طلب زیارت اور موت وعدے کے مطابق حضرت موسیٰ طور پہاڑ پر پہنچے ، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی ، جواب ملا کہ یہ تیرے لئے ناممکن ہے ۔ اس سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہوگا کیونکہ لن ابدی نفی کے لئے آتا ہے لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مومنوں کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہوگا ۔ وہ حدیثیں آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22ۙ ) 75- القيامة:22 ) اور آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ 15ۭ ) 83- المطففين:15 ) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالٰی ، ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لئے نہ کہ آخرت کے لئے بھی ۔ کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مومنوں کو قطعاً ہوگا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے اس طرح کوئی معارضہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہ آیت مثل ( لا تدرکہ الا بصار ) کے ہے جس کی تفسیر سورۃ انعام میں گذر چکی ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے وہ مر جائے ۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا ۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں چنانجہ پہاڑ کا حال خود کلیم اللہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بیہوش ہوگئے ۔ امام ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضور فرماتے ہیں کہ جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی ، اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ چکنا چور ہو گیا ۔ راوی حدیث ابو اسماعیل نے اپنے شاگردوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ، لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام واضح نہیں کیا گیا ، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کو اپنی چھنگلیا کی اوپر کی پور پر رکھ کر بتایا کہ اتنے سے جمال سے پہاڑ زمین کے ساتھ ہموار ہو گیا ۔ مسند کی روایت میں ہے کہ حمید نے اپنے استاد سے کہا اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو استاد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ حضرت انس بن مالک سے میں نے یہ سنا اور انہوں نے آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ ترمذی میں بھی یہ ہدایت ہے اور امام صاحب نے اسے حسن صحیح غریب فرمایا ہے ۔ مستدرک میں اسے وارد کر کے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم پر ہے اور صحیح ہے ۔ خلال کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں ۔ ابن مردویہ میں بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن اس کی بھی سند صحیح نہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں صرف بقدر چھنگلی انگلی کے تجلی ہوئی تھی جس سے وہ مٹی کی طرح چور چور ہو گیا اور کلیم اللہ بھی بیہوش ہوگئے ۔ کہتے ہیں وہ پہاڑ دھنس گیا سمندر میں چلا گیا اور حضرت موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے بعض بزرگ فرماتے ہیں وہ پہاڑ اب قیامت تک ظاہر نہ ہوگا بلکہ زمین میں اترتا چلا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے اس تجلی سے چھ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ گئے جن میں سے تین مکے میں ہیں اور تین مدینے میں ۔ احد رقان اور رضوی مدینے میں ۔ حرا ، ثبیر اور ثور مکے میں ۔ لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ کہتے ہیں کہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے پہاڑ بالکل صاف تھے اس کے بعد ان میں غار اور کھڈ اور شاخیں قائم ہوگئیں ۔ جناب کلیم اللہ کی آرزو کے جواب میں انکار ہوا اور پھر مزید تشفی کے لئے فرمایا گیا کہ میری ادنیٰ سی تجلی کی برداشت تجھ سے تو کیا بہت زیادہ قوی مخلوق میں بھی نہیں ۔ دیکھ پہاڑ کی جانب خیال رکھ پھر اس پر اپنی تجلی ڈالی جس سے پہاڑ جھک گیا اور موسیٰ بیہوش ہوگئے صرف اللہ کی نظر نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا وہ بالکل مٹی ہو کر ریت کا میدان ہو گیا ۔ بعض قرأت وں میں اسی طرح ہے اور ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے ۔ حضرت موسیٰ کو غشی آگئی یہ ٹھیک نہیں کہ موت آ گئی گولغتاً یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے آیت ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68 ) 39- الزمر:68 ) میں موت کے معنی ہیں ۔ لیکن وہاں قرینہ موجود ہے جو اس لفظ سے اسی معنی کے ہونے کی تائید کرتا ہے اور یہاں کا قرینہ بیہوشی کی تائید کرتا ہے کیونکہ آگے فرمان ہے آیت ( فلما افاق ) ظاہر ہے کہ افاقہ بیہوشی سے ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ ہوش میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تعظیم و جلال بیان فرمانے لگے کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی زندہ اس کے جمال کی تاب نہیں لا سکتا ۔ پھر اپنے سوال سے توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب بنی اسرائیل سے پہلے میں ایمان لانے والا بنتا ہوں ۔ میں اس پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ واقعی کوئی زندہ آنکھ تجھے دیکھ نہیں سکتی ۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ سے پہلے کوئی مومن ہی نہ تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کا دیدار زندوں کے لئے ناممکن ہے ۔ ابن جریر میں اس آیت کی تفسیر میں محمد بن اسحاق بن یسار کی روایت سے ایک عجیب وغریب مطول اثر نقل کیا گیا ہے عجب نہیں کہ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہو واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک یہود کو کسی نے ایک تھپڑ مارا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لایا کہ آپ کے فلاں انصاری صحابی نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔ آپ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا ۔ اس نے کہا سچ ہے ۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ کہہ رہا تھا اس اللہ کی قسم ہے جس نے موسیٰ کو تمام جہاں پر فضیلت دی تو میں نے کہا کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ؟ اور غصے میں آ کر میں نے اسے تھپڑ مار دیا ۔ آپ نے فرمایا سنو نبیوں کے درمیان تم مجھے فضیلت نہ دیا کرو ۔ قیامت میں سب بیہوش ہوں گے سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ تھامے ہوئے ہیں ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوا ؟ یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش ہی نہیں ہوئے؟ یہ حدیث بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور مسلم شریف میں بھی ہے اور ابو داؤد میں بھی ہے ۔ بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا جھگڑا ہو گیا اس پر مسلمان نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان پر فضیلت دی اور یہودی نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر فضیلت دی ۔ اس پر مسلمان نے اسے تھپڑ مارا ۔ اس روایت میں ہے کہ شاید موسیٰ ان میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے بیہوشی سے استثنا کر لیا ۔ حافظ ابو بکر ابن ابی الدنیا رحمتہ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ یہ تھپڑ مارنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ لیکن بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہ کوئی انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح ہے واللہ اعلم ۔ اس حدیث میں یہ فرمان کہ تم نبیوں کے درمیان مجھے فضیلت نہ دو ایسا ہی ہے جیسے اور حدیث میں بھی فرمان ہے کہ نبیوں میں مجھے فضیلت نہ دو ۔ نہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت دو ۔ یہ فرمان بطور تواضع کے ہے یا یہ فرمان اس سے پہلے ہے کہ آپ کو اپنی فضیلت کا علم اللہ کی طرف سے ہوا ہو ۔ یا یہ مطلب ہے کہ غصے میں آ کر یا تعصب کی بنا پر مجھے فضیلت نہ دو یا یہ کہ صرف اپنی رائے سے میری فضیلت قائم نہ کرو ۔ واللہ اعلم ۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش ہوں گے یہ بہوشی میدان قیامت کی بعض ہولناکیوں کی وجہ سے ہوگی واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے یہ اس وقت کا حال ہو جب الہ الملک و دیان تبارک و تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرنے کیلئے تشریف لائے گا تو اس کی تجلی سے لوگ بیہوش ہو جائیں گے ۔ جیسے حضرت موسیٰ اللہ کے جمال کی برداشت کو طور پر نہ لا سکے ۔ اسی لئے آپ کا فرمان ہے کہ نہ معلوم مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہوا یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش نہ ہوئے ۔ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الشفا کے شروع میں لکھتے ہیں کہ دیدار الٰہی کی اس تجلی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس چیونٹی کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے جو دس فرسخ دور رات کے اندھیرے میں کسی پتھر پر چل رہی ہو اور بہت ممکن ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا معراج کے واقعہ کے بعد مخصوص ہوئے ہوں اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا قاضی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس کی سند غور طلب ہے ۔ اس میں مجہول راوی ہیں اور ایسی باتیں جب تک ثقہ راویوں کے سلسلے نہ ثابت ہوں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ واللہ اعلم ۔
