Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

احسانات پہ احسانات اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو اپنا وہ احسان یاد دلاتا ہے جس کی وجہ سے موسیٰ کو شرف ہم کلامی حاصل ہوا اور تورات ملی جو ان سب کے لئے باعث ہدایت و نور تھی جس میں ان کی شریعت کی تفصیل تھی اور اللہ کے تمام احکام موجود تھے ۔ تیس راتوں کا وعدہ ہوا ، آپ نے یہ دن روزوں سے گذارے ۔ وقت پورا کر کے ایک درخت کی چھال کو چبا کر مسواک کی ۔ حکم ہوا کہ دس اور پورے کر کے پورے چالیس کرو ۔ کہتے ہیں کہ ایک مہینہ تو ذوالقعدہ کا تھا اور دس دن ذوالحجہ کے ۔ تو عید والے دن وہ وعدہ پورا ہوا اور اسی دن اللہ کے کلام سے آپ کو شرف ملا اسی دن دین محمدی بھی کامل ہوا ہے ۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے آیت ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ) 5- المآئدہ:3 ) وعدہ پورا کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے طور کا قصد کیا جیسے اور آیت میں ہے کہ اے گروہ بنی اسرائیل ہم نے تمہیں دشمن سے نجات دی اور طور ایمان کا وعدہ کیا ۔ آپ نے جاتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا اور انہیں اصلاح کی اور فساد سے بچنے کی ہدایت کی ۔ یہ صرف بطور وعظ کے تھا ورنہ حضرت ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے شریف و کریم اور ذی عزت پیغمبر تھے ۔ صلوات اللہ و سلامہ علیہ و علی سائر

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

142۔ 1 فرعون اس کے لشکر کے غرق کے بعد ضرورت لاحق ہوئی کہ بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی کتاب انہیں دی جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، جس میں دس راتوں کا اضافہ کرکے اسے چالیس کردیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جاتے وقت حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جو ان کے بھائی، بھی تھے اور نبی بھی، اپنا جانشین مقر کردیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی ہدایت و اصلاح کا کام کرتے رہیں اور انہیں ہر قسم کے فساد سے بچائیں۔ اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے۔ 142۔ 2 حضرت ہارون (علیہ السلام) خود نبی تھے اور اصلاح کا کام ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں محض تذکرہ تنبیہ کے طور پر یہ نصیحتیں کیں، میقات سے یہاں مراد وقت معین ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٦] طور کے دامن میں چالیس راتیں :۔ جب بنی اسرائیل کو غلامانہ زندگی سے نجات مل گئی تو اب انہیں ایک ضابطہ یا شریعت کی ضرورت تھی اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ سینا پر بلایا کہ یہاں مبارک وادی میں آ کر تنہائی میں اللہ کی عبادت کریں اور اس کے لیے کم سے کم مدت ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر کی گئی تھی۔ تاہم سورة بقرہ میں چالیس راتوں ہی کا ذکر آیا ہے۔ اس عرصے کے لیے آپ کو حکم یہ تھا کہ دن کو روزے سے رہیں اور شب و روز اللہ کی عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ شریعت (الواح) کو اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں۔- [١٣٧] سیدنا ہارون (علیہ السلام) کی نیابت اور قوم کی گؤسالہ پرستی :۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی متلون مزاجی اور ضعیف الاعتقادی کا پورا تجربہ رکھتے تھے اس لیے کوہ سینا کو روانہ ہونے سے پیشتر اپنے بھائی سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو اس بات کی تاکید کی کہ اگر یہ لوگ میرے بعد کسی طرح کی گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا اور فساد پیدا کرنے والوں کی بات ہرگز نہ ماننا۔ گویا اس قوم کی قیادت کے جو اختیارات سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھے وہ آپ نے سب لوگوں کے سامنے سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو تفویض کردیئے۔ قوم کے متعلق سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا خدشہ سو فیصد درست نکلا۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد جلد ہی ان لوگوں نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ سیدنا ہارون (علیہ السلام) نے انہیں اپنی امکانی حد تک بہت کچھ سمجھایا لیکن یہ قوم کچھ ایسی اکھڑ واقع ہوئی تھی کہ سیدنا ہارون (علیہ السلام) کے حکم کو کچھ اہمیت ہی نہ دیتی تھی پھر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی پر ان دونوں بھائیوں میں جو مکالمہ ہوا اس کا تفصیلی ذکر آگے آ رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً ۔۔ : فرعون سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر طلب فرمایا، تاکہ انھیں کتاب دی جائے۔ پہلے تیس دن کی میعاد مقرر کی گئی، پھر اس میں دس دن کا اضافہ کردیا گیا، تاکہ ان چالیس دنوں میں موسیٰ (علیہ السلام) روزہ رکھیں اور دن رات عبادت اور تفکر و تدبر میں مصروف رہیں۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تیس راتوں کی خلوت سے عبادت اور مناجات کی عادت پڑجائے گی اور مناجات کی لذت سے آشنائی کے بعد دس راتیں بڑھانے سے بھی طبیعت پر بوجھ نہیں پڑے گا، ورنہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو پہلے ہی چالیس راتیں تھیں جو دس بڑھانے سے مکمل ہوگئیں۔ (واللہ اعلم) بعض روایات میں ہے کہ ان دس دنوں کا اضافہ اس لیے کیا گیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے تیس دن کے روزوں کے بعد مسواک کرلی، جس سے وہ بو جاتی رہی جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب تھی، مگر اس روایت کا کوئی سراغ قرآن و حدیث سے نہیں ملا، نہ کسی صحیح سند سے اس کی تائید ہوتی ہے اور مسواک سے وہ بو جاتی بھی نہیں، کیونکہ وہ درحقیقت معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے امام بخاری (رض) نے روزے دار کے لیے مسواک کے مستحب ہونے کا ایک باب مقرر فرمایا ہے : ( بَاب السِّوَاک الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ للصَّاءِمِ ) یعنی روزے دار تازہ اور خشک مسواک کرسکتا ہے۔ [ بخاری، الصوم، قبل ح : ١٩٣٤ ]- جب موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کی یہ میعاد پوری کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام فرمایا اور انھیں تورات کی الواح (تختیاں) عطا فرمائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کا مزاج سمجھتے تھے، ہارون (علیہ السلام) اگرچہ اس سے پہلے بھی اصلاح کی کوشش کرتے رہتے تھے مگر ان کی حیثیت ایک مددگار اور وزیر کی تھی، اصل قائد موسیٰ (علیہ السلام) ہی تھے، اب ان دنوں کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں اپنا خلیفہ (جانشین) مقرر فرمایا اور تاکید فرمائی کہ وہ ان کی اصلاح کرتے رہیں اور فسادیوں کے پیچھے مت لگیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ( جب بنی اسرائیل سب پریشانیوں سے مطمئن ہوگئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اب ہم کو کوئی شریعت ملے تو اس پر اطمینان کے ساتھ عمل کریں، موسیٰ (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ سے درخواست کی، حق تعالیٰ اس کا قصہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے تیس را توں کا وعدہ کیا ( کہ طور پر آکر اعتکاف کریں تو آپ کو شریعت اور کتاب تورات دی جائے گی) اور دس راتیں مزید ان تیس را توں کا تتمہ بنادیا ( یعنی تورات دے کر ان میں دس راتیں عبادت کے لئے اور بڑھا دیں جس کی وجہ سورة بقرہ میں مذکور ہوچکی ہے) اس طرح ان کے پروردگار کا ( مقرر کیا ہوا) وقت ( سب مل کر) پوری چالیس راتیں ہوگیا اور موسیٰ ( علیہ السلام) کوہ طور آنے لگے تو چلتے وقت) اپنے بھائی ہارون ( علیہ السلام) سے کہہ دیا تھا کہ میرے بعد ان لوگوں کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بدنظم لوگوں کی رائے پر عمل نہ کرنا۔- معارف ومسائل - اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا وہ واقعہ مذکور ہے جو غرق فرعون اور بنی اسرائیل کے مطمئن ہونے کے بعد پیش آیا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اب ہم مطمئن ہیں، اب ہمیں کوئی کتاب اور شریعت ملے تو ہم بےفکری کے ساتھ اس پر عمل کریں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ سے دعا کی۔- اس میں لفظ وٰعَدْنَا وعدہ سے مشتق ہے، اور وعدہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو نفع پہنچانے سے پہلے اس کا اظہار کردینا کہ ہم تمہارے لئے فلاں کام کریں گے۔- اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنا کلام نازل کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس کے لئے یہ شرط لگائی کہ تیس راتیں کوہ طور پر اعتکاف اور ذکر اللہ میں گزار دیں اور پھر ان تیس پر اور دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس کردیا۔