Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فرعون سیخ پا ہو گیا جادوگروں کے اس طرح مجمع عام میں ہار جانے پھر اس طرح سب کے سامنے بےدھڑک اسلام قبول کر لینے سے فرعون آگ بگولا ہو گیا اور اس اثر کو روکنے کیلئے سب سے پہلے تو ان مسلمانوں سے کہنے لگا تمہارا بھید مجھ پر کھل گیا ہے تم سب مع موسیٰ کے ایک ہی ہو یہ تمہارا استاد ہے تم اس کے شاگرد ہو تم نے آپس میں پہلے یہ طے کیا کہ بھئی تو پہلے چلا جا پھر ہم آجائیں گے اس طرح میدان قائم ہو ہم مصنوعی لڑائی لڑ کر ہار جائینگے اور اس طرح اس ملک کے اصلی باشندوں کو یہاں سے نکال باہر کریں گے ۔ فرعون کے اس جھوٹ پر اللہ کی مار ہے ۔ کوئی بےوقوف انسان بھی اس کے ایک جملہ کو بھی صحیح نہیں سمجھ سکتا ۔ سب کو معلوم تھا موسیٰ علیہ السلام اپنا بچپن فرعون کے محل میں گذارتے ہیں ، اس کے بعد مدین میں عمر کا ایک حصہ بسر کرتے ہیں ، مدین سے سیدھے مصر کو پہنچ کر اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں اور معجزے دکھاتے ہیں جن سے عاجز آ کر فرعون اپنے جادوگروں کو جمع کرتا ہے وہ براہ راست اس کی سپاہ کے ساتھ اس کے دربار میں پیش ہوتے ہیں انعام و اکرام کے لالچ سے ان کے دل بڑھائے جاتے ہیں وہ اپنی فتح مندی کا یقین دلاتے ہیں فرعون انہیں اپنی رضامندی کا یقین دلاتا ہے خوب تیاریاں کر کے میدان جماتے ہیں حضرت موسیٰ ان میں سے ایک سے بھی واقف نہیں کبھی نہ کسی کو دیکھا ہے نہ سنا ہے نہ ملے ہیں نہ جانتے ہیں ۔ لیکن وزیرے چنیں شہریارے چناں وہاں تو ان لوگوں کا مجمع تھا کہ فرعون نے جب کہا کہ میں رب اعلیٰ ہوں تو سب نے گردنیں جھکا کر کہا بیشک حضور آپ خدا ہیں تو ایسے جہالت کے پلندوں سے کوئی بات منوا لینی کیا مشکل تھی؟ اس کے رعب میں آ کر ایمان لانے کا ارادہ بدلا اور سمجھ بیٹھے کہ واقعی فرعون ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کے امیر سے فرمایا کہ اگر میں غالب آ جاؤں تو کیا تو مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اس نے کہا آج میدان میں ہماری جانب جو جادو پیش کیا جائے گا اس کا جواب ساری مخلوق کے پاس نہیں تو اگر اس پر غالب آ گیا تو مجھے بیشک یقین ہو جائے گا کہ وہ جادو نہیں معجزہ ہے ۔ یہ گفتگو فرعون کے کانوں تک پہنچی اسے یہ دوہرا رہا ہے کہ تم نے ملی بھگت کر لی ۔ اس طرح لوگوں کے دل حقانیت سے ہٹا کر انہیں بدظن کرنے کیلئے دوسری چال یہ چلتا اور کہتا ہے کہ تم اپنے ایکے ، اتفاق اور پوشیدہ جال سے جاہتے یہ ہو کہ ہماری دولت و شوکت چھین لو ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو ، اس طرح اپنی قوم کے دل ان کی طرف سے پھیر کر پھر انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے چوتھی چال چلتا ہے کہ ان نومسلموں سے کہتا ہے کہ دیکھو تو تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں ۔ مجھے بھی قسم ہے جو تمہارے ہاتھ پاؤں نہ کٹوائے اور وہ بھی الٹی طرح یعنی پہلے اگر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے تو پھر بایاں پاؤں اور اگر پہلے سیدھا پاؤں کاٹا گیا تو پھر الٹا ہاتھ ۔ اسی طرح بےدست و پا کر کے کھجوروں کی شاخوں پر لٹکا دوں گا ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس ظالم بادشاہ سے پہلے ان دونوں سزاؤں کا رواج نہ تھا ۔ یہ دھمکی دے کر وہ سمھجتا تھا کہ اب یہ نرم پڑ جائیں گے لیکن وہ تو ایمان میں اور پختہ ہوگئے ، بالاتفاق جواب دیتے ہیں کہ اچھا ڈرایا ؟ یہاں سے تو واپس اللہ کے پاس جانا ہی ہے اسی کے قبضہ و قدرت میں سب کچھ ہے آج اگر تیری سزاؤں سے بچ گئے تو کیا اللہ کے ہاں کی سزائیں بھی معاف ہو جائیں گی؟ ہمارے نزدیک تو دنیا کی سزائیں بھگت لینا بہ نسبت آخرت کے عذاب کے بھگتنے کے بہت ہی آسان ہے ۔ تو ہم سے اللہ کے نبی کا مقابلہ کراچکا ہے لیکن اب جبکہ ہم پر حق واضح ہو گیا ہم اس پر ایمان لے آئے تو تو چڑ رہا ہے ۔ کہنے کو تو یہ سب کچھ کہہ گئے لیکن پھر خیال آیا کہ کہیں ہمارا قدم پھسل نہ جائے اس لئے دعا میں دل کھول دیا کہ اے اللہ ہمیں صبر عطا فرما ، ثابت قدمی دے ، ہمیں اسلام پر ہی موت دے ، تیرے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہوں ۔ ایسا نہ ہو اس ظالم کے رعب میں یا اس کی دھمکیوں میں آ جائیں یا سزاؤں سے ڈر جائیں یا ان کے برداشت کی تاب نہ لائیں ۔ ان دعاؤں کے بعد دل بڑھ جاتے ہیں ، ہمتیں دگنی ہو جاتی ہیں فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں تجھے جو کرنا ہے اس میں کمی نہ کر ، کسر اٹھا نہ رکھ ، جو جی میں ہے کر گذر تو دنیا ہی میں سزائیں دے سکتا ہے ۔ ہم صبر کرلیں گے کیا عجب کہ ہمارے ایمان کی وجہ سے اللہ ہماری خطائیں معاف فرمائے خصوصاً ابھی کی یہ خطا کہ ہم نے جھوٹ سے سچ کا مقابلہ کیا ۔ بیشک اللہ بہتر ہے اور زیادہ باقی ہے ۔ گناہگاروں کے لئے اس کے ہاں جہنم کی سزا ہے جہاں نہ موت آئے نہ کارآمد زندگی ہو ۔ اور مومنوں کے لئے اس کے پاس جنتیں ہیں جہاں بڑے بلند درجے ہیں ۔ سبحان اللہ یہ لوگ دن کے ابتدائی حصے میں کافر اور جادوگر تھے اور اسی دن کے آخری حصے میں مومن بلکہ نیک شہید تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

123۔ 1 یہ جو کچھ ہوا فرعون کے لئے بڑا حیران کن اور تعجب خیز تھا اس لئے اسے اور تو کچھ نہیں سوجھا، اس نے یہی کہہ دیا کہ تم سب آپس میں ملے ہوئے ہو اور اس کا مقصد ہمارے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ اچھا اس کا انجام عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۔۔ : یعنی میری اجازت سے پہلے تمہیں کوئی حق نہ تھا کہ تم موسیٰ کی برتری اور کامرانی کا اعلان کرتے۔ ہر متکبر و سرکش یہی چاہتا ہے کہ لوگ اس کی ہاں میں ہاں ملائیں اور جو کچھ وہ کہے اسے مان کر اسی کی تشہیر و اشاعت کریں، اسی طرح دنیا میں ہر متکبر اور سرکش حکمران کا یہ قاعدہ ہے کہ جب وہ دلیل کے میدان میں ہار جاتا ہے تو جیل، پھانسی، سولی اور قتل کی دھمکی دینے پر اتر آتا ہے اور اس کے لیے ایسے قوانین وضع کرتا ہے جن کی رو سے کسی پر اس کا جرم ثابت کیے بغیر اسے سزا دی جاسکے۔ چناچہ یہی کام فرعون نے کیا، جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھا گیا تو سزا دینے کی دھمکی پر اتر آیا اور فی الفور عوام کے سامنے دو الزام لگا دیے، پہلا کہ یہ جادوگروں اور موسیٰ کی باہمی سازش ہے اور دوسرا یہ کہ یہ لوگ اس سازش کے ذریعے سے مصریوں کو ملک بدر کرکے حکومت پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ اس لیے پہلے ” فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ “ (سو تم جلد جان لو گے) کہہ کر دھمکی دی، پھر اس دھمکی کی وضاحت بھی سنا دی۔ - ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ : یعنی ایک جانب سے ہاتھ اور دوسری جانب سے پاؤں کٹوا کر تمہیں سولی دے دوں گا۔ عام طور پر لوگ سولی اور پھانسی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، حالانکہ پھانسی میں تو گلے میں رسا ڈال کر گلا گھونٹ کر مارا جاتا ہے، جبکہ سولی میں ایک اونچا کھمبا کھڑا کرکے اس کے اوپر ایک آڑی لکڑی باندھ دی جاتی ہے، پھر ملزم کو اوپر چڑھا کر اس کے بازو اس آڑی لکڑی کے ساتھ باندھ دیے جاتے ہیں، جبکہ جسم اونچی لکڑی کے ساتھ بندھا ہوتا ہے، وہ وہیں دھوپ، سردی، پرندوں کی نوچ کھسوٹ اور دشمنوں کے تیروں یا نیزوں کے زخم کھاتا ہوا دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اسی لیے سورة طٰہٰ (٧) میں ہے : ” میں تمہیں ہر صورت کھجور کے تنوں پر بری طرح سولی دوں گا۔ “ یہ پھانسی سے کہیں زیادہ خوف ناک سزا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - فرعون ( بڑا گھبرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری رعایا ہی مسلمان ہوجائے تو ایک مضمون گھڑ کر ساحروں سے) کہنے لگا کہ ہاں تم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہو بدون اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں بیشک ( معلوم ہوتا ہے کہ) یہ ( جو کچھ جنگ زرگری کے طور پر ہوا ہے) ایک کارروائی تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں ( خفیہ سازش ہوگئی ہے کہ تم یوں کرنا ہم یوں کریں گے پھر اس طرح ہار جیت ظاہر کریں گے اور یہ کارروائی ملی بھگت اس لئے کی ہے) تاکہ تم سب ( مکر) اس شہر سے وہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو ( پھر بفراغ خاطر سب مل کر یہاں ریاست کرو) سو ( بہتر ہے) اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے) اور وہ یہ ہے کہ) میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا پھر تم سب کو سولی پر ٹانگ دوں گا ( تاکہ اوروں کو عبرت ہو) انہوں نے جواب دیا کہ ( کچھ پرواہ نہیں) ہم مر کر ( کسی برے ٹھکانے تو نہ جائیں گے بلکہ) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے ( جہاں ہر طرح امن و راحت ہے، سو ہمارا نقصان ہی کیا ہے) اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے ( جس پر اس قدر شور وغل ہے) بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے ( سو یہ کوئی عیب کی بات نہیں پھر اس سے اعراض کرکے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ) اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما ( کہ اگر یہ سختی کرے تو مستقل رہیں) اور ہماری جان حالت اسلام پر نکالئے ( کہ اس کی سختی سے پریشان ہو کر کوئی بات ایمان کے خلاف نہ ہوجائے) اور ( جب موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ عظیمہ منظر عام پر ظاہر ہوا اور ساحرین ایمان لے آئے اور بعضے اور لوگ بھی آپ کے تابع ہوگئے اس وقت قوم فرعون کے سرداروں نے ( جو کہ اعیان سلطنت تھے یہ دیکھ کر کہ بعضے آدمی مسلمان ہو چلے فرعون سے) کہا کہ کیا آپ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اور ان کی قوم ( تابعین) کو یوں ہی ( مخلی بالطبع ومطلق العنان آزاد) رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں ( فساد یہ کہ اپنا مجمع بڑھائیں جس کے اخیر میں اندیشہ بغاوت ہے) اور وہ ( یعنی موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اور آپ کے ( تجویز کئے ہوئے) معبودوں کو ترک کئے رہیں ( یعنی ان کے معبود ہونے کے منکر رہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی قوم بھی ایسا ہی کرے یعنی آپ اس کا انتظام کیجئے) فرعون نے کہا کہ ( سردست یہ انتظام مناسب معلوم ہوتا ہے کہ) ہم بھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کردیں ( تاکہ ان کا زور نہ بڑھنے پائے) اور ( چونکہ عورتوں کے بڑھنے سے کوئی اندیشہ نہیں نیز ہم کو اپنے کار و خدمت کے لئے بھی ضرورت ہے اس لئے) عوتوں کو زندہ رہنے دیں اور ہم کو ہر طرح کا ان پر زور ہے ( اس انتظام میں کوئی دشواری نہ ہوگی) - معا رف و مسائل - ان سے پہلی آیات میں مذکور تھا کہ فرعون نے اپنی قوم کے سرداروں کے مشورہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کے لئے جن ساحروں کو پورے ملک سے جمع کیا تھا وہ میدان مقابلہ میں ہار گئے۔ اور صرف یہی نہیں کہ اپنی ہار مان لی بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ جادوگروں کے سردار مسلمان ہوگئے تو ان کو دیکھ کر قوم فرعون کے چھ لاکھ آدمی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے اور اعلان کردیا۔ اس مقابلہ اور مناظرہ سے پہلے تو صرف دو حضرات موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) فرعون کے مخالف تھے۔ اس وقت سب سے بڑے جادوگر جو قوم میں اقتدار کے مالک تھے اور ان کے ساتھ چھ لاکھ عوام مسلمان ہو کر ایک بہت بڑی طاقت مقابلہ پر آگئی۔ - اس وقت فرعون کی پریشانی اور سراسیمگی بیجا نہ تھی مگر اس نے اس کو چھپا کر ایک چالاک ہوشیار سیاست دان کے انداز میں پہلے تو جادوگروں پر یہ باغیانہ الزام لگایا کہ تم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ خفیہ سازش کرکے یہ کام اپنے ملک وملت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا ہے اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ ، یعنی یہ ایک سازش ہے جو تم نے میدان مقابلہ میں آنے سے پہلے شہر کے اندر آپس میں کر رکھی تھی۔ اور پھر جادوگروں کو خطاب کر کے کہا اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ یعنی کیا تم نے میری اجازت سے پہلے ہی ایمان قبول کرلیا۔ یہ استفہام انکاری بطور زجر و تنبیہ کے تھا۔ اور اپنی اجازت سے پہلے ایمان لانے کا ذکر کرکے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خود بھی یہی چاہتے تھے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا حق پر ہونا واضح ہوجائے تو ہم بھی ان کو مانیں اور لوگوں کو بھی اجازت دیں کہ وہ مسلمان ہوجائیں لیکن تم لوگوں نے جلد بازی کی اور حقیقت کو سوچے سمجھے بغیر ایک سازش کے شکار ہوئے۔ اس چالاکی سے ایک طرف تو لوگوں کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ اور جادوگروں کی تسلیم کو ایک سازش قراردے کر ان کو قدیم گمراہی میں مبتلا رکھنے کا انتظام کیا، اور دوسری طرف سیاسی چالاکی یہ کی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا عمل اور جادوگروں کا اسلام جو خالص فرعون کی گمراہی کو کھولنے کے لئے تھا، قوم اور عوام سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا اس کو ایک ملکی اور سیاسی مسئلہ بنانے کے لئے کہا، لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا یعنی تم لوگوں نے یہ سازش اس لئے کی ہے کہ تم چاہتے ہو کہ ملک مصر پر تم غالب آجاؤ اور اس کے باشندوں کو یہاں سے نکال دو ، ان چالاکیوں کے بعد ان سب پر اپنی ہیبت اور حکومت کا رعب وخوف جمانے کے لئے جادوگروں کو دھمکیاں دینی شروع کیں، اول تو مبہم انداز میں کہا، فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ یعنی تم ابھی دیکھ لوگے کہ تمہاری اس سازش کا کیا انجام ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو واضح کر کے بتلایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝ ٠ ۚ اِنَّ ہٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْہُ فِي الْمَدِيْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْہَآ اَہْلَہَا۝ ٠ ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝ ١٢٣- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٣۔ ١٢٤) فرعون کہنے لگا میرے حکم سے پہلے تم نے ایسا کیا یہ تمہاری اور موسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی تدبیر ہے، میں تمہارا دایاں ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ دوں گا اور نہرکنارے تمہیں پھانسی دوں گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٣ (قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ج) - (اِنَّ ہٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْْمَدِیْنَۃِ ) یہ تمہاری ایک (سوچی سمجھی) سازش ہے جو تم سب نے مل کر چلی ہے شہر کے اندر - اب فرعون کی جان پر بن گئی کہ لوگوں پر جادوگروں کی اس شکست کا کیا اثر پڑے گا ‘ عوام کو کیسے مطمئن کیا جاسکے گا ؟ لیکن وہ بڑا ذہین اور شخص تھا ‘ فوراً پینترا بدلا اور بولا مجھے سب پتا چل گیا ہے ‘ یہ موسیٰ بھی تمہارا ہی ساتھی ہے ‘ تمہارا گروگھنٹال ہے۔ یہ سب تمہاری آپس کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے اور تم سب نے مل کر ہمارے خلاف ایک سازش کا جال بنا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani