میزان اور اعمال کا دین قیامت کے دن نیکی بدی انصاف و عدل کے ساتھ تولی جانے کی ، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ونضع الموازین القسط لیوم القیامتہ ) الخ ، قیامت کے دن ہم عدل کی ترازو رکھیں گے ، کسی پر کوئی ظلم نہ ہو گا ، رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے ۔ سورۃ قارعہ میں فرمایا جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اسے عیش و نشاط کی زندگی ملی اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا اس کا ٹھکانا ( ہاویہ ) ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کے خزانے کا نام ہے اور آیت میں ہے ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ101 ) 23- المؤمنون ) یعنی نفحہ پھونک دیا جائے گا سارے رشتے ناتے اور نسب حسب ٹوٹ جائیں گے ، کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا ۔ اگر تول میں نیک اعمال بڑھ گئے تو فلاح پالی ورنہ خسارے کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ فصل کوئی تو کہتا ہے کہ خود اعمال تو لے جائیں گے کوئی کہتا ہے نامہ اعمال تو لے جائیں گے ۔ کوئی کہتا ہے خود عمل کرنے والے تو لے جائیں گے ۔ ان تینوں قولوں کو اس طرح جمع کرنا بھی ممکن ہے کہ ہم کہیں یہ سب صحیح ہیں کبھی عمال تو لے جائیں گے کبھی نامہ اعمال کبھی خود اعمال کرنے والے واللہ اعلم ۔ ان تینوں باتوں کی دلیلیں بھی موجود ہیں ۔ پہلے قول کا مطلب یہ ہے کہ اعمال گو ایک بےجسم چیز ہیں لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں جسم عطا فرمائے گا جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران قیامت کے دن دو سائبانوں کی یا دو ابر کی یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ کی صورت میں آئیں گی اور حدیث میں ہے کہ قرآن اپنے قاری اور عامل کے پاس ایک نوجوان خوش شکل نورانی چہرے والے کی صورت میں آئے گا یہ اسے دیکھ کر پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ یہ کہے گا میں قرآن ہوں جو تجھے راتوں کی نیند نہیں سونے دیتا تھا اور دنوں میں پانی پینے سے روکتا تھا ۔ حضرت براء والی حدیث میں جس میں قبر کے سوال جواب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کے پاس ایک نوجوان خوبصورت خوشبودار آئے گا یہ اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اور کافر و منافق کے پاس اس کے برخلاف شخص کے آنے کا بیان ہے یہ تو تھیں پہلے قول کی دلیلیں ۔ دوسرے قول کی دلیلیں یہ ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے جس میں سے ہر ایک اتنا بڑا ہو گا جتنا دور تک نظر پہنچے ۔ پھر ایک پرچہ نیکی کا لایا جائے گا جس پر ( لا الہ الا اللہ ) ہو گا ۔ یہ کہے گا یا اللہ یہ اتنا سا پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو اس سے بےخطر رہ کہ تجھ پر ظلم کیا جائے ، اب وہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلہ میں نیکی کے پلڑے میں رکھا جائے گا تو وہ سب دفتر اونچے ہو جائیں گے اور یہ سب سے زیادہ وزن دار اور بھاری ہو جائیں گے ( ترمذی ) تیسرا قول بھی دلیل رکھتا ہے حدیث میں ہے ایک بہت موٹا تازہ گنہگار انسان اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی وزن اللہ کے پاس اس کا نہ ہو گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا 105 ) 18- الكهف ) ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تعریف میں جو حدیثیں ہیں ان میں ہے کہ حضور نے فرمایا ان کی پتلی پنڈلیوں پہ نہ جانا اللہ کی قسم اللہ کے نزدیک یہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزن دار ہے ۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ: اوپر کی آیت میں سوال اور حساب کا ذکر ہے، اس آیت میں وزن اعمال کا، یعنی ہر ایک کے نیک و بد اعمال کا وزن ہوگا۔ یہاں اس اشکال کی بنا پر کہ ان اعمال کا تو اس وقت وجود ہی ختم ہوچکا ہوگا، بعض عقل پرستوں نے وزن اعمال ہی سے انکار کردیا، مگر اللہ تعالیٰ کی بات کیسے غلط ہوسکتی ہے۔ امام بخاری (رض) نے اپنی صحیح بخاری کو ختم ہی اس بات کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ ثابت کرنے سے کیا ہے۔ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٤٧) یہ وزن کیسے ہوگا، کچھ اہل علم نے کہا کہ وہ کاغذ تولے جائیں گے جن میں عمل لکھے ہوں گے۔ بعض نے کہا کہ ان اعمال کو جسم دے کر وہ جسم تولے جائیں گے۔ بعض نے کہا کہ اس عمل والے کو تولا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” تینوں صورتیں ممکن ہیں اور آیات و احادیث میں ہر ایک کی تائید ملتی ہے۔ “ چوتھی صورت یہ ہے کہ خود عمل تو لے جائیں گے، کیونکہ ان کا وجود ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ( وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ ) [ الکہف : ٤٩ ] ” اور انھوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیں گے۔ “ اور فرمایا : ( وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ) [ الأنبیاء : ٤٧ ] ” اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہوگا تو ہم اسے لے آئیں گے۔ “ اور سورة لقمان (١٦) میں بھی یہی بات فرمائی سورة زلزال میں فرمایا : (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ ) [ الزلزال : ٧، ٨ ] اور جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ “ سورة آل عمران (٣٠) میں بھی یہ بات موجود ہے۔ اور یہی چوتھی صورت راجح ہے۔ اب تو جدید سائنس نے دنیا ہی میں یہ مسئلہ حل کردیا ہے، ہوا میں تحلیل ہوجانے والی آوازوں اور اعمال کا سارا نقشہ اور ختم ہونے والی چیزوں کا وزن سب کچھ انسان کے ہاتھوں ظاہر ہو رہا ہے۔ [ وللہ المثل الاعلی ] مگر ماننے کا لطف اس وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات عقل میں آئے یا نہ آئے اسے من و عن تسلیم کیا جائے اور اسی کا نام اسلام ہے، سائنس سے ثابت ہونے کے بعد کسی نے مانا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو کیا مانا ؟
خلاصہ تفسیر - اور اس روز (یعنی قیامت کے دن اعمال و عقائد کا) وزن واقع ہونے والا ہے (تاکہ عام طور پر ہر ایک کی حالت ظاہر ہوجائے) پھر (وزن کے بعد) جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی وہ مومن ہوگا) سو ایسے لوگ (تو) کامیاب ہوں گے (یعنی نجات پائیں گے) اور جس شخص کا پلّہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی وہ کافر ہوگا) تو یہ لوگ وہ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کی حق تلفی کیا کرتے تھے، اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی، اور ہم نے تمہارے لئے اس (زمین) میں سامان زندگی پیدا کیا (جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ تم اس کے شکریہ میں فرمانبردار و اطاعت شعار ہوتے، لیکن) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو (مراد اس سے اطاعت ہے اور کم اس لئے فرمایا کہ تھوڑا بہت نیک کام تو اکثر لوگ کر ہی لیتے ہیں، لیکن بوجہ ایمان نے ہونے کے وہ قابل اعتبار نہیں) ۔- معارف و مسائل - پہلی آیت میں ارشاد ہے والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ یعنی بھلے برے اعمال کا وزن ہونا اس دن حق و صحیح ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ وزن اور تول تو ان چیزوں کا ہوا کرتا ہے جن میں کوئی بوجھ اور ثقل ہو۔ انسان کے اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ان کا کوئی جسم اور جزم ہی نہیں، جس کا تول ہو سکے، پھر اعمال کا وزن کیسے ہوگا، کیونکہ اول تو مالک الملک قادر مطلق ہر چیز پر قادر ہے، یہ کیا ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم نہ تول سکیں حق تعالیٰ بھی نہ تول سکیں، اس کے علاوہ آج کل تو دنیا میں وزن تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد ہوچکے ہیں، جن میں نہ ترازو کی ضرورت ہے، نہ اس کے پلوں کی اور نہ ڈندی کی اور کانٹے کی، آج تو ان نئے آلات کے ذریعہ وہ چیزیں بھی تولی جاتی ہیں جن کے تولنے کا آج سے پہلے کسی کو تصور بھی نہ تھا، ہوا تولی جاتی ہے، برقی رو تولی جاتی ہے، سردی گرمی تولی جاتی ہے، انکا میٹر ہی ان کی ترازو ہوتا ہے، اگر حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے انسانی اعمال کا وزن کرلیں تو اس میں کیا استبعاد ہے، اس کے علاوہ خالق کائنات کو اس پر بھی قدرت ہے کہ ہمارے اعمال کو کسی وقت جوہری وجود اور کوئی شکل و صورت عطا فرمادیں، حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت سی روایات اس پر شاہد بھی ہیں کہ برزخ اور محشر میں انسانی اعمال خاص خاص شکلوں اور صورتوں میں آئیں گے، قبر میں انسان کے اعمال صالحہ ایک حسین صورت میں اس کے مونس بنیں گے، اور برے اعمال سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے، حدیث میں ہے کہ جس شخص نے مال کی زکوٰة نہیں ادا کی وہ مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی قبر میں پہنچ کر اس کو ڈسے گا، اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ - اسی طرح معتبر احادیث میں ہے کہ میدان حشر میں انسان کے اعمال صالحہ اس کی سواری بن جائیں گے، اور برے اعمال بوجھ بن کر اس کے سر پر لادے جائیں گے۔- ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قرآن مجید کی سورة بقرہ اور سورة آل عمران میدان حشر میں دو گہرے بادلوں کی شکل میں آکر ان لوگوں پر سایہ کریں گی جو اس سورتوں کے پڑھنے والے تھے۔- اسی طرح کی بیشمار روایات حدیث مستند اور معتبر طریقوں سے منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان سے گزر جانے کے بعد ہمارے یہ سارے اعمال نیک و بد خاص خاص شکلیں اور صورتیں اختیار کرلیں گے، اور ایک جوہری وجود کے ساتھ میدان حشر میں موجود ہوں گے۔- قرآن مجید کے بھی بہت سے ارشادات سے اس کی تائید ہوتی ہے، ارشاد ہے : (آیت) ووجدوا ما عملوا حاضرا، ” یعنی لوگوں نے دنیا میں جو کچھ عمل کیا تھا اس کو وہاں حاضر و موجود پائینگے “۔ ایک آیت میں فرمایا (آیت) من یعمل مثقال ذرة خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ ” یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کرے گا تو قیامت میں اس کو دیکھے گا، اور ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو قیامت میں اس کو بھی دیکھے گا “۔ ظاہر ان حالات سے یہی ہے کہ انسان کا عمل جوہری وجود کے ساتھ اس کے سامنے آئے گا، ان میں بھی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ اعمال کی جزاء کو موجود پائے گا اور دیکھے گا۔- ان حالات میں ظاہر ہے کہ ان اعمال کا تولا جانا کوئی بعید یا مشکل امر نہیں رہتا، مگر چونکہ تھوڑی سی عقل و فہم کا مالک انسان اس کا عادی ہے کہ سارے امور کو اپنی موجودہ حالت اور کیفیت ظاہری پر قیاس کرتا ہے، اور سب چیزوں کو اسی کے پیمانہ سے جانچتا ہے، قرآن کریم نے اس کے اسی حال کو اس طرح بیان فرمایا ہے، (آیت) یعلمون ظاھرا من الحیوۃ الدنیا وھم عن الاخرۃ ھم غفلون ” یعنی یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ایک ظاہری پہلو کو جانتے ہیں وہ بھی پورا نہیں، اور آخرت سے بالکل غافل ہیں، ظاہر حیات دنیا میں تو زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، مگر حقائق اشیاء سے جن کا صحیح انکشاف آخرت میں ہونے والا ہے یہ لوگ بالکل بیخبر ہیں۔- آیت مذکورہ میں اسی لئے اہتمام کرکے یہ فرمایا گیا والْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ، تاکہ یہ ظاہر میں انسان آخرت میں وزن اعمال سے انکار نہ کر بیٹھے، جو قرآن کریم سے ثابت اور پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ - قرآن مجید میں بروز قیامت وزن اعمال ہونے کا مسئلہ بہت سی آیات میں مختلف عنوانوں سے آیا ہے اور روایات حدیث اس کی تفصیلات میں بیشمار ہیں۔- وزن اعمال کے متعلق ایک شبہ اور جواب - وزن اعمال کے متعلق جو تفصیلی بیان رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں آیا ہے اس میں ایک بات تو یہ قابل غور ہے کہ متعدد روایات حدیث میں آیا ہے کہ محشر کی میزان عدل میں سب سے بڑا وزنی کلمہ لَا الہٰ الاَّ اللہ ُ مُحَمَّد رَسُول اللہ کا ہوگا، جس پلے میں یہ کلمہ ہوگا وہ سب سے بھاری رہے گا۔- ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر میں میری امت کا یک آدمی ساری مخلوق کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے نامہ اعمال لائے جاویں گے، اور ان میں سے ہر نامہ اعمال اتنا طویل ہوگا کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے، اور یہ سب نامہ اعمال برائیوں اور گناہوں سے لبریز ہوں گے، اس شخص سے پوچھا جائے گا کہ ان نامہائے اعمال میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح ہے یا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تم پر کچھ ظلم کیا ہے اور خلاف واقعہ کوئی بات لکھ دی ہے ؟ وہ اقرار کرے گا کہ اے میرے پروردگار جو کچھ لکھا ہے سب صحیح ہے، اور دل میں گھبرائے گا کہ اب میری نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس وقت حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا، ان تمام گناہوں کے مقابلہ میں تمہاری ایک نیکی کا پرچہ بھی ہمارے پاس موجود ہے، جس میں تمہارا کلمہ اَشُہَدُ اَن لَّآ اِلٰہ الاَّ اللہ وَاَشہد اَنَّ مُحَمدُّ اَعَبدُہ وَرَسُولُہ لکھا ہوا ہے وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار اتنے بڑے سیاہ نامہ اعمال کے مقابلہ میں یہ چھوٹا سا پرچہ کیا وزن رکھے گا، اس وقت ارشاد ہوگا کہ تم پر ظلم نہیں ہوگا، اور ایک پلّہ میں وہ سب گناہوں سے بھرے ہوئے نامہ اعمال رکھے جائیں گے، دوسرے میں یہ کلمہ ایمان کا پرچہ رکھا جائے گا تو اس کلمہ کا پلّہ بھاری ہوجائے گا اور سارے گناہوں کا پلّہ ہلکا ہوجائے گا، اس واقعہ کو بیان کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز بھاری نہیں ہوسکتی (مظہری)- اور مسند، بزار اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی وفات کا وقت آیا تو اپنے لڑکوں کو جمع کرکے فرمایا کہ میں تمہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور زمین ایک پلّہ میں اور کلمہ لا الہ الا اللہ دوسرے پلّہ میں رکھ دیا جائے تو کلمہ کا پلّہ بھاری رہے گا، اسی مضمون کی روایات حدیث حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابو الدرداء (رض) سے معتبر سندوں کے ساتھ کتب حدیث میں منقول ہیں (مظہری) ۔ - ان روایات کا مقتضا تو یہ ہے کہ مومن کا پلّہ ہمیشہ بھاری ہی رہے گا، خواہ وہ کتنے بھی گناہ کرے، لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی حسنات اور سیّئات کو تولا جائے گا کسی کی حسنات کا پلّہ بھاری ہوگا، کسی کے گناہوں کا، جس کی حسنات کا پلّہ بھاری رہے گا وہ نجات پائے گا، جس کی سیئات اور گناہوں کا پلّہ بھاری ہوگا اس کو عذاب ہوگا۔- مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت میں سے :- (آیت) ونضع الموازین القسط لیوم تا حٰسبین۔- ” یعنی ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کرینگے اس لئے کسی شخص پر ادنیٰ ظلم نہیں ہوگا جو بھلائی یا برائی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی نے کی ہے وہ سب میزان عمل میں رکھی جائے گی، اور ہم حساب کے لئے کافی ہیں “۔- اور سورة قارعہ میں ہے :- فاما من ثقلت موازینہ تا ھاویہ۔- ” یعنی جس کا نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا وہ عمدہ عیش میں رہے گا، اور جس کا پلّہ نیکی کا ہلکا ہوگا اس کا مقام دوزخ ہو گا “۔- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ جس مومن کا پلّہ حسنات کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جنت میں اور جس کا پلّہ گناہوں کا بھاری ہوگا وہ اپنے اعمال کے ساتھ جہنم میں بھیج دیا جائے گا (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مظہری) ۔- اور ابوداؤد میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ اگر کسی بندہ کے فرائض میں کوئی کمی پائی جائے گی تو رب العالمین کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندہ کے کچھ نوافل بھی ہیں یا نہیں، اگر نوافل موجود ہیں تو فرضوں کی کمی کو نفلوں سے پورا کردیا جائے گا۔ (مظہری) - ان تمام آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ مومن مسلمان کا پلّہ بھی کبھی بھاری کبھی ہلکا ہوگا، اس لئے بعض علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں وزن دو مرتبہ ہوگا، اول کفر و ایمان کا وزن ہوگا، جس کے ذریعہ مؤ من، کافر کا امتیاز کیا جائے گا۔ اس وزن میں جس کے نامہ اعمال میں صرف کلمہ ایمان بھی ہے اس کا پلّہ بھاری ہوجائے گا، اور وہ کافروں کے گروہ سے الگ کردیا جائے گا، اور اسی کے مطابق اس کو جزاء و سزاء ملے گی، اس طرح تمام آیات اور روایات کا مضمون اپنی اپنی جگہ درست اور مربوط ہوجاتا ہے (بیان القرآن) - وزن اعمال کس طرح ہوگا - بخاری و مسلم میں بروایت ابوہریرہ (رض) یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض موٹے فربہ آدمی آئیں گے جن کا وزن اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا، اور اس کی شہادت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی، فلا نقیم لہم یوم القیامۃ وزنا، ” یعنی قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قرار نہ دیں گے “ (مظہری) ۔ - اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مناقب میں یہ حدیث آئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کی ٹانگیں ظاہر میں کتنی پتلی ہیں لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ قیامت کی میزان عدل میں ان کا وزن احد پہاڑ سے بھی زیادہ ہوگا۔- اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ حدیث جس پر امام بخاری نے اپنی کتاب کو ختم کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے ہیں مگر میزان عمل میں بہت بھاری ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہیں، اور وہ کلمے یہ ہیں : سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔- اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ سبحان اللہ کہنے سے میزان عمل کا آدھا پلّہ بھر جاتا ہے، اور الحمد للہ سے باقی آدھا پورا ہوجاتا ہے۔- اور ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابو الدرداء (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میزان عمل میں حسن خلق کے برابر کوئی عمل وزنی نہیں ہوگا۔- اور حضرت ابوذر غفاری (رض) سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہیں ایسے دو کام بتاتا ہوں جن پر عمل کرنا انسان کے لئے کچھ بھاری نہیں، اور میزان عمل میں وہ سب سے زیادہ بھاری ہوں گے، ایک حسن خلق، دوسرے زیادہ خاموش رہنا، یعنی بلا ضرورت کلام نہ کرنا۔- اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے کتاب الزہد میں بروایت حضرت حازم (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل امین تشریف لائے تو وہاں کوئی شخص خوف خدا تعالیٰ سے رو رہا تھا، تو جبرئیل نے فرمایا کہ انسان کے تمام اعمال کا تو وزن ہوگا مگر خدا و آخرت کے خوف سے رونا ایسا عمل ہے جس کو تولا نہ جائے گا، بلکہ ایک آنسو بھی جہنم کی بڑی سے بڑی آگ کو بجھا دے گا (مظہری) ۔ - ایک حدیث میں ہے کہ میدان حشر میں ایک شخص حاضر ہوگا، جب اس کا نامہ اعمال سامنے آئے گا تو وہ نیک اعمال کو بہت کم پاکر گھبرائے گا کہ اچانک ایک چیز بادل کی طرح اٹھ کر آئے گی اور اس کے نیک اعمال کے پلّے میں گر جائے گی، اور اس کو بتلایا جائے گا کہ یہ تیرے اس عمل کا ثمرہ ہے جو تو دنیا میں لوگوں کو دین کے احکام و مسائل بتلاتا یا سکھاتا تھا، اور یہ تیری تعلیم کا سلسلہ آگے چلا تو جس جس شخص نے اس پر عمل کیا ان سب کے عمل میں تیرا حصہ بھی لگایا گیا (مظہری عن ابن المبارک) ۔ - طبرانی نے بروایت جابر (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان کی میزان عمل میں سب سے پہلے جو عمل رکھا جائے گا وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا نیک عمل ہے۔- اور امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی روشنائی جس سے انہوں نے علم دین اور احکام دین لکھے ہیں اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ - اس طرح کی روایات حدیث قیامت کے وزن اعمال کے سلسلہ میں بہت ہیں، یہاں چند کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ان سے خاص خاص اعمال کی فضیلت اور قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ - ان تمام روایات حدیث سے وزن اعمال کی کیفیت مختلف معلوم ہوتی ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کرنے والے انسان تولے جائیں گے، وہ اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے ہلکے بھاری ہوں گے، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ اعمال تولے جائیں گے، اور بعض سے ثابت ہوتا ہے کہ خود اعمال مجسّم ہوجائیں گے وہ تولے جائیں گے، امام تفسیر ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے یہ سب روایات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ وزن مختلف صورتوں سے کئی مرتبہ کیا جائے، اور ظاہر ہے کہ پوری حقیقت ان معاملات کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور عمل کرنے کے لئے اس حقیقت کا جاننا ضروری بھی نہیں، صرف اتنا کافی ہے کہ ہمارے اعمال کا وزن ہوگا، نیک اعمال کا پلّہ ہلکا رہا تو عذاب کے مستحق ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ حق تعالیٰ کسی کو خود اپنے فضل و کرم سے یا کسی نبی یا ولی کی شفاعت سے معاف فرما دیں اور عذاب سے نجات ہوجائے۔- جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ بعض لوگوں کو صرف کلمہ ایمان کی بدولت نجات ہوجائے گی اور سب گناہ اس کے مقابلہ میں معاف ہوجائیں گے، یہ اسی استثنائی صورت سے متعلق ہیں جو عام ضابطہ سے الگ مخصوص فضل و کرم کا مظہر ہے۔- ان دونوں آیتوں میں جن کی تفسیر ابھی بیان ہوئی گناہگاروں کو میدان حشر کی رسوائی عذاب الٓہی سے ڈرایا گیا تھا، تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر فرما کر حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب اس طرح دی گئی کہ ہم نے تم کو زمین پر پوری قدرت اور تصرف مالکانہ عطا کیا، اور پھر اس میں تمہارے لئے سامان عیش حاصل کرنے کے ہزاروں راستے کھول دئیے، گویا رب العالمین نے زمین کو انسان کی تمام ضروریات سے لے کر تفریحی سامان تک کا عظیم الشان گودام بنادیا ہے، اور تمام انسانی ضروریات کو اس کے اندر پیدا فرما دیا ہے، اب انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ اس گودام سے اپنی ضروریات کو نکالنے اور ان کے استعمال کرنے کے طریقوں کو سیکھ لے، انسان کے ہر علم و فن اور سائنس کی نئی سے نئی ایجاد کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ خالق کائنات کی پیدا کی ہوئی چیزیں جو زمین کے گودام میں محفوظ ہیں، ان کو سلیقہ کے ساتھ نکالے اور صحیح طریقہ سے استعمال کرے، بیوقوف اور بدسلیقہ آدمی جو اس گودام سے نکالنے کا طریقہ نہیں جانتا، یا پھر نکال کر اس کے استعمال کا طریقہ نہیں سمجھتا وہ ان کے منافع سے محروم رہتا ہے، سمجھ دار انسان دونوں چیزوں کو سمجھ کر ان سے نفع اٹھاتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ساری ضروریات انسانی حق تعالیٰ نے زمین میں ودیعت رکھ دی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حق تعالیٰ کا شکر گزار ہو مگر وہ غفلت میں پڑ کر اپنے خالق ومالک کے احسانات کو بھول جاتا ہے، اور انہی اشیاء میں الجھ کر رہ جاتا ہے، اسی لئے آخر آیت میں بطور شکایت کے ارشاد فرمایا : قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ” یعنی تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو “۔
وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ٠ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٨- وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے - يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے - فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔
(٨۔ ٩) اور قیامت کے دن پورے انصاف کے ساتھ اعمال کا وزن ہوگا سو جن کی نیکیاں ترازو میں وزنی ہوں گی وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے محفوظ ہوں گے اور جن کی نیکیاں ہلکی ہوں گی تو یہ وہی لوگ ہوں گے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کا انکار کرکے سزا کے مستحق ہوگئے۔
آیت ٨ (وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نِ الْحَقُّ ج) - اس روز اللہ تعالیٰ ترازو نما کوئی ایسا نظام قائم کرے گا ‘ جس کے ذریعے سے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن ہوگا ‘ مگر اس دن وزن صرف حق ہی میں ہوگا ‘ یعنی صرف اعمال صالحہ ہی کا وزن ہوگا ‘ باطل اور برے کاموں میں سرے سے کوئی وزن نہیں ہوگا ‘ ریاکاری کی نیکیاں ترازو میں بالکل بےحیثیت ہوں گی۔ (وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نالْحَقُّ ج) کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اس دن وزن ہی حق ہوگا ‘ وزن ہی فیصلہ کن ہوگا۔ اگر دو پلڑوں والی ترازو کا تصور کریں تو جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا نجات بس اسی کے لیے ہوگی۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :8 اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روز خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے ۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگی اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی ۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ با وزن ہوگا ۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہو گا وزن کے لحاظ سے ہوگا ، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا ۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں ، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائےگی ۔ باطل پرست جب اس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرِ کاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا ۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف آیات ١۰۳ تا ١۰۵ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کیا کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے ، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے ۔