Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یہ اشارہ ہے ان مظالم کی طرف جو ولادت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ان پر ہوتے رہے۔ 129۔ 2 جادوگروں کے واقعہ کے بعد ظلم و ستم کا یہ نیا دور جو موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد شروع ہوا۔ 129۔ 3 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا، زمین میں تمہیں اقتدار عطا فرمائے گا پھر تمہاری آزمائش کا نیا دور شروع ہوگا۔ ابھی تو تکلیفوں کے ذریعے سے آزمائے جا رہے ہو، پھر انعام و اکرام کی بارش کرکے اور اختیار اور اقتدار سے بہرہ مند کرکے تمہیں آزمایا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] بنی اسرائیل پر مصائب صبر کی تلقین اور وعدہ فتح ونصرت :۔ جب بنی اسرائیل کو دوبارہ ایسی سخت آزمائش میں ڈال دیا گیا وہ سخت پریشان ہوگئے اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کے طور پر کہنے لگے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم پر یہی ظلم و ستم ہوتا رہا اور اب تم پر ایمان لانے کی بعد بھی ہم دوبارہ وہی ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کا ظلم توڑ کے رکھ دیتا ہے بس تم اللہ سے مدد مانگتے رہو عنقریب وہ تمہارے اس دشمن کو ہلاک کر کے تمہیں اس سرزمین میں حکومت عطا کرے گا پھر تمہاری ایک دوسرے انداز سے آزمائش ہوگی آج تمہاری آزمائش سختیوں اور مظالم سے ہو رہی ہے کہ تم صبر سے برداشت کرتے ہو یا نہیں پھر تمہیں حکومت عطا کر کے دیکھے گا کہ تم حاکم بن کر کیسے کام کرتے ہو۔ واضح رہے کہ جس دور میں یہ سورة نازل ہوئی اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسے ہی مصائب و شدائد کے دور سے گزر رہے تھے اور بمصداق گفتہ آید در حدیث دیگراں، صحابہ کرام (رض) کو بھی صبر کی تلقین کی جا رہی ہے اور ان سے حکومت ملنے کا وعدہ فرمایا جا رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ ۔۔ : پہلے بھی ہمارے بچوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے، ہم سے مشقت کے کام لیے جاتے رہے ہیں اور ہماری آزادی سلب رہی ہے، اب آپ کے آنے کے بعد بھی وہی غلامی اور مشقت ہے اور دوبارہ بچوں کے قتل کے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔- فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ : موسیٰ (علیہ السلام) نے بشارت دی کہ عن قریب تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کرکے تمہیں آزادی اور حکومت دینے والا ہے اور دیکھنے والا ہے کہ تم اس کا شکر کرتے اور احکام بجا لاتے ہو یا تم بھی ناشکری اور نافرمانی کرنے لگتے ہو ؟ معلوم ہوا کہ آزادی اور حکومت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کفار کی غلامی پر راضی رہنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ کلام نقل فرمایا مسلمانوں کے سنانے کو، یہ سورت مکی ہے، اس وقت مسلمان بھی ایسے ہی مظلوم تھے، پھر بشارت پہنچی پردے میں۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس حکیمانہ نصیحت اور اس پر مرتب ہونے والی فتح ونصرت کا اجمالی وعدہ کجروی کی خوگر بنی اسرائیل کی سمجھ میں کیا آتا، یہ سب کچھ سن کر بول اٹھے اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا، یعنی آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ایذائیں دی گئیں اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کے آنے سے پہلے تو اس امید پر وقت گزارا جاسکتا تھا کہ کوئی پیغمبر ہماری گلو خلاصی کے لئے آئے گا، اب آپ کے آنے کے بعد بھی یہی ایزاؤں کا سلسلہ رہا تو ہم کیا کریں گے۔ اس لئے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حقیقت امر کو واضح کرنے کے لئے فرمایا، عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ ، یعنی یہ بات دور نہیں کہ اگر تم نے ہماری نصیحت کو مانا تو بہت جلد تمہارا دشمن ہلاک و برباد ہوگا اور ملک پر تم کو قبضہ و اقتدار ملے گا، مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا، فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ، جس میں بتلا دیا کہ اس دنیا میں کسی زمین کی حکومت و سلطنت خود کوئی مقصد نہیں بلکہ زمین میں عدل و انصاف قائم کرنے اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کے لئے کسی انسان کو کسی ملک کی حکومت دی جاتی ہے، اس لئے جب تم کو ملک مصر پر اقتدار حاصل ہو تو ہوشیار رہو، ایسا نہ ہو کہ تم بھی حکومت و اقتدار کے نشہ میں اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام کو بھلا بیٹھو۔ - حکومت و سلطنت حکمران طبقہ کا امتحان ہے۔ - اس آیت میں خطاب اگرچہ خاص بنی اسرائیل کو ہے لیکن اللہ تعالیٰ شانہ نے ہر حکمران طبقہ کو اس میں یہ تنبیہ فرمادی ہے کہ درحقیقت حکومت و سلطنت اللہ تعالیٰ کا حق ہے، انسان کو بحیثیت خلیفہ کے وہ ہی حکومت دیتا ہے اور جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے، تُؤ ْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ کا یہی مطلب ہے۔ نیز یہ کہ جس کو کسی زمین پر حکومت عطا کی جاتی ہے وہ درحقیقت حکمران فرد یا حکمران جماعت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ مقصد حکومت یعنی قیام عدل و انصاف اور اقامتہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو کس حد تک پورا کرتا ہے تفسیر بحر محیط میں اس جگہ نقل کیا ہے کہ بنی عباس کے دوسرے خلیفہ منصور کے پاس خلافت ملنے سے پہلے ایک روز عمرو بن عبید آپہنچے تو یہ آیت پڑھی عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ ، جس میں ان کے لئے خلافت ملنے کی بشارت تھی، اتفاقا اس کے بعد منصور خلیفہ بن گئے اور پھر عمرو بن عبید ان کے ہاں پہنچے تو منصور نے ان کی پشین گوئی جو آیت مذکورہ کے تحت اس سے پہلے فرمائی تھی یاد دلائی تو عمرو بن عبید نے خوب جواب دیا کہ ہاں خلیفہ ہونے کی پیشین گوئی تو پوری ہوگئی مگر ایک چیز باقی ہے یعنی فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ، مطلب یہ تھا کہ ملک کا خلیفہ و امیر بن جانا کوئی فخر ومسرت کی چیز نہیں کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خلافت و حکومت میں اس کا رویہ کیا اور کیسا رہا، اب اس کے دیکھنے کا وقت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا۝ ٠ ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّہْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٢٩ ۧ- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٩) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وہ لوگ کہنے لگے ہماری اولاد کو فرعون قتل کرتا رہا اور ہماری عورتوں سے خدمت لیتا رہا ہے اور آپ کی رسالت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بہت جلد اللہ تعالیٰ فرعون اور اس کی قوم کو قحط سالی اور بھوک کی سختی سے ہلاک کردے گا اور تم ہی کو مصر کی سرزمین کا مالک بنادے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِءْتَنَا ط) ۔ - ان الفاظ سے اس مظلوم قوم کی بےبسی اور بےچارگی ٹپک رہی ہے ‘ کہ پہلے بھی ہمارا یہی حال تھا کہ ہم بدترین ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے ‘ اور اب آپ ( علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی ہمارے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔ - (قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ) - یہ آیت مسلمانان پاکستان کے لیے بھی خاص طور پر لمحۂ فکریہ ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمان بھی غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ متحدہ ہندوستان اگر ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوا تو کثرت آبادی کی وجہ سے ہندو ہمیشہ ہم پر غالب رہیں گے ‘ کیونکہ جدید دنیا کا جمہوری اصول ہے۔ اس طرح ہندو ہمیں دبا لیں گے ‘ ہمارا استحاصل کریں گے ‘ ہمارے دین و مذہب ‘ تہذیب و تمدن ‘ سیاست و معیشت اور زبان و معاشرت ہرچیز کو برباد کردیں گے۔ چناچہ انہوں نے ایک الگ آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے تحریک چلائی۔ اس تحریک کا نعرہ یہی تھا کہ مسلمان قوم کو اپنے دین و مذہب ‘ ثقافت اور معاشرت وغیرہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ اس تحریک میں اللہ نے انہیں کامیابی دی اور انہیں ایک آزاد خود مختار ملک کا مالک بنا دیا۔ ابھی اس حوالے سے اس آیت کا دوبارہ مطالعہ کیجیے : (وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ 4) کہ وہ تمہیں زمین میں طاقت اور اقتدار عطاکرے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم لوگ کیسا طرز عمل اختیار کرتے ہو اس ملک میں اللہ کی حکومت قائم کر کے دین کو غالب کرتے ہو یا اپنی مرضی کی حکومت قائم کر کے اپنی خواہشات کے مطابق نظام چلاتے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani