Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے ۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی باز پرس بھی نہیں کر سکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ پھر خود موت و حیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے ، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے ، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہو جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) ترجمہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کر دیا ، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اور اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لئے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے آیت ( ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) ترجمہ وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے ۔ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنا دیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقاء کا ۔ لیکن یہی روایت اور جگہ حضرت قتادہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے ، آزمائش اس امر کی ہے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے؟ اکثر عمل والا نہیں بلکہ بہتر عمل والا ، وہ باوجود غالب اور بلند جناب ہونے کے پھر عاصیوں اور سرتاب لوگوں کے لئے ، جب وہ رجوع کریں اور توبہ کریں معاف کرنے اور بخشنے والا بھی ہے ۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے ایک پر ایک گو بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک پر ایک ملا ہوا ہے لیکن دوسرا قول یہ ہے کہ درمیان میں جگہ ہے اور ایک دوسرے کے اوپر فاصلہ ہے ، زیادہ صحیح یہی قول ہے ، اور حدیث معراج وغیرہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ، پروردگار کی مخلوق میں تو کوئی نقصان نہ پائے گا بلکہ تو دیکھے گا کہ وہ برابر ہے ، نہ ہیر پھیر ہے نہ مخلافت اور بےربطی ہے ، نہ نقصان اور عیب اور خلل ہے ۔ اپنی نظر آسمان کی طرف ڈال اور غور سے دیکھ کر کہیں کوئی عیب ٹوٹ پھوٹ جوڑ توڑ شگاف و سوراخ دکھائی دیتا ہے؟ پھر بھی اگر شک رہے تو دو دفعہ دیکھ لے کوئی نقصان نظر نہ آئے گا تو نے خوب نظریں جما کر ٹٹول کر دیکھا ہو پھر بھی ناممکن ہے کہ تجھے کوئی شکست و ریخت نظر آئے تیری نگاہیں تھک کر اور ناکام ہو کر نیچی ہو جائیں گی ۔ نقصان کی نفی کر کے اب کمال کا اثبات ہو رہا ہے تو فرمایا آسمان دنیا کو ہم نے ان قدرتی چراغوں یعنی ستاروں سے بارونق بنا رکھا ہے جن میں بعض چلنے پھرنے والے ہیں اور بعض ایک جا ٹھہرے رہنے والے ہیں ، پھر ان کا ایک اور فائدہ بیان ہو رہا ہے کہ ان سے شیطانوں کو مارا جاتا ہے ان میں سے شعلے نکل کر ان پر گرتے ہیں یہ نہیں کہ خود ستارہ ان پر ٹوٹے واللہ اعلم ۔ شیطین کی دنیا میں یہ رسوائی تو دیکھتے ہی ہو آخرت میں بھی ان کے لئے جلانے والا عذاب ہے ۔ جیسے سورہ صافات کے شروع میں ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت دی ہے اور سرکش شیطانوں کی حفاظت میں انہیں رکھا ہے ، وہ بلند و بالا فرشتوں کی باتیں سن نہیں سکتے اور چاروں طرف سے حملہ کر کے بھگا دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اگر کوئی ان میں سے ایک آدھ بات اچک کر لے بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے چمکدار تیز شعلہ لپکتا ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ستارے تین فائدوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، آسمان کی زینت ، شیطانوں کی مار اور راہ پانے کے نشانات ۔ جس شخص نے اس کے سوا کوئی اور بات تلاش کی اس نے رائے کی پیروی کی اور اپنا صحیح حصہ کھو دیا اور باوجود علم نہ ہونے کی تکلف کیا ( ابن جریر اور ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کردے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] تبارک کا لغوی مفہوم :۔ تَبَارَکَ برکت کے معنی کسی چیز میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کا ثابت ہونا ہے (مفردات) یعنی جو کام کیا جائے اس میں متوقع زیادہ سے زیادہ فائدہ ہونے کا نام برکت ہے۔ بشرطیکہ یہ کام خیر کا پہلو رکھتا ہو اور جس چیز میں یہ خیر کا پہلو بارآور ثابت ہو وہ مبارک ہے۔ اور تبرک کا لفظ اللہ تعالیٰ سے مختص ہے اور صرف ان خیر کے کاموں کے لیے آتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہیں۔ اس آیت میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر ایک چیز کو جس بہتر مقصد کے لیے پیدا فرمایا تھا وہ چونکہ بدرجہ اتم وہ مقصد پورا کر رہی ہے لہذا اللہ کی ذات تبارک یعنی بابرکت ہوئی۔- [٣] الْمُلْکُ یعنی کائنات کی ہر چیز پر مکمل بادشاہت، حکومت اور اختیار۔ اور ایسی قدرت کہ کوئی چیز بھی اللہ کے حکم کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ :” تبرک “ ” برکۃ “ سے باب تفاعل ہے۔ اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے، اسی مناسبت سے ترجمہ ” بہت برکت والا “ کیا گیا ہے۔ ” برکۃ “ کے معنی میں زیادہ ہونا ، بڑھنا ہونا ۔” تبرک “ یعنی وہ خیر اور بھلائی میں ساری کائنات سے بےانتہاء بڑھا ہوا ہے اور بلندی ، بڑائی اور احسان ، غرض ہر لحاظ سے اس کی ذات بےحد و حساب خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ فرقان کی پہلی آیت کی تفسیر۔- ٢۔” بیدہ “ پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ، اس لیے ترجمہ ” صرف اس کے ہاتھ میں ہے “ کیا گیا ہے۔- ٣۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بادشاہ تو بہت ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ کیسے فرما دیا کہ تمام بادشاہی صرف اس کے ہاتھ میں ہے ؟ جواب یہ ہے کہ دنیا کا سارا نظام ایک دوسرے کی محتاجی پر چل رہا ہے ، رعایا اپنی ضروریات مثلاً جان و مال ، عزت و آبرو اور دین و ایمان کی حفاظت کے لیے بادشاہ کی محتاج ہے اور بادشاہ اپنے کام چلانے کے لیے رعایا کا محتاج ہے ، اگر وہ اس کا ساتھ نہ دیں اور اسے ٹیکس نہ دیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے بادشاہ نہیں رہ سکتا ۔ سورة ٔ زخرف میں یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے ، فرمایا (لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا) ( الزخرف : ٣٢)” تا کہ ان کا بعض بعض کو تابع بنا لے “۔ ایک شاعر نے دنیوی بادشاہوں کی محتاجی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ؎- مانگنے والا گدا ہے ، صدقہ مانگے یاخراج کوئی مانے یا نہ مانے میرو سلطان سب گدا - اس کے علاوہ دنیا میں کوئی بادشاہ ہے یا محکوم ، ایک دوسرے کے محتاج ہونے کے باوجود دونوں میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں فی الحقیقت کچھ بھی نہیں ۔ ان کی اپنی دولت و فقر ، صحت و بیماری ، عزت و ذلت ، فتح و شکست ، جانی و بڑھاپا ، نفع و نقصان اور موت و حیات ، غرض سب کچھ اللہ مالک الملک کے ہاتھ میں ہے ، تو پھر یہ کہنے میں کیا مبالغہ ہے کہ تمام بادشاہی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ؟ دوسرا کوئی بادشا ہے بھی تو نام کا ہے ۔ حقیقت میں بادشاہ ایک ہی ہے ، باقی سب گدا ہیں ، جیسا کہ فرمایا :(یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللہ ِ ) ( فاطر : ١٥)” اے لوگو تم ہی اللہ کی طرح محتاج ہو “۔- ٤۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ :” شیئ “ ” شاء یشائ “ کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے ، چاہت ۔ یعنی وہ اپنی ہر چاہت اور ہر چیز پر قادر ہے ، چو چاہے کرسکتا ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں کہ جن کی بےشمام چاہتیں پوری ہونے کے بجائے حسرتیں بن کر ان کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہوجاتی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - وہ (خدا) بڑا عالیشیان ہے جس کے قبضہ میں تمام سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کر کے تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے (حسن عمل میں موت کا تو دخل یہ ہے کہ موت کی فکر سے انسان دنیا فانی اور قیامت کے اعتقاد سے آخرت کو باقی سمجھ کر وہاں کے ثواب حاصل کرنے اور وہاں کے عذاب سے بچنے کے لئے مستعد ہوسکتا ہے اور حیات کا دخل یہ ہے کہ اگر حیات نہ ہو تو عمل کس وقت کرے، پس حسن عمل کے لئے موت بمنزلہ شرط کے اور حیات بمنزلہ ظرف کے ہے اور چونکہ موت عدم محض نہیں ہے اس لئے اس پر مخلوقیت کا حکم صحیح ہے) اور وہ زبردست (اور بخشنے والا ہے (کہ اعمال غیر حسنہ پر عتاب اور اعمال حسنہ پر مغفرت وثواب مرتب فرماتا ہے) جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے (جیسے حدیث صحیح میں ہے کہ ایک آسمان سے اوپر بفاصلہ دراز دوسرا آسمان ہے پھر اسی طرح اس سے اوپر تیسرا و علیٰ ہذا آگے آسمان کا استحکام بیان فرماتے ہیں کہ اے دیکھنے والے) تو خدا کی اس صنعت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا سو (اب کی بار) پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے (یعنی بلاتامل تو بہت بار دیکھا ہوگا اب کی بار تامل سے نگاہ کر) پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھ (آخر کار) نگاہ ذلیل اور درماندہ ہو کر تیری طرف لوٹ آوے گی (اور کوئی رخنہ نظر نہ آوے گا یعنی وہ جس چیز کو یجسا چاہے بنا سکتا ہے چناچہ آسمان کو مضبوط بنانا چاہا کہ باوجود زمان دراز گزر جانے کے اب تک اس میں کوئی خلل نہیں آیا۔ وہذا کقولہ تعالیٰ ومالھا من فروج اسی طرح کسی شئے کو ضعیف اور جلد متاثر ہونے والی بنادیا غرض اس کو ہر طرح کی قدرت ہے) اور (ہماری قدرت کی دلیل یہ ہے کہ) ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے آراستہ کر رکھا ہے اور ہم نے ان (ستاروں) کو شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے ( جس کی حقیقت سورة حجر میں گزری ہے) اور ہم نے ان (شیاطین) کے لئے (شہاب کی مار کے عالوہ جو کہ دنیا میں ہوتا ہے آخرت میں بوجہ ان کے کفر کے) دوزخ کا عذاب (بھی) تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ اپنے رب (کی توحید) کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور وہ بری جگہ ہے جب یہ لوگ اس میں ڈالے جاویں گے تو اس کی ایک بڑی زور کی آواز سنیں گے اور وہ اس طرح جوش مارتی ہوگی جیسے معلوم ہوتا ہے کہ (ابھی) غصہ کے مارے پھٹ پڑے گی (یا تو اللہ تعالیٰ اس میں ادراک اور غصہ پیدا کر دے گا کہ مبغوضین حق پر اس کو بھی غیظ آوے گا اور یا مقصود تمثیل ہے یعنی جیسے کوئی غصہ سے جوش میں آتا ہے اسی طرح وہ شدت اشتعال سے جوش میں آوے گی اور) جب اس میں کوئی گروہ (کافروں کا) ڈالا جاوے گا تو اس کے محافظ ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا تھا (جس نے تم کو اس عذاب سے ڈرایا ہو جس کا مقتضا یہ تھا کہ اس سے ڈرتے اور بچنے کا سامان کرتے۔ یہ سوال بطرو توبیخ ہے یعنی پیغمبر تو آئے تھے اور یہ سوال ہر نئے جانے والے گروہ سے ہوگا کیونکہ دوزخ میں حسب تفاوت مراتب کفر سب فرقے کفار کے یکے بعد دیگرے جاویں گے) وہ کافر (بطور اعتراف کے) کہیں گے کہ واقعی ہمارے پاس ڈرانے والا (پیغمبر) آیا تھا سو (ہماری شامت تھی کہ) ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ خدا تعالیٰ نے (از قبیلا حکام و کتب) کچھ نازل نہیں کیا (ا ور) تم بڑی غلطی میں پڑے ہو اور (وہ کافر فرشتوں سے یہ بھی) کہیں گے کہ ہم اگر سنتے یا سمجھتے (یعنی پیغمبروں کے کہنے کو قبول کرتے اور مانتے) تو ہم اہل دوزخ میں (شامل) نہ ہوتے غرض اپنے جرم کا اقرار کریں گے سو اہل دوزخ پر لعنت ہے۔ بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سے بےدیکھے ڈرتے ہیں (اور ایمان و اطاعت اختیار کرتے ہیں) ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم (مقرر) ہے اور تم لوگ خواہ چھپا کر بات کہو یا پکار کر کہو (اس کو سب خیر ہے کیونکہ) وہ دلوں کی باتوں سے خوب آگاہ ہے (اور بھلا) کیا وہ نہ جائے گا جس نے پیدا کیا ہے اور وہ باریک بین ہے۔ (اور) پورا باخبر ہے (حاصل استدلال کا یہ ہے کہ وہ ہر شئے کا خالق مختار ہے پس تمہارے احوال و اقوال کا بھی خالق ہے اور کسی چیز کی تخلیق بغیر علم کے نہیں ہو سکتی اس لئے اللہ کو ہر چیز کا علم ضروری ہوا اور تخصیص اقوال کی مقصود نہیں بلکہ حکم عام ہے افعال بھی اس میں داخل ہیں۔ تخصیص ذکری شاید اس بناء پر ہو کہ اقوال کثیر الوقوع ہیں غرض اس کو سب علم ہے وہ ہر ایک کو مناسب جزا دے گا) وہ ایسا (منعم) ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مخسر کردیا، (کہ تم اس میں ہر طرح کے تصرفات کرسکتے ہو) سو تم اس کے رستوں میں چلو (پھرو) اور خدا کی روزی میں سے (جو زمین میں پیدا کی ہے) کھاؤ (پیو) اور (کھا پی کر اس کو یاد رکھنا کہ) اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے (پس یہ اس کو مقتضی ہے کہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو جو ایمان و اطاعت ہے) کے یا تم لوگ اس سے بیخوف ہوگئے اور جو کہ آسمان میں (بھی اپنا حکم اور تصرف رکھتا) ہے کہ وہ تم کو (مثل قارون کے) زمین میں دھنسا دے پھر وہ زمین تھرتھرا (کر الٹ پلٹ ہو ( نے لگے (جس سے تم اور نیچے اتر جاؤ اور زمین کے اجزاء تمہاے ر اوپر آ کر مل جاویں) یا تم لوگ اس سے بیخوف ہوگئے ہو جو کہ آسمان میں (بھی اپنا حکم اور تصرف رکھتا) ہے کہ وہ تم پر (مثل عاد کے) ایک ہوائے تند بھیجدے (جس سے تم ہلاک ہوجاؤ یعنی مقضا تمہارے کفر کا یہی ہے) سو (اگر کسی مصلحت عاد کے) ایک ہوائے تند بھیج دے (جس سے تم ہلاک ہوجاؤ یعنی مققنا تمہارے کفر کا یہی ہے) سو (اگر کسی مصلحت سے عذاب عاجل تم پر ٹل رہا ہے تو کیا ہوا) عنقریب (مرتے ہی) تم کو معلوم ہوجائے گا کہ میرا ڈرانا ( َذاب سے) کیسا (واقع اور صحیح) تھا اور (اگر بدون عذاب عاجل کے کفر کا مبغوص ہونا ان کی سمجھ میں نہ آوے تو اس کا نمونہ بھی موجود ہے چنانچہ) ان سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں انہوں نے (دین حق کو) جھٹلایا تھا سو (دیکھ لو ان پر) میرا عذاب کیسا (واقع) ہوا (جس سے صاف معلوم ہوا کہ کفر مبغوض ہے پس اگر کسی مصلحت سے یہاں عذاب ٹل گیا تو در سے عالم میں حسب وعید واقع ہوگا اور اوپر خلق سبع سموت الخ میں وہ دلائل توحید بیان ہوئے جو آسمان کے متعلق ہیں پھر ھوالذی جعل لکم الارض الخ میں زمین کے متعلق چیزوں کا بیان ہوا، آگے جو یعنی فضائ آسمانی کے متعلقہ دلائل کا بیان ہے) کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر پرندوں کی طرف نظر نہیں کہ پر پھیلائے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں اور (کبھی اسی حالت میں) پر سمیٹ لیتے ہیں (اور دونوں حالتوں میں باوجود ثقیل اور وزنی ہونے کے زمین اور آسمان کی درمیانی فضا میں پھرتے رہتے ہیں زمین پر نہیں گر جاتے اور بجز (خدائے) رحمان کے ان کو کوئی تامے ہوئے نہیں ہے بیشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے (اور جس طرح چاہے اس میں تصرف کر رہا ہے) ہاں (خدا کے تصرفات تو سن لئے اب بتلاؤ کہ) رحمٰن کے سوا وہ کون ہے کہ وہ تمہارا لشکر بن کر (آفات سے) تمہاری حفاظت کرسکے (اور) کافر (جو اپنے معبودوں کی نسبت ایسا خیال رکھتے ہیں) تو (وہ) نرے دھوکہ میں ہیں (اور) ہاں (یہ بھی بتلاؤ کہ) وہ کون ہے جو تم کو روزی پہنچاوے اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی بند کرلے (مگر یہ لوگ اس سے بھی متاثر نہیں ہوتے) بلکہ یہ لوگ سرکشی اور نفرت (عن الحق) پر جم رہے ہیں (خلاصہ یہ کہ تمہارے معبودات باطلہ بت وغیرہ نہ کسی مضرت کے دفع پر قادر ہیں وہو المراد بقولہ تعالیٰ ینصرکم اور نہ ایصال منافع پر قادر ہیں وہوالمراد بقولہ تعالیٰ یرزقکم پھر ان کی عبادت محض بےوقوفی ہے یعنی جس کافر کا حال اوپر سنا ہے ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْر ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْر) سو (اس کو سن کر سو چو کہ) کیا جو شخص (بوجہ ناہمواری راہ کے ٹھوکریں کھاتہ و اور) منہ کے بل گرتا ہوا چل رہا ہو وہ منزل مقصود پر زیادہ پہنچنے والا ہوگا یا وہ شخص (زیادہ منزل مقصود پر پہنچنے والا ہوگا) جو سیدھا ایک ہموار سڑک پر چلا جا رہا ہو (یہی حال ہے مومن و کافر کا کہ مومن کے چلنے کا رستہ بھی دین مستقیم ہے، اور وہ چلتا بھی ہے سیدھا ہو کر افراط تفریط سے بچ کر اور کافر کے چلنے کا رستہ بھی زیغ و ضلالت کا ہے اور چلنے میں بھی ہر وقت مہالک و مخاوف میں گرتا جاتا ہے پس ایسی حالت میں کیا منزل پر پہنچے گا اور اوپر دلائل توحید متعلق آفاق کے تھے آگے متعلق انفس کے ارشاد ہیں) آپ (ان سے) کہئے کہ وہی (ایسا قادر و منعم) ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تم کو کان اور آنکھیں اور دل دیئے (مگر) تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو (اور) آپ (یہ بھی) کہئے کہ وہی ہے جس نے تم کو روئے زمین پر پھیلایا اور تم اسی کے پاس (قیامت کے روز) اکٹھے کئے جاؤ گے اور یہ لوگ (جب قیامت کا ذکر سنتے ہیں کمافی ہذا السورة من قولہ الیہ النشور ومن قولہ الیہ تحشرون تو) کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہوگا اگر تم (یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین مؤ منین) سچے ہو (تو بتلاؤ) آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ یہ (تعیین کا) علم تو خدا ہی کو ہے اور میں تو محض (علی الاجمال مگر) صاف صاف ڈرانے والا ہوں پھر جب اس (عذاب قیامت) کو پاس آتا ہوا دیکھیں گے (پاس آتا ہوا دیکھنا یہ کہ اعمال