Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

124۔ 1 یعنی دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ پھر یہی نہیں سولی پر چڑھا کر تمہیں نشان عبرت بھی بنا دونگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢١] فرعون کی دوسری چالاکی جادوگروں پر عتاب :۔ فرعون نے اپنے بچاؤ کے لیے پہلی تدبیر تو یہ کی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو عوام میں محض ایک جادوگر کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے اور اسی لیے اس نے باہمی مشورے سے یہ شاہی دنگل رچایا تھا پھر جب اس مقابلے میں مات کھا گیا تو اپنی خفت اور ندامت کو مٹانے کے لیے دوسری تدبیر یہ اختیار کی کہ ان ایمان لانے والے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ تم پہلے ہی اس سازش میں شریک تھے موسیٰ ( علیہ السلام) تمہارا استاد ہے اور تم سب اس کے چیلے چانٹے ہو اور تم سب مل کر یہ چاہتے ہو کہ یہاں کے اصل باشندوں کو نکال کر اس ملک پر قبضہ کرلو اس معرکے میں جس انداز سے تم نے فوراً اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اس سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے لہذا میں تمہیں اس جرم کی قرار واقعی سزا دوں گا اور اس اعلان سے اس کے دو مقصد وابستہ تھے ایک یہ کہ عوام الناس کہیں فی الواقع اللہ کا رسول نہ سمجھنے لگیں، وہ اسے محض ایک جادوگر ہی سمجھیں اور دوسرے یہ کہ اگر کوئی ان پر ایمان لایا تو اس کا بھی وہی حشر ہوگا جس کا ان جادوگروں کے متعلق اعلان کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ ، یعنی میں تم سب کے ہاتھ پیر مختلف جانبوں کے کاٹ کر تم سب کو سولی پر چڑھادوں گا۔ مختلف جانبوں سے کاٹنے کا مطلب یہ ہے کہ دایاں ہاتھ اور بایاں پیر جس سے دونوں جانبیں زخمی اور بدہیئت اور بیکار ہوجائیں۔ فرعون نے اس بدحالی پر قابو پانے اور اپنے درباریوں اور عوم کو قابو میں رکھنے کی کافی تدبیر کرلی تھی اور اس کی ظالمانہ سزائیں پہلے سے مشہور اور لوگوں کو لرزہ براندام کردینے کے لئے کافی تھیں۔ لیکن اسلام و ایمان ایک ایسی زبردست قوت ہے کہ جب وہ کسی دل میں گھر کرلیتی ہے تو پھر انسان ساری دنیا اور اس کے وسائل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیا رہوں جاتا ہے۔ یہ جادوگر جو اب سے چند گھنٹے پہلے فرعون کو اپنا خدا مانتے اور اسی گمراہی کی لوگوں کو تلقین کرتے تھے، چند منٹ میں کلمہ اسلام پڑھتے ہی ان میں کیا چیز پیدا ہوگئی تھی کہ وہ فرعون ساری دھمکیوں کے جواب میں کہتے ہیں :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ١٢٤- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- صلب - والصَّلَبُ والاصْطِلَابُ : استخراج الودک من العظم، والصَّلْبُ الذي هو تعلیق الإنسان للقتل، قيل : هو شدّ صُلْبِهِ علی خشب، وقیل : إنما هو من صَلْبِ الوَدَكِ. قال تعالی: وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] ، وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] والصَّلِيبُ : أصله الخشب الذي يُصْلَبُ عليه، والصَّلِيبُ : الذي يتقرّب به النّصاری، هو لکونه علی هيئة الخشب الّذي زعموا أنه صُلِبَ عليه عيسى عليه السلام، - ( ص ل ب ) الصلب - الصلب والاصطلاب کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا کے ہیں اور صلب جس کے معنی قتل کرنے کے لئے لٹکا دینا کے ہیں ۔ بقول بعض اسے صلب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اس شخص کی پیٹھ لکڑی کے ساتھ باندھ دی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صلب الودک سے ہے جس کے معنی ہڈیوں سے چکنائی نکالنا گے ہیں قرآن میں ہے : وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ [ النساء 157] اور انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ سول پر چڑ ھایا ۔ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ [ الشعراء 49] اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوادوں گا ۔- ۔ الصلیب - اصل میں سوئی کی لکڑی کو کہتے ہیں نیز صلیب اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جو عیسائی بطور عبادت کے گلے میں اس خیال پر باندھ لیتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر سولی لٹکایا گیا تھا ۔ اور جس کپڑے پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہوں اسے مصلب کہاجاتا ہے ۔ صالب سخت بخار جو پیٹھ کو چور کردے یا پسینہ کے ذریعہ انسان کی چربی نکال لائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani