Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141۔ 1 یہ وہی آزمائشیں ہیں جن کا ذکر سورة بقرہ میں بھی گزرا ہے اور سورة ابراہیم میں بھی آئے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۔۔ : چوتھی یہ کہ آل فرعون سے نجات کو یاد کرو کہ اکیلے فرعون ہی نے نہیں بلکہ پوری قوم نے تمہیں غلام بنا رکھا تھا۔ ” بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ “ آزمائش انعام اور مصیبت دونوں طرح ہوتی ہے۔ اس واقعہ میں تم پر مصیبت کا ابتلا بھی آیا اور انعام کا بھی۔ تمہارے لڑکوں کا ذبح کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر لونڈیاں بنا کر ان سے کام لینا اور اپنی خواہش نفس پوری کرنا اور مردوں کو ختم کرنے کے ذریعے سے بنی اسرائیل کی نسل ختم کرنے کا منصوبہ بنانا مصیبت تھا اور اس سے نجات انعام۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ ( ٤٩) ۔- ابو واقد لیثی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حنین کی طرف نکلے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے، جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، وہ لوگ اس پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ تو (نو مسلم) لوگ کہنے لگے : ” یا رسول اللہ آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیں، جیسا کہ ان کے لیے ذات انواط ہے۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سبحان اللہ یہ تو اسی طرح کی بات ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے کوئی معبود بنا دے جس طرح ان (مشرکین) کے معبود ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر سوار ہوجاؤ گے۔ “ [ ترمذی، الفتن، باب ما جاء لترکبن سنن ۔۔ : ٢١٨٠ ] ترمذی اور البانی ; دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ۝ ٠ ۚ يُقَتِّلُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ۝ ٠ ۭ وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ۝ ١٤١ ۧ- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- آل - الآل : مقلوب من الأهل ، ويصغّر علی أهيل إلا أنّه خصّ بالإضافة إلى الأعلام الناطقین دون النکرات، ودون الأزمنة والأمكنة، يقال : آل فلان، ولا يقال : آل رجل ولا آل زمان کذا، أو موضع کذا، ولا يقال : آل الخیاط بل يضاف إلى الأشرف الأفضل، يقال : آل اللہ وآل السلطان .- والأهل يضاف إلى الكل، يقال : أهل اللہ وأهل الخیاط، كما يقال : أهل زمن کذا وبلد کذا .- وقیل : هو في الأصل اسم الشخص، ويصغّر أُوَيْلًا، ويستعمل فيمن يختص بالإنسان اختصاصا ذاتیا إمّا بقرابة قریبة، أو بموالاة، قال اللہ عزّ وجل : وَآلَ إِبْراهِيمَ وَآلَ عِمْرانَ [ آل عمران 33] ، وقال : أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ [ غافر 46] . قيل : وآل النبي عليه الصلاة والسلام أقاربه، وقیل : المختصون به من حيث العلم، وذلک أنّ أهل الدین ضربان :- ضرب متخصص بالعلم المتقن والعمل المحکم فيقال لهم : آل النبي وأمته .- وضرب يختصون بالعلم علی سبیل التقلید، يقال لهم : أمة محمد عليه الصلاة والسلام، ولا يقال لهم آله، فكلّ آل للنبيّ أمته ولیس کل أمة له آله . وقیل لجعفر الصادق رضي اللہ عنه : الناس يقولون : المسلمون کلهم آل النبي صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : کذبوا وصدقوا، فقیل له : ما معنی ذلك ؟ فقال :- کذبوا في أنّ الأمّة کا فتهم آله، وصدقوا في أنهم إذا قاموا بشرائط شریعته آله .- وقوله تعالی: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ [ غافر 28] أي : من المختصین به وبشریعته، وجعله منهم من حيث النسب أو المسکن، لا من حيث تقدیر القوم أنه علی شریعتهم .- ( ا و ل ) الآل ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل اصل میں اہل ہے کیونکہ اسکی تصغیر اھیل آتی ہے مگر اس کی اضافت ناطقین انسان میں سے ہمیشہ علم کی طرف ہوتی ہے کسی اسم نکرہ یا زمانہ یا مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں ہے اس لئے آل فلاں ( علم ) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل رجل ، آل زمان کذا وآل مکان کذا بولنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کیطرف مضاف ہوگا اس لئے آل الخیاط بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ آل اللہ یا آل السلطان کہا جائیگا ۔ مگر اھل کا لفظ مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی طرف مضاف ہوکر آجاتا ہے ۔ چناچہ جس طرح اہل زمن کذا وبلد کذا بولا جاتا ہے اسی طرح اہل اللہ واہل الخیاط بھی کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ، ، آل ، ، دراصل بمعنی شخص ہے اس کی تصغیر اویل آتی ہے اور یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوگا جس کو دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو مگر قریبی رشتہ داری یا تعلق والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ ( سورة آل عمران 33) خاندان ابراہیم اور خاندان عمران ۔ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ( سورة غافر 46) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو ۔ آل النبی ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل النبی سے آنحضرت کے رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم ومعرفت کے اعتبار سے آنحضرت کے ساتھ خصوصی تعلق حاصل ہو ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو علم وعمل کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں ان کو آل النبی اور امتہ بھی کہہ سکتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سراسر تقلیدی ہوتا ہے ان کو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کہہ سکتے اس سے معلوم ہوا کہ امت اور آل میں عموم وخصوص کی نسبت ہے یعنی ہر آل نبی اسکی امت میں داخل ہے مگر ہر امتی آل نبی نہیں ہوسکتا۔ امام جعفر صادق سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل نبی میں داخل سمجھتے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط تو اس لئے کہ تمام امت آل نبی میں داخل نہیں ہے اور صحیح اسلئے کہ وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہوجائیں تو انہیں آل النبی کہا جاسکتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ ( سورة غافر 28) اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص ۔ ۔۔۔ کہئے ۔ میں اس مرد مومن کے آل فرعون سے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ( بظاہر ) تو اس کے خصوص اہل کاروں اور فرعون شریعت کے ماننے والوں سے تھا اور مسکن - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- سام - السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ [إبراهيم 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل :- ( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال : وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر :- له سيمياء لا تشق علی البصر وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» - ( س و م ) السوم - کے - معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔- وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع مین السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مونا ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤١) اور جس وقت تمہیں فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی، جس بنا پر تمہیں نجات دی اس میں بڑی نعمت تھی یا اس کے عذاب دینے میں بڑی بھاری آزمایش تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

تقریباً یہی الفاظ سورة البقرۃ (آیت ٤٩) میں بھی گزر چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani