133۔ 1 طوفان سے سیلاب یا کثرت بارش، جس میں ہر چیز غرق ہوگئی، یا کثرت اموات، جس سے ہر گھر میں ماتم برپا ہوگیا، ٹڈی دل کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لئے مشہور ہے یہ ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں، جو پانی جوہڑوں، چھپڑوں میں ہوتا ہے، یہ مینڈک ان کے کھانوں میں، بستروں میں۔ غلوں میں غرض ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہوگئے جس سے ان کا کھانا پینا، سونا آرام کرنا حرام ہوگیا۔ دم (خون) سے مراد پانی کا خون بن جانا یوں پانی پینا ان کے لئے ناممکن ہوگیا، بعض نے خون سے مراد نکسیر کی بیماری لی ہے۔ یعنی ہر شخص کی ناک سے خون جاری ہوگیا، یہ کھلے کھلے اور جدا جدا معجزے تھے جو وقفے وقفے سے ان پر آئے۔
[١٢٩] طوفان ٹڈیوں جوؤں مینڈکوں اور خون کا عذاب :۔ اس خشک سالی کے بعد اللہ نے ان پر زور دار بارش برسائی جو طوفان کی صورت اختیار کرگئی، اور اس سے ان کی فصلیں پانی میں ڈوب کر تباہ ہونے لگیں تو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو اگر بارش تھم گئی اور ہماری فصلیں بچ گئیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو بارش رک گئی اور فصلیں بھی بچ گئیں لیکن پھر وہ اپنے عہد سے پھرگئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان کی پکی ہوئی تیار فصلوں پر ٹڈیوں کے دل کے دل بھیج دیئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ٹڈیاں تو ان کی ساری فصلوں کو چٹ کر جائیں گی تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف دوڑے اور پہلے کی طرح اللہ سے دعا کی درخواست کی، آپ کی دعا سے انہیں اس عذاب سے بھی نجات مل گئی اور انہوں نے غلہ کاٹ کر گھروں میں محفوظ کرلیا تو پھر اکڑ بیٹھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے ذخیرہ کردہ غلہ میں سرسری کا عذاب بھیج دیا (قرآن میں قمل کا لفظ ہے جو چھوٹے چھوٹے جانداروں مثلاً چچڑی، مچھر، جوئیں، سُرسری اور ایسے ہی دوسرے کیڑوں کے لیے مستعمل ہے) کہ ذخیرہ کردہ غلہ پڑا پڑا ہی ناکارہ ہوجائے یہ صورت حال دیکھ کر وہ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور دعا کی درخواست اور ایمان لانے کا عہد و پیمان کیا پھر جب آپ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب دور ہوا تو پھر عہد شکنی کی تو اللہ نے یہ عذاب نازل کیا کہ مینڈکوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو ہر طرف سے مینڈک چڑھ آتے کبھی کھانے میں جا پڑتے کبھی سالن کے برتن میں اور کبھی ان کے کھانے کے لیے کھولے ہوئے منہ میں اور پانی پینے لگتے تو وہ خون کی شکل اختیار کرجاتا غرض جب ان کا جینا دوبھر ہوگیا تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور وہی التجا اور وعدے کیے۔ آپ (علیہ السلام) نے پھر دعا کی۔ ان سے یہ عذاب بھی ٹل گیا مگر پھر بھی وہ اکڑ بیٹھے اور ان سب تنبیہات کو جادو ہی کے کرشمے سمجھتے رہے۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ ۔۔ : جب وہ قحط سالی اور پھلوں کی کمی کی گرفت کے باوجود کفر اور سرکشی پر ڈٹ گئے اور اس مصیبت کو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مزید سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو فرعون اور اس کی فوجوں کے مکمل خاتمے اور غرق ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ قحط سالیوں کے بعد ” الطُّوْفَانَ “ یعنی سخت بارش اور سیلاب شروع ہوا جس سے ان کی زندگی دشوار ہوگئی تو انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست کی کہ تمہارا اپنے رب سے جو عہد اور معاملہ ہے اسے پیش کرکے اس سے ہمارے لیے یہ عذاب دور کرنے کی دعا کریں، اگر تم نے ہم سے یہ عذاب دور کروا دیا تو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔ (لام تاکید اور نون ثقیلہ عربی میں قسم کا مفہوم رکھتا ہے) ظالم اب بھی اپنے اور ساری کائنات کے رب کو موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ہی کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو مدت کی سوکھی زمین نے پانی کی فراوانی کی وجہ سے بےحساب چارا اور غلہ پیدا کیا، یہ ان کی خوش حالی کے ساتھ آزمائش تھی، جس سے وہ سب عہد و پیمان بھول کر کہنے لگے کہ یہ سیلاب تو ہمارے لیے نعمت تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان پر ” وَالْجَرَادَ “ (ٹڈیوں) کا عذاب بھیجا جو ان کے درخت، چارے اور لکڑیاں تک چٹ کر گئیں۔ انھوں نے پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے انھی الفاظ میں عذاب ٹالنے کی دعا کی درخواست کی جو اوپر ذکر ہوئے ہیں۔ یہ عذاب دور ہوا تو پھر خوش حالی کا ایک وقفہ آیا کہ بچی فصل سے بھی بیشمار غلہ پیدا ہوا، جسے کاٹ کر انھوں نے اپنے گھروں میں محفوظ کرلیا اور اپنے خیال میں کم از کم سال بھر کے لیے بےفکر ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا ہوا عہد و پیمان پھر بھول گئے۔ اب ان پر ” َالْقُمَّلَ “ کا عذاب نازل ہوا، یعنی جوئیں، چچڑیاں، چھوٹے چھوٹے کالے کیڑے، گھن کے کیڑے، پسو وغیرہ، ان سب پر ” َالْقُمَّلَ “ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے جسموں، کپڑوں اور بستروں پر جوؤں، پسوؤں اور کھٹملوں کی یلغار ہوگئی۔ غلے کو گھن لگ گیا، پسوانے کے لیے بوریاں لے جاتے تو آٹے کا فقط ایک تھیلا نکلتا، پھر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اسی طرح دعا کی درخواست کی۔ جب ان کی دعا سے وہ بلا ٹلی اور راحت و آرام کا وقفہ آیا تو اپنے عہد سے پہلے کی طرح پھرگئے، اب ان پر ” وَالضَّفَادِعَ “ یعنی ” مینڈکوں “ کا عذاب آیا اور وہ اس کثرت سے پھیل گئے کہ ہر چیز اور برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے، کھانا کھاتے ہوئے لقمے کی جگہ اچھل کر منہ میں مینڈک جا پڑتا، لیٹتے تو بستر اور جسم مینڈکوں سے بھر جاتا۔ مجبور ہو کر انھوں نے پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ عذاب ٹالنے کے لیے دعا کی درخواست انھی وعدوں کے ساتھ کی، مگر جب عافیت ملی تو پھر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے سے انکار کردیا۔ اب ان پر خون کا عذاب آیا، کھانے یا پینے کی جو چیز رکھتے خون میں بدل جاتی، پانی کے برتنوں اور ذخیروں نے خون کی صورت اختیار کرلی۔ بعض مفسرین نے خون کے عذاب میں نکسیر کی وبا کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ ان کے رجوع اور درخواست پر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو پھر اپنے کیے ہوئے عہد سے پھرگئے۔ اب اللہ تعالیٰ کے انتقام کا وقت آگیا اور ان سب کو اللہ کی آیات و معجزات جھٹلانے اور ان سے جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی پاداش میں سمندر میں غرق کردیا گیا۔ یہاں اس غرق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، وہ سورة یونس، شعراء اور طہ وغیرہ میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ یہاں اصل مقصد کفار کو سختی اور خوش حالی کی آزمائش کی پروا نہ کرتے ہوئے کفر پر اصرار کے انجام سے ڈرانا ہے۔ ” اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب اور عافیت کے یہ وقفے یکے بعد دیگرے آئے۔ شاہ عبد القادر (رض) نے لکھا ہے کہ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ اس بات پر چالیس برس رہا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے اور آخر میں یہ عذاب ایک ایک ہفتے کے وقفے سے آئے۔ (موضح) تفسیر طبری میں تابعین کی بعض روایات میں عذاب کا عرصہ ایک ہفتہ اور درمیانی عافیت کا عرصہ ایک ماہ لکھا ہے، مگر ہمارے پاس ان میں سے کسی قول کی تصدیق یا تردید کا کوئی صحیح ذریعہ نہیں۔ نصیحت کے لیے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے وہی کافی ہے۔
خلاصہ تفسیر - (جب ایسی سرکشی اختیار کی تو) پھر ہم نے ( ان دو بلاؤں کے علاوہ یہ بلائیں مسلط کیں کہ (٣) ان پر ( کثرت بارش کا) طوفان بھیجا ( جس سے مال وجان تلف ہونے کا اندیشہ ہوگیا) اور ( اس سے گھبرائے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے عہد و پیمان کیا کہ ہم سے یہ بلا دور کر ایئے تو ہم ایمان لائیں اور جو آپ کہیں اطاعت کریں پھر جب وہ بلا دور ہوئی اور دل خواہ غلہ وغیرہ نکلا پھر بےفکر ہوگئے کہ اب تو جان بھی بچ گئی مال بھی خوب ہوگا ور بدستور اپنے کفر و طغیان پر اڑے رہے تو ہم نے ان کے کھیتوں پر (٤) ٹڈیاں ( مسلط کیں) اور ( جب پھر کھیتوں کو تباہ ہوتے دیکھا تو گھبرا کر پھر ویسے ہی عہد و پیمان کئے اور پھر جب آپ کی دعا سے وہ بلا دور ہوئی اور غلہ وغیرہ تیار کرکے اپنے گھر لے آئے پھر بےفکر ہوگئے کہ اب تو غلہ قابو میں آگیا اور بدستور اپنے کفر و مخالفت پر جمے رہے تو ہم نے اس غلہ میں (٥) گھن کا کیڑا (پیدا کردیا) اور (جب گھبرا کر پھر اسی طرح عہد و پیمان کرکے دعا کرائی اور وہ بلا بھی دور ہوئی اور اس سے مطمئن ہوگئے کہ اب پیس کوٹ کر کھائیں پئیں گے، پھر وہی کفر اور وہی مخالفت، تو اس وقت ہم نے ان کے کھانے کو یوں بےلطف کردیا کہ ان پر (٦) مینڈک ( ہجوم کرکے ان کے کھانے کے برتنوں میں ہنڈیوں میں گرنا شروع ہوئے جس سے سب کھانا غارت ہو اور ویسے بھی گھر میں بیٹھنا مشکل کردیا) اور (پینا یوں بےلطف کردیا کہ (٧) ان کا پانی) خون (ہوجاتا، منہ میں لیا اور خون بنا، غرض ان پر یہ بلائیں مسلط ہوئیں) کہ یہ سب ( موسیٰ (علیہ السلام) کے) کھلے کھلے معجزے تھے ( کہ ان کی تکذیب و مخالفت پر ان کا ظہور ہوا اور یہ ساتوں عصا اور ید بیضاء ملا کر آیات تسعہ کہلاتے ہیں) سو ( چاہئے تھا کہ ان معجزات وآیات قہر کو دیکھ کر ڈھیلے پڑجاتے مگر) وہ (پھر بھی) تکبر ( ہی) کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ ( کہ اتنی سختی پر بھی باز نہ آتے تھے) اور جب ان پر کوئی عذاب ( مذکورہ بلاؤں میں سے) واقع ہوتا تو یوں کہتے، اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے ( وہ بات قہر کا دور کردینا ہے ہمارے باز آجانے پر، ہم ضرور ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کرکے آپ کے ہمراہ کردیں گے پھر جب ( ببرکت دعائے موسیٰ (علیہ السلام) ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے تو وہ فورا ہی عہد شکنی کرنے لگتے ( جیسا اوپر بیان ہوا) پھر ( جب ہر ہر طرح دیکھ لیا کہ وہ اپنی شرارت سے باز ہی نہیں آتے تب اس وقت) ہم نے ان سے ( پورا) بدلہ لیا یعنی ان کو دریا میں غرق کردیا ( جیسا دوسری جگہ ہے) اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی بےتوجہی کرتے تھے ( اور تکذیب و غفلت بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ اصرار وعناد کے ساتھ کہ اطاعت کا وعدہ کرلیں اور توڑدیں) ۔- معارف و مسائل :- آیات متذکرہ میں قوم فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا باقی قصہ مذکور ہے کہ فرعون کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں ہار گئے اور ایمان لائے، مگر قوم فرعون اسی طرح اپنی سرکشی اور کفر پر جمی رہی۔- اس واقعہ کے بعد تاریخی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیس (20) سال مصر میں مقیم رہ کر ان لوگوں کو اللہ کا پیغام سناتے اور حق کی طرف دعوت دیتے تھے، اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو ٩ معجزات عطا فرمائے، جن کے ذریعہ قوم فرعون کو متنبہ کر کے راستہ پر لانا مقصود تھا، قرآن کریم میں وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍ میں انہی نو معجزات کا بیان ہے۔ - ان نو معجزات میں سے سب سے پہلے دو معجزے، عصا اور ید بیضاء کا ظہور فرعون کے دربار میں ہوا اور انہی دو معجزوں کے ذریعہ جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فتح حاصل کی، اس کے بعد ایک معجزہ وہ تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں آچکا ہے کہ قوم فرعون پر ان کی ضد اور کجروی کے سبب قحط مسلط کردیا گیا، ان کی زمینوں اور باغوں میں پیداوار بہت گھٹ گئی جس سے یہ سخت پریشان ہوئے اور بالآخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قحط رفع ہونے کے لئے دعا کرائی، مگر جب قحط رفع ہوگیا تو پھر اپنی سرکشی میں مبتلا ہوگئے اور لگے یہ کنے کہ یہ قحط تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کے سبب ہوا تھا، اب جو قحط رفع ہوا یہ ہمارے حال کا تقاضا ہے) باقی چھ آیات و معجزات کا بیان مذکورہ آیتوں میں ہے : فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ، یعنی پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون۔ اس میں قوم فرعون پر مسلط ہونے والے پانچ قسم کے عذابوں کا ذکر ہے اور ان کو اس آیت میں اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فرمایا ہے جس کے معنی حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کے مطابق یہ ہیں کہ ان میں سے ہر عذاب ایک معین وقت تک رہا پھر موقوف ہوگیا، اور کچھ مہلت دی گئی اس کے بعد دوسرا اور تیسرا عذاب، اسی طرح الگ الگ ہو کر ان پر آیا۔ اسی کو ترجمہ شیخ الہند میں اختیار کیا گیا ہے۔- ابن منذر نے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے ہر عذاب قوم فرعون پر سات روز تک مسلط رہتا تھا، ہفتہ کے دن شروع ہو کر دوسرے ہفتہ کے دن رفع ہوجاتا اور پھر تین ہفتے کی مہلت ان کو دی جاتی تھی۔ - امام بغوی نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ جب پہلی مرتبہ قوم فرعون پر قحط کا عذاب مسلط ہوا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے رفع ہوگیا مگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار یہ ایسے سرکش لوگ ہیں کہ عذاب قحط سے بھی متاثر نہ ہوئے اور معاہدہ کر کے پھرگئے، اب ان پر کوئی ایسا عذاب مسلط فرمادیجئے جو ان کے لئے دردناک ہو، اور ہماری قوم کے لئے ایک وعظ کا کام دے اور بعد میں آنے والوں کے لئے درس عبرت بنے، تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ان پر طوفان کا عذاب بھیج دیا۔ مشہور مفسرین کے نزدیک طوفان سے مراد پانی کا طوفان ہے، قوم فرعون کے سب گھروں اور زمینوں کو پانی کے طوفان نے گھیر لیا نہ کہیں بیٹھنے لیٹنے کی جگہ رہی نہ زمین میں کچھ کاشت وغیرہ کرنے کی، اور عجیب بات یہ تھی کہ قوم فرعون کے مکانات اور زمینوں کے ساتھ ہی بنی اسرئیل کے مکانات اور زمینیں تھیں، بنی اسرائیل کے مکانات اور زمینیں سب بدستور خشک تھیں کہیں طوفان کا پانی نہ تھا اور قوم فرعون کے سارے گھر اور زمین اس طوفان سے لبریز تھے۔ اس طوفان سے گھبرا کر قوم فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہم سے دور فرمادیں تو ہم ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ طوفان دور ہوا۔ اور اس کے بعد ان کی کھیتیاں پہلے سے زیادہ ہری بھری ہوگئیں، تو اب یہ کہنے لگے کہ درحقیقت یہ طوفان کوئی عذاب نہیں تھا بلکہ ہمارے فائدے کے لئے آیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری زمینوں کی پیداوار بڑھ گئی، اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کا اس میں کچھ دخل نہیں اور یہ کہہ کر سب عہد و پیمان نظر انداز کردیئے۔ اس طرح یہ لوگ ایک مہینہ امن و عافیت سے رہتے رہے، اللہ نے ان کو غور وفکر کی مہلت دی مگر یہ ہوش میں نہ آئے تو اب دوسرا عذاب ٹڈیوں کا ان پر مسلط کردیا گیا، ٹڈی دل نے ان کی ساری کھیتیوں اور باغوں کو کھالیا، بعض روایات میں ہے کہ لکڑی کے دروازوں اور چھتوں کو اور گھریلو سب سامان کو ٹڈیاں کھا گئیں، اور اس عذاب کے وقت بھی موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ سامنے تھا کہ یہ سارا ٹڈی دل صرف قبطی یعنی قوم فرعون کے باغوں، کھیتیوں، گھروں پر چھایا ہوا تھا، پاس ملے ہوئے اسرائیلیوں کے مکانات، زمینیں، باغ سب اس سے محفوظ تھے۔ اس وقت پھر قوم فرعون چلا اٹھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اس مرتبہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیں یہ عذاب، ہٹ جائے تو ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے، موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر دعا کی اور یہ عذاب ہٹ گیا، مگر عذاب کے ہٹنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ہمارے پاس اب بھی اتنا ذخیرہ غلہ کا موجود ہے کہ ہم سال بھر کھا سکتے ہیں تو پھر سرکشی اور عہد شکنی پر آمادہ ہوگئے، نہ ایمان لائے نہ بنی اسرائیل کو آزاد کیا۔ ایک مہینہ پھر اللہ تعالیٰ نے مہلت دی، اس مہلت کے بعد تیسرا عذاب قمل کا مسلط ہوا، لفظ قمل اس جوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو انسان کے بالوں اور کپڑوں میں پیدا ہوجاتی ہے، اور اس کیڑے کو بھی کہتے ہیں جو غلہ میں لگ جاتا ہے جس کو گھن بھی کہا جاتا ہے۔ قمل کا یہ عذاب ممکن ہے کہ دونوں قسم کے کیڑوں پر مشتمل ہو کہ غلوں میں گھن لگ گیا اور انسانوں کے بدن اور کپڑوں میں جوؤں کا طوفان امڈ آیا۔ غلوں کا حال اس گھن نے ایسا کردیا کہ دس سیر گیہوں پیسنے کے لئے نکالیں تو اس میں تین سیر آٹا بھی نہ نکلے۔ اور جوؤں نے ان کے بال اور پلکیں اور بھویں تک کھالیں۔- آخر پھر قوم فرعون بلبلا اٹھی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کی کہ اب کی مرتبہ ہرگز وعدہ سے نہ پھریں گے آپ دعا کردیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب بھی ٹل گیا، مگر جن بدنصیبوں کو ہلاک ہی ہونا تھا وہ کہاں عہد کو پورا کرتے، پھر عافیت ملتے ہی سب کچھ بھول گئے اور منکر ہوگئے۔