Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

126۔ 1 یعنی تیرے نزدیک ہمارا یہ عیب ہے۔ جس پر تو ہم سے ناراض ہوگیا ہے اور ہمیں سزا دینے پر تل گیا ہے۔ درآنحالیکہ یہ سرے سے عیب ہی نہیں یہ تو خوبی ہے بہت بڑی خوبی کہ جب حقیقت ہمارے سامنے واضح ہو کر آگئی تو ہم نے اس کے مقابلے میں تمام دنیاوی مفادات ٹھکرا دیئے اور حقیقت کو اپنا لیا۔ پھر انہوں نے اپنا روئے سخن فرعون سے پھیر کر اللہ کی طرف کرلیا اور اس کی بارگاہ میں دست دعا ہوگئے۔ 126۔ 2 تاکہ ہم تیرے اس دشمن کے عذاب کو برداشت کرلیں، اور حق اور ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ 126۔ 3 اس دنیاوی آزمائش سے ہمارے اندر ایمان سے انحراف آئے نہ کسی اور فتنے میں ہم مبتلا ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٢] جادوگروں کی ایمانی جرأ ت :۔ فرعون کی یہ تیسری تدبیر بھی بری طرح ناکام ہوگئی وہ چاہتا یہ تھا کہ جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر اس سازش کے الزام کا اعتراف کروا لے لیکن جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے یہ ثابت کردیا کہ ان کا یہ ایمان لانا کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ اعتراف حق کا نتیجہ ہے یاد رہے کہ یہ وہی جادوگر ہیں جو مقابلے سے پہلے فرعون سے یہ پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ (علیہ السلام) کے حملے سے بچا لیا تو ہمیں کچھ انعام و اکرام بھی ملے گا ؟ اور اب ایمان لانے کے بعد ان کی کیفیت یہ ہوگئی کہ وہ فرعون کی ہر سزا کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں دوسری طرف وہی فرعون جو انہیں انعام و اکرام کے علاوہ کرسیاں (اعلیٰ مناصب) بھی دینے کا وعدہ کر رہا تھا اس مقابلے کے فوراً بعد ان کا جانی دشمن بن گیا۔- [١٢٣] یعنی جس پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لانے سے ہم تیری نگاہ میں مجرم ٹھہرے ہیں ہم اسی سے التجا کرتے ہیں کہ وہ تیری سختی اور ظلم و ستم پر ہمیں صبر کی توفیق بخشے اور راہ مستقیم پر قائم رکھے ایسا نہ ہو کہ ہم گھبرا کر کوئی بات اس کی تسلیم و رضا کے خلاف کر گزریں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا۔۔ : ” نَقَِمَ مِنْہُ (ض، ع) “ اور ” اِنْتَقَمَ “ عَاقَبَہُ یعنی ” نَقَمَ مِنْہُ “ اور ” اِنْتَقَمَ مِنْہُ “ کا معنی بدلہ لینا، سزا دینا ہے اور ” نَقَّمَ الْأَمْرَ “ کا معنی ” کَرِھَہُ “ یعنی کسی شے سے بہت زیادہ نفرت اور کراہت ہے۔ (قاموس) مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی گناہ ہے تو صرف یہ کہ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی فن کو جتنا اس فن والا جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، چناچہ ان جادوگروں نے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو دیکھا تو فوراً سمجھ گئے کہ یہ ہرگز جادو نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے، اس لیے وہ اس پر فوراً ایمان لے آئے اور ان کے ایمان میں اس قدر پختگی تھی کہ انھوں نے جان تک کی پروا نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ سے صبر و استقامت اور ایمان و اسلام پر موت کی دعا کی۔ - مشہور قول کے مطابق وہ قتل کردیے گئے، چناچہ طبری اور دوسرے مفسرین نے ابن عباس (رض) کا قول ذکر کیا ہے کہ شروع دن میں وہ جادوگر تھے اور پھر دن کے آخری حصے میں شہداء میں داخل ہوگئے۔ دکتور حکمت بن بشیر نے تفسیر ابن کثیر کی تخریج میں ابن عباس (رض) کے اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) کا یہ قول ابن ابی حاتم نے ضعیف سند کے ساتھ سدی عن ابن عباس کے طریق سے روایت کیا ہے جب کہ سدی نے ابن عباس (رض) سے نہیں سنا (لہٰذا روایت منقطع ہے صحیح نہیں) ۔ قرآن مجید نے اس مقام پر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ ان کا انجام کیا ہوا، نہ ہی سورة شعراء اور سورة طٰہٰ میں یا کسی اور جگہ یہ ذکر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا مقصد عبرت کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ کی مدد، فرعون کی شکست، جادوگروں کے ایمان لانے، فرعون کی دھمکیوں کے باوجود اس پر قائم رہنے کے عزم اور صبر اور ایمان پر خاتمے کی دعا کا بیان ہے، محض قصہ بیان کرنا نہیں، جیسا کہ سورة نازعات میں فرمایا : (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى) [ النازعات : ٢٦ ] ” بیشک اس میں اس شخص کے لیے یقیناً بڑی عبرت ہے جو ڈرتا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ فرعون اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا، جیسا کہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا تھا : ” مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔ “ [ المؤمن : ٢٦ ] اور آل فرعون میں سے وہ مومن جس نے بھرے دربار میں موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی مخالفت کی اس کے خلاف بھی فرعون نے بدترین سازش کی، مگر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہ کرسکا اور اس مومن کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی سازشوں سے بچا لیا۔ دیکھیے سورة مومن (٤٥) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تسلی دے کر بھیجا تھا : (سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ڔبِاٰيٰتِنَآ ڔ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ ) [ القصص : ٣٥ ]” ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمہاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔ “ زیر تفسیر مقام پر بھی اگر وہ اپنی اس دھمکی پر عمل کرچکا ہوتا تو اس کی قوم کے سرداروں کو اسے نئے سرے سے بھڑکانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) چونکہ قرآن مجید میں ان کے انجام کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

غور کرنے کا مقام ہے کہ وہ لوگ جو کل تک بدترین کفر میں مبتلا تھے کہ فرعون جیسے بیہودہ انسان کو خدا مانتے تھے، اللہ تعالیٰ کی شان و عظمت سے بالکل ناآشنا تھے، ان میں یکبارگی ایسا انقلاب کیسے آگیا کہ اب پچھلے سب عقائد و اعمال سے یکسر تائب ہو کر دین حق پر اتنے پختہ ہوگئے کہ اس کے لئے جان تک دینے کو تیار نظر آتے ہیں، اور دنیا سے رخصت ہونے کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس چلے جائیں۔ اور صرف یہی نہیں کہ ایمان کی قوت اور جہاد فی سبیل اللہ کی ہمت ان میں پیدا ہوگئی بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم و معرفت کے دروازے ان پر کھل گئے تھے یہی وجہ ہے کہ فرعون کے مقابلہ میں اس جرأت مندانہ بیان کے ساتھ یہ دعا بھی کرنے لگے۔ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ ۔ یعنی اے ہمارے پروردگار ہمیں کامل صبر عطا فرما اور مسلمان ہونے کی حالت میں ہمیں وفات دے۔ اس میں اشارہ اس معرفت کی طرف ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو انسان کا عزم وہمت کچھ کام نہیں آتا، اس لئے اسی سے ثابت قدمی کی دعا کی گئی۔ اور یہ دعا جیسے معرفت حق کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اسی طرح اس مشکل کے حل کا بہترین ذریعہ بھی ہے جس میں یہ لوگ اس وقت مبتلا تھے، کیونکہ صبر اور ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے حریف کے مقابلہ میں کامیاب کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ - یورپ کی پچھلی جنگ عظیم کے اسباب و نتائج پر غور کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ مسلمان جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں، یہی وہ قوم ہے جو میدان جنگ میں سب سے زیادہ بہادر اور مصیبت ومشقت پر صبر کرنے میں سب سے آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جرمنی اقوام میں فنون حرب کے ماہرین اس کی تا کید کرتے تھے کہ فوج میں دینداری اور خوف آخرت پیدا کرنے کی سعی کی جائے کیونکہ اس سے جو قوت حاصل ہوتی ہے وہ کسی دوسری چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ ( تفسیر المنار)- ساحروں میں ایمانی انقلاب موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ عصا وید بیضاء سے بھی بڑا تھا :- افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم حکومتیں اپنے آپ کو قوی بنانے کے لئے ساری ہی تدبیریں اختیار کررہے ہیں مگر اس گُر کو بھول بیٹھے ہیں جو قوت اور وحدت کی روح ہے۔ فرعونی جادوگروں نے بھی اول مرحلہ میں اس کو سمجھ لیا تھا، اور عمر بھر کے خدا ناشناس منکر کافروں کو دم بھر میں نہ فقط مسلمان بلکہ ایک عارف کامل اور مجاہد وغازی بنا دینے کا یہ معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ عصا اور ید بیضاء سے کچھ کم نہ تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا۝ ٠ ۭ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِـمِيْنَ۝ ١٢٦ ۧ- نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- فرغ - الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف - ( ف ر غ ) الفراغ - یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٦ (وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلآَّ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَ تْنَا ط) (رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ) - یعنی ایمان کے راستے میں جو آزمائش آنے والی ہے اس کی سختیوں کو جھیلتے ہوئے کہیں دامن صبر ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ نہ جائے اور ہم کفر میں دوبارہ لوٹ نہ جائیں۔ اے اللہ ہمیں صبر اور استقامت عطا فرما ‘ اور اگر ہمیں موت آئے تو تیری اطاعت اور فرمانبرداری کی حالت میں آئے۔ - اس واقعے کے بعد بھی فرعون عملی طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہ کرسکا۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اب بھی شہر میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا نے اور بنی اسرائیل کو منظم کرنے میں مصروف رہے۔ قوم کے نوجوانوں نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت پر لبیک کہا اور وہ آپ ( علیہ السلام) کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ آپ ( علیہ السلام) کی اس طرح کی سرگرمیوں سے حکومتی عہدیداروں کے اندربجا طور پر تشویش پیدا ہوئی اور بالآخر انہوں نے فرعون سے اس بارے میں شکایت کی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :92 فرعون نے پانسہ پلٹتے دیکھ کر آخری چال یہ چلی تھی کہ اس سارے معاملہ کو موسیٰ اور جادوگروں کی سازش قرار دیدے اور پھر جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر ان سے اپنے اس الزام کا اقبال کرالے ۔ لیکن یہ چال بھی اُلٹی پڑی ۔ جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے ثابت کر دیا کہ ان کا موسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر ایمان لانا کسی سازش کا نہیں بلکہ سچے اعتراف حق کا نتیجہ تھا ۔ اب اس کے لیے کوئی چارہ کار اس کے سوا باقی نہ رہا کہ حق اور انصاف کا ڈھونگ جو وہ رچانا چاہتا تھا اسے چھوڑ کر صاف صاف ظلم و ستم شروع کردے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ چند لمحوں کے اندر ایمان نے ان جادوگروں کی سیرت میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر دیا ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے انہی جادوگروں کی ونائت کا یہ حال تھا کہ اپنے دین آبائی کی نصرت و حمایت کے لیے گھروں سے چل کر آئے تھے اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ کے حملہ سے بچالیا تو سرکار سے ہمیں انعام تو ملے گا نا ؟ یا اب جو نعمت ایمان نصیب ہوئی تو انہی کی حق پرستی اور اولواالعزمی اس حد کو پہنچ گئی کہ تھوڑی دیر پہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جارہے تھے اب اس کی کبریائی اور اس کے جبروت کو ٹھوکر مار رہے ہیں اور ان بدترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں جن کی دھمکی وہ دے رہا ہے مگر اس حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی صداقت ان پر کھل چکی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani