Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

125۔ 1 اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا تو تجھے بھی اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے اس جرم کی سخت سزا دے گا اس لئے کہ ہم سب کو مر کر اس کے پاس جانا ہے اس کی سزا سے کون بچ سکتا ہے ؟ گویا فرعون کے عذاب دنیا کے مقابلے میں اسے عذاب آخرت سے ڈرایا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ موت تو ہمیں آنی ہی آنی ہے اس سے کیا فرق پڑے گا کہ موت سولی پر بھی آئے یا کسی اور طریقے سے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ : یعنی موت سے کسی حال میں چھٹکارا نہیں، وہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور آنی ہے، اگر ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ ہمارا خاتمہ سولی پر ہو تو ہمیں بڑی خوشی سے سولی دو ، ہمیں کوئی پروا نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ، یعنی اگر تو ہمیں قتل کردے گا تو مضائقہ نہیں، ہم اپنے رب کے پاس چلے جائیں گے، جہاں ہم کو ہر طرح کی راحت ملے گی۔ جادوگر چونکہ فرعون کی سطوت وجبروت سے ناواقف نہ تھے اس لئے یہ نہیں کہا کہ ہم تیرے قابو میں نہیں آئیں گے یا ہم مقابلہ کریں گے بلکہ اس کی دھمکی کو صحیح مان کر یہ جواب دیا کہ یہ مانا کہ تو ہمیں ہر قسم کی سزا دینے پر دنیا میں قادر ہے مگر ہم دنیا کی زندگی ہی کو ایمان لانے کے بعد کوئی چیز نہیں سمجھتے، دنیا سے گزر جائیں گے تو اس زندگی سے بہتر زندگی ملے گی اور اپنے رب کی ملاقات نصیب ہوگی۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اس زندگی میں جو تیرا دل چاہے کرلے، آخر کار ہم اور تم سب رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے اور وہ ظالم سے مظلوم کا انتقام لیں گے اس وقت اپنے اس عمل کا نتیجہ تیرے سامنے آجائے گا۔ چناچہ ایک دوسری آیت میں اس موقع پر ان جادوگروں کے یہ الفاظ منقول ہیں، فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ۭ اِنَّمَا تَقْضِيْ هٰذِهِ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا، یعنی جو تیرا جی چاہے ہمارے بارے میں حکم دے دے، بس اتنا ہی تو ہے کہ تیرا حکم ہماری اس دنیوی زندگی پر چل سکتا ہے اور تیرے غصہ کے نتیجے میں وہ زندگی ختم ہو سکتی ہے مگر ایمان لانے کے بعد ہماری نظر میں اس دنیوی زندگی کی وہ اہمیت ہی باقی نہیں رہی جو ایمان لانے سے پہلے تھی کیونکہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ زندگی راحت یا کلفت کے ساتھ گزر ہی جائے گی، فکر اس زندگی کی کرنا چاہئے جس کے بعد موت نہیں اور جس کی راحت بھی دائمی ہے اور کلفت بھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ۝ ١٢٥ ۚ- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٥۔ ١٢٦) جادوگر کہنے لگے ہم تو اپنے پروردگار کے پاس جائیں گے تو نے ہم میں کون ساعیب دیکھا، جس کی وجہ سے سزا دینا چاہتا ہے، صرف یہی کہ جب ہمارے سامنے آیات الہی آئیں ہم ان پر ایمان لے آئیں۔- ہمارے پروردگار سولی اور ہاتھ پیر کاٹے جانے کے وقت ہم پر صبر کا فیضان فرماتا کہ ہم کفر نہ اختیار کریں، اور اخلاص کے ساتھ مومن ہی مریں۔ (یعنی موت کی سختی کہیں کفر پر مجبور نہ کردے )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥ (قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ) - جادو گروں پر انکشافِ حق سے حاصل ہونے والی یقین کی پختگی اور گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی اتنی بڑی دھمکی ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لرزش پیدا نہ کرسکی۔ ان کے اس جواب کے ایک ایک لفظ سے ان کے دل کا اطمینان جھلکتا اور چھلکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani