Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شوق بت پرستی اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں ۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسکے جواب میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض ناواقف ہو ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے ۔ ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لئے بھی مقرر کر دیں ۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری ذات ہے کہ تم نے قوم موسیٰ جیسی بات کہدی کہ ہمارے لئے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے ۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں وہ باطل ہے ( ابن جریر ) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے حضرت ابو واقد لیثی تھے جواب سے پہلے یہ سوال سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

138۔ 1 اس سے بڑی جہالت اور نادانی کیا ہوگی کہ جس اللہ نے انہیں فرعون جیسے دشمن سے نہ صرف نجات دی، بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے اسے اس کے لشکر سمیت غرق کردیا اور معجزانہ طر یقہ سے دریا عبور کروا دیا۔ وہ دریا پار کرتے ہی اس اللہ کو بھول کر پتھر کے خود تراشیدہ معبود تلاش کرنے لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بت گائے کی شکل کے تھے جو پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٤] گؤسالہ پرستی کی استدعا :۔ بنی اسرائیل اگرچہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے اور اپنے موحد ہونے کا اقرار بھی کرتے تھے تاہم اس کے اندر گؤسالہ پرستی کے جراثیم ہنوز باقی تھے جس میں انہوں نے اپنی عمریں گزار دی تھیں۔ سمندر پار کرتے ہی انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بچھڑے کا ایک پیتل کا بنا ہوا بت عبادت خانہ میں اپنے سامنے رکھ کر اس کی پوجا پاٹ میں مشغول تھے انہیں دیکھ کر بنی اسرائیل کو اپنی پرانی یاد تازہ ہوگئی اور گؤ سالہ پرستی کے لیے جی للچا آیا حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات کہہ بھی دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں کہا کہ یہ تم کیسی جہالت کی باتیں کر رہے ہو ؟ ابھی تک یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکی کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔- پیکر محسوس اور تصور شیخ کی علّت اور ذات انواط :۔ بت پرست لوگ عموماً یہ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اللہ ہی کی پوجا کرتے ہیں مگر چونکہ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ ایک محسوس چیز کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے اس لیے کسی بت کو سامنے رکھنے سے ہم اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور مسلمان کسی کا بت تو سامنے نہیں رکھتے مگر اپنے شیخ کا تصور یا تصویر اس طرح اپنے ذہن میں پختہ کرتے ہیں کہ اس کا تصور یا تصویر آنکھوں کے سامنے رہے اور کہتے ہیں کہ عبادت ہم اللہ ہی کی کرتے ہیں ایسی سب باتیں شرک ہی کا پیش خیمہ ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی ہر بات سے منع فرما دیا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو چناچہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لڑائی میں تشریف لے گئے وہاں مسلمانوں نے ایک بیری کا درخت دیکھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خواہش ظاہر کی کہ جس طرح کافروں نے ایک درخت مقرر کر رکھا ہے جس پر وہ اپنے کپڑے اور ہتھیار لٹکاتے اور اس کے گرد جمے رہتے ہیں اور اسے ذات انواط کہتے ہیں اسی طرح آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا یہ تو وہی مثال ہوئی جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ ہمیں بھی ایک بت بنا دیجئے جس طرح ان لوگوں کے بت ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الفتن۔ باب لترکبن سنن من کان قبلکم )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ ، یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا، بنی اسرائیل کو قوم فرعون کے مقابلہ میں معجزانہ کامیابی حاصل ہوئی اور اطمینان ملا تو اس کا وہی اثر ہوا جو عام قوموں پر عیش و عشرت اور عزت و دولت کا ہوا کرتا ہے کہ ان میں جاہلا نہ چیزیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔- واقعہ یہ پیش آیا کہ یہ قوم ابھی ابھی اعجاز موسوی کے ساتھ دریا سے پار ہوئی اور پوری قوم فرعون کے غرق دریا ہونے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ذرا آگے بڑھی تو ایک قبیلہ پر گزر ہوا جو مختلف بتوں کی پرستش میں مبتلا تھا، بنی اسرائیل کو کچھ ان کا ہی طریقہ پسند آنے لگ موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ جیسے ان لوگوں کے بہت سے معبود ہیں آپ ہمارے بھی کوئی ایسا ہی معبود بنا دیجئے کہ ہم بھی ایک محسوس چیز کو سامنے رکھ کر عبادت کیا کریں) اللہ تعالیٰ کی ذات تو سامنے نہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ، یعنی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جن کے طریقہ کو تم نے پسند کیا ان کے اعمال سب ضائع و برباد ہیں یہ باطل کے پیرو ہیں تمہیں ان کی حرص نہ کرنا چاہئے، کیا میں تمہارے لئے اللہ کے سوا کسی کو معبود بنادوں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تم کو تمام جہاں والوں پر فضیلت بخشی ہے، مراد اس وقت کے اہل عالم ہیں کہ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ہی دوسرے سب لوگوں سے افضل واعلی تھے۔- اس کے بعد بنی اسرائیل کو ان کی پچھلی حالت یاد دلائی گئی کہ وہ فرعون کے ہاتھوں میں ایسے مجبور و مقہور تھے کہ ان کے لڑکوں کو قتل کیا جاتا تھا صرف لڑکیاں اپنی خدمت کے لئے رکھی جاتی تھیں، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برکت ودعاء سے اس عذاب سے نجات دی کیا اس احسان کا اثر یہ ہونا چاہئے کہ تم اسی رب العالمین کے ساتھ دنیا کے ذلیل ترین پتھروں کو شریک ٹھہراؤ، یہ کیسا ظلم عظیم ہے، اس سے توبہ کرو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰي قَوْمٍ يَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓي اَصْنَامٍ لَّہُمْ۝ ٠ ۚ قَالُوْا يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـہًا كَـمَا لَہُمْ اٰلِہَۃٌ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـہَلُوْنَ۝ ١٣٨- جاوز - قال تعالی: فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة 249] ، أي : تجاوز جوزه، وقال : وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف 138] ، وجَوْزُ الطریق : وسطه، وجاز الشیء كأنه لزم جوز الطریق، وذلک عبارة عمّا يسوغ، وجَوْزُ السماء : وسطها، والجوزاء قيل : سمیت بذلک لاعتراضها في جوز السماء، وشاة جوزاء أي : ابیضّ وسطها، وجُزْتُ المکان : ذهبت فيه، وأَجَزْتُهُ :- أنفذته وخلّفته، وقیل : استجزت فلانا فأجازني :- إذا استسقیته فسقاک، وذلک استعارة، والمَجَاز - من الکلام ما تجاوز موضعه الذي وضع له، والحقیقة ما لم يتجاوز ذلك .- ( ج و ز )- جو ز اطریق کے معنی راستہ کے وسط کے ہیں اسی سے جازاشئیء ہے جو کسی چیز کے جائز یا خوشگوار ہونے کی ایک تعبیر ہے گو یا ۔ اس نے وسط طریق کو لازم پکرا ۔ جو اسماء وسط آسمان ۔ الجوزاء آسمان کے ایک برج کا نام ہے کیونکہ وہ بھی وسط آسمان میں ہے سیاہ بھیڑ جس کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط سے آگے گزر جانا ؟ قرآن میں ہے فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة 249] پھر جب وہ حضرت طالوت ) اس دریا کے وسط سی آگے گزر گئے یعنی پار ہوگئے ۔ وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف 138] اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا ۔ جزت المکان کسی جگہ میں گزرنا ۔ اجزتہ میں نے اسے نافذ کردیا اس کو پیچھے چھوڑدیا ۔ ( میں نے اس سے ( جانوروں یا کھیتی کے لئے ) پانی طلب کیا چناچہ اس نے مجھے دے دیا ۔ یہ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور کسی لفظ کا حقیقی معنی وہ ہوتا ہے جو اپنے وضعی معنی میں استعمال ہو اور اس سے تجاوز نہ کرے ورنہ اسے مجازا کہتے ہیں )- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔- صنم - الصَّنَمُ : جُثَّةٌ متّخذة من فضّة، أو نحاس، أو خشب، کانوا يعبدونها متقرّبين به إلى اللہ تعالی، وجمعه : أَصْنَامٌ. قال اللہ تعالی: أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] ، لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ- [ الأنبیاء 57] ، قال بعض الحکماء : كلّ ما عبد من دون الله، بل کلّ ما يشغل عن اللہ تعالیٰ يقال له : صَنَمٌ ، وعلی هذا الوجه قال إبراهيم صلوات اللہ عليه : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] ، فمعلوم أنّ إبراهيم مع تحقّقه بمعرفة اللہ تعالی، واطّلاعه علی حکمته لم يكن ممّن يخاف أن يعود إلى عبادة تلک الجثث التي کانوا يعبدونها، فكأنّه قال : اجنبني عن الاشتغال بما يصرفني عنك .- ( ص ن م ) الصنم - کے معنی بت کے ہیں جو کہ چاندی پیتل یا لکڑی وغیرہ کا بنا ہوا ہو ۔ عرب لوگ ان چیزوں کے مجم سے بناکر ( ان کی پوچا کرتے اور انہیں تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے تھے صنم کی جمع اصنام آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَتَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً [ الأنعام 74] کہ تم بتوں کو کیوں معبود بناتے ہو۔ لَأَكِيدَنَّ أَصْنامَكُمْ [ الأنبیاء 57] میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلو نگا ۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جسے خدا کے سوا پوجا جائے بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے بیگانہ بنادے اور اس کی توجہ کو کسی دوسری جانب منعطف کردے صنم کہلاتی ہے چناچہ ابراہیم اعلیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ : اجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم 35] بازرکھنا کہ ہم اصنام کی پرستش اختیار کریں ۔ تو اس سے بھی واپسی چیزوں کی پرستش مراد ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معرفت الہی کے تحقق اور اسکی حکمت پر مطلع ہونے کے بعد یہ اندیشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اور ان کی اولاد بت پرستی شروع کردے گی ۔- إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٨ (وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ ) - بنی اسرائیل خلیج سویز کو عبور کر کے جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوئے تھے۔- (فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّہُمْ ج) ۔ - بتوں کا اعتکاف کرنے سے مراد بتوں کے سامنے پوری توجہ اور یکسوئی سے بیٹھنا ہے جو بت پرستوں کا طریقہ ہے۔ بت پرستی کے اس فلسفے پر ڈاکٹر رادھا کرشنن (١٨٨٨ ء تا ١٩٧٥ ء) نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات کے ذریعے ہندوستان کے فلسفے کو زندہ کیا۔ یہ برٹرینڈرسل (١٨٧٢ ء تا ١٩٧٠ ء) کے ہم عصر تھے اور یہ دونوں اپنے زمانے میں چوٹی کے فلسفی تھے۔ برٹرینڈ رسل ملحد تھا جبکہ ڈاکٹر رادھا کرشنن مذہبی تھا۔ اتفاق سے ان دونوں نے کم و بیش 90 سال کی عمر پائی۔ بت پرستی کے بارے میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جو کسی دیوی یا دیوتا کے نام کے بت بناتے ہیں تو ہم ان بتوں کو اپنے نفع یا نقصان کا مالک نہیں سمجھتے ‘ بلکہ ہمارا اصل مقصد ایک مجسم چیز کے ذریعے سے توجہ مرکوز کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ تصوراتی انداز میں ان دیوتاؤں کے بارے میں مراقبہ کرنا اور پوری توجہ کے ساتھ ان کی طرف دھیان کرنا بہت مشکل ہے ‘ جبکہ مجسمہ یا تصویر سامنے رکھ کر توجہ مرکوز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی انسانی کمزوری کو علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ میں اس طرح بیان کیا ہے ؂- خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر - مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر - بہر حال بنی اسرائیل نے اس بت پرست قوم کو اپنے بتوں کی عبادت میں مشغول پایا تو ان کا جی بھی للچانے لگا اور انہیں ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی۔- (قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰہًا کَمَا لَہُمْ اٰلِہَۃٌ ط) ۔ - اس قوم کی حالت دیکھ کر بنی اسرائیل کا بھی جی چاہا کہ ہمارے لیے بھی کوئی اس طرح کا معبود ہو جس کو سامنے رکھ کر ہم اس کی پوجا کریں۔ چناچہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی اسی خواہش کا اظہار کر ہی دیا۔ جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سخت ڈانٹ پلائی :- (قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ ) - تم کتنی بڑی نادانی اور جہالت کی بات کر رہے ہو

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :98 بنی اسرائیل نے جس مقام سے بحر احمر کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا ۔ یہاں سے گزر کر یہ لوگ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے ۔ اس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصّہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا ۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زَنِیمہ کے درمیان تانبے اور فیروزے کی کانیں تھیں ، جن سے اہل مصر بہت فائدہ اُٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پر چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں ۔ انہی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مفقَہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا ایک بہت بڑا بُت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقہ میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے قریب ایک اور مقام بھی تھا جہاں قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا بُت خانہ تھا ۔ غالباً انہی مقامات میں سے کسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل کو ، جن پر مصریوں کی غلامی نے مصریت زدگی کا اچھا خاصا گہرا ٹھپّا لگا رکھا تھا ، ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ۔ بنی اسرائیل کی ذہنیّت کو اہل مصر کی غلامی نے جیسا کچھ بگاڑ دیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ مصر سے نکل آنے کے ۷۰ برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع بن نُون اپنی آخری تقریر میں بنی اسرائیل کے مجمعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”تم خدا کا خوف رکھو اور نیک نیتی اور صداقت کے ساتھ اس کی پرستش کرو اور ان دیوتاؤں کو دور کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور خداوند کی پرستش کرو ۔ اور اگر خداوند کی پرستش تم کو بری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تم اسے جس کی پرستش کرو گے چن لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خداوند ہی کی پرستش کریں گے“ ( یشوع ۲٤:١٤ ۔ ١۵ ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٤۰ سال تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اور ۲۸ سال حضرت یُوشع کی تربیت و رہنمائی میں زندگی بسر کر لینے کے بعد بھی یہ قوم اپنے اندر سے ان اثرات کو نہ نکال سکی جو فراعنہ مصر کی بندگی کے دور میں اس کی رگ رگ کے اندر اتر گئے تھے ۔ پھر بھلا کیونکر ممکن تھا کہ مصر سے نکلنے کے بعد فورًا ہی جو بُت کدہ سامنے آگیا تھا اس کو دیکھ کر ان بگڑے ہوئے مسلمانوں میں سے بہتوں کی پیشانیاں اس آستانے پر سجدہ کرنے کے لیے بیتاب نہ ہو جائیں جس پر وہ اپنے سابق آقاؤں کو ماتھا رگڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

63: بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان تولے آئے تھے اور فرعون کی طرف سے پہنچنے والی مصیبتوں کو بھی انہوں نے صبر سے برداشت کیا جس کی تعریف قرآن کریم نے بھی فرمائی ہے لیکن بعد میں انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طرح طرح سے پریشان بھی کیا یہاں سے اللہ تعالیٰ اس قسم کے کچھ واقعات بیان فرمارہے ہیں۔