کا محاسبہ ہوگا دوزخ میں جانے کا حکم ہوگا جس سے متیقن ہوجائے گا کہ اب عذاب سر پر آ گیا غرض جب اس کو پاس آتا ہوا دیکھیں گے) تو (مارے غم کے) کافروں کے منہ بگڑ جاویں گے (کقولہ تعالیٰ (آیت) وجوہ یومئذ علیھا غبرة ترھقھا قترة) اور (ان سے) کہا جاوے گا یہی ہے وہ جس کو تم مانگا کرتے تھے (کہ عذاب لاؤ، عذاب لاؤ، اور یہ کفار ان مضامین حقہ توحید و بعث وغیرہ کو سن کر جو ایسی باتیں کرتے (آیت) شاعر نتربص بہ ریب المنون ان کاد لیضلنا عن الھتنا لولا ان صبرنا علیھا، جن کا حاصل انتظار آپ کی ہلاکت کا اور آپ کو نعوذ باللہ منسوب الی الضلال کرنا ہے آگے اس کے جواب کی تعلیم ہے جس میں عذاب کفار کی تقریر اور دوسرے مضامین سے اس کی تمتیم ہے ارشاد ہوتا ہے کہ) آپ (ان سے) کہئے کہ تم یہ بتئاو کہ اگر خدا تعالیٰ مجھ کو اور میرے ساتھ والوں کو (موافق تمہاری تمنا کے) ہلاک کر دے یا (ہماری امید اور اپنے وعدہ کے مطابق) ہم پر رحمت فرما دے تو (دونوں حالت میں اپنی خبر لو اور یہ بتلاؤ کہ) کافروں کو عذاب درد ناک سے کون بچا لے گا (یعنی ہماری تو جو حالت ہوگی دنیا میں ہوگی اور انجام اس کا ہر حال میں اچھا ہے کقولہ تعالیٰ (آیت) ھل تربصون بنا الا احدی الحسنین الخ مگر اپنی کہو کہ تم پر جو مصیبت عظیمہ آنے والی ہے اس کو کون روکے گا اور ہماری دنیوی حوادث سے تمہاری وہ مصیبت کیسے ٹل جاوے گی تو اپنی فکر چھوڑ کر ہمارے حوادث کا انتظار ایک فضول حرکت ہے۔ یہ جواب ہے نتربص الخ کا اور) آپ) (ان سے یہ بھی) کہئے کہ وہ بڑا مہربان ہے ہم اس پر (اس کے حکم کے موافق) ایمان لائے اور ہم اس پر توکل کرتے ہیں (پس ایمان کی برکت سے تو وہ ہم کو عذاب آخرت سے محفوظ رکھے گا اور توکل کی برکت سے حوادث دنیویہ کو دفع یا سہل کر دے گا یہ بھی نتربص کا تمتمہ جواب ہے) سو (جب تم پر عذاب الیم آنیاولا ہے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ ایمان کی برکت سے اس عذاب سے محفوظ رہنے والے ہیں تو) عنقریب تم کو معلوم ہوجاوے گا (جب اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا اور ہم کو اس سے محفوظ دیکھو گے) کہ صریح گمرایہ میں کون ہے (یعنی تم ہو جیسا کہ ہم کہتے ہیں یا ہم ہیں جیسا کہ تم کہتے ہو یہ جواب ہے ان کاد لیضلنا الخ کا، آگے تقریر ہے مضمون بالا فمن یجیرالکفرین الخ کی یعنی اوپر جو کہا گیا ہے کہ تم کو عذاب الیم سے کوئی نہیں بچا سکتا، ان کو اگر اپنے الہ باطلہ کا گھمنڈ ہو کہ وہ بچا لیں گے تو اس زعم کے ابطال و ازالہ کے لئے ان سے) آپ (یہ) کہہ دیجئے کہ اچھا یہ بتئاو کہ اگر تمہارا پانی (جو کنوؤں میں ہے) نیچے کو (اتر کر) غائب ہی ہوجائے سو وہ کون ہے جو تمہارے پاس سوت کا پانی لے آئے (یعنی کنوئیں کی سوت کو جاری کر دے اور اعماق ارض سے اوپر لے آئے اور اگر کسی کو کھود لینے پر ناز ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس کو اور نیچے غائب کر دے وعلیٰ ہذا، پس جب خدا کے مقابلے میں کسی کو اتنی بھی قدرت نہیں معمولی طبعی واقعات میں تصرف کرسکے تو عذاب آخرت سے بچانے کی کیا قدرت ہوگی) - معارف و مسائل - فضائل سورة ملک :۔ اس سورت کو حدیث میں واقعہ اور منجیہ بھی فرمایا ہے۔ واقیہ کے معنے بچانے والی اور منجیہ کے معنے نجات دینے والی، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہی المانعتہ المنجیتہ تنجیہ من عذاب القبر، یعنی یہ سورت عذاب کو روکنے والی اور عذاب سے نجات دینے والی ہے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچا لے گی (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن غریب از قرطبی) - اور حضرت ابن عابس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ سورة ملک ہر مومن کے دل میں ہو (ذکرہ الثعلبی) اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کتاب اللہ میں ایک ایسی سورت ہے جس کی آیتیں تو صرف تیس ہیں قیامت کے روز یہ ایک شخص کی سفارش کرے گی یہاں کہ اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گی اور وہ سورة تبارک ہے۔ (قرطبی ۔ از ترمذی) - تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ، لفظ تبارک برکت سے مشتق ہے جس کے لفظی معنے بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کی شان میں بولا جاتا ہے تو سب سے بالاوبرتر ہونے کے معنی میں آتا ہے جیسے اللہ اکبر، بیدہ الملک، اللہ کے ہاتھ میں ہے ملک اللہ جل شانہ کے لئے قرآن کریم میں جا بجا لفظ ید بمعنے ہاتھ استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ جسم اور اعضاء سے بالاوبرتر ہے۔ اسلئے یہ لفظ متشابہات میں سے ہے جس کے حق ہونے پر ایمان لانا واجب ہے اور اسکی کیفیت و حقیقت کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی اس کے در پے ہونا درست نہیں اور ملک سے مراد آسمانوں اور زمینوں کی اور دنیا و آخرت ہے اس آیت میں حق تعالیٰ کے لئے چار صفات کا دعویٰ ہے اول اس کا موجود ہونا دوسرے انتہائی درجے کی صفات کمال کا مالک اور سب سے بالاو برتر ہونا تیسرے آسمان و زمین پر اس کی حکومت ہونا، چوتھے ہر چیز پر اس کا قادر ہونا، اگلی آیات میں اس دعوے کے دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات ہی میں غور و فکر کرنے سے واضح ہوتے ہیں اس لئے اگلی ایٓات میں تمام کائنات و مخلوقات کی مختلف انواع و اصناف سے اللہ تعالیٰ کے وجود اور توحید پر اور اس کے کمال علم وقدرت پر استدلال کیا گیا ہے سب سے پہلے اشرف المخلوقات انسان کے اپنے وجود میں جو دلائل قدرت ہیں ان کی طرف متوجہ فرمایا، ۙالَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ الخ میں اس کا بیان ہے اس کے بعد کئی آیتوں میں آسمانوں کی تخلیق میں غور و فکر سے استدلال فرمایا الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰت الایتہ اس کے بعد زمین کی تخلیق اور اس کے فوائد متعلقہ میں غور و فکر کا بیان ہوا۔ ۧهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ سے دو آیتوں میں فرمایا، پھر فضائے آسمانی میں رہنے والی مخلوق پرندوں کا ذکر فرمایا اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْر الخ غرض اس پوری سورت میں اصل مضمون حق تعالیٰ کے وجود اور اس کے کمال علم وقدرت پر کائنات عالم کے مشاہدہ سے دلائل پیش کرنا ہے۔ ضمنا دوسرے مضامین کفار کی سزا اور مومنین کی جزا کے بھی آگئے ہیں۔ خود انسان کے نفس میں جو دلائل اللہ تعالیٰ کے کمال علم وقدرت کے ہیں ان کی طرف دو لفظوں سے ہدایت فرمائی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِہِ الْمُلْكُ۝ ٠ ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ۝ ١ ۙ- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ بڑا عالی شان اور برکتوں والا ہے جس کے قبضہ قدرت میں عزت و ذلت اور تمام بادشاہی ہے اور وہ عزت و ذلت پر پورا قادر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ” بہت ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے “- یہ دین اسلام کے سیاسی منشور کی بنیادی شق ہے ۔ یعنی پوری کائنات کا اقتدار اور اختیار کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے۔ دنیا میں اگر انسانوں کے ہاں اللہ تعالیٰ کے احکام سے کہیں بغاوت دکھائی دیتی ہے تو وہ بھی دراصل اسی کے عطا کردہ اختیار کی وجہ سے ہے ۔ اس میں ایمان کے دعوے داروں کا امتحان بھی ہے کہ وہ بھلا اللہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے والوں کے مقابلے میں کیا طرزعمل اختیار کرتے ہیں۔ ورنہ سورج ‘ چاند ‘ ستارے ‘ کہکشائیں ‘ ہوائیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند اور تابع ہے ۔- پوری کائنات پر اللہ تعالیٰ کی حکومت اور قدرت کی کیفیت یہ ہے کہ کہیں کوئی ایک ذرہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا اور حرکت کرتا ہوا کوئی ذرہ اس کی مشیت کے بغیر ساکن نہیں ہوسکتا۔ اپنی تمام مخلوق میں صرف انسان کو اس نے ایک حد تک ارادے اور عمل کا اختیار دیا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اس میں انسان کی آزمائش مقصود ہے ۔ لیکن انسان ہے کہ ہلدی کی یہ گانٹھ مل جانے پر پنساری بن بیٹھا ہے ۔ اب کہیں وہ فرعون بن کر اللہ کے مقابلے میں ” میری حکومت ‘ میرا ملک اور میرا مثالی نظام “ جیسے دعو وں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو کہیں کسی فرعون کی چاکری اور وفاداری کی دھن میں مقتدر حقیقی کے احکام کو پامال کرتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں انسان کی بےبسی کا عالم یہ ہے کہ خود اپنے جسم پر بھی اسے کوئی اختیار نہیں۔ ظاہر ہے انسان کے جسم کی فزیالوجی اور اناٹومی کا سارا نظام بھی تو اللہ تعالیٰ کے طے کردہ قانون کے تابع ہے۔ اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ اپنے دل کو آرام دینے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بند کردے اور پھر اپنی مرضی سے دوبارہ رواں کرلے تو اس کے لیے یہ ممکن نہیں۔- وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ ۔ ” اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :1 تبارک برکت سے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ برکت میں رفعت و عظمت ، افزائش اور فراوانی ، دوام و ثبات اور کثرت خیرات و حسنات کے مفہومات شامل ہیں ۔ اس سے جب مبالغہ کا صیغہ تبارک بنایا جائے تو اسکے معنی ہوتے ہیں کہ وہ بے انتہا بزرگ و عظیم ہے ، اپنی ذات و صفات و افعال میں اپنے سوا ہر ایک سے با لا تر ہے ، بے حدو حساب بھلائیوں کا فیضان اس کی ذات سے ہو رہا ہے ، اور اس کے کمالات لازوال ہیں ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 43 ۔ جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 14 ۔ الفرقان ، حواشی 19 ) ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :2 الملک کا لفظ چونکہ مطلقاً استعمال ہوا ہے اس لیے اسے کسی محدود معنوں میں نہیں لیا جا سکتا ۔ لا محالہ اس سے مراد تمام موجودات عالم پر شاہانہ اقتدار ہی ہوسکتا ہے ۔ اور اس کےہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے ، بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے ، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے ۔ ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :3 یعنی وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے کوئی چیز اسے عاجز کرنے والی نہیں ہے ۔ کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور نہ کر سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani