Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

128۔ 1 جب فرعون کی طرف سے دوبارہ اس ظلم کا آغاز ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ سے مدد حاصل کرنے اور صبر کرنے کی تلقین کی اور تسلی دی کہ اگر تم صحیح رہے تو زمین کا اقتدار بالآخر تمہیں ہی ملے گا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا باللّٰهِ ۔۔ : فرعون کی دھمکیوں پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دینا ضروری سمجھا، چناچہ انھیں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور صبر کرنے کی تلقین فرمائی، جس پر انھوں نے ظالموں سے پناہ کی وہ دعا لازم کرلی جو اللہ تعالیٰ نے سورة یونس میں ذکر فرمائی ہے : ( رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ، وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ) [ یونس : ٨٥، ٨٦ ] موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تسلی دیتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ آج اگر مصر پر فرعون حکمران ہے تو کل اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی سرزمین کا وارث، یعنی حکمران بنا سکتا ہے۔ - وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ : ” عَاقِبَۃٌ“ کا لفظی معنی تو انجام ہے جو اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی، جیسا کہ فرمایا : ( فَانْــظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ ) [ القصص : ٤٠ ] ” سو دیکھو ظالموں کا انجام کیسا تھا۔ “ مگر جب اس پر ” الف لام “ آجائے تو اس کا معنی اچھا انجام ہی ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اس مجلس کی گفتگو کی خبر جو بنی اسرائیل کو پہنچی تو بڑے گھبرائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے چارہ جوئی کی تو) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا سہارا رکھو اور مستقل رہو ( گھبراؤ مت) یہ زمین اللہ کی ہے جس کو چاہیں مالک ( اور حاکم) بنائیں اپنے بندوں میں سے ( سو چند روز کے لئے فرعون کو دے دی ہے) اور خیر کامیابی ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ( سو تم ایمان وتقوی پر قائم رہو، انشاء اللہ تعالیٰ یہ سلطنت تم ہی کو مل جائے گی، تھوڑے دنوں انتظار کی ضرورت ہے) قوم کے لوگ ( غایت حسرت وحزن سے جس کا طبعی ( قتضاء تکرار شکوہ ہے) کہنے لگے کہ ( حضرت) ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے آپ کی تشریف آوری کے قبل بھی ( کہ فرعون بیگار لیتا تھا اور مدتوں ہمارے لڑکوں کو قتل کرتا رہا) اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی ( کہ طرح کی تکلیفیں پہنچائی جارہی ہیں یہاں تک کہ اب پھر قتل اولاد کی تجویز ٹھہری ہے) موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا ( گھبراؤ مت) بہت جلد اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو ہلاک کردیں گے اور بجائے ان کے تم کو اس زمین کا حاکم بنادیں گے پھر تمہارا طرز عمل دیکھیں گے) کہ شکر وقدر وطاعت کرتے ہو یا بےقدری اور غفلت و معصیت، اس میں ترغیب ہے اطاعت کی اور تحذیر ہے معصیت سے) اور ( جب فرعون اور اس کے تابعین نے انکار و مخالفت پر کمر باندھی تو) ہم نے فرعون والوں کو ( مع فرعون کے حسب عادت مذکورہ رکوع اول پارہ ہذا، ان بلیات میں) مبتلا کیا (١) قحط سالی میں اور (٢) پھلوں کی کم پیداواری میں تاکہ وہ ( حق بات کو) سمجھ جائیں ( اور سمجھ کر قبول کرلیں) سو ( وہ پھر بھی نہ سمجھے بلکہ یہ کیفیت تھی کہ) جب ان پر خوشحالی ( یعنی ارزانی وپیداواری) آجاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی چاہئے (یعنی ہم مبارک طالع ہیں یہ ہماری خوش بختی کا اثر ہے، یہ نہ تھا کہ اس کو خدا کی نعمت سمجھ کر شکر بجا لاتے اور اطاعت اختیار کرتے) اور اگر ان کو کوئی بدحالی (جیسے قحط و کم پیداواری مذکور) پیش آتی تو موسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے ( کہ یہ ان کی نحوست سے ہوا، یہ نہ ہوا کہ اس کو اپنے اعمال بد کفرو تکذیب کی شامت اور سزا سمجھ کر تائب ہوجاتے حالانکہ یہ سب ان کی شامت اعمال تھی، جیسا کہ فرماتے ہیں کہ) یاد رکھو کہ ان کی ( اس) نحوست ( کا سبب) اللہ کے علم میں ہے ( یعنی ان کے اعمال کفریہ تو اللہ کو معلوم ہیں یہ نحوست انہی اعمال کی سزا ہے) لیکن (اپنی بےتمیزی سے) ان میں اکثر لوگ ( اس کو) نہیں جانتے تھے اور ( بلکہ اوپر سے) یوں کہتے ( کہ خواہ) کیسی ہی عجیب بات ہمارے سامنے لاؤ کہ اس کے ذریعہ سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی ہم تمہاری بات ہرگز نہ مانیں گے۔ - معارف و مسائل - فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں شکست کھانے کے بعد بنی اسرائیل پر اس طرح غصہ اتارا کہ ان کے لڑکوں کو قتل کرکے صرف عورتوں کو باقی رکھنے کا قانون بنادیا، تو بنی اسرائیل گھبرائے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے جو عذاب فرعون نے ان پر ڈالا تھا وہ پھر آگیا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اس کو محسوس فرمایا تو پیغمبرانہ شفقت اور حکمت کے مطابق اس بلاء سے نجات حاصل کرنے کے لئے اس کو دو چیزوں کی تلقین فرمائی، ایک دشمن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا، دوسرے کشودکار تک صبر ومہلت سے کام لینا۔ اور یہ بھی بتلا دیا کہ اس نسخہ کا استعمال کرو گے تو یہ ملک تمہارا ہے تمہیں غالب آؤ گے۔ یہی مضمون ہے پہلی آیت کا جس میں فرمایا ہے، اسْتَعِيْنُوْا باللّٰهِ وَاصْبِرُوْا یعنی اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو۔ اور پھر فرمایا اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ، یعنی ساری زمین اللہ کی ہے وہ جس کو چاہے اس کو اس زمین کا وارث ومالک بنائے گا۔ اور یہ بات متعین ہے کہ انجام کار کامیابی متقی پرہیزگاروں ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگر تم نے تقوی اختیار کیا جس کا طریقہ اوپر مذکور ہوا ہے کہ استعانت بااللہ اور صبر کا التزام کیا جائے تو انجام کار تم ہی ملک مصر کے مالک و قابض ہو گے۔ - مشکلات و مصائب سے نجات کا نسخہ اکسیر :- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو جو حکیمانہ نسخہ دشمن پر غالب آنے کے لئے تلقین فرمایا تھا، غور کیا جائے تو یہی وہ نسخہ اکسیر ہے جو کبھی خطا نہیں ہوتا، جس کے بعد کامیابی یقینی ہوتی ہے، اس نسخہ کا پہلا جزء استعانت باللہ ہے، جو اصل روح ہے اس نسخہ کی۔ وجہ یہ ہے کہ خالق کائنات جس کی مدد پر ہو تو ساری کائنات کا رخ اس کی مدد کی طرف پھرجاتا ہے، کیونکہ ساری کائنات اس کے تابع فرمان ہے۔- خاک وباد وآب وآتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند - حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے اسباب خودبخود مہیا ہوتے چلے جاتے ہیں اس لئے دشمن کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی قوت انسان کے لئے اتنی کار آمد نہیں ہو سکتی جتنی اللہ تعالیٰ سے امداد کی طلب، بشرطیکہ طلب صادق ہو، محض زبان سے کچھ کلمات بولنا نہ ہو۔ - دوسرا جزء اس نسخہ کا صبر ہے۔ صبر کے معنی اصل لغت کے اعتبار سے خلاف طبع چیزوں پر ثابت قدم رہنے اور نفس کو قابو میں رکھنے کے ہیں۔ کسی مصیبت پر صبر کرنے کو بھی اسی لئے صبر کہا جاتا ہے کہ اس میں رونے پیٹنے اور واویلا کرنے کے طبعی جذبہ کو دبایا جاتا ہے ہر تجربہ کار عقلمند جانتا ہے کہ دنیا میں ہر بڑے مقصد کے لئے بہت سی خلاف طبع محنت ومشقت برداشت کرنا لازمی ہے، جس شخص کو محنت ومشقت کی عادت اور خلاف طبع چیزوں کی برداشت حاصل ہوجائے وہ اکثر مقاصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ صبر ایسی نعمت ہے کہ اس سے زیادہ وسیع تر نعمت کسی کو نہیں ملی ( ابوداود)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِہِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْا۝ ٠ ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۝ ٠ ۣ ۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝ ٠ ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۝ ١٢٨- استِعَانَةُ :- طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45]- الا ستعانہ - مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٨) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ مصر کی زمین کا اللہ جس کو چاہیں وارث بنادیں۔ اور جنت تو کفر وشرک اور فواحش سے بچنے والوں کے لیے ہی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا باللّٰہِ وَاصْبِرُوْا ج) (اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِقف یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ )- یعنی اتنی بڑی آزمائش میں ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ سے مدد کی دعا کرتے رہو اور صبر کا دامن تھامے رکھو۔ انجام کار کی کامیابی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والوں کا مقدر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani