137۔ 1 یعنی بنی اسرائیل کو جن کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم روا رکھا تھا، اس بنا پر وہ فی الواقع مصر میں کمزور سمجھے جاتے تھے کیونکہ مغلوب اور غلام تھے۔ لیکن جب اللہ نے چاہا تو اسی مغلوب اور غلام قوم کو زمین کا وارث بنادیا۔ (2) زمین سے مراد شام کا علاقہ فلسطین ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے عمالقہ کے بعد بنی اسرائیل کو غلبہ عطا فرمایا شام میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کی وفات کے بعد اس وقت گئے جب یوشع بن نون نے عمالقہ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اور زمین کے ان حصوں میں برکتیں رکھیں یعنی شام کے علاقے میں۔ جو بکثرت انبیاء کا مسکن و مدفن رہا اور ظاہری شادابی وخوش حالی میں بھی ممتاز ہے۔ یعنی ظاہری و باطنی دونوں قسم کی برکتوں سے یہ زمین مالا مال رہی ہے۔ مشارق مشرق کی جمع اور مغارب مغرب کی جمع ہے۔ حالانکہ مشرق اور مغرب ایک ایک ہی ہیں۔ جمع سے مراد اس ارض بابرکت کے مشرقی اور مغربی حصے ہیں یعنی جہات مشرق ومغرب۔ 137۔ 2 یہ وہ وعدہ بھی ہے جو اس سے قبل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی آیت نبر 128، 129 میں فرمایا گیا ہے اور سورة قصص میں بھی 137۔ 3 مصنوعات سے مراد کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں (جو وہ بلند کرتے تھے) اس سے مراد اونچی اونچی عمارتیں بھی ہوسکتی ہیں، ہتھیار اور دیگر سامان بھی تباہ کردیا اور ان کے باغات بھی۔
[١٣٢] یہاں کمزور لوگوں سے مراد یہی بنی اسرائیل ہیں جو فرعونیوں کی غلامی کی چکی میں پس رہے تھے اور وہ اپنے کئی وعدوں کے باوجود انہیں آزاد کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے کے سارے بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں گئے تھے بلکہ کچھ مصر ہی میں رہ گئے تھے اور فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کی ہلاکت کے بعد یہ اس سر زمین پر بھی قابض ہوگئے تھے جیسا کہ اسی سورت کی آیت نمبر ١٢٩ سے اور بعض دوسری آیات سے بھی اس کی تائید ہوجاتی ہے واللہ اعلم بالصواب۔ پھر بعد میں سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اس علاقے میں مستحکم حکومت قائم کی۔- [١٣٣] برکت والا علاقہ ؟:۔ اس سر زمین سے مراد ملک شام ہے اس کی ظاہری برکات تو یہ ہیں کہ یہ علاقہ نہایت سرسبز و شاداب، خوش منظر اور زرخیز ہے اور باطنی برکات یہ ہیں کہ یہ ملک بہت سے انبیاء کا مسکن و مدفن ہے دریائے قلزم کو پار کرنے کے بعد بنی اسرائیل چالیس برس تک تو صحرائے تیہ میں سرگرداں پھرتے رہے جس کی پوری تفصیل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے اسی میدان میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوئی اس کے بعد بنی اسرائیل نے سیدنا یوشع بن نون (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر عمالقہ سے جہاد کیا اس میں انہیں فتح ہوئی اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور بنی اسرائیل اپنے آبائی وطن ملک شام کے وارث بن گئے۔
وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ : موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے دو وعدے کیے تھے، دشمن کی ہلاکت اور ملک کی وراثت و خلافت۔ چناچہ پہلا وعدہ پورا ہونے کے بعد اب یہاں دوسرے وعدے کی تکمیل کا بیان ہے۔ یہاں مبارک سرزمین سے شام کی سرزمین مراد ہے اور یہ وعدہ موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد یوشع (علیہ السلام) کے دور میں پورا ہونا شروع ہوا، جب انھوں نے عمالقہ سے جہاد کرکے بعض علاقے اپنے قبضے میں لے لیے مگر پورا ملک شام داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں قبضے میں آیا۔ - مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ ” مَشَارِقَ الْاَرْضِ “ یہ ” يُسْتَضْعَفُوْنَ “ کا مفعول نہیں بلکہ ” َاَوْرَثْنَا “ کا مفعول ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ کمزور اور بےبس تو مصر میں بنایا گیا تھا، شام میں نہیں۔ ارض مبارک سے مراد قرآن مجید میں عام طور پر سرزمین شام لی گئی ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (ا) ، انبیاء (٧١، ٨١) اور سبا (١٨) مشارق و مغارب جمع لانے کا مقصد یہ ہے کہ سرزمین شام کے تمام مشرقی اور مغربی علاقوں پر ان کی حکومت ہوگئی۔ کیونکہ ہر روز زمین کے ہر حصے میں سورج کے طلوع و غروب کا وقت اور جگہ بدلتے رہتے ہیں۔ بعض اہل علم نے مصر اور شام دونوں مراد لیے ہیں اور لکھا ہے کہ فرعون کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل مدتوں مصر پر حکمران رہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ دیکھیے سورة دخان (٢٨) ، شعراء (٥٩) اور قصص (٥) اس صورت میں ” بٰرَكْنَا فِيْهَا “ سے مراد سرزمین مصر و شام کا نہایت زرخیز اور آباد ہونا ہوگا۔ - وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى۔۔ : ” الْحُسْنٰى“ یہ ” اَلْاَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے جو تفضیل کا صیغہ ہے۔ بہترین بات سے مراد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہم تمہارے دشمنوں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں اس سرزمین کی وراثت اور حکومت عطا فرمائیں گے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کا باعث اللہ تعالیٰ نے ان کا صبر بیان فرمایا کہ اتنی سختیوں کے باوجود انھوں نے فرعون کو رب نہیں مانا، اپنے مسلمان ہونے پر قائم رہے، اگرچہ غلامی اور محکومیت کی وجہ سے ان کے مزاج اور دینی حالت میں کئی خرابیاں آچکی تھیں، مگر انھوں نے اسلام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ - وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ : ” َ يَصْنَعُ “ سے مراد ان کی مصنوعات، کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں اور ” يَعْرِشُوْنَ “ کا معنی اگرچہ انگور وغیرہ کے لیے چھپر وغیرہ بنانا بھی ہوتا ہے، مگر مصر میں چونکہ چھپر والے انگوروں کا رواج نہیں تھا، اس لیے اس سے مراد وہ بلند عمارتیں ہیں جو وہ بناتے تھے۔ - وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ : فرعون سے نجات پا کر سمندر پار کرنے کا یہ مبارک دن عاشوراء (دس محرم) تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے شکر ادا کرنے کے لیے اس دن کا روزہ رکھا اور یہودی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں سے روزے کی وجہ پوچھ کر فرمایا : ” ہم تم سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) پر حق رکھتے ہیں۔ “ چناچہ خود بھی روزہ رکھا اور تمام مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ آئندہ سال رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ نفل ہوگیا، جو چاہے رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب ( و لقد أوحینا إلی موسیٰ ۔۔ ) : ٤٧٣٧، ١٥٩٢، عن ابن عباس وعائشۃ ]- اہل مکہ بھی جاہلیت میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور اس دن کعبہ پر نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ [ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالیٰ : ( جعل اللہ الکعبۃ۔۔ ) [ ١٥٩٢، عن عائشۃ ] آخر عمر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روزے کی فضیلت کے حصول اور یہود کی مخالفت کی خاطر فرمایا : ( لَءِنْ بَقِیْتُ اِلٰی قَابِلٍ لَاَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ ) ” اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو ٩ کا روزہ رکھوں گا۔ “ مگر آئندہ سال آنے سے پہلے آپ فوت ہوگئے۔ [ مسلم، الصیام، باب أي یوم یصام فی عاشوراء : ١٣٤؍١١٣٤، عن ابن عباس (رض) ] حسین (رض) کی شہادت بھی اس دن ہوئی مگر دین اس سے پہلے مکمل ہوچکا تھا، ان کی شہادت کی وجہ سے دین میں کوئی بھی اضافہ، مثلاً ماتم یا جلوس یا سبیلیں وغیرہ لگانا بدعت ہوگا۔ - فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ : پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مظالم پر بنی اسرائیل کے صبر کی تعریف اور اس کی وجہ سے ان پر اپنے مزید انعامات کا ذکر فرمایا تھا۔ اب یہاں سے ان کی خوش حالی کے دور کی آزمائش کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اسی سورت میں ہر قوم کی تنگی اور آسانی کے ساتھ آزمائش کا ذکر ہوا تھا۔ (دیکھیے اعراف : ٩٤) اور اس بات کا بھی کہ ہم نے ان میں سے اکثر کے لیے کوئی عہد نہیں پایا اور ان کے اکثر کو ہم نے فاسق ہی پایا۔ دیکھیے سورة اعراف (١٠٢) آزادی ملنے کے بعد بنی اسرائیل کی بدعہدی اور فسق کا اور اس کے نتیجے میں انھیں ملنے والی سزا کا تذکرہ بنی اسرائیل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کی دعوت اور آپ کی مخالفت سے باز رہنے کی نصیحت کے لیے کیا گیا ہے۔ اس میں امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی نصیحت ہے کہ تم لوگ بھی ان کے نقش قدم پر نہ چل نکلنا۔- اللہ تعالیٰ نے انھیں سمندر سے پار کردیا تو انھوں نے مشرق کی طرف بیت المقدس ارض شام کا رخ کیا، ابھی چلے ہی تھے کہ ان کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو اپنے کچھ بتوں پر مجاور بنے بیٹھے تھے، یعنی ان کی پوجا کر رہے تھے۔ یہ بت بزرگوں کے تھے یا گائے وغیرہ کے، قرآن نے ذکر نہیں فرمایا اور نہ ہی حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ بنی اسرائیل کا جہل اور کفر دیکھیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اتنے واضح معجزات اور اللہ تعالیٰ کے انعامات دیکھنے کے بعد انھوں نے گستاخانہ لہجے میں نام لیتے ہوئے ” اے موسیٰ “ کہہ کر مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے بھی ان کے معبودوں جیسے معبود بنادو ۔ اس کی وجہ لمبے عرصے تک غلامی کی وجہ سے اہل مصر کے مشرکانہ عقائد کا ذہنوں میں جاگزیں ہونا تھا۔ - بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل چونکہ موحد تھے، اس لیے ان کی بت بنانے کے اس مطالبے سے یہ غرض نہ تھی کہ وہ شرک کریں، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس بت کی تعظیم سے اللہ کا تقرب چاہیں گے، وہ سمجھے کہ یہ شرک نہیں ہے، حالانکہ اس کا شرک ہونا انبیاء ( علیہ السلام) کا اجماعی مسئلہ ہے، کیونکہ اگر یہ شرک نہ ہو تو مکہ کے مشرک اور دوسرے بہت سے مشرک بھی موحد ہی رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک جگہ ذکر فرمایا ہے : (وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَاللّٰهِ ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) [ یونس : ١٨ ] ” اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ وہ پاک ہے اور بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ “ اور دوسری آیت میں ہے : (وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ) [ الزمر : ٣ ] ” اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا حمایتی بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں، اچھی طرح قریب کرنا۔ “- اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ : یعنی افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ کی شان نہیں پہچانتے، اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے کہ نہ اس کی کوئی مورت بن سکتی ہے اور نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرایا جاسکتا ہے، سو یہ مطالبہ سراسر جاہلانہ اور مشرکانہ ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” جاہل آدمی نظر نہ آنے والے رب کی عبادت کر کے تسکین نہیں پاتا جب تک سامنے ایک صورت نہ ہو، بنی اسرائیل نے جب وہ قوم دیکھی کہ گائے کی صورت کی پوجا کرتے تھے تو انھیں بھی یہ ہوس آئی، آخر سونے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔ “ (موضح) آیت میں گائے کی صورت کی صراحت نہیں ہے۔- حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کی بنیاد بن دیکھے رب تعالیٰ پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ سورة بقرہ (٣) میں ہے : ( يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْب) حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی لذت نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کو پروردگار کو دیکھنے کی درخواست پر مجبور کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں مشاہدہ کروا کر واضح کردیا کہ دنیا میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اب پیغمبر کا بن دیکھے رب پر ایمان دیکھیے اور قوم کا نظر آنے والے خدا کا مطالبہ دیکھیے دراصل شرک کی بنیاد ہی یہ ہے کہ معبود آنکھوں کے سامنے نظر آنا ضروری ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے - ذوق حضور در جہاں رسم صنم گری نہاد - عشق فریب می دہد جان امیدوار را - یعنی معبود کو اپنے سامنے حاضر دیکھنے کے ذوق ہی نے دنیا میں بت بنانے کی رسم کی بنیاد رکھی، کیونکہ عشق امید رکھنے والی جان کو فریب میں مبتلا کردیتا ہے۔ افسوس کہ بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کچھ مسلمانوں نے تو پختہ قبریں بنا کر ان پر مجاورت کے ذریعے سے اپنا یہ ذوق پورا کیا اور اکثر لوگوں نے معرفت کے نام پر اپنے شیخ کا تصور ہر لمحے آنکھوں کے سامنے اس طرح رکھا کہ وہ عدم موجودگی میں بھی انھیں آنکھوں سے نظر آنے لگا اور وہ اپنے خیال میں اس سے پوچھ کر ہر کام کرنے لگے۔ اس کا نام انھوں نے فنا فی الشیخ ہونا رکھا، پھر کچھ آگے بڑھے اور اسی صورت کو رسول قرار دے کر انھیں آنکھوں سے دیکھنا، ان سے باتیں کرنا اور ہدایات لینا شروع کردیا اور اسے فنا فی الرسول قرار دیا، پھر کچھ اور آگے بڑھے تو اسی صورت کو رب قرار دے کر ہر لمحے آنکھوں کے سامنے رکھ لیا اور اسے فنا فی اللہ کہہ کر شیخ کی صورت کے خدا ہونے اور ہر وقت اس کے دیدار اور اس سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کردیا۔ انتہا یہاں جا کر ہوئی کہ اپنے آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ہوجانے کا دعویٰ کردیا۔ کسی نے کہا ” أَنَا الْحَقُّ “ میں خدا ہوں۔ کسی نے کہا ” سُبْحَانِیْ مَا أَعْظَمُ شَأْنِیْ “ میں سبحان ہوں، میری شان کس قدر عظیم ہے اور کسی نے کہا - من تو شدم تو من شدی - من جاں شدم تو تن شدی - تا کس نہ گوید بعد ازیں - من دیگرم تو دیگری - یعنی ” میں تو ہوگیا، تو میں ہوگیا، میں جان بن گیا تو جسم بن گیا، تاکہ اس کے بعد کوئی یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور تو کوئی دوسرا ہے۔ “ شرک اور مشرکین کا یہ سارا گورکھ دھندا دماغ کی خرابی اور وہم و خیال پر مبنی ہے اور ان کی تمام ریاضتیں دماغ کو خراب کرنے کے لیے ہیں، جو ہندو جوگیوں اور نصرانی راہبوں سے لی گئی ہیں۔ جن کے نتیجے میں وہ کچھ آنکھوں کو دکھائی دینے لگتا ہے جو محض گمان اور خیال کی پیداوار ہوتا ہے اور جس کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ترک حیوانات جلالی و جمالی کی اصطلاح بنا کر اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں، مثلاً گوشت، دودھ، دہی، گھی اور شہد چھوڑنے سے دماغ میں مزید خشکی اور خرابی پیدا ہو کر انھیں نظر نہ آنے والی چیزیں بھی نظر آنے لگیں۔ تمام بت پرست اسی خیال اور خواہش نفس کے پیچھے لگ کر خیالی خداؤں کی پرستش کر رہے ہیں، کوئی پتھر کی بنی ہوئی صورت سامنے رکھ کر اور کوئی اس کا تصور سامنے رکھ کر، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت قرآن و حدیث میں قرب الٰہی کے لیے ان ریاضتوں، سلسلوں اور ذریعوں کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے وہم و گمان اور خواہش نفس کا اتباع کہہ کر بت پرستی قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورة نجم (١٩ تا ٢٥) اگر اللہ تعالیٰ کے قرب اور دیدار کا طریقہ یہ ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ضرور بتا دیتے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر دنیا میں رب تعالیٰ کا دیدار برداشت نہیں کرسکے تو کسی اور بےچارے کی کیا مجال ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور (فرعون اور اہل فرعون کو غرق کرکے) ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کیے جاتے تھے ( یعنی بنی اسرائیل) اس سرزمین کے پورب پچھم ( یعنی تمام حدود) کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے ( ظاہری برکت کثرت پیداوار سے اور باطنی برکت ذی فضائل و مدفن ومسکن انبیاء (علیہم السلام) ہونے سے) اور آپ رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا ( جس کا حکم انہیں دیا گیا تھا اصبِرُوْا) اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے ساختہ پر داختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا اور (جس دریا میں فرعون کو غرق کیا گیا) ہم نے بنی اسرائیل کو ( اس دریا سے پار اتار دیا ( جس کا قصہ سورة شعراء میں ہے) پھر ( پار ہونے کے بعد) ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کو لگے بیٹھے تھے ( یعنی ان کی پوجا پاٹ کر رہے تھے) کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک ( مجسم) معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے جیسے ان کے یہ معبود ہیں، آپ نے فرمایا واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں ( یہ من جانب اللہ بھی) تباہ کیا جائے گا ( جیسا کہ عادة اللہ ہمیشہ سے جاری ہے کہ حق کو باطل پر غالب کر کے اس کو درہم برہم کردیتے ہیں) اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے ( کیونکہ شرک کا بطلان یقینی وبدیہی ہے) اور) فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو تمہارا معبود بنادوں حالانکہ اس نے تم کو ( بعض نعمتوں میں) تمام دنیا جہاں والوں پر فوقیت دی ہے اور ( اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کی تائید کے لئے ارشاد فرمایا کہ) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں ( کے ظلم و ایذاء) سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے کہ تمہارے بیٹوں کو بکثرت قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو ( اپنی بیگار اور خدمت کے لئے) زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس ( واقعہ) میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزائش تھی۔- معارف ومسائل - پچھلی آیات میں قوم فرعون کی مسلسل سرکشی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف عذابوں کے ذریعہ ان کی تنبیہات کا بیان تھا، مذکورہ آیات میں ان کے انجام بد اور بنی اسرائیل کی فتح و کامرانی کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں ارشاد ہے وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا، یعنی جس قوم کو کمزور ضعیف سمجھا جاتا تھا ان کو ہم نے اس زمین کے مشرق ومغرب کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکات رکھی ہیں۔ الفاظ قرآن میں غور کیجئے، یہ نہیں فرمایا کہ جو قوم ضعیف و کمزور تھی بلکہ یہ فرمایا کہ جس کو قوم فرعون نے ضعیف و کمزور سمجھا تھا، اشارہ اس کی طرف ہے اللہ تعالیٰ جس قوم کی مدد پر ہوں وہ حقیقت میں کبھی کمزور و ذلیل نہیں ہوتی گو کسی وقت اس کے ظاہر حال سے دوسرے لوگ دھوکہ کھائیں اور ان کو کمزور سمجھیں مگر انجام کار پر سب کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کمزور و ذلیل نہ تھے، کیونکہ در حقیقت قوت وعزت حق تعالیٰ شانہ کے قبضہ میں ہے، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۔- اور زمین مالک بنانے کے لئے لفظ اَوْرَثْنَا ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کو وارث بنادیا، اس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ جس طرح وارث ہی اپنے مورث کے مال کا مستحق ہوتا ہے، باپ کی حیات ہی میں ہر شخص یہ جان لیتا ہے کہ اس کے مال و جائیداد کی مالک آخر کار اس کی اولاد ہے، اسی طرح علم الہی میں بنی اسرائیل پہلے ہی سے قوم فرعون کے ملک ومال کے مستحق تھے۔- مَشَارِقَ مشرق کی جمع ہے اور مَغَارِبَ مغرب کی، سردی گرمی کے مختلف موسموں میں مغرب سے مشرق کے بدلنے کی وجہ سے جمع کا لفظ لایا گیا، اور زمین سے مراد اس جگہ جمہور مفسرین کے قول کے مطابق ملک شام اور مصر کی سرزمین ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قوم فرعون اور قوم عمالقہ کے ہلاک ہونے کے بعد قبضہ اور حکومت عطا فرمائی۔ - اور الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا سے یہ بتلا دیا کہ ان زمینوں میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے اپنی برکات نازل فرمائی ہیں، ملک شام کے بارے میں تو قرآن کریم کی متعدد آیات میں محل برکات ہونے کا ذکر ہے الَّتِيْ بٰرَكْنَا حَولَھَا میں اسی کا بیان ہے، اسی طرح ارض مصر کے بارے میں بھی محل برکات وثمرات ہونا متعدد روایات سے نیز مشاہدات سے ثابت ہے، حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ مصر کا دریائے نیل سید الانہار یعنی دریاؤں کا سردار ہے، اور حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ برکات کے دس حصوں میں سے نو مصر میں ہیں اور باقی ایک پوری زمین میں ( بحر محیط) - خلاصہ یہ ہے کہ جس قوم کو غرور و پندار کے نشہ والوں نے اپنی کوتاہ نظری سے ذلیل و کمزور سمجھ رکھا تھا، ہم نے اسی کو ان متکبرین کی دولت و سلطنت اور ملک ومال کا مالک بنا کر دکھلا دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کا وعدہ سچا ہوتا ہے، ارشاد فرمایا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ یعنی آپ کے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوگیا۔- اس اچھے وعدے سے مراد یا تو وہ وعدہ ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کیا تھا، عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ یعنی قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کی زمین کا تمہیں مالک بنا دے۔ - اور یا وہ وعدہ ہے جو قرآن کریم میں دوسری جگہ خود حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا ہے : وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ ، یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس قوم پر احسان کریں جن کو اس ملک میں کمزور و ذلیل سمجھا گیا ہے، اور ان کو ہی سردار اور حکام بنادیں اور ان کو ہی اس زمین کا وارث قرار دیں اور اس زمین پر تصرفات کرنے کا حق دیں اور فرعون وہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز واقع کرکے دکھلا دیں جس کے ڈر سے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف طرح طرح کی تدبیریں کر رہے ہیں۔- اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں وعدے ایک ہی ہیں، اللہ تعالیٰ کے وعدے ہی کی بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا، اس آیت میں اس وعدہ کا پورا ہونا لفظ تمت سے بیان کیا گیا۔ کیونکہ وعدہ کا اتمام و تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب وہ پورا ہوجائے۔- اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل پر اس انعام و احسان کی وجہ بیان فرمادی بِمَا صَبَرُوْا یعنی اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے اللہ کے راستہ میں تکلیفیں برداشت کیں اور ان پر ثابت قدم رہے اس میں اشارہ کردیا کہ ہمارا یہ احسان و انعام کچھ بنی اسرائیل ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ ان کے عمل صبر وثابت قدمی کا نتیجہ تھا جو شخص یا جو قوم اس عمل کو اختیار کرے ہمارا انعام ہر جگہ ہر وقت اس کے لئے موجد ہے۔- فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب نصرت الہی کا وعدہ اپنی قوم سے کیا تھا اس وقت بھی انہوں نے قوم کو یہی بتلایا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور مصائب وآفات کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہی کلید کامیابی ہے۔ - حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب انسان کا مقابلہ کسی ایسے شخص یا جماعت سے ہو جس کا دفاع کرنا اس کی قدرت میں نہ ہو تو ایسے وقت کامیابی اور فلاح کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ مقابلہ نہ کرے بلکہ صبر کرے، انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی کسی کی ایذاء کا مقابلہ اس کی ایذاء سے کرتا ہے یعنی اپنا انتقام خود لینے کی فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی کے حوالے کردیتے ہیں کامیاب ہو یا ناکام، اور جب کوئی شخص لوگوں کی ایذاء کا مقابلہ صبر اور نصرت الہی کے انتظار سے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے راستے کھول دیتے ہیں۔- اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے صبر وثابت قدمی پر یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ان کو دشمن پر فتح اور زمین پر حکومت عطا کریں گے اسی طرح امت محمدیہ سے بھی وعدہ فرمایا ہے جو سورة نور میں مذکور ہے، وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ ، اور جس طرح بنی اسرائیل نے وعدہ خداوندی کا مشاہدہ کرلیا تھا، امت محمدیہ نے ان سے زیادہ واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی مدد کا مشاہدہ کیا کہ پوری زمین پر ان کی حکومت و سلطنت عام ہوگئی ( روح البیان)- یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بنی اسرائیل نے تو صبر سے کام نہیں لیا، بلکہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر کی تلقین فرمائی تو خفا ہو کر کہنے لگے اوذینَا، وجہ یہ ہے کہ اول تو ان کا صبر بمقابلہ فرعونی ایذاؤں کے اور ایمان پر ثابت قدم رہنا مسلسل ثابت ہے اگر ایک دفعہ لفظ شکایت نکل بھی گیا تو اس پر نظر نہیں کی گئی، دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ قول بطور شکایت نہ ہو بلکہ بطور اظہار رنج وغم کے ہو۔ - آیت متذکرہ میں اس کے بعد فرمایا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ، یعنی ہم نے تباہ و برباد کردیا ان سب چیزوں کو جو فرعون اور اس کی قوم بنایا کرتی تھی اور ان عمارتوں یا درختوں کو جن کو وہ بلند کیا کرتی تھی۔- فرعون اور قوم فرعون کی بنائی ہوئی چیزوں میں ان کے مکانات وعمارات اور گھریلو ضرورت کے سامان، نیز وہ مختلف قسم کی تدبیریں جو وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کے لئے کرتے تھے سب داخل ہیں، اور وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ، یعنی جس کو وہ بلند کرتے تھے، اس میں بلند محلات ومکانات بھی داخل ہیں اور بلند درخت اور وہ انگور کی بیلیں بھی جن کو چھتوں پر چڑھایا جاتا ہے۔- یہاں تک قوم فرعون کی تباہی کا ذکر تھا، آگے بنی اسرائیل کی فتح و کامرانی کے بعد ان کی سرکشی اور جہالت اور کجروی کا بیان شروع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں کے مشاہدہ کے باوجود ان لوگوں سے سرزد سوئی، جس کا مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ پچھلے انبیاء نے اپنی امت کے ہاتھوں کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائی ہیں، ان کو سامنے رکھنے سے موجود سرکشوں کی ایذاء ہلکی ہوجائے گی۔
وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا ٠ ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ٠ۥۙ بِمَا صَبَرُوْا ٠ ۭ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ١٣٧- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28]- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) - غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - دمر - قال : فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] ، وقال : ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] ، وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] ، والتدمیر : إدخال الهلاک علی الشیء، ويقال : ما بالدّار تَدْمُرِيٌّ وقوله تعالی: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] ، فإنّ مفعول دمّر محذوف .- ( د م ر ) التدمیر - ( تفعیل ) کے معنی ہیں کسی چیز پر ہلاکت لاڈالنا ۔ قرآن میں ہے :َ فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] اور ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا ۔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا ۔ وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] اور فرعون اور قوم فرعون جو ( محل بناتے اور انگور کے باغ ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ وبرباد کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] خدا نے ان پر تباہی ڈال دی ۔ میں دمر کا مفعول محذوف ہے ۔ محاورہ ہے ۔ بالدار تدمری ۔ یعنی گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ۔- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔
(١٣٧۔ ١٣٨) اور ان لوگوں کو جو کمزور شمار کیے جاتے تھے بیت المقدس، فلسطین، عدن، مصرکا وارث کردیاجس میں خوبانی اور بعض درخت تھے اور جنت یا مدد مصیبتوں یا دین پر جمے رہنے کی وجہ سے واجب کردی اور محلات اور شہروں اور درختوں اور انگوروں کو، یا جو وہ عمارتیں بناتے تھے سب کو ہلاک کردیا یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بقیہ قوم میں سے جسے رقم کہا جاتا ہے پھر اس کے بعد ان کا ایسی قوم پر سے گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کو لیے ہوئے بیٹھے تھے ،- تو کہنے لگے ہمارے لیے ایک الہ (معبود) بنادو، جیسے یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ہم بھی اس کی عبادت کیا کریں گے۔
آیت ١٣٧ (وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْہَا ط) ۔ - یہاں پر مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا کی ترکیب کی خاص ادبی ( ) اہمیت ہے جو فقرے میں ایک خوبصورت پیدا کر رہی ہے۔ اس آیت کا سادہ مفہوم یہی ہے کہ بنی اسرائیل جو مصر میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کو وہاں سے اٹھا کر پورے فلسطین کا وارث بنا دیا۔ ارض فلسطین کی خصوصی برکت کا ذکر سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں بھی بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ کے الفاظ کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ سرزمین اس لیے بھی متبرک ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد یہ سینکڑوں انبیاء کا مسکن و مدفن رہی ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک امتیازی نوعیت کی زرخیزی سے نوازا ہے۔- (وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَلا بِمَا صَبَرُوْا ط) ۔ - ان میں سے جو لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے انہوں نے واقعتا سخت ترین آزمائشوں پر صبر کیا اور ثابت قدمی دکھائی اور اس سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرمایا۔- (وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَ ) ۔ - یعنی فرعون اور اس کی قوم کی ساری تعمیرات اور ان کے سارے باغ و چمن ملیا میٹ کردیے گئے۔ - اب اگلی آیات میں بنی اسرائیل کے مصر سے صحرائے سینا تک کے سفر کا تذکرہ ہے۔ یہ واقعات مدنی سورتوں میں بھی متعدد بارآچکے ہیں۔ کی کتاب الخروج ( ) میں بھی اس سفر کی کچھ تفصیلات ملتی ہیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :97 یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین کی سر زمین کا وارث بنا دیا ۔ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ بنی اسرائیل خود سر زمین مصر کے مالک بنادیے گئے ۔ لیکن اس کے معنی کو تسلیم کرنے کے لیے نہ تو قرآن کریم کے اشارات کافی واضح ہیں اور نہ تاریخ و آثار ہی سے اس کی کوئی قوی شہادت ملتی ہے ، اس لیے اس معنی کو تسلیم کرنے میں ہمیں تامل ہے ۔ ( ملاحظہ ہو الکہف حاشیہ ۵۷ ۔ الشعراء حاشیہ ٤۵ ) ۔
61: قرآنِ کریم جب برکتوں والی زمین کا تذکرہ فرماتا ہے تو اس سے مراد شام اور فلسطین کا علاقہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں کو فرعون نے غلام بنارکھا تھا، انہیں بعد میں شام اور فلسطین کا مالک بنادیا گیا۔ یاد رہے کہ ان علاقوں پر بنی اسرائیل کی حکومت فرعون کے غرق ہونے کے کافی عرصے کے بعد قائم ہوئی، جس کی تفصیل سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲:۴۶ تا ۲۵۱ میں گزری ہے۔ 62: بنانے سے اشارہ ان عمارتوں اور صنعتی پیداوار کی طرف ہے جس پر اس قوم کو فخر تھا، اور چڑھانے سے اشارہ ان باغات کی طرف ہے جن میں انہوں نے انگور وغیرہ کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی ہوتئی تھیں، اور بلند درخت اگائے ہوئے تھے۔ قرآنِ کریم نے ان دو مختصر لفظوں کا یہ جوڑا ( ) جس جامعیت اور بلاغت کے ساتھ استعمال فرمایا ہے، اسے کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں اتارنا ممکن نہیں۔