9۔ 1 ان آیات میں وزن اعمال کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت والے دن ہوگا جسے قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے۔ جس کا نیکیوں کا پلا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ ناکام ہوگا۔ یہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے جب کہ یہ اعراض ہیں یعنی ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے ؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرمادے گا اور ان کا وزن ہوگا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تولے جائیں گے۔ جن میں انسان کے اعمال درج ہونگے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا، تینوں مسلکوں والے کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں ممکن ہے، کبھی اعمال، کبھی صحیفے اور کبھی صاحب عمل کو تولا جائے (دلائل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) بہرحال میزان اور وزن اعمال کا مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا انکار اس کی تاویل گمراہی ہے۔ اور موجودہ دور میں تو اس کے انکار کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں کہ بےوزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔
[٧] اعمال کا وزن حق کے ساتھ کیسے ؟ آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت (وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ) 7 ۔ الاعراف :8) (یعنی اس دن وزن صرف حق یا حقیقت کا ہوگا) یعنی جتنی کسی عمل میں حقیقت ہوگی اتنا ہی وہ عمل وزنی ہوگا مثلاً ایک شخص اپنی نماز نہایت خلوص نیت سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی رضامندی چاہتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل یقیناً اس شخص کی نماز سے بہت زیادہ وزنی ہوگا جس نے اپنی نماز بےدلی سے، سستی کے ساتھ اور دنیوی خیالات میں مستغرق رہ کر ادا کی اور جس عمل میں حق کا کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اس کا وزن کیا ہی نہیں جائے گا، جیسے سورة کہف کی آیت نمبر ١٠٥ میں مذکور ہے کہ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی آیات سے کفر کیا ہوگا ان کے لیے ہم میزان قائم ہی نہیں کریں گے۔ اور سورة فرقان کی آیت نمبر ٢٣ میں فرمایا کہ ہم ایسے کافروں کے اعمال کی طرف پیش قدمی کریں گے تو انہیں اڑتا ہوا غبار بنادیں گے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میزان عدل صرف ان لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی جو ایمان لائے تھے اور ان کے اعمال اچھے اور برے، وزنی اور کم وزن والے ملے جلے ہوں گے۔ کافروں کے لیے ایسی میزان قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور ان الفاظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعمال کا حق کے ساتھ وزن کیا جائے گا یعنی فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی تھی۔ اس بات کا فیصلہ بھی نہایت انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔- کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اعمال کی میزان (ترازو) ایسی ہی ہوگی جیسی ہمارے استعمال میں آتی ہے، اس کے دو پلڑے ہوں گے ایک میں نیکیاں رکھی جائیں گی اور دوسرے میں برائیاں۔ اس ترازو کی زبان بھی ہوگی زبان سے مراد ترازو کے اوپر کے ڈنڈے کے درمیان میں لگی ہوئی وہ سوئی ہے جو خفیف سے خفیف فرق کو بھی ظاہر کردیتی ہے اور یہ باتیں صرف ہمارے سمجھانے کے لیے کافی سمجھی گئی ہیں باقی اس کی صحیح کیفیت کیا ہوگی ؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ اس دنیا میں تو اعمال اعراض کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن اس دن اعمال کو مجسم کیا جائے گا اور جس عمل میں جس قدر حق ہوگا اسے اتنا ہی بڑا جسم والا اور وزنی بنایا جائے گا پھر انہیں اس ترازو میں تولا جائے گا۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ ۔۔ : اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد کافر ہیں، کیونکہ قرآن نے انھیں ” خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ “ قرار دیا ہے، مومن گناہ گار تو آخر کار کسی نہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں پہنچ جائیں گے۔ (کبیر) مزید دیکھیے سورة حاقہ (٢٥ تا ٢٩) کی تفسیر۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے روز سب کے سامنے لایا جائے گا، اس کے ننانویں اعمال نامے پھیلائے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک اتنا لمبا ہوگا جتنی دور نگاہ جاتی ہے، پھر پروردگار اس سے فرمائے گا : ” کیا تم ان میں سے کسی عمل سے انکار کرتے ہو ؟ “ وہ عرض کرے گا : ” نہیں۔ “ پھر پروردگار فرمائے گا : ” تمہاری ایک نیکی بھی ہمارے پاس ہے اور آج تم سے کوئی بےانصافی نہیں کی جائے گی۔ “ پھر ایک بطاقہ (کاغذ کا ٹکڑا) لایا جائے گا جس پر ” أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ “ درج ہوگا۔ وہ عرض کرے گا : ” بھلا یہ ایک پرزہ ان تمام دفتروں کے مقابلے میں کس کام آئے گا ؟ “ حکم ہوگا کہ تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا (لہٰذا صبر کرو) پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور یہ کاغذ کا ایک پرزہ دوسرے پلڑے میں، تو وہ دفتر ہلکے ہوجائیں گے اور وہ پرزہ بھاری ہوگا اور اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی۔ “ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فیمن یموت۔۔ : ٢٦٣٩۔ ابن ماجہ : ٤٣٠٠۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١؍٢٦١ ] اہل علم نے دوسری آیات و احادیث کو مد نظر رکھ کر اس شخص سے وہ آدمی مراد لیا ہے جسے کلمہ پڑھنے کے بعد عمل کا موقع ہی نہیں ملا، یعنی جسے آخری وقت پر کفر و شرک سے باز آنے اور اسلام لانے کی توفیق ملی اور اسلام لانے سے اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے یا بدعمل، اور آخری وقت توبہ کی توفیق نصیب ہوگئی۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَ ٩- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :9 اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلوؤں میں تقسیم ہوگا ۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو ۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہوگا اور آخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی ۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہشِ نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بے قدر ہوگا یہ آدمی کے مثبت پہلوؤں کی قدر بھی گھٹا دے گا ۔ پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کے منفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے ۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اس کے تمام مثبت پہلوؤں کو دبالے تو اس کا حال بالکل اس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں ۔