- پھر ایک ماہ کی مہلت ایسی آرام و راحت کے ساتھ ان کو دی گئی مگر اس مہلت سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا تو چوتھا عذاب مینڈکوں کا ان پر مسلط کردیا گیا، اور اس کثرت سے مینڈک ان کے گھروں میں پیدا ہوگئے کہ جہاں بیٹھتے تو ان کے گلے تک مینڈکوں کا ڈھیر لگ جاتا، سونے کے لئے لیٹتے تو سارا بدن ان سے دب جاتا کروٹ لینا ناممکن ہوجاتا، پکتی ہوئی ہنڈیا میں، رکھے ہوئے کھانے میں، آٹے میں اور ہر چیز میں مینڈک بھر جاتے، اس عذاب سے عاجز آکر سب رونے لگے اور پہلے سے پختہ وعدوں کے ساتھ معاہدہ کیا تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب بھی رفع ہوگیا۔- مگر جس قوم پر قہر الہی مسلط ہو اس کی عقل اور ہوش و حواس کام نہیں دیتے، اس واقعہ کے بعد بھی عذاب سے نجات پا کر یہ پھر اپنی ہٹ دھرمی پر جم گئے اور کہنے لگے کہ اب تو ہمیں اور بھی یقین ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) بڑے جادوگر ہیں یہ سب ان کے جادو کے کرشمے ہیں رسول نبی کچھ نہیں۔- پھر ایک ماہ کی مہلت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی مگر اس مہلت سے بھی کوئی کام نہ لیا تو پانچواں عذاب خون کا مسلط کردیا گیا کہ ان کے ہر کھانے اور پینے کی چیز خون بن گئی، کنویں سے، حوض سے، جہاں کہیں سے پانی نکالیں خون بن جائے، کھانا پکانے کے لئے رکھیں خون بن جائے اور ان سب عذابوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ مسلسل تھا کہ ہر عذاب سے اسرئیلی حضرات بالکل مامون و محفوظ تھے، خون کے عذاب کے وقت قوم فرعون کے لوگوں نے بنی اسرائیل کے گھروں سے پانی مانگا جب وہ ان کے ہاتھ میں گیا تو خون ہوگیا، ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر قبطی اور اسرائیلی کھانا کھاتے تو جو لقمہ اسرائیلی اٹھاتا وہ اپنی حالت پر کھانا ہوتا اور جو لقمہ یا پانی کا گھونٹ قبطی کے منہ میں جاتا خون بن جاتا، یہ عذاب بھی بدستور سابق سات روز رہا۔ بالآخر پھر یہ بدکار بدعہد قوم چلا اٹھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کی اور پہلے سے زیادہ موثق وعدے کئے، دعا کی گئی عذاب ہٹ گیا مگر یہ لوگ اپنی اسی ہٹ دھرمی پر جمے رہے، اس طرح یہ پانچ عذاب مسلسل ان پر آتے رہے مگر یہ لوگ اپنی گمراہی پر قائم رہے اسی کو قرآن کریم نے فرمایا : فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ یعنی ان لوگوں نے تکبر سے کام لیا اور یہ لوگ بڑے عادی مجرم تھے۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ٠ ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ ١٣٣- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- طُّوفَانُ- والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ.- الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔- جرد - الجَرَاد معروف، قال تعالی: فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف 133] ، وقال : كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر 7] ، فيجوز أن يجعل أصلا فيشتق من فعله : جَرَدَ الأرض، ويصح أن يقال : إنما سمّي ذلک لجرده الأرض من النبات، يقال : أرض مَجْرُودَة، أي :- أكل ما عليها حتی تجرّدت . وفرس أَجْرَد : منحسر الشعر، وثوب جَرْدٌ: خلق، وذلک لزوال وبره وقوّته، وتَجَرَّدَ عن الثوب، وجَرَّدْتُهُ عنه، وامرأة حسنة المتجرد . وروي : «جرّدوا القرآن» «2» أي : لا تلبسوه شيئا آخر ينافيه، وانْجَرَدَ بنا السیر «3» ، وجَرِدَ الإنسان «4» : شري جلده من أكل الجراد .- ( ج ر د ) الجراد ۔ ٹڈی اس کا واحد جرادۃ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف 133] ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں ۔۔۔ بھیجیں ۔ كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر 7] الغرض جراد کے معنی ٹڈی کے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اصل ہو اور اس سے جرد الارض مشتق ہو ۔ جس کے معنی میں ٹڈی زمین پر سے گھاس چٹ کرگئی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جراد خود جردے مشتق ہو جس کے معنی ننگا کرنے کے میں اور چونکہ ٹڈی زمین کی روئیدگی کو کھا کر اسے ننگا اور صاف کردیتی ہے اس لئے ٹڈی کو جراد کہا گیا ہے اور ارض مجرودۃ اس زمین کو کہا جاتا ہے جس کی نباتات کو ٹڈیوں نے کھا کر صاف کردیا ہو۔ فرس اجرد بےبال یا چھوٹے بالوں والا گھوڑا ثوب جرد پرانا کپڑا ۔ کیونکہ اس کی روئیں جھڑجاتی ہے اور کمزور ہوجاتا ہے ۔ تجرد عن الثوب ننگا ہونا ۔ کپڑے اتار دینا جردہ ( عن الثیاب ) ننگا کرنا ۔ امرءۃ حسنہ المتجود یعنی خوب صورت بدن است وقت برمنگی ایک روایت میں ہے (61) جرد والقرآن قرآن کو علیحدہ رکھو یعنی اس کے ساتھ کوئی چیز خلط ملط نہ کرو ۔ انجرد بنا السیر ۔ دراز گروید سفر ۔ جرد الانسان خراج بر آروپوست انسان از خوردن ملخ یعنی ملخ کے کاٹنے سے جسم پر پتی اچھلنا ۔ ( ج ر ز) جرز ۔ وہ زمین جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا ہو فرمایا ؛ صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف 8] بنجر میدان ۔۔ یعنی جس پر گھاس درخت وغیرہ کوئی چیز نہ ہو ۔ ارض مجروزۃ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو ۔ الجروز جو دسترخوان کو صاف کرڈٖالے ۔ مثل مشہور ہے ۔ لا ترضی شانیہ الا بجرزہ یعنی اس کے دشمن اس کا استیصال کئے بغیر خوش نہیں ہوں گے ۔ الجارز سخت کھانسی ( اس میں معنی جرز کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الجراز تلوار سے کاٹنا ۔ سیف جراز شمشیر بزان - قمل - القُمَّلُ : صغار الذّباب . قال تعالی: وَالْقُمَّلَ وَالضَّفادِعَ وَالدَّمَ [ الأعراف 133] . والْقَمْلُ معروف، ورجل قَمِلٌ: وقع فيه القَمْلُ ، ومنه قيل : رجل قَمِلٌ ، وامرأة قَمِلَةٌ:- صغیرة قبیحة كأنّها قَمْلَةٌ أو قُمَّلَةٌ.- ( ق م ل ) القمل چھوٹی مکھیاں ۔ قرآن پاک میں اور چھوٹی مکھیاں اور مینڈک اور خون ۔ القمل کے معنی ہیں جوں اور رجل قمل اس آدمی کو کہتے ہیں کے جس کے جوئیں پڑجائیں اور اسی سے چھوٹے سے بدصورت مرد یا عورت قمل یا قملتہ کہا جاتا ہے گویا وہ جوں یا چھوٹی مکھی کی طرح ہے ۔- ( الضفادع)- ، جمع ضفدع بوزن درهم، ويجوز کسر الدال، والضفدع مؤنّث، ويفرّق بين ذكره وأنثاه بالوصف فيقال ضفدع ذکر وضفدع أنثی. وفي القاموس الضفدع کزبرج بکسر الدال وجعفر وجندب بضمّ الضاد والدال ودرهم۔ وهذا أقلّ أو مردود۔ الواحدة بهاء، والجمع ضفادع وضفادي .- دم - أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .- ( د م ی ) الدم - ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔- ( مفصّلات)- جمیع مفصّلة مؤنّث مفصّل اسم مفعول به ( فصّل) الرباعيّ ، وزنه مفعّل بضمّ المیم وفتح العین .- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔
(١٣٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مسلسل بارش برسائی جو ہفتہ سے لے کر ہفتہ تک برستی تھی، اور رات دن میں کسی وقت بھی بند نہ ہوتی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈیاں مسلط کیں کہ پھل اور سبزیوں میں سے جو پیدا ہوتا تھا، سب کھاجاتیں تھی اس کے بعد ان پر گھن کا کیڑا مسلط کردیا گیا کہ ٹڈیوں سے جو کچھ رہ گیا تھا وہ انہوں نے صاف کردیا اور اس کے بعد ان پر اس قدر مینڈک مسلط کیے کہ رہنا ہی دشوار ہوگیا۔- اور پھر ان پر اس قدر خون کی آفت مسلط کی کہ تمام نہروں اور کنوؤں میں خون ہی خون نظرآنے لگا یہ واضح معجزے ان پر ظاہر ہوئے ہر ایک معجزہ کے درمیان دو دو مہینوں کا وقفہ تھا مگر پھر بھی انہوں نے ایمان سے روگردانی کی اور ایمان نہیں لائے وہ درحقیقت مشرک تھے۔
آیت ١٣٣ (فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ ) - ان پر طوفان باد و باراں بھی آیا۔ ٹڈی دل ان کی فصلوں کو چٹ کر جاتی تھیں۔ چچڑیاں ‘ جویں ‘ کھٹمل اور پسو ان کو کاٹتے تھے اور ان کا خون چوستے تھے اور ان کے اناج میں کثرت سے سرسریاں پڑجاتیں۔ مینڈک ان کے گھروں ‘ بستروں اور برتنوں وغیرہ میں ہر جگہ پیدا ہوجاتے تھے۔ اسی طرح ان پر خون کی بارش بھی ہوتی تھی اور کھانے پینے کی چیزوں میں بھی خون شامل ہوجاتا تھا۔- (اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍقف) - یہ ساری مصیبتیں اور آزمائشیں یکبارگی ان پر مسلط نہیں ہوگئی تھیں ‘ بلکہ وقفے وقفے سے یکے بعد دیگرے آتی رہیں ‘ کہ شاید کسی ایک مصیبت کو دیکھ کر وہ راہ راست پر آجائیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرلیں۔- (فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ) ۔ - اگلی آیت سے پتا چل رہا ہے کہ بعد میں ان کی یہ اکڑ ختم ہوگئی تھی اور عذاب کو ختم کرانے کے لیے وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی منت سماجت کرنے پر بھی تیار ہوگئے تھے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :95 غالباً بارش کا طوفان مراد ہے جس میں اولے بھی برسے تھے ۔ اگرچہ طوفان دوسری چیزوں کا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن بائیبل میں ژالہ باری کے طوفان کا ہی ذکر ہے اس لیے ہم اسی معنی کو ترحیح دیتے ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :96 اصل میں لفظ قُمَّل استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ جُوں مکھی ، چھوٹی ٹڈی ، مچھر ، سُرسُری وغیرہ غالباً یہ جامع لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ بیک وقت جُوؤں اور مچھروں نے آدمیوں پر اور سُرسُریوں ( گُھن کے کیڑوں ) نے غلہ کے ذخیروں پر حملہ کیا ہوگا ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۷تا ١۲ ، نیز الزُخرُف ، حاشیہ ٤۳ ) ۔
58: یہ مختلف قسم کے عذاب تھے جو یکے بعد دیگرے فرعون کی قوم پر مسلط ہوتے رہے، پہلے طوفان آیا جس میں ان کی کھیتیاں بہہ گئیں اس کے بعد جب انہوں نے ایمان لانے کا وعدہ کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کروائی اور کھیت بحال ہوئے اور پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو ٹڈی دل نے کھیتوں کو برباد کرڈالا، پھر وہی وعدے کئے، اور یہ بلا دور ہوئی اور خوش حالی آنے لگی تو یہ پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور ایمان نہ لائے توان کی پیداوار کو گھن لگادیا گیا، پھر وہی ساری داستان دہرائی گئی اور یہ پھر بھی نہ مانے تو مینڈکوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ وہ کھانے کے برتنوں میں نمودار ہوتے اور سارے کھانے کو خراب کردیتے، دوسری طرف پینے کے پانی میں ہر جگہ خون نکلنے لگا اور پانی پینا دوبھر ہوگیا۔