کو حلال قرار دے دیں۔- ٢۔ رسول کی حیثیت عام لوگوں سے علیحدہ ہوتی ہے :۔ کسی انسان کا کسی مصلحت کی خاطر کسی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا، یا اسے کچھ عرصہ کے لئے ترک کردینا یا اسے چھوڑنے کی قسم کھا لینا بذات خود کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔ جیسے بعض لوگوں کو بڑا گوشت نقصان پہنچاتا ہے تو اسے کھانا چھوڑ دیں یا نہ کھانے کی قسم اٹھا لیں تو یہ جرم نہ ہوگا۔ مگر رسول اللہ کا معاملہ ذاتی نوعیت کا حامل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی اصل اور بنیادی حیثیت رسول کی ہوتی ہے جس کا ہر کام امت کے لیے نمونہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے۔ لہذا آپ کے اس فعل پر اللہ کی طرف سے گرفت ہوئی کہ مبادا آپ کی امت بھی شہد کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی نہ سمجھنے لگے۔ بالفاظ دیگر نبی کا جو کام اللہ کی رضا اور منشا کے مطابق نہ ہو، خواہ وہ ترک اولیٰ قسم کا ہی ہو، اس کی فوراً بذریعہ وحی جلی اصلاح کردی جاتی ہے۔- ٣۔ وحی خفی کی اقسام :۔ جس طرح سنت کی تین اقسام ہیں۔ قولی، وہ جو آپ کے قول سے معلوم ہو یا ثابت ہو، فعلی، وہ جو آپ کے فعل سے معلوم ہو یا ثابت ہو اور تحریری سنت وہ ہوتی ہے کہ کوئی فعل آپ کے سامنے واقع ہو اور آپ نے اس پر گرفت نہ فرمائی ہو یا سکوت اختیار فرمایا ہو اور ایسی سنت بھی قابل حجت ہوتی ہے۔ اسی طرح وحی خفی (قرآن کے علاوہ دوسری قسم کی وحی) کی بھی تین اقسام ہیں۔ قولی وحی وہ اقوال ہیں جو جبرئیل کے ذریعہ آپ پر نازل ہوئے جیسے ادعیہ مسنونہ اور تشہد وغیرہ۔ فعلی وحی وہ کام ہے جس کے کرنے کا طریق آپ کو جبرئیل نے سکھایا ہو مثلاً نماز ادا کرنے کا طریقہ اور تقریری وحی وہ ہے جبکہ آپ کے کسی اجتہاد، قول یا فعل پر اللہ نے از راہ صواب سکوت اختیار فرمایا ہو۔ اور آپ کی زندگی کے بہت سے اقوال و افعال ایسے ہی ہیں۔ اور اگر آپ کے کسی قول یا فعل میں کوئی بات اللہ کی منشا کے خلاف ہو تو اس پر فوراً تنبیہ کرکے اس کی اصلاح کردی جاتی ہے۔- عصمت انبیا کا مفہوم :۔ کسی بڑے سے بڑے برگزیدہ انسان حتی کہ انبیاء سے بھی غلطی کا صدور ممکن ہے فرق صرف یہ ہے کہ انبیا کی غلطی کی فوراً بذریعہ وحی اصلاح کردی جاتی ہے جس سے ان کی زندگی بالکل بےداغ (جسے ہم اصطلاحی زبان میں عصمت انبیاء کہتے ہیں) ایک قابل تقلید نمونہ اور امت کے لیے واجب الاتباع بن جاتی ہے اور یہ مقام انبیاء کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوتا۔
١۔ یٰٓـاَ یُّہَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہ ُ لَکَ : وہ چیز کیا تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آپ پر حرام کی اور یہ آیات نازل ہوئیں ؟ اس کے متعلق ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے ، عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں :( کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یشرب عسلا عند زینب ابنۃ جحش و یمکت عندھا فواطات انا و حفصۃ عن ایتنا دخل علیھا فلتقل لہ اکلت مغافیر ، انی اجد منک ریح مغافیر ، قال لا ولکنی کنت اشرب عسلا عند زینب بنۃ جحش فلن اعود لہ و قد حلقت لا تخبری بذلک احدا) (بخاری ، التفیر ، باب ( یایھا النبی لم تحریم۔۔۔ ) : ٤٩١٢۔ مسلم : ١٤٧٤)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زینب حجش (رض) کے پاس شہد پیا کرتے تھے اور ان کے پاس ٹھہر جاتے تھے ، تو میں نے اور حفصہ نے آپس میں اس بات پر اتفاق کرلیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں سے جس کے پاس بھی آئیں وہ آپ سے یہ کہے کہ آپ نے مغافیر کھائی ہے ، کیونکہ مجھے آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے۔ ( جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے پر یہ بات کہی گئی تو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں ، لیکن میں زینب بنت حجش کے پاس شہد پیا کرتا تھا، دوبارہ کبھی نہیں پیوں گا اور میں نے ( اس بات کی) قسم کھالی ہے ، تم یہ بات کسی کو نہ بتانا “۔ امام بخاری (رح) تعالیٰ نے ” کتاب الطلاق “ میں بھی یہ حدیث نقل فرمائی ہے ، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں :(فنزلت :(یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) (بخاری ، الطلاق ، باب ( لم تحرم ما احل اللہ لک): ٥٢٦٧)” یعنی اس واقعہ پر یہ آیت اتری :( یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک)” اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے ؟ “ واضح ہے کہ مغافیر ایک بدبو در میٹھی گوند ہوتی ہے جو عرفط نامی پودے پر پیدا ہوتی ہے۔ عائشہ اور حفصہ (رض) کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو بدبو سے بہت نفرت ہے ، آپ یہ سوچ کر شہد پینا چھوڑ دیں گے کہ مغافیر کی بو شہد ہی سے آرہی ہوگی ، کیونکہ ممکن ہے شہد کی مکھیوں نے اس کے پودے عرفط کا رس چوس کر شہد بنایا ہو۔- دوسرا وہ واقعہ ہے جو امام نسائی نے انس (رض) سے بیان کیا ہے :( ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانت لہ امتۃ یطوھا فلم تنزل بہ عائشۃ و حفصۃ حتی حرمھا علی نفسہ فانزل اللہ عزوجل :( یایھا النبی لم تحرم ما لعل اللہ لک) الی آخر الایۃ) (نسائی ، عشرۃ النساء ، باب الغیرۃ : ٣٤١١)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ صحبت کیا کرتے تھے ، تو عائشہ اور حفصہ (رض) مسلسل آپ سے اصرار کرتی رہیں ، حتیٰ کہ آپ نے اسے اپنے آپ پر حرا م کرلیا ، تو اللہ عزوجل نے یہ مکمل آیت نازل فرمائی :(یا یھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک)” اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے ؟ “ علامہ البانی نے فرمایا :” اسنادہ صحیح “ اور حافظ ابن حجر نے ” کتاب الطلاق ، باب :( لم تحرم ما احل اللہ)” کی شرح کرتے ہوئے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ یہ لونڈی ماریہ قبطیہ (رض) تھیں ، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم کی ماں تھیں ، ضیاء مقدسی نے ” الاحادیث المختارۃ ‘ ‘ میں روایت کی ہے کہ عمر (رض) نے بیان کیا :( قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لحفصۃ لا تحدثی احدا وان ام ابراہیم علی حرام فقالت اتحرم ما احل اللہ لک ؟ قال فول اللہ لا اقربھا ، قال فلم یقربھا ، حتیٰ اخبرت عائشۃ فانزل اللہ عزوجل :(قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم) (الاحادیث المختارۃ : ١٨٩)” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) سے کہا کہ تم کسی کو نہ بتانا یہ کہ ام ابراہیم مجھ پر حرام ہے۔ “ انہوں نے کہا : کیا آپ وہ چیز حرام کر رہے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ کی قسم میں اس کے قریب نہیں جاؤں گا “۔ تو آپ اس کے قریب نہیں گئے ، حتیٰ کہ اس (حصفہ (رض) نے یہ بات عائشہ (رض) عنہاکو بتادی تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی :( قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم) ” بیشک اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ “ ضیاء مقدسی نے حدیث کے آخر میں فرمایا :’ ’ اسنادہ صحیح “ اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ہیثم بن کلیب کی مسند کے حوالے سے اسے نقل کر کے فرمایا ، یہ اسند صحیح ہے اور کتب ستہ میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا اور ضیاء مقدسی نے اپنی ” المستخرج “ میں اس کا انتخاب کیا ہے۔- اس سلسلے میں کچھ اور واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں مگر ان میں سے کسی کی سند صحیح ان دونوں واقعات میں سے شہد والے واقعہ کی سند زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ وہ صحیحین میں ہے ، اس لیے بعض مفسرین نے صرف اسی کو ان آیات کا سبب نزول قرار دیا ہے ، چناچہ قرطبی کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام اقوال میں سب سے صحیح پہلا ہے اور صحیح یہ ہے کہ آپ نے حرام شہد کو کیا تھا جو آپ زینب (رض) کے ہاں پیا کرتے تھے اور ابن کثیر نے اس کے متعلق بہت سی روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا : ” صحیح یہ ہے کہ یہ معاملہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہد کو حرام کرنے کی وجہ سے ہوا تھا “۔ اور آلوسی نے فرمایا :” نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت شہد کے واقعہ کے بارے میں ہے نہ کہ ماریہ قبطیہ (رض) کا واقعہ کسی صحیح سند کے ساتھ نہیں آیا “۔ مگر جیسا کہ اوپر گزرا کہ ماریہ قبطیہ (رض) کے قصے کی سند کو ضیاء مقدسی ، ابن کثیر ، ابن حجر اور البانی (رح) تعالیٰ نے صحیح کہا ہے ، شہدوالے واقعہ سے اس کا کوئی تعارض بھی نہیں اور ایک آیت کا سبب نزول کئی واقعات بھی ہوسکتے ہیں ، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ دونوں واقعات ان آیات کا سبب نزول ہیں ، شو کانی نے بھی یہی فیصلہ فرمایا ہے۔- ٢۔ احادیث سے ظاہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد کو امت کے لیے حرام قرار نہیں دیا تھا ، بلکہ صرف خود اسے نہ پینے کی قسم کھائی تھی ۔ اسی طرح امت کے لیے ان کی لونڈیوں کو حرام قرار نہیں دیا ، بلکہ صرف اپنی ایک لونڈی کو اپنے آپ پر حرام قرار دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر بھی ناراضی کا اظہار فرمایا ، کیونکہ آپ کے ایسا کرنے سے آپ کا ان نعمتوں سے محروم ہونا لازم آتا تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کی تھیں ۔ اس کے علاوہ اندیشہ تھا کہ آپ کو دیکھ کر امت کے لوگ ، جن کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسوۂ حسنہ کاملہ ہیں ، شہد کے قریب نہیں جائیں گے اور یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں تھیں۔- ٣۔ اس سے معلوم ہوا کہ صوفی حضرات جو ترک حیوانات جلالی و جمالی کرتے ہیں ، یعنی اپنے چلوں اور وظیفوں کے درمیان کوئی جاندار چیز یا اس سے نکلنے والی چیز مثلاً گوشت ، مچھلی ، انڈا ، دودھ ، گھی اور شہد وغیرہ نہیں کھاتے ، ان کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی اس تنبیہ کے خلاف ہے۔ حقیقت میں یہ عمل ہندو جوگیوں یا نصرانی راہبوں سے لیا گیا ہے ، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔- ٤۔” یا ایھا النبی “ کے الفاظ کے ساتھ خطاب کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا کام وحی الٰہی پر چلنا اور اسے آگے پہنچانا ہے ، آپ کو اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔- ٥۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر قول ، فعل اور تقریر پر وحی الٰہی کی مہر ہے اور وہ سب کا سب دین ہے ، کیونکہ اگر آپ کا کوئی اجتہاد درست نہیں ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی اصلاح فرما دیتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معصوم ہونے کا یہی مطلب ہے ، انبیاء کے علاوہ کسی کو یہ چیز حاصل نہیں کہ وحی کے ذریعے سے ان کی خطاء کی اصلاح ہوتی ہو ۔ اس لیے کسی صحابی یا امام یا پیر فقیر کی بات امت کے لیے حجت نہیں ، کیونکہ وہ درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔- ٦۔ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ : اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کو تعلیم ہے کہ بیویوں کو خوش رکھنا اگرچہ اچھی بات ہے ، مگر اس وقت تک جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر قائم رہ کر ہو ، رب تعالیٰ کو ناراض کر کے انہیں راضی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔- ٧۔ وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ : یہ اللہ تعالیٰ کا اپنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خاص انعام و فضل ہے کہ عتاب کرتے ہوئے ساتھ ہی معافی اور مغفرت و رحمت کی خوش خبری بھی سنا دی ، جیسا کہ فرمایا :(عَفَا اللہ ُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ) ( التوبۃ : ٤٣)” اللہ نے تجھے معاف کردیا ، تو نے ان ( منافقین) کو پیچھے رہنے کی اجازت کیوں دی ؟ “۔
خلاصہ تفسیر - اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے آپ (قسم کھا کر) اس کو (اپنے اوپر) کیوں حرام فرماتے ہیں (پھر وہ بھی) اپنی بیبیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (یعنی گو کسی مباح کا ترک کردینا جائز ہے اور اس ترک کا موکد بالقسم کرنا بھی کسی مصلحت سے جائز ہے لیکن تاہم خلاف اولیٰ ہی خصوصاً جبکہ اس کا داعی بھی ضعیف ہو۔ یعنی بیبیوں کی رضا جوئی ایسے امر میں جس میں ان کا راضی کرنا ضروری نہ تھا) اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (کہ گناہ تک کو معاف کردیتا ہے اور آپ سے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہوا اسلئے یہ عتاب نہیں بلکہ شفقةً ورافة آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ نے ایک جائز نفع کو ترک کرکے کیوں تکلیف اٹھائی اور چونکہ آپ نے قسم کھالی تھی اسلئے عام خطاب سے قسم کا کفارہ دینے کی نسبت ارشاد فرماتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کھولنا (یعنی قسم توڑنے کے بعد اسکے کفارہ کا طریقہ) مقرر فرما دیا ہے اور اللہ تمہارا کار ساز ہے اور وہ بڑا جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (اسلئے وہ اپنے علم و حکمت سے تمہاری مصلحتوں اور ضرورتوں کو جان کر تمہاری بہت سی دشواریوں کو آسان کردینے کے طریقے مقرر فرما دیتا ہے چناچہ کفارہ کے ذریعہ قسم کی پابندی کی کلفت کا علاج کردیا) اور (آگے بیبیوں کو سناتے ہیں کہ وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بی بی سے چپکے سے ایک بات فرمائی ( وہ بات یہی تھی کہ میں پھر شہد نہ پیوں گا مگر کسی سے کہنا نہیں) پھر جب اس بی بی نے وہ بات (دوسری بی بی کو) بتلا دی اور پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے (بذریعہ وحی) اس کی خبر کردی تو پیغمبر نے (اس ظاہر کردینے والی بی بی کو) تھوڑی سی بات تو جتلا دی (کہ تو نے ہماری یہ بات دوسری سے کہہ دی) اور تھوڑی بات کو ٹال گئے (یعنی آپ کا کرم اس غایت تک ہے کہ اپنے حکم کے خلاف کرنے پر جو بی بی کی شکایت کرنے بیٹھے تو شکایت کے وقت بھی اس کہی ہوئی بات کے پورے اجزاء کا اعادہ نہیں فرمایا کہ تو میری یہ بات کہہ دی اور یہ بھی کہہ دی بلکہ کچھ اجزاء کا ذکر کیا اور کچھ اجزاء کا نہیں تاکہ جو بی بی مخاطب ہے اس کو گمان ہو کہ ان کو اتنی ہی بات کہنے کی خبر ہوئی ہے زائد کی نہیں ہوئی تو شرمندگی کم ہو وھذا اسھل الاقوال فی تفسیر ھذین البعضین) سو جب پیغمبر نے اس بی بی کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو اس کی کسی نے خبر کردی، آپ نے فرمایا کہ مجھ کو بڑے جاننے والے بڑے خبر رکھنے والے (یعنی خدا) نے خبر کردی (یہ بیبیوں کو شاید اس لئے سنایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پورے راز پر مطلع ہونا سنکر آپ کے کریمانہ معاملہ سے اپنی کارروائی پر زیادہ شرمندہ ہوں اور توبہ کریں چناچہ آگے خود بیبیوں کو توبہ وغیرہ کا خطاب ہے کہ) اے (پیغمبر کی) دونوں بیبیوں اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو (بہتر ہے کیونکہ مقتضیٰ توبہ کا موجود ہے وہ یہ کہ) تمہارے دل (اس طرف) مائل ہو رہے ہیں (کہ دوسری بیبیوں سے ہٹا کر آپ کو اپنا ہی بنالیں اور گو یہ امر باعتبار اسکے کہ اصل مقتضی اس کا حب رسول ہے قبیح نہیں ہے لیکن چونکہ اس میں دوسروں کے حقوق کا اتلاف اور دل شکنی لازم آتی ہے اور مستلزم قبیح قبیح ہوتا ہے اس اعتبار سے قبیح وموجب لا متوبہ ہے) اور اگر (اسی طرح) پیغمبر کے مقابلے میں تم دونوں کارروائیاں کرتی رہیں تو (یاد رکھو کہ) پیغمبر کا رفیق اللہ ہے اور جبریئل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے (آپ کے) مددگار ہیں (مطلب یہ کہ تمہاری ان سازشوں سے آپ کا کوئی ضرر نہیں ہے بلکہ تمہارا ہی ضرر ہے کیونکہ جس شخص کے حامی ایسے ہوں اسکے خلاف مزاج کارروائیاں کرنے کا انجام ظاہر ہے کہ برا ہی برا ہے اور چونکہ بعضے اسباب نزول میں حضرت عائشہ وحفصہ کے علاوہ اور بیبیاں بھی شریک تھیں جیسے حضرت سودہ وصفیہ، اسلئے آگے صیغہ جمع سے خطاب فرماتے ہیں کہ تم یہ وسوسہ دل میں نہ لانا کہ آخر تو مرد کو بیبیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لئے چارونا چار ہماری سب باتیں سہی جاویں گی سو یہ سمجھ لو کہ) اگر پیغمبر تم عورتوں کو طلاق دیدیں تو ان کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے ان کو تم سے اچھی بیبیاں دی دے گا جو اسلام والیاں ایمان والیاں فرمانبرداری کرنے والیاں توبہ کرنے والیاں عبادت کرنے والیاں روزہ رکھنے والیاں ہوں گی کچھ بیوہ اور کچھ کنواریاں (بعض مصالح سے بیوہ بھی مرغوب ہوتی ہے جیسے تجربہ سلیقہ ہم عمری وغیرہ اس لئے اس کو بھی اوصاف رغبت میں شمار فرمایا) - معارف ومسائل - آیات تحریم کا واقعہ نزول - صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عائشہ وغیرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول شریف تھا کہ عصر کے بعد کھڑے کھڑے سب بیبیوں کے پاس (خبر گیری کے لئے) تشریف لاتے تھے۔ ایک روز حضرت زینب کے پاس معمول سے زیادہ ٹھیرے اور شہد پیا تو مجھ کو رشک آیا اور میں نے حفصہ سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس تشریف لادیں وہ یوں کہے کہ آپ نے مغافیر نوش فرمایا ہے۔ مغافیر ایک خاص قسم کا گوند ہے جس میں کچھ بدبو ہوتی ہے چناچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے تو شہید پیا ہے۔ ان بی بی نے کہا کہ شاید کوئی مکھی مغافیر کے درخت پر بیٹھی ہو اور اس کا رس چوسا ہو (اسی وجہ سے شہد میں بھی بدبو آنے لگی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدبو کی چیزوں سے بہت پرہیز فرماتے تھے اسلئے آپ نے قسم کھالی کہ پھر میں شہد نہ پیؤں گا اور اس خیال سے کہ حضرت زینب کا جی برا نہ ہو اس کے اخفاء کی تاکید فرمائی مگر ان بی بی نے دوسری سے کہہ دیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت حفصہ شہد پلانے والی ہیں اور حضرت عائشہ وسودہ وصفیہ صلاح مشورہ کرنے والی اور بعض روایات میں یہ قصہ دوسری طرح بھی آیا ہے۔ ممکن ہے کئی واقعے ہوں اور ان سب کے بعد یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں (ازبیان القرآن) - خلاصہ ان آیات کا یہ ہے کہ اس واقعہ میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حلال چیز یعنی شہد کو بذریعہ قسم اپنے اوپر حرام کرلیا تھا یہ فعل جبکہ کسی ضرورت و مصلحت سے ہو تو جائز ہے گناہ نہیں۔ مگر اس واقعہ میں ضرورت ایسی نہ تھی کہ اس کی وجہ سے آپ خود کوئی تکلیف اٹھاویں اور ایک حلال چیز کو چھوڑ دیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کام ازواج مطہرات کو راضی کرنے کیلئے کیا تھا، اور ایسے معاملے میں ان کا راضی کرنا آپ کے ذمہ لازم نہ تھا اسلئے اللہ تعالیٰ نے ازروئے شفقت و عنایت فرمایا۔- يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْم - اس آیت میں بھی قرآن کریم کے عام اسلوب کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپکا نام لے کر خطاب نہیں کیا بلکہ یایھا النبی کے لقب سے خطاب فرمایا جو آپ کا خصوصی اعزازو اکرام ہے اور پھر فرمایا کہ اپنی ازواج کی رضا جوئی کے لئے آپ اپنے اوپر ایک حلال چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں۔ یہ کلام اگرچہ ازروئے شفقت ہوا مگر صورت جواب طلبی کی تھی جس سے یہ خیال ہوسکتا تھا کہ شاید آپ سے کوئی بڑی غلطی ہوگئی اسلئے ساتھ ہی فرمایا واللہ غفور رحیم یعنی اگر گناہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مغفرت اور معاف کرنے والے ہیں۔ مسئلہ : کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جنکا مفصل ذکر سورة مائدہ کی (آیت) یا ایھا الذین امنوا لاتحرمو طیبت ما احل اللہ لکم، کے تحت معارف القران جلد سوم میں آچکا ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدةحرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے۔ اور اگر عقیدة حرام نہ سمجھے مگر بلا کسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے جسکا ذکر آگے آتا ہے۔ اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولیٰ ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ نہ عقیدة حرام سمجھے نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ہمیشہ ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے، تب تو یہ بدعث اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور اگر ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلاکراہت جائز ہے۔ بعض صوفیائے کرام سے جو ترک لذائذ کی حکایتیں منقول ہیں وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔- واقعہ مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھالی تھی نزول آیت کے بعد اس قسم کو توڑا اور کفارہ ادا فرمایا جیسا کہ درمنثور کی روایت میں ہے آپ نے ایک غلام کفارہ قسم میں آزاد کیا (ازبیان القرآن)
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكَ ٠ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اوپر کیا چیز حرام کرلی تھی - قول باری ہے (یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے) آیت کے نزول کے سلسلے میں کئی وجوہ کا ذکر کیا گیا ہے۔- ایک یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام المومنین حضرت زینب (رض) کے ہاں کھایا پیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) نے آپس میں صلاح کرکے آپ سے یہ کہا ۔ ہمیں آپ کے منہ سے مغافیر یعنی گوند کی بو آتی ہے۔ “ آپ نے یہ سن کر فرمایا : ” میں نے تو زینب کے پاس شہید پیا تھا۔ اب آئندہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ “ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- ایک قول کے مطابق آپ نے حضرت حفصہ (رض) کے پاس اور ایک اور قول کے مطابق حضرت سودہ (رض) کے پاس شہد پیا تھا اور پھر آپ نے اپنے اوپر اسے حرام کردیا تھا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں : ” خدا کی قسم میں کبھی شہد نہیں چکھوں گا۔ “- ایک اور روایت ہے جس کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ (رض) کے گھر میں ماریہ قبطیہ سے ہم بستری کرلی تھی، حضرت حفصہ (رض) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو بہت افسردہ ہوئیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا : ” کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوگی کہ میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ اور اب آئندہ کبھی بھی اس کے قریب نہیں جائوں گا۔ “ حضرت حفصہ (رض) نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا، لیکن حضرت حفصہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے اس کا ذکر کردیا، اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دے دی اور درج بالا آیت نازل فرمائی۔- محمد بن اسحاق نے زہری سے، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے ان کی روایت کی ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ دونوں باتیں ہوسکتی ہیں یعنی آپ نے شہد اور ماریہ قبطیہ دونوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہو لیکن زیادہ واضح بات یہ کہ آپ نے حضرت ماریہ (رض) کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور آیت کا نزول بھی ماریہ کے متعلق ہوا تھا۔- کیونکہ ارشاد باری ہے (تبتغی مرضات ازواجک (کیا اس لئے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو) ظاہر ہے کہ شہد کو ترک کرنے میں بیویوں کی رضاجوئی کو کوئی دخل نہیں تھا البتہ ماریہ سے ترک قرب میں ان کی رضا جوئی مطلوب ہوسکتی تھی ۔ شہد کے متعلق روایت بیان ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔- ایک روایت کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد نہ پینے کی قسم کھالی تھی۔ حسن کا قول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماریہ (رض) کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ شعبی نے مسروق سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر تحریم کرلی تھی، آپ سے عرض کیا گیا کہ جس چیز کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحریم کی ہے وہ تو حلال ہے۔ - رہ گئی قسم کی بات تو اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے۔ “ مجاہد اور عطاء کا قول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر صحابہ کرام سے اسی طرح روایت ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے تحریم کر کے قسم بھی کھائی تھی تو ظاہر آیت کی اس پر دلالت نہیں ہے۔ آیت میں تو صرف تحریم کا ذکر ہے ۔ اور آیت کے ساتھ کسی ایسی بات کو ملحق کرنا جائز نہیں ہوتا جو آیت کا جز نہ ہو۔- اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ تحریم کو ہی قسم قرار دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لفظ تحریم کے اطلاق کے ساتھ قسم کا کفارہ واجب کردیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تحریم اور قسم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ قسم کے ذریعے اس چیز کی تحریم کردی جاتی ہے جس کے بارے میں قسم کھائی گئی ہو اور تحریم بھی قسم ہے۔- تاہم ہمارے اصحاب کے نزدیک تحریم اور قسم ایک جہت سے مختلف اور ایک جہت سے یکساں ہوتے ہیں۔ جس جہت کے اندر قسم تحریم کے موافق ہوجاتی ہے وہ یہ کہ دونوں کے اندر حنث کی بنا پر قسم کا کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ اختلاف کی جہت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ ” میں یہ روٹی نہیں کھائوں گا۔ “ پھر اس روٹی کا ایک ٹکڑا کھا لینے پر وہ حانث نہیں ہوگا۔- اگر وہ شخص یہ کہتا ہے کہ ” میں نے یہ روٹی اپنے اوپر حرام کرلی ہے۔ “ اگر وہ اس روٹی کا ذرا سا ٹکڑا بھی کھالے گا تو حانث ہوجائے گا اور اس پر کفارہ لازم آجائے گا۔- کیونکہ فقہانے اس شخص کی اپنی ذات پر روٹی کی تحریم کو اس قول کے مشابہ قرار دیا ہے۔” خدا کی قسم میں نے اس روٹی کا کوئی حصہ بھی نہیں کھایا، اسے ان تمام چیزوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے یعنی مردار، خون، شراب وغیرہ۔ اس لئے یہ اس کی قلیل اور کثیر مقدار کی تحریم کا مقتضی بن گیا۔- جو شخص اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلے اس کے حکم کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) ، اور حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ یہ حرام ایک قسم ہے۔ یہی حسن، ابن المسیب ، جابر بن زید، عطاء اور طائوس کا بھی قول ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت بھی ہے جو اس درج بالا روایت سے مختلف ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) (ایک روایت کے مطابق) حضرت ابن عمر (رض) (ایک روایت کے مطابق) حضرت ابوہریرہ (رض) اور تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہوجائے گی۔- خصیف نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ حرام کو ظہار کی حیثیت دیتے تھے۔ منصور نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ نذر اور حرام میں جب نام نہ لیا جائے تو وہ مغلظہ ہوتی ہے اس صورت میں متعلقہ شخص پر ایک گردن آزادکرنا یا دو ماہ مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھلانا لازم آتا ہے۔- ابن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ قسم ہوگی جس کا وہ کفارہ دے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا تھا کہ کیا تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں بہترین نمونہ موجود نہیں ہے ؟ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس صورت پر محمول ہے کہ شوہر کی کوئی نیت نہ ہو پھر اس کی حیثیت قسم کی ہوگی لیکن اگر اس نے ظہار کی نیت کی ہو تو یہ ظہار ہوگا۔ مسروق کا قول ہے۔ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اپنی بیوی کو حرام کرلوں یا شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی (ثرید) کو حرام کرلوں۔ “ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ ” مجھے کوئی پروا ہوں کہ اپنی بیوی کو حرام کرلوں یا ٹھنڈے پانی کو۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا دونوں اقوال اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ یہ حضرات اسے قسم نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ثرید اور پانی کی تحریم کے بارے میں ان کے قول کو قسم قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس لئے مفہوم یہ ہوگا کہ یہ حضرات اسے طلاق نہیں سمجھتے تھے۔- ہمارا بھی یہی قول ہے کہ یہ طلاق نہیں ہے الا یہ کہ کہنے والا طلاق کی نیت کرلے اس لئے ان دونوں حضرات کے اس قول کی صحابہ کرام کے ان اقوال کے ساتھ کوئی مخالفت نہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ بلکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کہنے والے کا یہ قول لغو نہیں ہے، یہ یا تو قسم کی صورت ہوگی یا طلاق کی یا ظہار کی۔- لفظ حرام کی صورت میں فقہاء امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ یہ لفظ کہہ کر اگر وہ طلاق کی نیت کرے گا تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی الا یہ کہ وہ تین کی نیت کرے۔ اگر وہ طلاق کی نیت نہیں کرے گا تو قسم ہوگی اور اس صورت میں پھر وہ ایلا کرنے والا قرار دیا جائے گا۔- ابن سماعہ نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ اگر اس لفظ کے ساتھ ظہار کی نیت کرے گا تو ظہار نہیں ہوگا کیونکہ ظہار دراصل حرف تشبیہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابن شجاع نے امام ابو یوسف سے اسبارے میں ان کے اور امام زفر کے مابین اختلاف رائے کا ذکر کیا ہے یعنی اگر وہ ظہار کی نیت کرے گا تو ظہار ہوجائے گا۔- ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اس لفظ سے تین طلاق واقع ہوجائے گی اور میں کہنے والے کی نیت کی متعلق اس سے استفسار نہیں کروں گا۔ ابن القاسم کی روایت کے مطابق امام مالک کا قول ہے کہ لفظ حرام سے کوئی قسم وغیرہ نہیں ہوتی البتہ اگر وہ اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس پر اسے طلاق دینا لازم ہوجائے گا اور یہ تین طلاق ہوگی الا یہ کہ وہ ایک یا دو کی نیت کرے۔- سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر وہ تین کی نیت کرے گا تو تین طلاق اور اگر ایک کی نیت کرے گا تو ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر اس کی نیت قسم کی ہوگی تو وہ قسم کا کفارہ ادا کرے گا۔ اگر اس کی نیت نہ علیحدگی کی ہو اور نہ قسم کی تو اس صورت میں یہ لغو اور جھوٹ ہوگا۔ - اوزاعی کا قول ہے کہ یہ لفظ کہہ کر کہنے والا جو نیت کرے گا اس کے مطابق ہی حکم لگایا جائے گا۔ اگر اس کی کوئی نیت ہیں ہوگی تو اسے قسم قرار دیا جائے گا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اس کی حیثیت ظہار جیسی ہے۔- امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک وہ طلاق کی نیت نہیں کرے گا اس وقت تک اس لفظ کو طلاق قرار نہیں دیا جائے گا۔ اگر کہنے والا طلاق کی نیت کرے گا تو طلاق ہوجائے گی اور اس کی تعداد بھی اتنی ہی ہوگی جتنی اس نے نیت کی ہوگی اگر طلاق کے بغیر اس نے تحریم کا ارادہ کیا ہوگا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا لیکن اسے ایلاء کرنے والا قرار نہیں دیا جائے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے تحریم کو قسم قرار دیا ہے بشرطیکہ بیوی کو اپنے لئے حرام کرتے وقت اس کی نیت طلاق کی نہ ہو۔ اس صورت میں تحریم کی حیثیت اس کے اس قول جیسی ہوگی۔” خدا کی قسم میں تمہارے قریب نہیں آئوں گا۔ “ اس صورت میں اسے ایلاء کرنے والا قرار دیاجائے گا۔- لیکن اگر وہ بیوی کے سواماکولات ومشروبات وغیرہ میں سے کسی چیز کو اپنے لئے حرام کرلے گا تو اس کی اس تحریم کی حیثیت اس کے اس قول کی طرح ہوگی : ” خدا کی قسم میں فلاں چیز نہیں کھائوں گا یا فلاں چیز نہیں پیوں گا۔ “ وغیرہ ذلک ۔ کیونکہ قول باری ہے (لم تحرم ما احل اللہ لک)- پھر ارشاد ہوا (قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم) اللہ تعالیٰ نے تحریم کو قسم قرار دیا اس لئے شریعت کے حکم میں تحریم کے لفظ کے مضمون اور مقتضیٰ میں قسم کا مفہوم شامل ہوگیا۔ اس لئے اگر کوئی شخص اس لفظ کو علی الاطلاق اپنی زبان پر لائے گا تو اسے قسم پر محمول کیا جائے گا الا یہ کہ وہ کسی بات کی نیت کرلے۔- اس صورت میں اس کی نیت کے مطابق وہ بات ہوگی جب وہ اپنی بیوی کی تحریم کرکے اس سے طلاق مراد لے گا تو یہ طلاق ہوگی کیونکہ لفظ میں اس کا احتمال موجود ہے۔ ہر ایسا لفظ جس میں طلاق اور غیر طلاق دونوں مفہوم کا احتمال ہو اور کہنے والا اس سے طلاق مراد لے لے تو اسے طلاق قرار دیا جائے گا۔ اس کی اصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت رکانہ (رض) سے اس وقت کہا تھا جب انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بائن دی تھی کہ تم اللہ کی قسم کھا کر بتائو کہ تم نے صرف ایک طلاق کی نیت کی تھی۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دو باتوں پر مشتمل ہے اول یہ کہ ہر وہ لفظ جس میں تین طلاق کا احتمال مجود ہو اور تین کے سوا کم کا بھی تو کہنے والے کی نیت اگر تین ہوگی تو تین طلاق واقع ہوجائے گی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاملے میں حضرت رکانہ (رض) سے حلف نہ لیتے۔- دوسری بات یہ ہے کہ لفظ کے وجود کے ساتھ ان کے ذمہ تین طلاق عائد نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں آپ نے ان کے قول کو ہی اصل قول قرار دیا ہے کیونکہ اس میں یہ احتمال موجود تھا۔ اس بنا پر اس کی حیثیت ایک اصول اور بنیاد کی ہوگئی اور وہ اصول یہ ہے کہ ہر وہ لفظ جس میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال موجود ہو۔ ہم اسے صرف اسی صورت میں طلاق قرار دیں گے جب اس کے ساتھ ایسی دلالت بھی موجود ہو کہ کہنے والے کا ارادہ طلاق کا ہے۔- اگر ایک لفظ میں طلاق کے مفہوم کا احتمال ہو تو اس کے ذریعے طلاق واقع کرنا جائز ہوتا ہے اگرچہ فی نفسہ وہ لفظ طلاق کے لئے موضوع نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام المومنین حضرت سودہ (رض) سے کہا تھا کہ ” اعتدی “ (عدت گزارو) پھر آپ نے ان سے رجوع کرلیا تھا۔- آپ نے اپنے قول ” اعتدی “ سے طلاق واقع کردی تھی کیونکہ اس میں طلاق کے مفہوم کا احتمال موجود تھا۔ ہمیں سلف میں سے کسی کے بارے میں یہ علم نہیں کہ انہوں نے تحریم کے لفظ کے ساتھ طلاق واقع ہونے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔- جن حضرات کا قول ہے کہ تحریم کے لفظ سے قسم واقع ہوتی ہے تو ہمارے نزدیک اس قول کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب کہنے والے کی نیت طلاق کی نہ ہو اور دلالت حال کی مقارئت بھی ہو۔- امام مالک کا خیال ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے سوا کوئی اور چیز اپنے اوپر حرام کرلے گا اس کے ذمہ کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔ نیز اس کا یہ قول قسم قرار نہیں دیا جائے گا۔- ہم نے قول باری (یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) کے سلسلے میں ذکر کردیا ہے کہ یہ قسم کا مقتضی ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے (قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم)- نیز یہ کہ اس لفظ کے موجب کو یعنی یہ کہ لفظ حرام قسم ہوتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کی بنا پر ساقط کرنا جائز نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے شہداستعمال نہ کرنے کی قسم کھالی تھی کیونکہ خبرواحد کے ذریعے قرآن کے حکم پر اعتراض جائز نہیں ہے۔- نیز یہ کہ جس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قسم کی روایت کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس سے صرف تحریم مراد لی ہو کیونکہ تحریم بھی قسم ہوتی ہے ۔ نظر اور قیاس کی جہت سے اس بات پر کہ تحریم قسم ہوتی ہے، یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنے اوپر کوئی چیز حرام کرلیتا ہے اس کے الفاظ اس امر کے مقتضی ہوتے ہیں کہ اس شخص کے لئے اس چیز سے خرام اشیاء کی طرح پرہیز کرنا واجب ہے۔ یہ بات نذر کے معنی میں ہے۔- نیز اس کا مفہوم وہی ہے جو قائل کے اس قول کا کہ ” اللہ کے لئے میرے اوپر لازم ہے کہ میں فلاں کام نہ کروں۔ “ جب سنت اور اتفاق فقہاء کی بنا پر نذر کو قسم قرار دیا گیا ہے تو اس سے یہ بات لازم ہوگئی کہ ایک چیز کی تحریم کو بھی بمنزلہ نذر قرار دیا جائے اور پھر حنث کی صورت میں اسی طرح کفارہ لازم ہو جس طرح نذر کی خلاف ورزی کی صورت میں لازم ہوتا ہے۔
محمد آپ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حضرت ماریہ قبطیہ کے نکاح کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس قسم کو بخشنے والا اور مہربان ہے۔
آیت ١ یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کیوں حرام ٹھہرا رہے ہیں (اپنے اوپر) وہ شے جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے ؟ “- تَـبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے ہیں اپنی بیویوں کی رضا جوئی “- وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ” اور اللہ بہت معاف کرنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔ “- یعنی اللہ کو یہ بات پسند نہیں آئی ‘ لیکن اس نے معاف فرما دیا ہے ۔
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :1 یہ دراصل استفہام نہیں ہے ۔ بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے ۔ یعنی مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے ، بلکہ آپ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالی کو ناپسند ہے ۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے ، حتی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے ۔ اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو نہ عقیدۃً حرام سمجھا تھا اور نہ اسے شرعاً حرام قرار دیا تھا ، بلکہ صرف اپنی ذات پر اس کے استعمال کو حرام کر لیا تھا ، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی ، اور آپ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ امت بھی اس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے ، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :2 اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ایسا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ان کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے تحریم کے اس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اس کی اس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا ؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام صرف تحریم حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اس کی بھی تصریح کی جاتی ۔ اس کو بطور خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ مقصد صرف حضور ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا ۔ اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور نے اپنے اوپر حرام کیا تھا ، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنے ۔ ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہد استعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا تھا ۔ حضرت ماریہ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کو بھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق ( ) کے نام بھی تھا جسے عرب مقوقس کہتے تھے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ یہ نامہ گرامی لے کر جب اسکے پاس پہنچے تو اس نے اسلام قبول نہ کیا ، مگر اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا ۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں ( ابن سعد ) ۔ ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ ( عیسائی حضرت مریم کو ماریہ کہتے ہیں ) مصر سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسان بن ثابت کی ملک یمین میں دےدیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا ۔ ذی الحجہ 8 ھجری میں انہی کے بطن سے حضور کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے ( الاستیعاب ۔ الاصابہ ) ۔ یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں ۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مجھے کسی کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا ، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضور کو بہت پسند آئی تھیں ۔ ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور وہ گھر پر موجود نہ تھیں ۔ اس وقت حضرت ماریہ آپ کے پاس وہاں آ گئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں ۔ حضرت حفصہ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضور سے اس کی سخت شکایت کی ۔ اس پر آپ نے ان کو راضی کرنے کے لیےان سے یہ عہد کر لیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہ رکھیں گے ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا ، اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اس پر قسم بھی کھائی تھی ۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مرسلا نقل ہوئی ہیں ، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ۔ ان کی کثرت طرق دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس قصے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے ۔ مگر صحاح ستہ میں سے کسی میں بھی یہ قصہ نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ نسائی میں حضرت انس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ حضور کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے پھر حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ آپ کے پیچھے پڑ گئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے ۔ دوسرا واقعہ بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور دوسری متعدد کتب حدیث میں خود حضرت عائشہ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے ۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ حضرت زینب بنت جحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر بیٹھنے لگے ، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا ، اور حضور کو شیرینی بہت پسند تھی ، اس لیے آپ ان کےہاں شہد کاشربت نوش فرماتے تھے ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حفصہ ، سودہ اور حضرت صفیہ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے ۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے ا ندر بھی اس بساند کا اثر آ جاتا ہے ۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ کو اس سے سخت نفرت ہے کہ آپ کے اندر کسی قسم کی بد بو پائی جائے ۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب کے ہاں ٹھیرنے سےروکنے کی خاطریہ تدبیر کی گئی اور یہ کارگر ہوئی ۔ جب متعدد بیویوں نے آپ سے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آئی ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے ۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلن اعود لہ و قد حلفت اب میں ہرگز اسے نہ پیونگا ، میں نے قسم کھا لی ہے ۔ دوسری روایت میں صرف فلن اعودلہ کے الفاظ ہیں ، وقد حلفت کا ذکر نہیں ہے ۔ اور ابن عباس سے بروایت ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی اور ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ واللہ لااشربہ خدا کی قسم میں اسے نہ پیو گا ۔ اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سے اسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصے کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرایا ہے ۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ کی حدیث نہایت صحیح ہے ، اور حضرت ماریہ کو حرام کر لینے کا حصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابو بکرابن العربی بھی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں ، اور یہی رائے امام نووی اور حافظ بدر الدین عینی کی ہے ۔ ابن ہمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ شہد کی تحریم کا قصہ صحیحین میں خود حضرت عائشہ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا ، اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے ۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :3 یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا ، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جائے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپ کی اس لغزش کو معاف کر دیا ۔
1: حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عصر کے بعد اپنی تمام اَزواجِ مطہرات کے پاس تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے جایاکرتے تھے، اس معمول کے مطابق آپ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو شہد پیش کیا جو آپ نے پیا۔ اس کے بعد آپ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کے پاس تشریف لے گئے تو دونوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ (مغافیر ایک گھاس کا نام ہے جس میں کچھ بُوہوتی تھی) آپ نے نفی میں جواب دیا۔ تو انہوں نے پوچھا کہ: ’’آپ کے منہ میں یہ بُو کیسی ہے؟‘‘ آپ کو اس سے شبہ ہوا کہ شاید جو شہد میں نے پیا تھا، اُس کی مکھی نے مغافیر چوسا ہو، چونکہ آپ کو اپنے مبارک منہ سے کوئی ناگوار بو محسوس ہونا اِنتہائی ناپسند تھا، اس لئے آپ نے اس وقت یہ قسم کھالی کہ میں آئندہ شہد نہیں پیوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