143۔ 1 جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پر گئے اور وہاں اللہ نے ان سے براہ راست گفتگو کی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں اللہ کو دیکھنے کے شوق کا اظہار رَ بِ اَرِنِیْ کہہ کر کیا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَنْ تَرٰنِیْ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا اس سے استدلال کرتے ہوئے مسلمانوں کے کے ایک فرقہ نے کہا کہ لَنْ نَفْیُ نَاْبِیْدٍ (ہمیشہ کی نفی) کے لئے آتا ہے۔ اس لئے اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں۔ لیکن فرقہ کا یہ مسلک صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ متواتر صحیح اور قوی روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الٰہی سے مشرف ہونگے، تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ اس روایت کا تعلق صرف دنیا سے ہے، دنیا میں کوئی انسانی آنکھ اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرما دے گا کہ وہ اللہ کے جلوے کو برداشت کرسکے۔ 143۔ 2 یعنی وہ پہاڑ بھی رب کی تجلی کو برداشت نہ کرسکا اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہو کر گرپڑے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن سب لوگ بےہوش ہونگے، (یہ بےہوشی امام ابن کثیر کے بقول میدان محشر میں اس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے کے لئے نزول اجلال فرمائے گا) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوش میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا انہیں کوہ طور کی بےہوشی کے بدلے میں میدان محشر کی بےہوشی سے مستثنٰی رکھا گیا۔ (صحیح بخاری) 143۔ 3 تیری عظمت و جلالت کا اور اس بات کا کہ میں تیرا عاجز بندہ ہوں، دنیا میں تیرے دیدار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
[١٣٨] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا مطالبہ دیدار اور آپ کا بےہوش کر گرپڑنا :۔ چالیس دن کی اس شبانہ روز عبادت و ریاضت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی مخصوص و ممتاز رنگ میں شرف کلام بخشا۔ آپ کو بلا واسطہ اللہ کی بات سننے سے عجیب لذت حاصل ہوئی اور اسی لذت کے اثر سے دل میں متکلم کے دیدار کی آرزو پیدا ہوئی تو بےساختہ دیدار کے لیے درخواست کردی کہ الہٰی درمیان سے یہ حجاب اور موانع دور کر دے تاکہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں جواب ملا کہ تم اس فنا ہونے والے وجود اور فانی آنکھوں سے میرے دیدار کے کبھی متحمل نہ ہو سکو گے۔ اگر اتنی ہی آرزو ہے تو اس پہاڑ کی طرف دیکھو جس پر میں تھوڑا سا اپنی تجلیات کا پرتو ڈالوں گا اگر پہاڑ اس پرتو کو برداشت کرسکا اور وہ اپنی جگہ قائم رہا تو شاید تم بھی برداشت کرسکو اور یہ بات اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھی کہ یہ پرتو نہ پہاڑ برداشت کرسکے گا اور نہ موسیٰ (علیہ السلام) ۔ جیسا کہ پہلے ہی کہہ دیا تھا اور یہ بات صرف اس لیے کہی تھی کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی دل شکنی نہ ہو۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنا پرتو ڈالا تو وہ ریزہ ریزہ ہو کر زمین بوس ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) جو پاس کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے اس دہشت سے بےہوش ہو کر گرپڑے۔ جب ہوش آیا تو پہلی بات یہ کی کہ میں نے جو یہ ناجائز قسم کا مطالبہ کردیا تھا اس سے توبہ کرتا ہوں، تیری عظمت و جلال کا اقرار کرتا ہوں اور اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اس فانی دنیا میں اور ان فانی آنکھوں سے تیرا دیدار ناممکن ہے۔ لیکن جب یہ فانی دنیا ہی تبدیل کردی جائے گی اور انسانی قویٰ اور بالخصوص اس کی آنکھوں میں ایسی تبدیلی لائی جائے گی کہ وہ دیدار الہی کی متحمل ہو سکیں تو ایک مرتبہ لوگوں پر ایسا ہی غشی کا عالم طاری ہوگا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) پر اس دنیا میں طاری ہوا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا : میقات سے مراد مقرر کردہ وقت ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے حاضری کا وعدہ تھا، اس لیے ” وٰعَدْنَا “ (باب مفاعلہ) استعمال فرمایا جو دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔- وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ : یعنی کسی واسطے کے بغیر کلام فرمایا۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٣) اور نساء (١٦٤) یہ ان کا اللہ سے ہم کلام ہونے کا دوسرا موقع تھا۔ پہلے موقعے کا ذکر سورة طٰہ (١٢) میں ہے، جب آگ لینے گئے تھے اور رسالت سے سرفراز ہوئے تھے۔ واسطے کے بغیر اس لیے کہ فرشتے کے ذریعے سے یا دل میں ڈال کر تو ہر نبی سے کلام ہوتا تھا، جسے ” وحی “ کہتے ہیں، پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت کیا ہوئی ؟ جس کا ذکر تمام لوگ قیامت کے دن موسیٰ (علیہ السلام) سے کرکے سفارش کی درخواست کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا۔ مشرک یونانیوں کے فلسفی عقائد سے متاثر لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کلام کر ہی نہیں سکتا، اس لیے یہاں ایسا کلام مراد ہے جس میں نہ لفظ تھے نہ آواز۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یہ بات تمہیں قرآن مجید کی کس آیت یا حدیث سے معلوم ہوئی ؟ قرآن مجید نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ” کلام “ کا لفظ استعمال فرمایا اور ” ندا “ کا بھی۔ دیکھیے سورة شعراء (١٠) اللہ کے کلام کرنے کے منکروں نے کہا، کلام سے مراد کلام نفسی ہے جو دل میں ہوتا ہے۔ مگر وہ تو سنائی نہیں دیتا اور وہ تو گونگوں کے دل میں بھی ہوتا ہے، اسے آپ سوچ، فکر اور ارادہ وغیرہ کہہ سکتے ہیں، مگر الفاظ کے نکلے بغیر کلام کیسے بن گیا ؟ تم نے اللہ تعالیٰ کی کیا قدر کی کہ اسے بولنے سے معذور قرار دے کر گونگوں کے برابر کردیا یہ لوگ قرآن کو بھی اللہ کا کلام نہیں مانتے، بلکہ اسے مخلوق کہتے ہیں کہ جو مفہوم اور معانی اللہ تعالیٰ کی ذات کے اندر موجود تھے اللہ تعالیٰ نے وہ معانی موسیٰ (علیہ السلام) کو پہچانے کے لیے ہوا میں ایسے لفظ پیدا کردیے جو وہ مفہوم ادا کرتے ہیں۔ اس لیے قرآن اللہ کا کلام نہیں، اس کی مخلوق ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مخلوق تو فنا بھی ہوسکتی ہے، اس لیے قرآن سے جان چھڑانے کا ایک حیلہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ قرآن اللہ کی مخلوق تھا، فنا ہوگیا، لہٰذا اب عمل کی ضرورت نہیں۔ ان لوگوں سے بس ایک ہی سوال ہے جو امام اہل السنہ احمد ابن حنبل (رح) نے ان سے بار بار اور مسلسل کیا کہ بتاؤ یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہاں فرمائی ہے ؟ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی فرمان اس کے ثبوت کے لیے پیش کرو ؟ محض فلسفیوں کے دماغ کی خرابی سے دین کبھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ تو کلام اللہ کو مخلوق کہنے والے اور اسے اللہ کی صفت ماننے کے منکر آخر وقت تک یہ مطالبہ پورا نہ کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں۔ - قَالَ رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ۔۔ : فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلام کی لذت سے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں ایسا شوق پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کردی کہ پروردگار اپنا آپ مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں، فرمایا : ( لَنْ تَرٰىنِيْ ) ” تو مجھے ہرگز نہ دیکھے گا۔ “ یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کسی آنکھ میں یہ طاقت نہیں رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کو برداشت کرسکے۔ رہا آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار تو وہ مومنوں کے حق میں قرآن مجید کی آیات اور متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قیامہ (٢٢، ٢٣) شاہ عبد القادر (رض) نے اس مقام پر لکھا ہے : ” یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کو دیکھنا ہے، گمراہ لوگ منکر ہیں کہ ان کے نصیب میں نہیں۔ “ (موضح)- وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ : یعنی جب میں پہاڑ پر تجلی فرماؤں تو دیکھ اگر۔۔ یہ مشاہدہ کروا کر موسیٰ (علیہ السلام) کی دل جوئی فرمائی کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا کوئی برداشت ہی نہیں کرسکتا، تاکہ وہ درخواست قبول نہ ہونے پر دل گیر نہ ہوں۔ - فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ ۔۔ : ” تَجَلّٰى“ یہ ” جَلَا یَجْلُوْ جَلْوَۃً “ سے باب تفعل ہے۔ ” جَلَا “ کا معنی ظاہر کرنا، پردہ ہٹانا ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے - وَجَلَا السُّیُوْلُ عَنِ الطُّلُوْلِ کَأَنَّھَا - زُبُرٌ تُجِدُّ مُتُوْنَھَا اَقْلَامُھَا - ” سیلابوں نے پرانے کھنڈر اس طرح ظاہر کردیے جیسے وہ ایسی کتابیں ہیں جن کے قلم ان کے متون کو نیا کردیتے ہیں۔ “ - ” تَجَلّٰى“ کا معنی ظاہر ہوا۔ ” دَكًّا “ مصدر ہے۔ ” دَکَّ یَدُکُّ “ (ن) اور ” دَقَّ یَدُقُّ “ قریب قریب معنی رکھتے ہیں، یعنی کسی چیز کو کوٹ کر ریزہ ریزہ کردینا۔ یہاں ” دَكًّا “ مفعول مطلق ہے، یعنی ” دَکَّہُ دَکًّا “ کہ اسے ریزہ ریزہ کردیا۔ قرآن مجید میں ہے : (اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا) [ الفجر : ٢١ ] اور (وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً ) [ الحآقۃ : ١٤ ] ” اَرْضٌ دَکَّاءٌ“ اس زمین کو بھی کہتے ہیں جو برابر اور ہموار ہو، یعنی جب رب تعالیٰ پہاڑ کے لیے ظاہر ہوا تو اس جلوے نے پہاڑ کو زمین کے برابر کردیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا جلوہ تو کجا پہاڑ کی حالت دیکھنے کی تاب بھی نہ لاسکے، بلکہ بےہوش ہو کر گرپڑے۔ بعض لوگوں نے ” صَعِقًا “ کا معنی کیا ہے کہ فوت ہو کر گرپڑے، اگرچہ ” صَعِقًا “ اس معنی میں بھی آتا ہے، مگر ”ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ “ (جب اسے ہوش آیا) کے الفاظ بتاتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) فوت نہیں بلکہ بےہوش ہوئے تھے۔ انس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے متعلق بیان کرتے ہیں : ( فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا) [ الأعراف : ١٤٣] فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (سمجھانے کے لیے) اپنا انگوٹھا انگلی کے پورے کے قریب رکھا ( اور فرمایا) ” تو پہاڑ دھنس گیا۔ “ [ ابن أبی عاصم فی السنۃ : ٤٨٠، و صححہ الألبانی ]- قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ : تو پاک ہے (کہ تجھے دنیا میں کوئی دیکھ سکے) میں توبہ کرتا ہوں (اس بات سے کہ تیری اجازت کے بغیر تجھے دیکھنے کی درخواست کر بیٹھا)- وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ : اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں، یعنی تجھ پر اور تیری عظمت و جلال پر، یا اس پر کہ کوئی تجھے قیامت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” موسیٰ (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے بزرگی دی کہ فرشتے کے بغیر خود کلام فرمایا، ان کو شوق ہوا کہ دیدار بھی کروں، اس کی برداشت نہ ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہے، کیونکہ نمود (ظہور) ہوا تھا پہاڑ کی طرف، لیکن دنیا کے وجود کو برداشت نہ ہوئی مگر آخرت کے وجود کو برداشت ہوگی، وہاں دیکھنا یقینی ہے۔ “ (موضح)
خلاصہ تفسیر - اور جب موسیٰ (علیہ السلام اس واقعہ میں) ہمارے وقت (موعود) پر آئے (تھے جس کا قصہ بیان ہورہا ہے) اور ان کے رب نے ان سے (بہت سی لطف و عنایت کی) باتیں کیں تو (شدت انبساط سے دیدار کا اشتیاق پیدا ہوا) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو دکھلا دیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں۔ ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو دنیا میں) ہرگز نہیں دیکھ سکتے ( کیونکہ یہ آنکھیں تاب جمال نہیں لاسکتیں، کما فی المشکوة عن مسلم لاحرقت سبحات وجھہ) لیکن (تمہاری تشفی کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہ) تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو (ہم اس پر ایک جھلک ڈالتے ہیں) سو اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہا تو (خیر) تم بھی دیکھ سکو گے (غرض موسیٰ (علیہ السلام) اس کی طرف دیکھنے لگے) پس ان کے رب نے جو اس پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس (پہاڑ) کے پرخچے اڑادیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہو کر گرپڑے، پھر جب افاقہ میں آئے تو عرض کیا بیشک آپ کی ذات (ان آنکھوں کی برداشت سے) منزہ (اور بلند) ہے میں آپ کی جناب میں (اس مشتاقانہ درخواست سے) معذرت کرتا ہوں اور (جو کچھ حضور کا ارشاد ہے کہ لن ترنی) سب سے پہلے میں اس پر یقین کرتا ہوں، ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) (یہی بہت ہے کہ) میں نے (تم کو) اپنی (طرف سے) پیغمبری (کا عہدہ دے کر) اور اپنے (ساتھ) ہم کلامی (کا شرف بخش کر اس) سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے تو (اب) جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے (رسالت و ہم کلامی و توریت) اس کو لو اور شکر کرو اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی (ضروری) نصیحت اور (احکام ضروریہ کے متعلق) ہر چیز کی تفصیل ان کو لکھ کردی (یہی تختیاں تورات ہیں، پھر حکم ہوا کہ جب کہ تختیاں ہم نے دی ہیں) تو ان کو کوشش کے ساتھ (خود بھی) عمل میں لاؤ اور اپنی قوم کو (بھی) حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر (یعنی سب پر کہ سب ہی اچھے ہیں) عمل کریں میں اب بہت جلد تم لوگوں کو (یعنی بنی اسرائیل کو) ان بےحکموں کا (یعنی فرعونیوں کا یا عمالقہ کا) مقام دکھلاتا ہوں (اس میں بشارت اور وعدہ لے کہ مصر یا شام پر عنقریب تسلط ہوا چاہتا ہے، مقصود اس سے ترغیب دینا ہے اطاعت کی کہ اطاعت احکام الہیہ کے یہ برکات ہیں) - معارف ومسائل - لَنْ تَرٰىنِيْ ، (یعنی آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے) اس میں اشارہ ہے کہ رؤ یت ناممکن نہیں مگر مخاطب بحالت موجودہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا، ورنہ اگر رؤ یت ممکن ہی نہ ہوتی تو لَنْ تَرٰىنِيْ کے بجائے لَنْ اَرٰی کہا جاتا کہ میری رؤ یت نہیں ہو سکتی (مظہری) اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بھی عقلا ممکن تو ہے مگر اس آیت سے اس کا ممتنع الوقوع ہونا بھی ثابت ہوگا اور یہی مذہب ہے جمہور اہل سنت کا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رؤ یت عقلا ممکن ہے مگر شرعا ممتنع، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے لن یری احد منکم ربہ حتی یموت، یعنی تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔ - وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ ، اس میں اس امر کی شہادت ہے کہ بحالت موجودہ مخاطب رؤ یت الہی کو برداشت نہیں کرسکتا اس لئے پہاڑ پر ادنی سی جھلک ڈال کر بتلا دیا گیا کہ وہ بھی برداشت نہیں کرسکتا، انسان تو ضعیف الخلقت ہے وہ کیسے برداشت کرے۔- فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ تجلی کے معنی عربی لغت میں ظاہر اور منکشف ہونے کے ہیں، اور صوفیہ کرام کے نزدیک تجلی کے معنی کسی چیز کو بالواسطہ دیکھنے کے ہیں، جسے کوئی چیز بواسطہ آئینہ کے دیکھی جائے، اسی لئے تجلی کو رؤ یت نہیں کہہ سکتے، خود اسی آیت میں اس کی شہادت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رؤ یت کی تو نفی فرمائی اور تجلی کا اثبات۔- امام احمد، ترمذی، حاکم نے بروایت انس (رض) نقل کیا ہے اور اس کی سند کو ترمذی وحاکم نے صحیح قرار دیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کی تلاوت فرما کر ہاتھ کی چھوٹی انگلی ( خنصر) کے سرے پر انگوٹھا رکھ کر اشارہ فرمایا کہ اللہ جل شانہ کے نور کا صرف اتنا سا حصہ ظاہر کیا گیا تھا جس سے پہاڑ کے ٹکڑے اڑ گئے، یہ ضروری نہیں کہ سارے پہاڑ کے ٹکڑے ہوگئے ہوں بلکہ جس حصہ پر حق تعالیٰ نے یہ تجلی فرمائی وہ حصہ ہی اس سے متاثر ہوا ہو۔
وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ٠ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ٠ ۭ قَالَ لَنْ تَرٰىنِيْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَـبَلِ فَاِنِ اسْـتَــقَرَّ مَكَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ ٠ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰي صَعِقًا ٠ ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٤٣- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- کلام - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع،- فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5]- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر - کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر :- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- اسْتَقَرَّ- فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے - «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- جلو - أصل الجَلْو : الکشف الظاهر، يقال : أَجْلَيْتُ القوم عن منازلهم فَجَلَوْا عنها . أي : أبرزتهم عنها، ويقال : جلاه، نحو قول الشاعر : فلما جلاها بالأيام تحيّزت ... ثبات عليها ذلّها واكتئابهاوقال اللہ عزّ وجل : وَلَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيا - [ الحشر 3] ، ومنه : جَلَا لي خَبَرٌ ، وخَبَرٌ جَلِيٌّ ، و قیاس جليّ ، ولم يسمع فيه جال . وجَلَوْتُ العروس جِلْوَة، وجَلَوْتُ السیف جَلَاءً ، والسماء جَلْوَاء أي : مصحية، ورجل أَجْلَى: انکشف بعض رأسه عن الشعر، والتَّجَلِّي قد يكون بالذات نحو : وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى [ اللیل 2] ، وقد يكون بالأمر والفعل، نحو : فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ [ الأعراف 143] . وقیل : فلان ابن جلا أي : مشهور، وأَجْلَوْا عن قتیل إِجْلَاءً.- ( ج ل و ) الجلود ( ن ) کے اصل ۔ معنی کسی چیز کے نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ ( یعنی میں نے انہیں جلا وطن کیا تو وہ چلے گئے اور حلاۃ ( متعدی ) بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) ( جب انگبین گیر ندہ نے شہد کی مکھیوں کو دھواں کے ذریعہ سے دور ہٹایا تو وہ ٹکٹیاں ہوکر غم وانددہ کے ساتھ ایک طرف سکڑ گئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيا[ الحشر 3] اور اگر خدا نے ان کے بارے میں جلا وطن کرنا نہ لکھ دیا ہوتا ۔ تو ان کو دنیا میں بھی عذاب دے دیتا ۔ اسی سے جلا لۃ خبر ( کسی خبر کا ظاہر ہونا ) وخبر جلی ( واضح خبر ) ( اور واضح قیاس کے محاورات ہیں اور صیغہ صفت ( فاعل ) جال سموع نہیں ہے ۔ دلہن کو بناؤ سنگار کرکے پیش کرنا ۔ جلوت السیف جلاۃ تلوار کو صیقل کیا السماء جلواء اسمان بےابر اور صاف ہے ( رجل اجلی وہ شخص جس کے سر کے بال اڑ گئے ہوں التجلی کے معنی ہیں ظاہر ہونا اور ہو یدار ہونا اور جلوہ بار ہونا اور یہ ( تجلی ) کبھی بالذات ہوتی ہے جیسے وَالنَّهارِ إِذا تَجَلَّى [ اللیل 2] اور دن کی جب نمایاں طور پر روشنی ہوجائے ۔ اور کبھی بذریعہ امر اور فعل کے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ [ الأعراف 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر جلوہ افروز ہوا ۔ کہا جاتا ہے : یعنی فلاں مشہور ومعروف ہے وہ مقتول سے الگ ہوگئے اسے چھوڑ کر بھاگ گئے ۔- دك - الدَّكُّ : الأرض الليّنة السّهلة، وقد دَكَّهُ دَكّاً ، قال تعالی: وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة 14] ، وقال : دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر 21] ، أي : جعلت بمنزلة الأرض اللّيّنة . وقال اللہ تعالی: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف 143] ، ومنه : الدُّكَّان . والدّكداك «4» : رمل ليّنة . وأرض دَكَّاء : مسوّاة، والجمع الدُّكُّ ، وناقة دكّاء :- لا سنام لها، تشبيها بالأرض الدّكّاء .- ( دک ک ) الدک - ( اسم ) کے معنی نرم اور ہموار زمین کے ہیں ۔ اور دلہ ( ن) دکا کے معنی کوٹ کر ہموار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة 14] اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھائے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑ کر برابر کردیئے جائیں گے ۔ دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر 21] یعنی زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کردی جائیگی ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہواتو ( تجلی انوار بانی نے ) اس کو ریزہ ریزہ کردیا ۔ اور اسی سے دکان ہے جس کے معنی ہموار چبوترہ کے ہیں ۔ الدکداک نرم ریت ہموار زمین ۔ ج د ک ۔ اور ہموار زمین کے ساتھ تشبیہ دے کر ناقۃ دکآء اس اونٹنی کو کہہ دیتے ہیں جس کی کوہان نہ ہو ۔ - خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- صعق - الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة :- الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه :- 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ- [ الزمر 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] .- 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] .- 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها .- ( ص ع ق ) الصاعقۃ - اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے - اول بمعنی موت اور ہلاکت - جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔- دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔- أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ - سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک )- جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔- إِفَاقَةُ :- رجوع الفهم إلى الإنسان بعد السّكر، أو الجنون، والقوّة بعد المرض، والْإِفَاقَةُ في الحلب : رجوع الدّرّ ، وكلّ درّة بعد الرّجوع يقال لها : فِيقَةٌ ، والْفُوَاقُ : ما بين الحلبتین .- الافاقتہ ( افعال ) کے معنی نشہ یاغش کے بعد ہوش میں آنے یا مرض کے بعد ہوش میں آنے یاز مرض کے بعد کمزور سے قوت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں نیز افاقتہ کے معنی دودھ دوہنے کے بعد دودھ کا پھر تھنوں میں ض لوٹ آبھی آتے ہیں اور جو دودھ تھنوں میں لوٹتا ہے اسے فوقتہ کہا جاتا ہے اور ایک دفعہ کہا جاتا ہے - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
التجائے موسیٰ- قول باری ہے قال رب ارنی انظر الیک۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے التجا کی کہ ” اے میرے رب مجھے یا رائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں) ایک قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے روایت باری کی اس وجہ سے التجا کی تھی کہ اپنی قوم کے اس مطالبہ کا انہیں جواب دے سکیں کہ ” ہم تمہاری بات پر اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک ہم اللہ کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں “۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے اتھلکنا بما فعل الشفھاء منا۔ کیا آپ اس قصور میں ہم سب کو ہلاک کردیں گے جس کا ارتکاب ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا) ایک قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس رویت کی التجا کی تھی جو علم ضرورت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر واضح کردیا کہ دنیا میں یہ رویت ہو نہیں سکتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے رویت باری کی التجاء کیوں جائز ہوگئی جبکہ اللہ جل شانہ کی ذات کی رویت کا کوئی جواز نہیں ہے پھر آیا اس بنا پر اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کی التجا بھی درست ہوگی جس کا اس کی ذات کے لئے کوئی جواز نہیں مثلاً ظلم کی التجا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظلم کے فعل کے متعلق کوئی شبہ نہیں کہ وہ نقص کی صفت ہے اور قابل مذمت ہے اس لئے اس قسم کے فعل کی اس سے التجا اور درخواست جائز نہیں ہوگی تاہم وہ چیز اس کے مشابہ نہیں جس میں شبہ موجود ہو اور جس کا حکم دلالت کے بغیر معلوم نہ ہوتا ہو۔ یہ اعتراض اس صورت میں ہوگا جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسی رویت کی التجا کی تھی جو کسی شبہ یعنی صورت اور شکل کے بغیر ہوتی جیسا کہ حسن بصری، ربیع بن انس اور سدی سے مروی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اس رویت کی التجا کی تھی جسے علم ضرورت کے نام سے پکارا جاتا ہے یا اپنی قوم کے لئے جواب معلوم کرنے کی غرض سے کی تھی تو اس صورت میں یہ اعتراض ساقط ہوجاتا ہے۔ ایک قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے توبہ کا اظہار اس لئے ہوا تھا کہ آپ نے رب سے اجازت حاصل کئے بغیر رویت باری کی التجا اور درخواست کردی تھی۔ یہ بھی احتمال ہے کہ تو یہ کا ذکر تسبیح کے طور پر ہوا ہے جیسا کہ اہل اسلام کی عادت ہے کہ جب نشانیوں کی صورت میں ایسے دلائل ظاہر ہوجائیں جو اللہ کی عظمت اور اس کی شان کی بلندی کی نشاندہی کرتے ہوں تو اس وقت اہل ایمان توبہ کے ذریعے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ قول باری ہے فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا وخرموسی صعقد۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کر گرپڑے) تجلی کی دو صورتیں ہوتی ہیں، رویت کی شکل میں ظہور یا دلالت کی شکل میں ظہور۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کی رویت تو امر محال ہے اس لئے آیت میں مذکور تجلی کو ان نشانیوں کے ظہور پر محمول کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر موجود لوگوں کے سامنے قائم کی تھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ملکوت کی ایسی جلوہ نمائی کی جس کی تاب نہ لا کر پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اس لئے کہ حکم الٰہی میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ملکوت سماوی میں سے اگر کوئی چیز ظاہر ہوجائے تو دنیا اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی جس طرح مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھینگلیا یعنی سب سے چھوٹی انگلی کی مقدار عرش کا حصہ ظاہر کردیا تھا۔ قول باری ہے وامرقومک یاخذواباحسنھا اور اپنی قوم کو حکم دو کہ ان کے بہتر مفہوہم کی پیروی کریں) ایک قول ہے کہ ان کی لکھی ہوئی باتوں میں سے بہترین پر عمل کریں یعنی فرائض اور نوافل پر، مباحات پر نہیں) اس لئے کہ مباح پر عمل کی صورت میں ایک شخص نہ کسی تعریف کا مستحق ہے اور نہ کسی ثواب کا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے فبشرعبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ۔ پس بشارت د ے دو میرے ان بندوں کو جو بات غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین مفہوم کی پیروی کرتے ہیں) بعض اہل علم کا قول ہے کہ احسنھا سے ناسخ مراد ہے منسوخ مراد نہیں ہے اس لئے کہ منسوخ پر عمل سے روک دیا جاتا ہے ایک قول یہ ہے کہ یہ بات جائز نہیں ہے اس لئے کہ منسوخ وہ حکم ہوتا ہے جس پر عمل سے روک دیا جاتا ہے اور ایسے حکم پر عمل کرنا قبیح ہوتا ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حسن وہ ہے جو قبیح سے احسن ہوتا ہے۔
(١٤٣) اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین میں ہمارے وقت مقرر پر آئے تھے تو انہوں نے دیدار الہی کی خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) تم دنیا میں ہمارے دیدار کی تاب نہیں لاسکتے لیکن مدین میں بڑے پہاڑ کی طرف دیکھو اگر پہاڑ میری تجلی کی وجہ سے اپنی جگہ پر برقرار رہ گیا تو خیر تم بھی میرا دیدار کرسکوگے۔- جب پہاڑ پر تجلی پڑی تو اس کے پرخچے اڑ گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہو کر گر پڑے، ہوش آنے پر عرض کیا بیشک آپ کی ذات ان آنکھوں کی برداشت سے منزہ ہے اور اپنی درخواست سے معذرت طلب کرتا ہوں اور اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ دنیا میں آپ کے دیدار کی تاب نہیں رکھتا۔
(فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا) - جَلَا یَجْلُو جَلَاءً کے معنی ہیں ظاہر کرنا ‘ روشن کرنا۔ اس سے تجلّی باب تفعل ہے ‘ یعنی کسی چیز کا خود روشن ہوجانا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی تجلی تھی جو پہاڑ پر ڈالی گئی جس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا۔- (وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا ج) - تجلئ باری تعالیٰ کے اس بالواسطہ مشاہدے کو بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برداشت نہ کرسکے۔ پہاڑ پر تجلی کا پڑنا تھا کہ آپ ( علیہ السلام) بےہوش ہو کر گرپڑے۔- (فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) - جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہوش آیا تو آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے سوال کی جسارت پر توبہ کی اور عرض کیا کہ اے اللہ میں تجھے دیکھے بغیر سب سے پہلے تجھ پر ایمان لانے والا ہوں۔
65: اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں تو ممکن نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بات کا مظاہرہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کرادیا کہ دنیا میں انسانوں کو تو کجا، پہاڑوں کو بھی یہ طاقت نہیں دی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو برداشت کرسکیں۔