[١٣٠] چھٹا طاعون کا عذاب :۔ یعنی اس قوم کا یہ وطیرہ بن گیا کہ مذکورہ پانچ عذابوں میں سے جب کوئی عذاب آتا تو فوراً سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس دعا کے لیے التجا کرتے اور کہتے کہ تمہارے پروردگار نے جو تم سے عہد کر رکھا ہے اس کے مطابق تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی اور اگر تمہاری دعا سے ہم پر سے عذاب ٹل گیا تو پھر ہم تمہارا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ روانہ کردیں گے اس طرح پانچ دفعہ یہی واقعہ ہوا اور یہ فرعونی ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے تھے۔- اور بعض مفسرین نے یہاں لفظ رجز کے معنی عذاب کے بجائے طاعون کے لیے ہیں اور ایک حدیث سے اس معنی کی تائید بھی ہوجاتی ہے اس لحاظ سے یہ فرعونیوں پر چھٹا عذاب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب فرعونیوں پر طاعون کا عذاب نازل ہوا تو ان کے بیشمار آدمی مرنے لگے اور ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اسی دوران سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کا حکم دیا گیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر شام کی طرف نکل جائیں چونکہ فرعونی اپنی پریشانی میں مبتلا تھے لہذا وہ فوری طور پر انکا تعاقب نہ کرسکے اور جب فرعون اپنا لاؤ لشکر لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہوا تو اس وقت وہ بحیرہ قلزم کے قریب پہنچ چکے تھے۔
وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْہِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَكَ ٠ ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ١٣٤ ۚ- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- رجز - أصل الرِّجْزِ : الاضطراب، ومنه قيل : رَجَزَ البعیرُ رَجَزاً ، فهو أَرْجَزُ ، وناقة رَجْزَاءُ : إذا تقارب خطوها واضطرب لضعف فيها، وشبّه الرّجز به لتقارب أجزائه وتصوّر رِجْزٍ في اللسان عند إنشاده، ويقال لنحوه من الشّعر أُرْجُوزَةٌ وأَرَاجِيزُ ، ورَجَزَ فلان وارْتَجَزَ إذا عمل ذلك، أو أنشد، وهو رَاجِزٌ ورَجَّازٌ ورِجَّازَةٌ. وقوله : عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ 5] ، فَالرِّجْزُ هاهنا کالزّلزلة، وقال تعالی: إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت 34] ، وقوله : وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، قيل : هو صنم، وقیل : هو كناية عن الذّنب، فسمّاه بالمآل کتسمية النّدى شحما . وقوله : وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال 11] ، والشّيطان عبارة عن الشّهوة علی ما بيّن في بابه . وقیل : بل أراد برجز الشّيطان : ما يدعو إليه من الکفر والبهتان والفساد . والرِّجَازَةُ : کساء يجعل فيه أحجار فيعلّق علی أحد جانبي الهودج إذا مال وذلک لما يتصوّر فيه من حرکته، واضطرابه .- ( ر ج ز ) الرجز اس کے اصل معنی اضطراب کے ہیں اور اسی سے رجز البعیر ہے جس کے معنی ضعف کے سبب چلتے وقت اونٹ کی ٹانگوں کے کپکپائی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے ہیں ایسے اونٹ کو ارجز اور ناقہ کو رجزاء کہا جاتا ہے اور شعر کے ایک بحر کا نام بھی رجز ہے جس میں شعر پڑھنے سے زبان میں اضطراب سا معلوم ہوتا ہے اور جو قصیدہ اس بحر میں کہا جائے اسے ارجوزۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع اراجیز آتی ہے اور رجز فلان وارتجز کے معنی بحر رجز پر شعر بنانے يا ارجوه پڑہنے کے ہیں اور رجز گو شاعر کو راجز ، رجاز اور رجازۃ کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ 5]( ان کیلئے ) عذاب دردناک کی سزا ہے ۔ میں لفظ رجز زلزلہ کی طرح عذاب سے کنایہ ہے ۔ اور فرمایا : ۔ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت 34] ہم ان پر ایک آسمانی آفت نازل کرنے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور نجاست سے الگ رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رجز سے بت مراد ہیں ۔ بعض نے اس سے ہر وہ عمل مراد لیا ہے جس کا نتیجہ عذاب ہو اور گناہ کو بھی مآل کے لحاظ سے عذاب کہا جاسکتا ہے جیسے ندی بمعنی شحم آجاتا ہے اور آیت : ۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال 11] اور آسمانوں سے تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے تم کو پاک کرے اور شیطانی گندگی کو تم سے دور کرے ۔ میں رجز الشیطان سے مراد خواہشات نفسانی ہیں جیسا کہ اس کے محل میں بیان کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے کفر بہتان طرازی فساد انگیزی وغیرہا گناہ مراد ہیں جن کی کہ شیطان ترغیب دیتا ہے ۔ رجازۃ وہ کمبل جس میں پتھر وغیرہ باندھ کر اونٹ کے ہودہ کا توازن قائم رکھنے کیلئے ایک طرف باندھ دیتے ہیں اس میں بھی حرکت و اضطراب کے معنی ملحوظ ہیں ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- كشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17]- ( ک ش ف ) الکشف - كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ - اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .
(١٣٤۔ ١٣٥۔ ١٣٦) اور جس وقت بھی ان لوگوں پر طوفان، ٹڈی، گھن، کیڑا، مینڈک، خون وغیرہ میں سے کوئی عذاب نازل ہوتا تھا تو کہتے تھے اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے رب سے جس چیز کا اس نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے دعا کیجیے اگر ہم سے عذاب دور ہوگیا تو ہم ضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے، اور تمام بنی اسرائیل کو اس کے مالوں کے ساتھ آپ کے ساتھ روانہ کردیں گے پھر جب ہم عذاب ہٹا دیتے تو وہ پھر بدعہدی شروع کردیتے چناچہ ہم نے انہیں غرق آب کردیا اور وہ ہماری آیات کے منکر ہی تھے۔
آیت ١٣٤ (وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْہِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ ج) ۔ - (لَءِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ ) اگر تم نے ہم سے اس عذاب کو ہٹا دیا تو ہم لازماً تمہاری بات مان لیں گے - آمَنَ کے ساتھ جب ل کا صلہ آتا ہے (جیسے لَکَ ) تو اس سے مراد عقیدہ والا ایمان نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس طرح کسی کی بات کو سرسری انداز میں ماننے کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ کا مطلب ہے کہ ہم لازماً تمہاری بات مان لیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ جب ب کا صلہ آئے ‘ جیسا کہ آمَنْتُ باللّٰہِ وَمَلآءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ میں ہے تو اس کے معنی پورے وثوق ‘ یقین اور گہرے اعتماد کے ساتھ ماننے کے ہوتے ہیں ‘ یعنی ایمان لانا۔- (وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) - مصر میں بنی اسرائیل کی حیثیت حکمران خاندان کے غلاموں کی سی تھی۔ فراعنہ ان سے مشکل اور بھاری کام بیگار میں کرواتے تھے۔ اہرام مصر کی تعمیر کے دوران نہ جانے کتنے ہزار اسرائیلی اس بےرحم مشقت کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کی ہڈیاں اہرام مصر کی بنیادوں میں دفن ہوگئیں۔ اہراموں کی تعمیر کے دوران سینکڑوں من وزنی چٹانیں اوپر کھینچی جاتی تھیں۔ اس دوران اگر کوئی چٹان نیچے گر جاتی تو اس کے نیچے سینکڑوں اسرائیلی پس جاتے۔ چونکہ وہ لوگ فرعون کے مفت کے کارندے تھے لہٰذا وہ ان کو آسانی سے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ لیکن ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والے عذاب سہہ سہہ کر فرعون اور اس کے امراء کا غرور وتکبر کچھ کم ہوا تھا۔ چناچہ جب وہ لوگ زیادہ عاجز آجاتے تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ وعدہ بھی کرتے تھے کہ اگر یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم آپ ( علیہ السلام) کی بات مان لیں گے اور آپ ( علیہ السلام) کی قوم کو آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ بھیج دیں گے۔