اللہ تعالیٰ کے احسانات اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے زمین اپنے بندوں کے رہنے سہنے کیلئے بنائی ۔ اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے کہ ہلے جلے نہیں اس میں چشمے جاری کئے اس میں منزلیں اور گھر بنانے کی طاقت انسان کو عطا فرمائی اور بہت سے نفع کی چیزیں اس لئے پیدائش فرمائیں ۔ ابر مقرر کر کے اس میں سے پانی برسا کر ان کے لئے کھیت اور باغات پیدا کئے ۔ تلاش معاش کے وسائل مہیا فرمائے ۔ تجارت اور کمائی کے طریقے سکھا دیئے ۔ باوجود اس کے اکثر لوگ پوری شکر گذاری نہیں کرتے ایک آیت میں فرمان ہے ( وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 18 ) 16- النحل ) یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے بیٹھو تو یہ بھی تمہارے بس کی بات نہیں ۔ لیکن انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے معایش تو جمہور کی قرأت ہے لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اعرج معایش پڑھتے ہیں اور ٹھیک وہی ہے جس پر اکثریت ہے اس لئے کہ ( معایش ) جمع ہے ( معیشتہ ) کی ۔ اس کا باب ( عاش یعیش عیشا ) ہے ( معیشتہ ) کی اصل ( معیشتہ ) ہے ۔ کسر ہے پر تقلیل تھا نقل کر کے ماقیل کو دیا ( معیشتہ ) ہو گیا لیکن جمع کے وقت پھر کسر ہے پر آ گیا کیونکہ اب ثقل نہ رہا پس مفاعل کے وزن پر ( معایش ) ہو گیا کیونکہ اس کلمہ میں یا اصلی ہے ۔ بخلاف مدائین ، صہائف اور بصائر کے جو مدینہ ، صحیفہ اور بصیرہ کی جمع ہے باب مدن صحف اور ابصر سے ان میں چونکہ یا زائد ہے اس لئے ہمزہ دی جاتی ہے اور مفاعل کے وزن پر جمع آتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
[٨] یعنی انسان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بھی ایک کم کردیا جائے مثلاً ہوا کا وجود ہی ختم ہوجائے یا دھوپ کبھی نہ نکلے تو اس دنیا میں اس کا جینا محال ہوجائے ان احسانات کا بدلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ کے شکر گزار بندے بن جاتے مگر ایسا خیال کم ہی لوگوں کو آتا ہے۔
وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : اوپر کی آیات میں انذار وتبشیر کے ساتھ لوگوں کو انبیاء کی دعوت قبول کرنے کی ترغیب دی اور ترغیب میں نعمتوں کی کثرت کی طرف اشارہ تھا، اب یہاں سے نعمتوں کے بیان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، ساتھ ہی شیطان کے حسد اور انسان کو اللہ کی نعمتوں سے محروم کرنے کی جد و جہد کا ذکر ہے، تاکہ ہم اس سے بچ سکیں۔
وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْہَا مَعَايِشَ ٠ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ١٠ ۧ- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] وقوله : ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ- [ التکوير 20] أي : متمکّن ذي قدر ومنزلة . ومَكِنَات الطّيرِ ومَكُنَاتها :- مقارّه، والمَكْن : بيض الضّبّ ، وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] . قال الخلیل المکان مفعل من الکون، ولکثرته في الکلام أجري مجری فعال «فقیل : تمكّن وتمسکن، نحو : تمنزل .- ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ [ القصص 57] کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ [ القصص 6] اور ملک میں ان کو قدرت دیں ۔ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ [ النور 55] اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے ۔ مستحکم وپائیدار کرے گا ۔ فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں ۔ اور امکنت فلانا من فلان کے معنی کسی کو دوسرے پر قدرت دینے کے ہیں مکان و مکانہ جگہ اور حالت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ اعْمَلُوا عَلى مَكانَتِكُمْ [هود 93] اپنی جگہ پر عمل کئے جاؤ ۔ ایک قراءت میں مکانا تکم بصیغہ جمع ہے اور آیت کریمہ : ۔ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ [ التکوير 20] جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے در جے والا ہے ۔ میں مکین بمعنی متمکن یعنی صاحب قدر ومنزلت ہے : ۔ پرندوں کے گھونسلے ۔ المکن سو سماروں وغیرہ کے انڈے ۔ آیت کریمہ : ۔ وبَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] محفوظ انڈے ۔ خلیل کا قول ہے کہ لفظ مکان ( صیغہ ظرف ) مفعل کے وزن پر ہے اور یہ کون سے مشتق ہے پھر کثیر الاستعمال ہونے کی وجہ سے اسے فعال کا حکم دے کر اس سے تمکن وغیرہ مشتقات استعمال ہوئی ہیں ۔ جیسے منزل سے تمنزل وغیرہ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
(١٠) ہم نے تمہیں زمین کی بادشاہت دی اور تمہارے کھانے پینے اور پہننے کے لیے اسباب مہیا کیے، پھر نہ تم معمولی چیز پر شکر کرتے ہو اور نہ زیادہ پر، یا یہ کہ اتنے انعامات کے باوجود تم لوگ بہت ہی کم شکر کرنے والے ہو اور ہم نے تمہیں حضرت آدم (علیہ السلام) سے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔
آیت ١٠ (وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ ط قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ ) - تم لوگوں کو تو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ زمین کے وسائل انسان کے مسلسل استعمال سے ختم نہ ہوجائیں ‘ انسانی و حیوانی خوراک کا قحط نہ پڑجائے۔ مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے خزانے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم نے تمہیں اس زمین میں بسایا ہے تو یہاں تمہارے معاش کا پورا پورا بندوبست بھی کیا ہے۔ اس دنیوی زندگی میں تمہاری اور تمہاری آئندہ نسلوں کی ہر قسم کی جسمانی ضرورتیں یہیں سے پوری ہوں گی۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اگلے (دوسرے) رکوع میں بھی اسی مضمون یعنی تمکن فی الارض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