- لفظ وٰعَدْنَا کے اصلی معنی دو طرف سے وعدے اور معاہدے کے آتے ہیں، یہاں بھی حضرت حق جل شانہ کی طرف سے عطاء تورات کا وعدہ تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے تیس چالیس راتوں کے اعتکاف کا، اس لئے بجائے وَعَدنَا کے وٰعَدْنَا فرمایا۔- اس آیت میں چند مسائل اور احکام قابل غور ہیں :- اول یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہی یہ تھا کہ اعتکاف چالیس راتوں کا کرایا جائے تو پہلے تیس اور بعد میں دس کا اضافہ کرکے چالیس کرنے میں کیا حکمت تھی، پہلے ہی چالیس راتوں کے اعتکاف کا حکم دے دیا جاتا تو کیا حرج تھا، سو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ تو کون کرسکتا ہے، بعض حکمتیں علماء نے بیان کی ہیں۔- تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس میں ایک حکمت تدریج اور آہستگی کی ہے کہ کوئی کام کسی کے ذمہ لگایا جائے تو اول ہی زیادہ مقدار کام کی اس پر نہ ڈالی جائے تاکہ وہ آسانی سے برداشت کرے، پھر مزید کام دیا جائے۔- اور تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس طرز میں حکام اور اولوالامر کو اس کی تعلیم دینا ہے کہ اگر کسی کو کوئی کام ایک معین وقت میں پورا کرنے کا حکم دیا جائے اور اس معین میعاد میں وہ پورا نہ کرسکے تو اس کو مزید مہلت دی جائے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں پیش آیا کہ تیس راتیں پوری کرنے کے بعد جس کیفیت کا حاصل ہونا مطلوب تھا وہ پوری نہ ہوئی اس لئے مزید دس راتوں کا اضافہ کیا گیا کیونکہ ان دس راتوں کے اضافہ کا جو واقعہ مفسرین نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ تیس راتوں کے اعتکاف میں موسیٰ (علیہ السلام) نے حسب قاعدہ تیس روزے بھی مسلسل رکھے بیچ میں افطار نہیں کیا، تیسواں روزہ پورا کرنے کے بعد افطار کرکے مقررہ مقام طور پر حاضر ہوئے تو حق تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ روزہ دار کے منہ سے جو ایک خاص قسم کی رائحہ معدہ کی تبخیر سے پیدا ہوجاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، آپ نے افطار کے بعد مسواک کر کے اس رائحہ کو زائل کردیا، اس لئے مزید دس روزے اور رکھیے تاکہ وہ رائحہ پھر پیدا ہوجائے۔- اور بعض روایات تفسیر میں جو اس جگہ یہ منقول ہے کہ تیسویں روزہ کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے مسواک کرلی تھی جس کے ذریعہ وہ رائحہ صوم زائل ہوگیا تھا، اس سے اس بات پر استدلال نہیں ہوسکتا کہ روزہ دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ یا ممنوع ہے کیونکہ اول تو اس روایت کی کوئی سند مذکور نہیں، دوسرے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حکم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات سے متعلق ہو عام لوگوں کے لئے نہ ہو یا شریعت موسوی میں ایسا ہی حکم سب کے لئے ہو کہ روزہ کی حالت میں مسواک نہ کی جائے، لیکن شریعت محمد یہ میں تو بحالت روزہ مسواک کرنے کا معمول حدیث سے ثابت ہے جس کو بیہقی نے بروایت عائشہ (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، خیر خصائل الصائم السواک یعنی روزہ دار کا بہترین عمل مسواک ہے۔ اس روایت کو جامع صغیر میں نقل کر کے حسن فرمایا ہے۔- فائدہ :- اس روایت پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب تلاش خضر میں سفر کر رہے تھے تو آدھے دن بھوک پر صبر نہ ہوسکا اور اپنے ساتھی سے فرمانے لگے اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ۡ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا یعنی ہمارا ناشتہ لاؤ کیونکہ اس سفر نے ہم کو تکان میں ڈال دیا اور کوہ طور پر مسلسل تیس روزے اس طرح رکھے کہ رات کو بھی افطار نہیں، یہ عجیب بات ہے ؟ - تفسیر روح البیان میں ہے کہ یہ فرق ان دونوں سفروں کی نوعیت کے سبب سے تھا، پہلا سفر مخلوق کے ساتھ مخلوق کی تلاش میں تھا، اور کوہ طور کا سفر مخلوق سے علیحدہ ہو کر ایک ذات حق سبحانہ کی جستجو میں، اس کا یہی اثر ہونا تھا کہ بشری تقاضے نہایت مضمحل ہوگئے، کھانے پینے کی حاجت اتنی گھٹ گئی کہ تیس روز تک کوئی تکلیف محسوس نہیں فرمائی۔- عبادات میں قمری حساب معتبر ہے، دنیوی معاملات میں شمسی حساب کی گنجا ئش ہے :- ایک اور مسئلہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے شرائع میں تاریخ کا حساب رات سے ہوتا ہے، کیونکہ اس آیت میں بھی تیس دن کے بجائے تیس راتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ شرائع انبیاء میں مہینے قمری معتبر ہیں اور قمری مہینہ کا شروع چاند دیکھنے سے ہوتا ہے، وہ رات ہی میں ہوسکتا ہے اس لئے مہینہ رات سے شروع ہوتا ہے پھر اس کی ہر تاریخ غروب آفتاب سے شمار ہوتی ہے، جتنے آسمانی مذہب ہیں ان سب کا حساب اسی طرح قمری مہینوں سے اور شروع تاریخ غروب آفتاب سے اعتبار کی جاتی ہے۔- قرطبی نے بحوالہ ابن عربی نقل کیا ہے کہ حساب الشمس للمنافع و حساب القمر للمناسک یعنی شمسی حساب دنیوی منافع کے لئے ہے اور قمری حساب اداء عبادات کے لئے۔ - اور یہ تیس راتیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق ماہ ذی القعدہ کی راتیں تھیں اور پھر ان پر دس راتیں ذی الحجہ کی بڑھائی گئیں، اس سے معلوم ہوا کہ تورات کا عطیہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یوم النحر (یعنی عیدالاضحی) کے دن ملا (قرطبی)- ایک مسئلہ اصلاح نفسی میں چالیس دن رات کو خاص دخل ہے۔- اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چالیس راتوں کو باطنی حالات کی اصلاح میں کوئی خاص دخل ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جو شخص چالیس روز اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب سے حکمت کے چشمے جاری فرمادیتے ہیں۔ (روح البیان)- انسان کو اپنے سب کاموں میں تدریج اور آہستگی کی تعلیم :- اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہم کاموں کے لئے ایک خاص میعاد مقرر کرنا، اور سہولت و تدریج سے انجام دینا سنت الہیہ ہے، عجلت اور جلد بازی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔- سب سے پہلے خود حق تعالیٰ نے اپنے کام یعنی پیدائش عالم کے لئے ایک میعاد چھ روز کی متعین فرماکر یہ اصول بتلادیا ہے، حالانکہ حق تعالیٰ کو آسمان زمین اور سارے عالم کو پیدا کرنے کے لئے ایک منٹ کی بھی ضرورت نہیں جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے فرمادیں کہ ہوجا وہ فورا ہوجاتی ہے مگر اس خاص طرز عمل میں مخلوق کو یہ ہدایت دینا تھی کہ اپنے کاموں کو غور وفکر اور تدریج کے ساتھ انجام دیا کریں، اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی تو اس کے لئے بھی ایک میعاد مقرر فرمائی اس میں اسی اصول کی تعلیم ہے۔ (قرطبی)- اور یہی وہ اصول تھا جس کو نظر انداز کردینا بنی اسرائیل کی گمراہی کا سبب بنا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سابق حکم خداوندی کے مطابق اپنی قوم سے یہ کہہ کر گئے تھے کہ تیس روز کے لئے جارہا ہوں یہاں جب دس روز کی مدت بڑھ گئی تو اپنی جلدبازی کے سبب لگے یہ کہنے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو کہیں گم ہوگئے، اب ہمیں کوئی دوسرا پشیوا بنالینا چاہئے۔ - اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ سامری کے دام میں پھنس کر " گوسالہ " پرستی شروع کردی، اگر غور و فکر اور اپنے کاموں میں تدریج و تامل کے عادی ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی (قرطبی)- آیت کے دوسرے جملہ میں ارشاد ہے وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ ، اس جملہ سے بھی چند مسائل اور احکام نکلتے ہیں۔ - ضرورت کے وقت ناظم امور کو اپنا قائم مقام تجویز کرنا۔- اول یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق کوہ طور پر جاکر اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ساتھی حضرت ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ یعنی میرے پیچھے آپ میری قوم میں میری قائم مقامی کے فرائض انجام دیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی کام کا ذمہ دار ہو وہ اگر کسی ضرورت سے کہیں جائے تو اس پر لازم ہے کہ اس کام کا انتظام کر کے جائے۔- نیز یہ ثابت ہوا کہ حکومت کے ذمہ دار حضرات جب کہیں سفر کریں تو اپنا قائم مقام اور خلیفہ مقرر کر کے جائے۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عام عادت یہی تھی کہ جب کبھی مدینہ سے باہر جانا ہوا تو کسی شخص کو خلیفہ بنا کر جاتے تھے، ایک مرتبہ حضرت علی مرتضی کو خلیفہ بنایا، ایک مرتبہ عبداللہ بن ام مکتوم کو، اسی طرح مختلف اوقات میں مختلف صحابہ کو مدینہ میں خلیفہ بنا کر باہر تشریف لے گئے۔ (قرطبی)- موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون (علیہ السلام) کو خلیفہ بنانے کے وقت ان کو چند ہدایات دیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس کو قائم مقام بنایا جائے اس کی سہولت کار کے لئے ضروری ہدایات دے کر جائے، ان ہدایات میں پہلی ہدایت یہ ہے کہ اَصْلِحْ ، اس میں اَصْلِحْ کا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کس کی اصلاح کرو، اس سے اشارہ اس عموم کی طرف ہے کہ اپنی بھی اصلاح کرو اور اپنی قوم کی بھی، یعنی جب ان میں کوئی بات فساد کی محسوس کرو تو ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرو، دوسری ہدایت یہ دی کہ لَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ یعنی فساد کرنے والوں کے راستہ کا اتباع نہ کرو، ظاہر ہے کہ ہارون (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں، ان سے فساد میں مبتلا ہونے کا تو خطرہ نہ تھا اس لئے اس ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ مفسدین کی مدد یا ہمت افزائی کا کوئی کام نہ کرو۔ - چنانچہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب قوم کو دیکھا کہ سامری کے پیچھے چلنے لگے یہاں تک کہ اس کے کہنے سے گوسالہ پرستی شروع کردی تو قوم کو اس بےہودگی سے روکا اور سامری کو ڈانٹا۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے واپسی کے بعد جب یہ خیال کیا کہ ہارون (علیہ السلام) نے میرے پیچھے اپنے فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی تو ان سے مواخذہ فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو بد نظمی اور بےفکری ہی کو سب سے بڑی بزرگی سمجھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَۃً وَّاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَۃً۝ ٠ ۚ وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْہِ ہٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ١٤٢- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- وقت - الوَقْتُ : نهاية الزمان المفروض للعمل، ولهذا لا يكاد يقال إلّا مقدّرا نحو قولهم : وَقَّتُّ كذا : جعلت له وَقْتاً. قال تعالی: إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] . وقوله : وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] . والمِيقَاتُ : الوقتُ المضروبُ للشیء، والوعد الذي جعل له وَقْتٌ. قال عزّ وجلّ : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] ، إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] ، إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] ،- ( و ق ت ) الوقت - ۔ کسی کام کے لئے مقرر زمانہ کی آخری حد کو کہتے ہیں ۔ اس لئے یہ لفظ معنین عرصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ وقت کذا میں نے اس کے لئے اتنا عرصہ مقرر کیا ۔ اور ہر وہ چیز جس کے لئے عرصہ نتعین کردیا جائے موقوت کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات ( مقرر ہ ) میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ۔ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] اور جب پیغمبر اکٹھے کئے جائیں ۔ المیفات ۔ کسی شے کے مقررہ وقت یا اس وعدہ کے ہیں جس کے لئے کوئی وقت متعین کیا گیا ہو قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] بیشک فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن اٹھنے کا وقت ہے ۔ إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے ۔ اور کبھی میقات کا لفظ کسی کام کے لئے مقرر کردہ مقام پر بھی بالا جاتا ہے ۔ جیسے مواقیت الحج یعنی مواضع ( جو احرام باندھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ واتممنھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ۔ ہم نے موسیٰ کو تیس شب و روز کے لئے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا۔ اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہوگئی) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ) اس لئے فرمایا کہ جب یہ ارشاد ہوا کہ ثلثین لیلۃ واتمماھا بعشر) تو سننے والوں کے لئے اس وہم کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی کہ شاید پہلے بیس راتیں تھیں اور پھر اس تعداد میں دس کا اضافہ ہوا اور اس طرح تیس راتیں ہوگئیں اللہ تعالیٰ نے اس وہم اور گنجائش کو زائل کردیا اور یہ بتادیا کہ اس نے تیس راتوں میں مزید دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس کی تعداد پوری کردی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٢) یعنی پورے ذی قعدہ کے مہینہ میں پہاڑ پر رہنے کا وعدہ کیا اور ذی الحجہ کے دس دن کا اور اضافہ کردیا، سو ان کے پروردگا کا یہ وقت مقرر ہوگیا اور اپنے بھائی سے کہنے لگے میرے قائم مقام ہوجاؤ اور ان کو نیکی کا حکم دو اور ان کے ساتھ برائی میں شامل نہ ہونا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٢ (وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً ) - یعنی کوہ سینا (طور) پر طلب کیا۔ عام طور پر اس طرح کہنے سے دن رات ہی مراد ہوتے ہیں ‘ لیکن عربی محاورہ میں رات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔- (وَّاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ج) ۔ - اس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طور پر چلہ مکمل کیا ‘ جس کے دوران آپ نے لگاتار روزے بھی رکھے۔ ہمارے ہاں صوفیاء نے چلہ کاٹنے کا تصور غالباً یہیں سے لیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :99 مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرئیل کی غلامانہ پابندیاں ختم ہوگئیں اور اُنہیں ایک خود مختار قوم کی حیثیت حاصل ہوگئی تو حکمِ خداوندی کے تحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ سینا پر طلب کیے گئے تا کہ انہیں بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا فرمائی جائے کہ حضرت موسیٰ ایک پورا چِلّہ پہاڑ پر گزاریں اور روزے رکھ کر ، شب و روز عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اس قول ثقیل کے اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں جو ان پر نازل کیا جانے والا تھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس ارشاد کی تعمیل میں کوہ سینا جاتے وقت بنی اسرائیل کو اس مقام پر چھوڑا تھا جو موجودہ نقشہ میں نبی صالح اور کوہ سینا کے درمیان وادی ایشخ کے نام سے موسوم ہے ۔ اس وادی کا وہ حصہ جہاں بنی اسرائیل نے پڑاؤ کیا تھا آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے ۔ وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے بموجب حضرت صالح علیہ السلام ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے ۔ آج وہاں ان کی یادگار میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نامی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے ناراض ہو کر جابیٹھے تھے ۔ تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے اور جس کی بلندی ۷۳۹۵ فیٹ ہے ۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہِ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چلّہ کیا تھا ۔ اس کے قریب مسلمانوں کی ایک مسجد اور عیسائیوں کا ایک گرجا موجود ہے اور پہاڑ کے دامن میں رومی قیصر جسٹنین کے زمانہ کی ایک خانقاہ آج تک موجود ہے ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو النمل ، حواشی ۹ ۔ ١۰ ) ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :100 حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تین سال بڑے تھے لیکن کار نبوّت میں حضرت موسیٰ کے ماتحت اور مددگار تھے ۔ ان کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے ان کو اپنے وزیر کی حیثیت سے مانگا تھا جیسا کہ آگے چل کر قرآن مجید میں بتصریح بیان ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

64: فرعون سے نجات پانے اور سمندر عبور کرلینے کے بعد کچھ واقعات اس جگہ بیان نہیں ہوئے، ان کی کچھ تفصیل سور مائدہ (20:50 تا 26) میں گذر چکی ہے۔ ان آیات کے حواشی میں ہم نے یہ تفصیل بقدر ضرورت بیان کردی ہے۔ اب یہاں سے دو واقعات بیان فرمائے جا رہے ہیں جو وادی تیہ (صحرائے سینا) میں پیش آئے جہاں بنی اسرائیل کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے چالیس سال تک مقید کردیا گیا (جس کا واقعہ سورۃ مائدہ میں گذارا ہے) اس دوران انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں کوئی آسمانی کتاب لا کردیں جس میں ہمارے لیے زندگی گذارنے کے قوانین درج ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ کوہ طور پر آکر تیس دن رات اعتکاف کریں۔ بعد میں کسی مصلحت سے یہ مدت بڑھا کر چالیس دن کردی گئی۔ اسی اعتکاف کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا، اور تورات عطا فرمائی جو تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