Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آخری حربہ بغاوت کا الزام فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے ، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں ۔ آیت ( ویذرک ) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت ( وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک ) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں ۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے ، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا ، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو ۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا ۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے ۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے ۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کر دیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے ، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا ، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے ، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے ۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ یقین مانو کہ تمھارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا ۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

127۔ 1 یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوا رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان و توحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں فرعون نے بھی یہی کہا۔ 127۔ 2 فرعون کو بھی اگرچہ دعویٰ ربوبیت تھا (اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى) 79 ۔ الزاریات :24) میں تمہارا بڑا رب ہوں وہ کہا کرتا تھا لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ 127۔ 3 ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے قتل انبیاء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے پر بنایا گیا اس سے قبل بھی جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت نہیں ہوئی تھی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد از ولادت خاتمے کے لئے اس نے بنی اسرائیل کے نوملود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اس کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔ (فَلِلّٰهِ الْمَكْرُ جَمِيْعًا) 13 ۔ الرعد :42) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] لوگوں کا ایمان لانا اور فرعونیوں کو بغاوت کا خطرہ :۔ فرعون کی اس تدبیر کا بھی الٹا ہی اثر پڑا اور بہت سے اسرائیلی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے حتیٰ کہ چند قبطی (فرعونی) بھی آپ پر ایمان لے آئے تو فرعونیوں کے لیے ایک تشویشناک صورت حال پیدا ہوگئی۔ وہ فرعون سے کہنے لگے اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہیں یہ سب مل کر ملک میں بغاوت نہ کھڑی کردیں۔ اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ نہ دیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے اور بھی کئی دیوتا تھے جن کی پرستش کی جاتی تھی۔ ایک تو فرعون نے ہر جگہ عبادت کے لیے اپنے مجسمے تیار کرا کے نصب کرا رکھے تھے۔ دوسرے قرآن سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم گؤ سالہ پرستی میں مبتلا تھی یعنی بیل کی پوجا کرنا ان کا مذہبی شعار بن چکا تھا اور وہ سورج کے علاوہ اور بھی کئی ستاروں کی روحوں کے فرضی مجسموں کو پوجتی تھی۔- [١٢٥] بنی اسرائیل کو نبیوں کے قتل کی دوسری بار سزا :۔ بنی اسرائیل پر بیٹوں کے قتل کا عذاب دو بار مسلط کیا گیا۔ پہلی دفعہ تو فرعون رعمسیس نے ایسا آرڈر نافذ کیا تھا جب اسے نجومیوں نے بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری سلطنت کا تختہ الٹ دے گا چناچہ فرعون نے بنی اسرائیل کے ہاں سب پیدا ہونے والے بیٹوں کے قتل کی مہم کا آغاز کیا مگر جو کچھ اللہ کو منظور تھا وہ ہو کے رہا۔ جس بچے کو اس سلطنت کا تختہ الٹنا تھا اللہ تعالیٰ نے ایسا بندوبست کردیا کہ اس کی تربیت اور پرورش اسی فرعون کے گھر میں ہوتی رہی اور دوسری بار اسی فرعون کے بیٹے منفتاح نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر اسی بیٹوں کے قتل والی مہم کو شروع کردیا جس کا مقصد یہ تھا کہ کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی کو ختم کردیا جائے وہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو لونڈیاں بناکر ان سے طرح طرح کی بیگار لیا کرتے تھے اس طرح بزعم خود ان لوگوں نے اپنی سلطنت کو اور اپنے آپ کو آنے والے خطرے سے بچانے کی تدابیر مکمل کرلیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے غلبے اور جادوگروں کے ایمان لانے پر اگرچہ چند ہی نوجوانوں نے ایمان لانے کی جرأت کی اور وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتے ہوئے۔ (دیکھیے یونس : ٨٣) تاہم فرعون کی بنی اسرائیل کے خلاف کاروائیاں کچھ کم ہوگئیں تو اس کے سرداروں نے اسے یہ کہہ کر بھڑکایا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا کہ وہ زمین میں فساد کریں، یعنی وہ تمہاری رعیت کو دعوت دیتے پھریں کہ وہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے بجائے اللہ واحد کی عبادت کریں اور ملک میں دعوت توحید سے فساد پھیلاتے پھریں۔ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” تعجب ہے کہ یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے فساد پھیلانے سے ڈر رہے ہیں، حالانکہ فساد پھیلانے والے تو وہ خود ہیں۔ “ فرمایا : (اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٢ ] ” سن لو یقیناً وہی تو فساد ڈالنے والے ہیں اور لیکن وہ نہیں سمجھتے۔ “- وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ۭ: ” آلِہَۃٌ“ یہ ” اِلٰہٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی معبود ہے، یعنی وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑے رکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے بھی کچھ معبود تھے جن کی وہ عبادت کرتا تھا۔ بعض صحابہ کی قراءت میں ” اِلَاھَتَکَ “ ہے، ” اِلَاھَۃٌ“ کا معنی عبادت ہے، یعنی وہ تجھے اور تیری عبادت کو چھوڑے رکھیں، یہ بھی اگرچہ درست ہے مگر مشہور قراءت پہلی ہی ہے۔ اس لیے اہل علم نے اس کی کئی توجیہات کی ہیں اور وہ سبھی ممکن ہیں۔ ایک توجیہ اس کی یہ ہے کہ وہ واقعی رب اعلیٰ ہونے کے اعلان کے باوجود خود کئی معبودوں کی پرستش کرتا تھا اور ان معبودوں کے تقدس کا عقیدہ اس کی قوم میں بھی موجود تھا، مثلاً گائے کی پرستش تو عام تھی، جس کے نتیجے میں ان سے میل جول اور ان کی محکومیت کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بھی یہ عقیدہ در آیا تھا۔ جس کی دلیل آزاد ہونے کے بعد بھی گائے ذبح کرنے کے حکم پر ان کے بہانے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کے بعد سامری کا بچھڑا بنا کر قوم کو اس کی عبادت پر لگانا ہے۔ مصری تہذیب ہندوؤں سے ملتی جلتی تھی۔ مشرکانہ مذاہب میں عجیب پیچیدگی پائی جاتی ہے، عموماً ان کے ہاں اصل خدا کسی انسان میں اتر آتا ہے جو مسلمان صوفیا کے ہاں حلول کے نام سے معروف ہے۔ فرعون اپنے آپ کو ان تمام معبودوں کا نمائندہ قرار دے کر اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلاتا تھا اور اپنے سرداروں سے کہتا تھا : (مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ۚ ) [ القصص : ٣٨ ] ” مجھے اپنے سوا تمہارا کوئی معبود معلوم نہیں۔ “ یہ وہی بات ہے جو بعض مسلمانی کا دعویٰ کرنے والوں نے کہی ہے ؂- وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفیٰ ہو کر - مگر یہ لوگ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصلی خدا مان کر بھی بہت سے زندہ خداؤں، مثلاً مرشدوں اور مردہ خداؤں کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں اور ان میں بھی اللہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اس قسم کے تمام گندے عقیدوں سے بری ہیں۔ - دوسری توجیہ یہ ہے کہ درحقیقت فرعون دہری تھا۔ کائنات کا کوئی بنانے والا مانتا ہی نہ تھا، اس کے نزدیک بادشاہ ہی معبود کا مقام رکھتا تھا کہ جو اس کے منہ سے نکلے وہی دین اور قانون ہے۔ اپنے سرداروں کے لیے یہ مقام وہ خود رکھتا تھا اور اس کے سردار اپنے اپنے علاقے کی رعایا کے لیے یہ مقام رکھتے تھے، چناچہ اس نے اپنے بت بنوا کر لوگوں کے گھروں میں رکھے ہوئے تھے، جیسا کہ آج کل کے اکثر حکمران اپنی تصاویر اور مجسموں کے ذریعے سے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی خدائی بٹھاتے ہیں، کمیونسٹ حکمران سٹالن، لینن اور ماؤزے تنگ بھی خدا کے منکر ہونے کے باوجود لوگوں کے دماغوں میں اپنی خدائی کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جمہوری حکمران بھی اس کوشش میں حتی الوسع کمی نہیں کرتے، اگرچہ وہ نام عوام کا استعمال کرتے ہیں۔ - تیسری توجیہ یہ ہے کہ حاکمیت میں وہ اپنے سوا کسی کو معبود نہیں مانتا تھا، البتہ غیبی مدد کرنے والے کچھ معبود اس نے بھی رکھے ہوئے تھے، جس طرح آج کل بعض حکمران قانون اپنا چلاتے ہیں مگر غیبی مدد حاصل کرنے کے لیے کئی ہستیوں کی نیاز دیتے رہتے ہیں۔ چناچہ وہ کعبہ کی طرح پختہ قبروں کو عرق گلاب سے غسل دیتے اور بزرگوں کو کرنی والا سمجھتے ہیں اور کچھ کچھ اللہ کو بھی مان لیتے ہیں، مگر کیا مجال کہ اس کا کوئی قانون عمل میں لائیں یا لانے دیں۔- قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ ۔۔ : یعنی ہم جو ظلم و ستم موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے بنی اسرائیل پر کرتے تھے اس کا سلسلہ پھر سے شروع کریں گے، اس طرح یہ تباہ ہوجائیں گے اور ان کا تخم تک باقی نہیں رہے گا۔ ان کے مرد مارے جائیں گے اور صرف عورتیں بچیں گی، وہ کیا کرسکیں گی، ان کو ہم لونڈیاں بنا کر اپنے گھروں میں رکھیں گے۔ ابھی تک اس کی جرأت نہ کرنے کے لیے اس نے یہ حیلہ تراشا کہ ایسی کیا جلدی ہے، ہم ان پر پوری طرح قابو رکھتے ہیں، جب چاہیں گے ایسا کرلیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فرعون پر حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی ہیبت کا اثر :- فرعون کی چالاکی اور سیاسی جھوٹ نے اس کی جاہل قوم کو اس کے ساتھ قدیم گمراہی میں مبتلا رہنے کا کچھ سامان تو کردیا، مگر یہ اعجوبہ ان کے لئے بھی ناقابل فہم تھا کہ فرعون کے غصہ کا سارا زور جادوگروں پر ختم ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) جو اصل مخالف تھے ان کے بارے میں فرعون کی زبان سے کچھ نہ نکلا، اس پر ان کو کہنا پڑا۔ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ، یعنی کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دیں گے کہ وہ آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ کر ہمارے ملک میں فساد کرتے پھریں۔ اس پر مجور ہو کر فرعون نے کہا، سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ، یعنی ان کا معاملہ ہمارے لئے کچھ قابل فکر نہیں، ہم ان کے لئے یہ کام کریں گے کہ ان میں جو لڑکا پیدا ہوگا اس کو قتل کردیں گے صرف لڑکیوں کو رہنے دیں گے، جس کا نتیجہ کچھ عرصہ میں یہ ہوجائے گا کہ ان کی قوم مردوں سے خالی ہو کر صرف عورتیں رہ جائیں گی جو ہماری خدمت گار باندیاں بنیں گی۔ اور ہم تو ان سب پر پوری قدرت رکھتے ہیں جو چاہیں کریں یہ ہمارا کچھ نہیں بنا سکتے۔- علماء مفسرین نے فرمایا کہ قوم کے اس طرح جھنجوڑنے پر بھی فرعون نے یہ تو کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کردیں گے، لیکن حضرت موسیٰ و ہارون علہما السلام کے بارے میں اس وقت بھی اس کی زبان پر کوئی بات نہ آئی۔ وجہ یہ ہے کہ اس معجزہ اور واقعہ نے فرعون کے قلب و دماغ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سخت ہیبت بٹھلادی تھی۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ فرعون کا یہ حال ہوگیا تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھتا تو پیشاب خطا ہوجاتا تھا، اور یہ بالکل صحیح ہے، ہیبت حق کا یہی حال ہوتا ہے،- ہیبت حق است ایں از خلق نیست - اور مولانا رومی نے فرمایا :- ہر کہ ترسید از حق وتقوی گزید ترسد از وے جن وانس وہر کہ دید - یعنی جو اللہ سے ڈرتا ہے ساری مخلوق اس سے ڈرنے لگتی ہے۔ - اس جگہ قوم فرعون نے جو یہ کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ کر فساد کرتے پھریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرعون اگرچہ اپنی قوم کے سامنے خود خدائی کا دعویدار تھا اور اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کہتا تھا، لیکن خود بتوں کی پوجا پاٹ بھی کیا کرتا تھا۔- اور بنی اسرائیل کو کمزور کرنے کے لئے یہ ظالمانہ قانون کہ جو لڑکا پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے یہ اب دوسری مرتبہ نافذ کیا گیا، اس کا پہلا نمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پید ائش سے پہلے ہوچکا تھا، جس کے ناکام ہونے کا مشاہدہ یہ اس وقت تک کررہا تھا، مگر جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو رسوا کرنا چاہتے ہیں اس کی تدبیریں ایسی ہی ہوجایا کرتی ہیں جو انجام کار ان کے لئے تباہی کا سامان کردیتی ہیں، چناچہ آگے معلوم ہوگا کہ فرعون کا یہ ظلم وجور آخر کار اس کو اور اس کی قوم کو لے ڈوبا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَہٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِہَتَكَ۝ ٠ ۭ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَنَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنَّا فَوْقَہُمْ قٰہِرُوْنَ۝ ١٢٧- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ- [ الرعد 16] ، فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] ، فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ- [ الضحی 9] أي : لا تذلل، وأَقْهَرَهُ : سلّط عليه من يقهره، والْقَهْقَرَى: المشي إلى خلف .- ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔ ۔ فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلا تَقْهَرْ [ الضحی 9] تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرو اسے ذلیل نہ کرو ۔ اقھرہ ۔ کسی پر ایسے شخص کو مسلط کرنا جو اسے ذلیل کردے ۔ القھقری پچھلے پاؤں لوٹنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٧) سردار کہنے لگے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو قتل نہیں کرتے کہ وہ آپ کے دین اور پرستش میں تغیر کررہے ہیں اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کی عبادت یا تمہاری پرستش کو چھوڑ رکھا ہے۔- فرعون کہنے لگا جیسا کہ میں پہلے نومولود بچوں کو قتل کرتا تھا، اسی طرح قتل کردوں گا اور بڑی لڑکیوں سے ہم خدمت لیں گے، ان پر ہمیں پورا اختیار حاصل ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧ (وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ) (وَیَذَرَکَ وَاٰلِہَتَکَ ط) - جس نئے نظریے کا پرچار وہ کر رہے ہیں اگر وہ لوگوں میں مقبول ہوتا گیا اور اس نظریے پر لوگ اکٹھے اور منظم ہوگئے تو ہمارے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی۔ اس طرح ملک میں فساد پھیلنے کا سخت اندیشہ ہے۔- یہاں پہ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قوم فرعون کے معبود بھی تھے۔ ان کا سب سے بڑا الٰہ تو سورج تھا۔ لہٰذا معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ خدا صرف فرعون کو مانتے تھے۔ فرعون کی خدائی سیاسی تھی ‘ اس کا دعویٰ تھا کہ حکومت میری ہے ‘ اقتدارو اختیار ( ) کا مالک میں ہوں۔ نمرود کی خدائی کا دعویٰ بھی اسی طرح کا تھا۔ باقی پوجا پاٹ کے لیے کچھ معبود فرعون اور اس کی قوم نے بھی بنا رکھے تھے جن کے چھوٹ جانے کا انہیں خدشہ تھا۔ - (قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَ ہُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآءَ ہُمْ ج) - یہ آزمائش ان پر ایک دفعہ پہلے بھی آچکی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے قبل جو فرعون برسر اقتدار تھا اس نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں اس کے نجومیوں نے اسے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جو بڑا ہو کر آپ کی حکومت ختم کر دے گا۔ چناچہ اس خدشے کے پیش نظر فرعون نے حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ تقریباً چالیس ‘ پینتالیس سال بعد اب پھر یہ مرحلہ آگیا کہ جب موجودہ فرعون کے سرداروں نے اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ جسے تم مشت غبار سمجھ رہے ہو وہ بڑھتے بڑھتے اگر طوفان بن گیا تو پھر کیا کرو گے ؟ اگر اس (حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) نے اپنی قوم کو تمہارے خلاف ایک تحریک کی شکل میں منظم کرلیا تو پھر ان کو دبانا مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ کے اصول کے تحت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کردیا جائے ‘ لیکن فرعون کے دل میں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے محبت ڈالی ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ وہی فرعون تھا جس کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بھائیوں کا سا رشتہ تھا ‘ جس کی وجہ سے اس کے دل میں آپ ( علیہ السلام) کے لیے طبعی محبت ابھی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آپ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ‘ بلکہ اس کے بجائے اس نے بنی اسرائیل کو دبانے کے لیے پھر سے اپنے باپ کا پرانا حکم نافذ کرانے کا عندیہ دے دیا کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرتے رہیں گے تاکہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی قوم سے اجتماعی افرادی قوت مہّیا نہ ہو سکے۔- (وَاِنَّا فَوْقَہُمْ قٰہِرُوْنَ ) ۔ - گویا اب درباریوں اور امراء کا حوصلہ بڑھانے کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ تم کیوں گھبراتے ہو ‘ ہم پوری طرح ان پر چھائے ہوئے ہیں ‘ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :93 واضح رہے کہ ایک دور ستم وہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے رعمسیس ثانی کے زمانہ میں جاری ہوا تھا ، اور دوسرا دور ستم یہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد شروع ہوا ۔ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرایا گیا اور ان کی بیٹیوں کو جیتا چھوڑ دیا گیا تا کہ بتدریج ان کی نسل کا خاتمہ ہو جائے اور یہ قوم دوسری قوموں میں گم ہو کر رہ جائے ۔ غالباً اسی دور کا ہے وہ کتبہ جو سن ١۸۹٦ء میں قدیم مصری آثار کی کھدائی کے دوران میں ملا تھا اور جس میں یہی فرعون منفتاح اپنے کارناموں اور فتوحات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ”اور اسرائیل کو مٹا دیا گا ، اس کا بیج تک باقی نہیں ۔ “ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو المومن ، آیت ۲۵ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

56: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے ایمان لانے والے جادوگروں کو دھمکیاں تو دی تھیں ؛ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے اور جادوگروں کے ایمان اور استقامت کو دیکھ کر حاضرین اور خاص طور پر بنی اسرائیل کی اتنی بڑی تعداد ایمان لے آئی کہ اس کو فوری طور سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہ ہوا، اور جب مجمع درہم برہم ہوگیا توحضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے اپنے گھروں کو چلے گئے، اس موقع پر فرعون کے سرداروں نے یہ بات کہی جو یہاں مذکور ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے، رفتہ رفتہ یہ اپنی طاقت جمع کرکے آپ کے لئے ایک خطرہ بن جائیں گے، فرعون نے اپنی خفت مٹانے کے لئے ان کا جواب دیا کہ فوری طور پر چاہے میں نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، مگر اب بنی اسرائیل کو ایک ایک کرکے ختم کروں گا، البتہ عورتوں کو اس لئے زندہ رکھوں گا کہ وہ ہماری خدمت کے کام آسکیں، اس نے اپنے آدمیوں کو یہ بھی یقین دلایا کہ حالات ہمارے قابو میں ہیں اور ہماری حکمت عملی ایسی ہے کہ ہمارے لئے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہیں ہوگا، اس طرح بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مومنوں کو تسلی دی کہ صبر سے کام لیتے رہو۔ آخری انجام ان شاء اللہ تمہارے ہی حق میں ہوگا۔