2۔ 1 یعنی کفارہ ادا کرکے اس کام کو کرنے کی، جس کی نہ کرنے کی قسم کھائی ہو، اجازت دے دی، قسم کا یہ کفارہ سورة مائد ۃ۔ 89 میں بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کفارہ ادا کیا (فتح القدیر) اس امر میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس کا یہ حکم ہے ؟ جمہور علماء کے نزدیک بیوی کے علاوہ کسی چیز کو حرام کرنے سے وہ چیز حرام ہوگی اور نہ اس پر کفارہ ہے، اگر بیوی کو اپنے اوپر حرام کرے گا تو اس سے اس کا مقصد اگر طلاق ہے تو طلاق ہوجائے گی اور اگر طلاق کی نیت نہیں ہے تو راجح قول کے مطابق یہ قسم ہے، اس کے لئے کفارہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ (ایسر التفاسیر) ۔
[٢] قسم کے کفارہ کا تفصیلی ذکر سورة مائدہ کی آیت نمبر ٨٩ کے تحت گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ قسم کا کفارہ ادا کرکے اس عہد اور قسم کو توڑ دیں جو آپ نے ایک حلال چیز کو اپنے آپ پر حرام کرلینے سے متعلق کیا ہے۔- [٣] یعنی اللہ تمہارے تمام معاملات کا نگران اور محافظ ہے اس نے جو چیزیں حلال کی ہیں وہ بھی اپنے علم و حکمت کی بنا پر کی ہیں۔ اور جو حرام کی ہیں وہ بھی علم و حکمت کی بنا پر ہی حرام کی ہیں۔ تمہارا کام بس یہ ہے کہ تمہیں کسی حکم کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس کے احکام کی اطاعت کرتے جاؤ۔
١۔ قَدْ فَرَضَ اللہ ُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ :” تحلۃ “ ” حلل “ ( تفعیل) کا مصدر ” تحلیل “ اور ” تحلۃ “ دونوں آتے ہیں ، جیسے ” کرم “ کا مصدر ” تکریم “ اور ” تکرمۃ “ دونوں آتے ہیں ۔ معنی ہے حلال کرنا ، مراد قسم کا کفار ہ ہے۔ جس کے ادا کرنے کے بعد وہ چیز حلال ہوجاتی ہے جو قسم کھا کر حرام کی تھی ، یعنی آپ نے قسم کھا کر جو شہد اور ماریہ کو حرام کیا ہے ، اس قسم کا کفارہ دے دیں ۔ قسم کا کفارہ اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ مائدہ (٨٩) میں بیان فرمادیا ہے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( وانی واللہ ان شاء اللہ لا اخلف علی یمین فازی غیرھا خیرا منھا الا کفرت عن یمینی ، واتیت الذی ھو خیر) (بخاری ، الایمان ، والنذور ، باب قول اللہ تعالیٰ : ( لا یواخذ کم اللہ ۔۔۔ ) ٦٦٢٣)” اور اللہ کی قسم میں ، اگر اللہ نے چاہا تو کسی بھی بات پر قسم کھاؤں گا ، پھر اس کے خلاف کو اس سے بہتر دیکھوں گا تو اپنی قسم کا کفارہ دوں گا اور وہ کام کروں گا جو بہتر ہے “۔ ناجائز کام کی قسم کھالے تو اسے توڑنا اور اس کا کفارہ دینا ضروری ہے۔- ٢۔ وَ اللہ ُ مَوْلٰـکُمْ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ :” مولیٰ “ کا معنی ہے مالک، دوست ، مدد گار ۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا مالک تمہارا مدد گار اور تم پر بےحد مہربان ہے ، اسی لیے اس نے تمہیں ایسی چیزوں سے منع فرمایا ہے جو تمہیں مشکل میں مبتلا کردیں اور اگر قسم کھا کر ایسی کسی مشکل میں پڑجاؤ تو اس سے نکلنے کا طریقہ بھی بتادیا ہے ، کیونکہ :(یُرِیْدُ اللہ ُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُبِکُمُ الْعُسْرَ ) ( البقرہ : ١٨٥)” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا “۔ اور وہی ہے جو سب کچھ جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے ، اس لیے اس کے کسی حکم میں کوئی خطا نہیں ، کیونکہ اس کے تمام احکام کامل علم و حکمت پر مبنی ہیں۔
(آیت) قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ایسی صورتوں میں جہاں قسم کا توڑنا ضروری یا مستحسن ہو تمہاری قسموں سے حلال ہونے یعنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کردینے کا راستہ نکال دیا ہے جسکا ذکر دوسری آیات میں مفصل ہے۔
قَدْ فَرَضَ اللہُ لَكُمْ تَحِلَّۃَ اَيْمَانِكُمْ ٠ ۚ وَاللہُ مَوْلٰىكُمْ ٠ ۚ وَہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ٢- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- فرض - الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] ، أي : معلوما، وقیل : مقطوعا عنهم، والفَرْضُ كالإيجاب لکن الإيجاب يقال اعتبارا بوقوعه وثباته، والفرض بقطع الحکم فيه «3» . قال تعالی: سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور 1] ، أي : أوجبنا العمل بها عليك، وقال : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص 85] ، أي : أوجب عليك العمل به، ومنه يقال لما ألزم الحاکم من النّفقة : فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] ، وقوله : قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم 2] ، وقوله : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة 237] ، أي : سمّيتم لهنّ مهرا، وأوجبتم علی أنفسکم بذلک، وعلی هذا يقال : فَرَضَ له في العطاء، وبهذا النّظر ومن هذا الغرض قيل للعطية : فَرْضٌ ، وللدّين : فَرْضٌ ، وفَرَائِضُ اللہ تعالی: ما فرض لأربابها، ورجل فَارِضٌ وفَرْضِيٌّ: بصیر بحکم الفرائض . قال تعالی: فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَ إلى قوله : فِي الْحَجِّ «4» أي : من عيّن علی نفسه إقامة الحجّ «5» ، وإضافة فرض الحجّ إلى الإنسان دلالة أنه هو معيّن الوقت، ويقال لما أخذ في الصّدقة فرِيضَةٌ. قال : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ «1» وعلی هذا ما روي (أنّ أبا بکر الصّدّيق رضي اللہ عنه كتب إلى بعض عمّاله کتابا وکتب فيه : هذه فریضة الصّدقة التي فرضها رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم علی المسلمین) . - والفَارِضُ- : المسنّ من البقر «3» .- قال تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] ، وقیل : إنما سمّي فَارِضاً لکونه فارضا للأرض، أي : قاطعا، أو فارضا لما يحمّل من الأعمال الشاقّة، وقیل : بل لأنّ فَرِيضَةُ البقر اثنان : تبیع ومسنّة، فالتّبيع يجوز في حال دون حال، والمسنّة يصحّ بذلها في كلّ حال، فسمّيت المسنّة فَارِضَةً لذلک، فعلی هذا يكون الفَارِضُ اسما إسلاميّا .- ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں مفروض کے معنی معین کے ہیں اور بعض نے کاٹ کر الگ کیا ہوا مراد لیا ہے ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور 1] یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس ( کے احکام ) کو فرض کردیا ۔ یعنی اس پر عمل کرنا فرض کردیا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص 85] ( اے پیغمبر ) جس نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا ہے ۔۔۔۔ یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر واجب کیا ہے اور اسی سے جو نفقہ وغیرہ حاکم کسی کے لئے مقرر کردیتا ہے اسے بھی فرض کہا جاتا ہے اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم 2] خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة 237] لیکن مہر مقررکر چکے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لئے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو اور یہی معنی فرض لہ فی العطاء کے ہیں ( یعنی کسی کے لئے عطا سے حصہ مقرر کردینا ) اسی بنا پر عطیہ اور قرض کو بھی فرض کہا جاتا ہے اور فرئض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے اور جو شخص علم فرائض کا ماہر ہوا سے فارض و فرضی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَإلى قوله : فِي الْحَجِّ تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج ( کے کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اور اس کی پختہ نیت کرلی ہو یہاں پر فرض کی نسبت انسان کی طرف کرنے میں اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا وقت مقرر کرنا انسان کا کام ہے ( کہ میں امسال حج کرونگا یا آئندہ سال اور زکوۃ میں جو چیز وصول کی جاتی ہے اس پر بھی فریضہ کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ صدقات ( یعنی زکوۃ نہ خیرات ) تو مفلسوں ۔۔۔۔ کا حق ہے ( یہ ) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ اسی بنا پر مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے ایک عامل کیطرف خط لکھا اور اس میں ارقام فرمایا کہ یہ یعنی جو مقادیرلکھی جاری ہی میں فریضہ زکوۃ ہے ۔ جو رسول اللہ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔ - الفارض - عمر رسیدہ گائے یا بیل ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] نہ بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ بعض نے کہا کہ بیل کو فارض اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ تا یعنی جو تنا ہے اور یا اس لئے کہ اس پر سختکاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ گائے کی زکوۃ میں تبیع اور مسنۃ لیا جاتا ہے اور تبیع کا لینا تو بعض حالتوں میں جائز ہوتا ہے اور بعض احوال میں ناجائز لیکن مسنۃ کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہوتی ہے اس لئے مسنۃ کو فارضۃ کہا گیا ہے اس توجیہ کی بناپر فارض کا لفظ مصطلحات اسلامیہ سے ہوگا ۔- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - يَمِينُ ) قسم)- في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ.- الیمین - بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کی قسموں کا کفارہ بیان کردیا ہے۔ چناچہ حضور اکرم نے اپنی اس قسم کا کفارہ ادا کیا اور ماریہ قبطیہ کے ساتھ تعلق کو باقی رکھا وہ تمہارا محافظ و مددگار ہے اور وہ ان واقعات سے واقف اور حکمت والا ہے کہ کفارہ کا حکم دیا۔ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ (الخ)- اور امام طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم اپنی باندی حضرت ماریہ کے پاس حضرت حفصہ کے گھر میں تشریف لے گئے، حضرت حفصہ آئیں تو حضور کو ان کے پاس بیٹھا ہوا پایا اس پر حضرت حفصہ رنجیدہ ہوئیں اس پر آپ نے فرمایا اے حفصہ اگر میں ان (ماریہ قبطیہ) کو ہاتھ لگاؤں تو یہ مجھ پر حرام ہیں اور اس بات کو تم راز رکھنا، حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے پاس آئی اور ان کو اس سے مطلع کردیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔- اور بزاز نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت آپ کی باندی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے راویت کیا ہے کہ رسول اکرم حضرت سودہ کے پاس شہد پیا کرتے تھے۔ چناچہ آپ وہاں سے حضرت عائشہ کے پاس گئے تو حضرت عائشہ بولیں کہ میں آپ کے منہ سے بو پاتی ہوں، پھر آپ حضرت حفصہ کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے بھی یہی فرمایا اس پر آپ بولے یہ لو میں اس شہد کی محسوس کرتا ہوں جو میں نے سودہ کے پاس پیا ہے اللہ کی قسم میں اس کو نہیں پیوں گا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ (الخ)- اور امام طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم اپنی باندی حضرت ماریہ کے پاس حضرت حفصہ کے گھر میں تشریف لے گئے، حضرت حفصہ آئیں تو حضور کو ان کے پاس بیٹھا ہوا پایا اس پر حضرت حفصہ رنجیدہ ہوئیں اس پر آپ نے فرمایا اے حفصہ اگر میں ان (ماریہ قبطیہ ( کو ہاتھ لگاؤں تو یہ مجھ پر حرام ہیں اور اس بات کو تم راز رکھنا، حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے پاس آئی اور ان کو اس سے مطلع کردیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔- اور بزاز نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت آپ کی باندی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم حضرت سودہ کے پاس شہد پیا کرتے تھے۔ چناچہ آپ وہاں سے حضرت عائشہ کے پاس گئے تو حضرت عائشہ بولیں کہ میں آپ کے منہ سے بو پاتی ہوں پھر آپ حضرت حفصہ کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے بھی یہی فرمایا اس پر آپ بولے یہ لو میں اس شہد کی محسوس کرتا ہوں جو میں نے سودہ کے پاس پیا ہے اللہ کی قسم میں اس کو نہیں پیوں گا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ممکن ہے کہ یہ آیت دونوں واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔- اور ابن سعد نے عبداللہ بن رافع سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ سے آیت یا ایھا النبی لم تحرم (الخ) کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس ایک سفید شہد کی کپی تھی۔- رسول اکرم اس میں سے چاٹ لیا کرتے تھے اور وہ آپ کو اچھا معلوم ہوتا تھا تو آپ سے حضرت عائشہ نے فرامیا مکھی نے گوند پر بیٹھ کر اس کا عرق چوس لیا ہے۔ چناچہ آپ نے اپنے اوپر حرام کردیا تب یہ آیت نازل ہوئی۔- اور حارث بن اسامہ نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر نے قسم کھائی کہ مسطح پر کچھ خرچ نہیں کروں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَيْمَانِكُمْ (الخ) آپ کی اس زوجہ مطہرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اپنے آپ کو ہبہ کردیا تھا باقی یہ روایت بھی غریب اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
آیت ٢ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَــکُمْ تَحِلَّۃَ اَیـْمَانِکُمْ ” اللہ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کو کھولنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے۔ “- یعنی کفارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ سورة المائدۃ کی اس آیت میں بتایا گیا ہے : لاَ یُـؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّـغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّـؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّـمُ الْاَیْمَانَج فَـکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَـبَۃٍط فَمَنْ لَّـمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَۃِ اَیَّامٍط ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْط وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَـکُمْط کَذٰلِکَ یُـبَـیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہٖ لَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ - ” اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں کرے گا تم سے تمہاری ان قسموں میں جو لغو ہوتی ہیں لیکن وہ (ضرور) مواخذہ کرے گا تم سے ان قسموں پر جن کو تم نے پختہ کیا ہے ‘ سو اس کا کفارہ ہے کھانا کھلانا دس مساکین کو ‘ اوسط درجے کا کھانا جیسا تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ‘ یا ان کو کپڑے پہنانا ‘ یا کسی غلام کو آزاد کرنا۔ پھر جو کوئی اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جب تم قسم کھا (کرتوڑ) بیٹھو۔ اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کو واضح فرما رہا ہے تاکہ تم شکر کرو۔ “- گویا آپ اپنی یہ قسم توڑ دیجیے اور اس ضمن میں کفارہ ادا کیجیے۔ بعض مترجمین نے یہاں ” قَدْ فَرَضَ “ کا ترجمہ ” فرض کردیا ہے “ بھی کیا ہے اور اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ خلافِ شرع قسم کا توڑنا فرض ہے۔- وَاللّٰـہُ مَوْلٰٹکُمْ وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ۔ ” اور اللہ تمہارا مددگار ہے ‘ اور وہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالی نے سورۃ مائدہ ، آیت 89 میں مقرر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اس عہد کو توڑ دیں جو آپ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے ۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جبکہ آدمی نے قسم کھا کر حلال کو حرام کر لیا ہو ، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے ۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو ، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز ، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کیا ہو تو یہ ایک لغو بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا ، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کر سکتا ہے جسے اس نے حرام کیا ہے ۔ یہ رائے مسروق ، شعبی ، ربیعہ اور ابو سلمہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریوں نے اختیار کیا ہے ۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اس صورت میں قسم ہے جبکہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں ۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کرنے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی ، جیسا کہ متعدد روایات میں بیان ہوا ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے حضور سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کر دیا ہے اس پر آپ عمل کریں ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کر لینا بجائے خود قسم تو نہیں ہے ، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے ۔ دوسری اشیاء مثلا کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ لغو ہے ، کوئی کفارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہوکہ اس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے ، تو وہ حرام نہ ہو گی ، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفارہ یمین لازم آئے گا ۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے ( معنی المحتاج ) ۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے ( احکام القرآن لابن العربی ) تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں ۔ یہ رائے حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عائشہ ، حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضر زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں یہ نقل ہوئی ہے کہ اذا حرم امراتہ فلیس بشیء ( اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو یہ کچھ نہیں ہے ) ، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ان کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ کفارہ ہے ، کیونکہ بخاری ، مسلم ، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفارہ ہے اور نسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفارہ لازم ہے اور ابن جریر کی روایت میں ابن عباس کے الفاظ یہ ہیں: اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسےاللہ نے حلال کیا تو ان پر لازم ہے کہ اپنی قسموں کا کفارہ اداکریں ۔ یہی رائے حسن بصری ، عطاء ، طاؤس ، سلیمان بن یسار ، ابن جبیر اور قتادہ کی ہے ، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ۔ امام ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت لم تحرم ما احل اللہ لک کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریم کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی تھی ، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم ، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالی نے اسی تحریم کے معاملہ میں قسم کا کفارہ واجب فرمایا ۔ آگے چل کر پھر کہتے ہیں ہمارے اصحاب ( یعنی حنفیہ ) نے تحریم کو اس صورت میں قسم قرار دیا ہے جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ ہو ۔ اگر کسی شخص نے بیوی کو حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے قریب نہیں آؤں گا ، اس لیے وہ ایلاء کا مرتکب ہوا ۔ اور اگر اس نے کسی کھانے پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں وہ چیز استعمال نہ کروں گا ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے پہلے یہ فرمایا کہ آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ، اور پھر فرمایا کہ اللہ نے تم لوگوں کے لیے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے ۔ اس طرح اللہ تعالی نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم اور حکم شرعی میں قسم کا ہم معنی ہو گیا ۔ اس مقام پر فائدہ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے ، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کر لینے کے معاملہ میں فقہاء کے نزدیک شرعی حکم کیا ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کو اپنے لیے حرام کیا ہو ، یا قسم کھائی ہو کہ اس سے مقاربت نہ کرے گا ، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دیناہوگا لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہا ہو تو میرے اوپر حرام ہے تو معلوم کیا جائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی ۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی تو تین واقع ہوں گی اور اگر اس سے کم کی نیت تھی ، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی ، تو دونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہو گی ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہو گیا ، تو اس کا اطلاق بیوی پر اس وقت تک ہو گا جب تک اس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ نہ کہے ہوں ۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کر سکتا جب تک قسم کا کفارہ ادا نہ کر دے ( بدائع الصنائع ، ہدایہ ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ) ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظہار کی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہو گی وہ واقع ہوجائے گی ۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو رجعی ، بائن کی نیت ہو تو بائن ، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار ۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعمال کیے ہوں تو اس سے کہا جائے گا کہ دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لے ۔ کیونکہ طلاق و ظہار ، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے ۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے ، اور ظہار کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے ۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقاً بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہو گی مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہو تو یہ لغو ہے ، اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ( مغنی المحتاج ) ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ ا سے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے ۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے ، یا میرے لیے حرام ہے ، یا میں تیرے لیے حرام ہوں ، تو خواہ مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے ، ہر صورت میں یہ طلاق ہیں ، الایہ کہ اس نے تین سے کم کی نیت کی ہو ۔ اصبغ کا قول ہے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جو کچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے توجب تک وہ بیوی کو مستثنیٰ نہ کرے ، اس سے بیوی کی تحریم بھی لازم آ جائے گی ۔ المدونہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق کیا گیا ہے ۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سےتین ہی طلاقیں پڑیں گی ، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہو تو پھر یہ تین طلاقیں ہوں گی ( حاشیۃ الدسوقی ) ۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالک کے تین قول نقل کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاق بائن ہے ۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں ۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہرحال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو تو ایک ہی طلاق پڑے گی ۔ پھر کہتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگر آدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعین نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی ۔ امام احمد بن حنبل سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ، یا حلال کو مطلقاً اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظہار کی نیت ہو یا نہ ہو ۔ دوسرا یہ کہ صریح کنایہ ہے اور اس سےتین طلاق واقع ہو جاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو ۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قسم ہے ، الا یہ کہ آدمی نے طلاق یا ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو ، اور اس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہو گی ۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہب حنبلی میں مشہور ترین ہے ( الانصاف ) ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :5 یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کامتولی ہے ۔ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اس نے دیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں ۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خود مختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے ، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں رد و بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اس کی اطاعت کرتے رہو ۔ دوسری بات ارشاد فرمانے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں ۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم حکمت کی بنا پرحلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے ۔ یہ کوئی الل ٹپ کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کر دیا اور جسے چاہا حرام ٹھرا دیا ۔ لہذاجو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے اور ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں ۔
2: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شہد نہ پینے کی جو قسم کھالی تھی، اس پر اس آیت میں ہدایت دی گئی ہے کہ آپ وہ قسم توڑدیں، اور کفارہ ادا کردیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی نامناسب قسم کھالے تو اُسے قسم توڑ کر کفارہ ادا کردینا چاہئیے۔ کفارہ وہی ہے جو سور مائدہ (۵:۸۹) میں بیان فرمایا گیا ہے۔