روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق واتصال ہوجائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہوجائے وہ موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے ؟ جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔
[٤] موت ایک ایجابی چیز ہے جسے اللہ نے پہلے پیدا کیا تھا :۔ اللہ تعالیٰ نے موت کا نام زندگی سے پہلے لیا کہ اس نے موت کو بھی پیدا کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ موت محض ایک سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی چیز ہے۔ اور اس سے معتزلہ کے اس قول کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ زندگی نہ ہونے کا نام ہی موت ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے موت روح اور جسم کے انفصال کا نام ہے اور زندگی ان دونوں کے اتصال کا۔ دنیوی زندگی سے پہلے موت سے مراد وہ دور ہے جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم کو پیدا کرنے کے بعد ان تمام روحوں کو بھی پیدا فرمایا جو ان کی پشت سے تاقیامت پیدا ہونے والی تھیں۔ عہد الست اسی دور سے متعلق ہے۔ (٧: ١٧٢) اور یہ دور روح کی پیدائش سے لے کر اس کے شکم مادر میں جنین کے جسم میں داخل ہونے تک پھیلا ہوا ہے۔- [٥] دنیا میں امتحان اور آخرت میں نتائج :۔ گویا اللہ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے ہی انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کا سامان مہیا کردیا جائے۔ پھر انسان کو پیدا کیا اور اس کی موت وحیات کا سلسلہ قائم کیا اسے قوت ارادہ و اختیار اور عقل وتمیز عطا کی کہ دیکھا جائے کہ کون کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اگر سرتسلیم خم کرلے تو یہی اس کے لیے بہتر روش ہے اور اس کے اعمال اچھے ہوں گے اور انکار کی صورت میں اس کے اعمال بھی برے اور بدلہ بھی برا ملے گا۔ گویا یہ دنیا ہر انسان کے لیے دارالامتحان ہے اور اس امتحان کا وقت انسان کی موت تک ہے۔ موت سے لے کر بعث بعدالموت تک کا عرصہ امتحان کے نتائج کے انتظار کا عرصہ ہے۔ تاہم ہر ایک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امتحان میں فیل ہونے والا ہے یا پاس اور اسی کے مطابق اسے اس عرصہ میں کوفت یا راحت بھی پہنچتی رہتی ہے اور قیامت کو اس امتحان کے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگا۔ نمبر نہایت انصاف کے ساتھ دیئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی ملے گی۔
١۔ نِالَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ ۔۔۔: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چند چیزوں کا ذکر فرمایا جو مخلوق کی باہر ہیں، تا کہ انسان کے دل میں اللہ کی قدرت کا پورا یقین جم جائے ۔ اس مقام پر اپنی قدرتوں میں سے پہلی چیز موت و حیات ذکر فرمائی ، کیونکہ موت اور زندگی میں انسان کے تمام احوال پورے پورے آجاتے ہیں۔- ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دنیا میں آنے سے پہلے کی حالت کو موت قرار دیا اور دنیا میں آنے کے بعد یہاں سے جانے کو بھی موت قرار دیا ۔ اسی طرح دنیا میں آنے کو زندگی قرار دیا ، پھر موت کے بعد اٹھنے کو زندگی قرار دیا ، جیسا کہ فرمایا :(کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِ اللہ ِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَـاَحْیَاکُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) ( البقرہ : ٢٨)” تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو ، حالانکہ تم بےجان تھے تو اس نے تمہیں زندگی بخشی ، پھر تمہیں موت دے گا ، پھر تمہیں زندہ کرے گا ، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے “۔- یہاں فرمایا کہ اللہ نے موت و حیات کو پیدا فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ موت بھی ایک مخلوق ہے ، یہ عدم محض ( بالکل نہ ہونے) کا نام نہیں ، کیونکہ دنیا میں آنے سے پہلے بھی انسان اللہ کے علم اور اس کی تقدیر میں موجود تھا اور اس کے دنیا میں آنے وقت مقرر تھا مگر روح و جسم کا اتصال نہیں تھا، اسے موت قرار دیا ، پھر دنیا میں آنے کے بعد روح جسم سے جدا ہوئی تو اسے بھی موت قرار دیا ۔ قیامت کے دن موت ایک مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی ۔ ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( یوتی بالموت کھیئۃ کبش املح فینادی مناد یا اھل الجنۃ فیشرثبون و ینظرون فیقول ھل تعرفون ھذا ؟ فیقولون نعم ، ھذا الموت ، و کلھم قد راہ ، ثمو ینادی یا اھل النار فیشرئبون و ینظرون ، فیقول ھل تعرفون ھذا ؟ فیقولون نعم ھذا الموت ، وکلھم قد راہ فیذیح ثم یقول یا اھل الجنۃ خلود فلا موت ، و یا اھل النار خلود فلا موت ، ثم قرا، (وانذزھم یوم الحسرۃ اذا قضی الامر و ھم فی غفلۃ) وھولا فی غفلۃ اھل الدنیا (وھم لا یومنون) (بخاری ، التفسیر ، باب قولہ عزوجل ، (وانذرھم یوم الحسرۃ): ٤٨٣٠)” موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا ، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا “۔ اے اہل جنت “ وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ کہے گا :” اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے :” ہاں یہ موت ہے “۔ وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے ، پھر وہ اعلان کرے گا :” اے اہل نار “ وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ کہے گا :” اے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے :” ہاں یہ موت ہے “۔ وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے ۔ تو اسے ذبح کردیا جائے گا ، پھر کہے گا :” اے اہل جنت ( اب تمہارے لیے) ہمیشہ زندہ رہنا ہے ، موت نہیں اور اے اہل نار ( تمہارے لیے بھی) ہمیشہ زندہ رہنا ہے ، موت نہیں “۔ پھر یہ آیت پڑھی :(وانذر ھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر و ھم فی غفلۃ) ( اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب ہر کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں) یعنی یہ دنیا والے سراسر غفلت میں ہیں ” اور وہ ایمان نہیں لا رہے “۔- ٣۔ زندگی اور موت دونوں اس امتحان کے لیے پیدا کی گئی ہیں کہ انسانوں میں سے اچھے عمل کون کرتا ہے ؟ اگر موت اور موت کے بعد والی زندگی نہ ہوتی تو آدمی اچھے اعمال کے لیے جدوجہد اور برے اعمال سے پرہیز کیوں کرتا ؟ اور موت اور حیات بعد الموت نہ ہوتی تو اچھے اور برے اعمال کا بدلا کہاں ملتا اور اگر دنیا میں انسان کو زندگی نہ ملتی اور نہ عمل کا موقع ملتا تو جزا اور سزاکس چیز پر ہوتی ؟- ٤۔ وھو العزیز الغفور : وہ عزیز ہے ، ایسا زبردست ہے کہ اعمال کی جزا و سزا پر پورا اختیار رکھتا ہے اور ایسا غالب کہ کوئی اس پر غالب نہیں ، مگر اتنی قوت و عزت کے باوجود ظالم یا سخت گیر نہیں بلکہ غفور ہے اور ایسا غفور کہ کوئی توبہ کرے تو جتنے بھی گناہ کیے ہوں بخش دیتا ہے ۔ توبہ کے بغیر بھی اگر اس کے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو جسے چاہے گا بخش دے گا ، فرمایا :( ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشائ) (النسائ : ١١٦)” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے جسے چاہے گا بخش دے گا “۔ اور شرک اس لیے معاف نہیں کرے گا کہ یہ اس کے عزیز ہونے کے خلاف ہے۔
موت وحیات کی حقیقت :- خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ یعنی پیدا کیا اس نے موت اور حیات کو احوال انسانی میں سے یہاں صرف دو چیزیں موت وحیات بیان کی گئیں کیونکہ یہی دونوں انسان کے تمام عمر کے احوال و افعال پر حاوی ہیں۔ حیات کے لئے پیدا کرنے کا لفظ تو اپنی جگہ ظاہر ہے کہ حیات ایک وجودی چیز ہے تخلیق وتکوین کا اس سے متعلق ہونا ظاہر ہے لیکن موت و جو بظاہر ایک عدم کا نام ہے اس کے ساتھ تخلیق کا تعلق کس طرح ہوا، اس کے جواب میں ائمہ تفسیر سے متعدد اقوال منقول ہیں۔ سب سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ موت عدم محض کا نام نہیں بلکہ روح اور بدن کا تعلق منقطع کر کے روح کو ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل کرنے کا نام ہے اور یہ ایک وجودی چیز ہے۔ غرض جس طرح حیات ایک حال ہے جو جسم انسانی پر طاری ہوتا ہے اسی طرح موت بھی ایک ایسا ہی حال ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس اور بعض دوسرے ائمہ تفسیر سے جو یہ منقول ہے کہ موت وحیات دو مجسم مخلوق ہیں، موت ایک مینڈھے کی شکل میں اور حیات ایک گھوڑی کی شکل میں ہے۔ اس سے مراد بظاہر اس صحیح حدیث کا بیان ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ جب قیامت میں اہل جنت جنت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور پل صراط کے پاس اس کو ذبح کر کے اعلان کردیا جائے گا کہ اب جو جس حالت میں ہے وہ دائمی اور ابدی ہے اب کسی کو موت نہیں آئے گی، مگر اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ دنیا میں موت کوئی جسم ہو بلکہ جس طرح دنیا کے بہت سے احوال و اعمال قیامت میں مجسم اور متشکل ہوجائیں گے جو بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اسی طرح موت جو انسان کو پیش آنے والی ایک حالت ہے وہ بھی قیامت میں مجسم ہو کر مینڈھے کی شکل میں ذبح کردی جائے گی۔ (قرطبی) - اور تفسیر مظہری میں فرمایا کہ موت اگرچہ عدمی چیز ہے مگر عدم محض نہیں، بلکہ ایسی چیز کا عدم ہے جس کو وجود میں کسی وقت آنا ہے اور ایسے تمام معدومات کی شکلیں عالم مثال میں قبل از وجود ناسوتی موجود ہوتی ہیں جن کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے ان اشکال کی وجہ سے ان کو قبل الوجود بھی ایک قسم کا وجود حاصل ہغے اور عالم مثال کے موجود ہونے پر بہت سی روایات حدیث سے استدلال فرمایا ہے واللہ اعلم - موت وحیات کے درجات مختلفہ :۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ نے اپنی قدرت اور حکمت بالغہ سے مخلوقات و ممکنات کو مختلف اقسام میں تقسیم فرما کر ہر ایک کو حیا کی ایک قسم عطا فرمائی ہے۔ سب سے زیادہ کامل و مکمل حیات انسان کو عطا فرمائی جس میں یہ صلاحیت بھی رکھ دی کہ وہ حق تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ایک خاص حد تک حاصل کرسکے اور یہ معرفت ہی بناء تکلیف احکام شرعیہ اور وہ بار امانت ہے جس کے اٹھانے سے آسمان و زمین اور پہاڑ سب ڈر گئے اور انسان نے اپنی اس خدا داد صلاحیت کے سبب اٹھا لیا اس حیات کے مقابل وہ موت ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی (آیت) اومن کان میتا فاحیینہ میں ذکر فرمایا ہے کہ کافر کو مردہ اور مومن کو زندہ قرار دیا گیا کیونکہ کافر نے اپنی اس معرفت کو ضائع کردیا جو انسان کی مخصوص حیات تھی، اور بعض اصناف و اقسام مخلوقات میں یہ درجہ حیات کا تو نہیں مگر حس و حرکت موجود ہے اس کے مقابل وہ موت ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی ( آیت) کنتم امواً تا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم میں آیا ہے کہ اس جگہ حیات سے مراد حس و حرکت اور موت سے مراد اس کا ختم ہوجانا ہے اور بعض اقسام ممکنات میں یہ حس و حرکت بھی نہیں صرف نمو (بڑھنے کی صالحیت) ہے جیسے عام درختوں اور نباتات میں اس کے بالمقابل وہ موت ہے جس کا ذکر قرآن کی ( آیت) یحییٰ الارض بعد موتھا میں آیا ہے۔ حیات کی یہ تین قسمیں انسان، حیوان، نبات میں منحصر ہیں ان کے عالوہ اور کسی چیز میں یہ اقسام حیات نہیں ہیں اسی لئے حق تعالیٰ پتھروں سے بنے ہوئے بتوں کے متعلق فرمایا اموات غیر احیآء لیکن اس کے باوجود جمادات میں بھی ایک خاص حیات موجود ہے جو وجود کیساتھ لازم ہے۔ اسی حیات کا اثر ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے (آیت) وان من شیء الا یسبح بحمدہ یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کی تسبیح نہ پڑھتی ہو اور آیت میں موت کا ذکر مقدم کرنے کی وجہ بھی اس بیان سے واضح ہوگئی کہ اصل کے اعتبار سے موت ہی مقدم ہے۔ ہر چیز جو وجود میں آئی ہے پہلے موت کے عالم میں تھی بعد میں اس کو حیات عطا ہوئی ہے اس لئے موت کا ذکر مقدم کیا گیا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آگے جو موت وحیات کی تخلیق کی وجہ انسان کی آزمائش و ابتلاء کو قرار دیا ہے لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا یہ آزمائش یہ نسبت حیات کے موت میں زیادہ ہے۔ کیونکہ جس شخص کو اپنی موت کا استحضار ہوگا وہ اچھے اعمال کی پابندی زیادہ سے زیادہ کرے گا اور اگرچہ یہ آزمائش حیات میں بھی ہے کہ زندگی کے قدم قدم پر اس کو اپنا عجز اور اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کا استحضار ہوتا رہتا ہے جو حسن عمل کی طرف داعی ہے لیکن موت کی فکر اصلاح عمل اور حسن عمل میں سب سے زیادہ مؤثر ہے۔- حضرت عمار بن یاسر کی حدیث مرفوع میں ہے کفی بالموت واعظار کفی بالیقین غنی، یعنی موت و عظ کے لئے کافی ہے اور یقین غنی کے لئے (رواہ البرانی) مراد یہ ہے کہ اپنے دوستوں عزیزوں کی موت کا مشاہدہ سب سے بڑا واعظ ہے جو اس سے متاثر نہیں ہوتا اس کا دوسری چیزوں سے متاثر ہونا مشکل ہے اور جس کو اللہ نے ایمان یقین کی دولت عطا فرمائی اس کی برابر کوئی غنی و بےنیاز نہیں اور ربیع بن انس نے فرمایا کہ موت انسان کو دنیا سے بیزار کرنے اور آخرت کی طرف رغبت دینے کے لئے کافی ہے۔- احسن عملاً یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ انسان کی اس آزمائش میں جو اس کی موت وحیات سے وابستہ ہے حق تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تم میں سے کس کا عمل اچھا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ کس کا عمل زیادہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی عمل کی مقدار کا زیادہ ہونا قابل توجہ نہیں بلکہ عمل کا اچھا اور صحیح و مقبول ہونا معتبر ہے اسی لئے قیامت میں انسان کے اعمال کو گنا نہیں جائے گا بلکہ تولا جائے گا جس میں بعض ایک ہی عمل کا وزن ہزاروں اعمال سے بڑھ جائے گا۔- حسن عمل کیا ہے :۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ احسن عملاً تک پہنچے تو فرمایا کہ (احسن عملاً ) وہ شخص ہے جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے سب سے زیادہ پرہیز کرنے والا ہو اور اللہ کی اطاعت میں ہر وقت مستعد و تیار ہو (قرطبی)
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ٠ ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ ٢ ۙ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
اللہ وہ ہے ذات ہے جس نے موت کو سفید مینڈھے کی شکل میں پیدا کیا کہ اس کا کسی چیز پر سے گزر نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کی خوشبو سونگھتی ہے مگر یہ کہ وہ فورا مرجاتی ہے اور حیات کو بلقاء گھوڑے کی شکل میں پیدا کیا، یہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ہے اس کا قد منتہائے نظر ہوتا ہے، انبیاء کرام اس پر سواری کرتے ہیں جس چیز پر سے اس کا گزر ہوتا ہے وہ زندہ ہوجاتی ہے یا یہ کہ اس نے نطفہ اونسمہ کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ موت وحیات کے درمیان تم میں کون شخص زیادہ خلوص کے ساتھ عمل کرتا ہے اور وہ زبردست بخشنے والا ہے۔
آیت ٢ نِ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ” جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ “- وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ ۔ ” اور وہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت بخشنے والا بھی ۔ “- یہ ہے انسانی زندگی اور موت کی تخلیق کا اصل مقصد۔ جو کوئی اس فلسفے کو نہیں سمجھے گا اسے زندگی ‘ موت اور موت کے بعد پھر زندگی کی یہ باتیں محض افسانہ معلوم ہوں گی۔ جیسے ایک معروف جاہلی شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا تھا : - حَیَاۃٌ ثُمَّ مَوْتٌ ثُمَّ بَعْثٌ حَدِیْثُ خَرَافَۃٍ یا اُمَّ عَمرو - ” کہ یہ زندگی ‘ پھر موت ‘ پھر زندگی ‘ اے اُم عمرو یہ کیا حدیث خرافات ہے ؟ “ (معاذ اللہ ) انسانی زندگی کا سفر دراصل عالم ارواح سے شروع ہو کر ابد الآباد کی سرحدوں تک جاتا ہے۔ انسان کی دنیوی زندگی ‘ موت اور بعث بعد الموت اس طویل سلسلہ ٔ حیات کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں آیا ہے : وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْـکُمْ ثُمَّ اِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (البقرۃ) ” اور تم مردہ تھے ‘ پھر اس نے تمہیں زندہ کیا ‘ پھر وہ تمہیں مارے گا ‘ پھر جلائے گا ‘ پھر تم اسی کی طرف لوٹا دیے جائو گے “۔ زندگی کے اس تسلسل کے اندر موت کے مرحلے کی توجیہہ میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کی ہے : ؎- موت اِک زندگی کا وقفہ ہے - یعنی آگے چلیں گے دم لے کر - بہرحال انسان کی دنیوی زندگی ایک وقفہ امتحان ہے اور موت اس وقفے کے اختتام کی گھنٹی ہے : نَحْنُ قَدَّرْنَا بَـیْـنَـکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ ۔ (الواقعۃ) ۔ اس وقفہ امتحان کا انداز بالکل اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات جیسا ہے ۔ فرق بس یہ ہے کہ ان امتحانات کے لیے چند گھنٹوں کا وقت دیا جاتا ہے ‘ جبکہ انسانی زندگی کے حقیقی امتحان کا دورانیہ اوسطاً تیس چالیس برس پر محیط ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کے ابتدائی بیس پچیس برس تو بچپنے اور غیر سنجیدہ رویے کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ پھر اگر کسی کو بڑھاپا دیکھنا نصیب ہو تو اپنی آخری عمر میں وہ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْم بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا (الحج : ٥) کی عبرت ناک تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ لے دے کر ایک انسان کو عمل کے لیے شعور کی عمر کے اوسطاً تیس چالیس سال ہی ملتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم خضر راہ میں ” زندگی “ کے عنوان کے تحت زندگی کے اس فلسفے پر کمال مہارت سے روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :- ؎- برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی - ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِجاں ہے زندگی - ؎- تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپ - جاوداں ‘ پیہم دواں ‘ ہر دم جواں ہے زندگی - ؎- قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب - اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی - ان اشعار میں علامہ اقبال نے دراصل قرانی آیات ہی کی ترجمانی کی ہے۔ مندرجہ بالا آخری شعر (قلزمِ ‘ ہستی…) آیت زیر مطالعہ کے مفہوم کا ترجمان ہے ‘ جبکہ پہلے شعر میں سورة البقرۃ کی آیت ١٥٤ وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَـآئٌ … کا بنیادی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ظاہر ہے عام طور پر تو زندہ جان کو ہی زندگی کا نام دیا جاتا ہے ‘ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حقیقی اور دائمی زندگی جان دے دینے (تسلیم ِجاں) سے حاصل ہوتی ہے۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :4 یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس نے اس لیے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس ا نسان کا عمل زیادہ بہتر ہے ۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ اول یہ کہ موت اور حیات اسی کی طرف سے ہے ، کوئی دوسرا زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا ۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق ، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے ، اس کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت ۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے ۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا ا ظہار کر سکے اور عملاً یہ دکھا دے کہ وہ کیسا انسان ہے ۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ۔ لہذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے ۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہو گا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی ، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :5 اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ بے انتہا زبردست اور سب پر پوری طرح غالب ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے حق میں رحیم و غفور ہے ، ظالم اور سخت گیر نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ برے عمل کرنے والوں کو سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے ، کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کی سزا سے بچ سکے ۔ مگر جو نادم ہو کر برائی سے باز آجائے اور معافی مانگ لے اس کے ساتھ وہ در گزر کا معاملہ کرنے والا ہے ۔