Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

145۔ 1 گویا تورات تختیوں کی شکل میں عطا فرمائی گئی جس میں ان کے لئے دینی احکام، امر و نہی تر غیب و ترتیب کی پوری تفصیل تھی۔ 145۔ 2 یعنی رخصتوں کی ہی تلاش میں نہ رہیں جیسا کہ سہولت پسندوں کا حال ہوتا ہے۔ 145۔ 3 مقام (دار) سے مراد تو انجام یہی ہلاکت ہے یا اس کا مطلب ہے کہ فاسقوں کے ملک پر تمہیں حکمرانی عطا کروں گا اور اس سے مراد ملک شام ہے۔ جس پر اس وقت عمالقہ کی حکمرانی تھی۔ جو اللہ کے نافرمان تھے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٠] تورات کی تختیاں :۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ تورات انہی تختیوں پر لکھی گئی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ ان تختیوں میں صرف چند جامع اور بنیادی احکام لکھے گئے تھے اور تورات بعد میں آپ پر نازل ہوئی۔ ان تختیوں پر کتاب کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان تختیوں کی تعداد کتنی تھی ؟ ان تختیوں میں وہی احکام مذکور ہیں جو سورة انعام کی آیت نمبر ١٥١ اور ١٥٢ میں مذکور ہیں اور یہ سبت کی تعظیم کے حکم سمیت دس احکام بنتے ہیں۔- [١٤١] احسن کے معانی :۔ قرآن کا لفظ باحسنہا کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ میں ذکر کردیا گیا ہے یعنی ان پر عمل بےدلی سے اور بےکار سمجھ کر نہ کریں بلکہ نہایت خوش دلی، نشاط اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے بہتر طریقہ سے ان احکام پر عمل پیرا ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان تختیوں پر لکھی ہوئی عبارت کا جو مفہوم ایک سلیم الطبع انسان کی عقل میں فوری طور پر آجاتا ہے اسی پر عمل کریں ان احکام کی عبارت کو فلسفیانہ موشگافیوں کی سان پر نہ چڑھائیں اور الٹی سیدھی تاویلات میں مشغول نہ ہوجائیں۔- [١٤٢] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم لوگ اب شام کی طرف جا رہے ہو راستہ میں تم کئی تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کے پاس سے گزرو گے جس سے تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کی نافرمان قوموں کا کیا انجام ہوتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ دارالفاسقین سے مراد ملک شام میں عمالقہ کے گھر ہیں جن سے ان بنی اسرائیل کو جہاد کے لیے کہا جا رہا تھا اس معنی کی رو سے یہ جملہ ان کے لیے فتح کی خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۔۔ : یعنی تمام عقائد و احکام اور نصائح جن کی حلال و حرام اور دین کے دوسرے معاملات معلوم کرنے کے سلسلہ میں بنی اسرائیل کو ضرورت پیش آسکتی تھی۔ ” كُلِّ “ کا لفظ موقع کی مناسبت ہی سے متعین ہوتا ہے، مثلاً ملکۂ سبا کے متعلق آتا ہے : (وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٢٣ ] ” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ اور قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق فرمایا : ( تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا) [ الأحقاف : ٢٥ ] ” جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ “ حالانکہ ظاہر ہے کہ نہ ملکۂ سبا کو کائنات کی ہر چیز عطا ہوئی تھی اور نہ اس آندھی نے کائنات کی ہر چیز کو برباد کیا تھا۔- فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ : اسے قوت کے ساتھ پکڑ۔ مجاہد نے فرمایا، جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کر۔ [ بخاری، التفسیر، قبل ح : ٤٤٧٧ ]- موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس دن کے اعتکاف کے بعد کتاب ملی، جب کہ اس سے پہلے فرعون اور اس کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور ان کے احکام سے انکار کی وجہ سے ہلاک کی جا چکی تھی اور اس وقت تک موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی کتاب نہیں ملی تھی، تقریباً چالیس سال تک اترنے والی وحی موسیٰ (علیہ السلام) کی حدیث ہی تھی، جس کے انکار کی وجہ سے فرعون غرق ہوا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی اسی طرح دونوں قسم کی وحی اتری، ایک کتاب اللہ اور دوسری حدیث۔ جس طرح کتاب اللہ کا منکر مسلمان نہیں، اسی طرح حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ ماننے والا بھی کافر ہے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی پہلے نبیوں کی طرح دونوں قسم کی وحی اتری۔ دیکھیے سورة نساء (١٦٣ تا ١٦٥) از فوائد مولانا محمد اسماعیل سلفی (رض) ۔ - وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ: ” اس کی بہتر باتیں “ یعنی جو کرنے کے حکم ہیں اور بری باتیں (وہ ہیں) جن کے نہ کرنے کا حکم ہے۔ (موضح) یا رخصت کے بجائے عزیمت اختیار کریں جو بہترین ہے اور جس کا اجر زیادہ ہے۔ یا دو کاموں میں سے ایک اچھا ہے اور ایک اس سے بھی اچھا ہے تو بہترین پر عمل کی کوشش کریں، مثلاً قصاص لینا، یا معاف کردینا، انتقام لینا یا صبر کرنا اور درگزر سے کام لینا۔ قرض وصول کرنے میں مہلت دینا یا چھوڑ دینا وغیرہ، اگرچہ دونوں اچھے ہیں مگر احسن پر عمل کی کوشش کریں۔- سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : یعنی میں تمہیں فاسقوں کا گھر دکھاؤں گا، یعنی دوبارہ فرعون اور اس کی آل کے گھر مصر لے جاؤں گا، اگرچہ کچھ دیر کے بعد، جیسا کہ بعد میں بنی اسرائیل کو فرعون کے باغات اور خزانوں کا مالک بنادیا۔ دیکھیے سورة اعراف (١٣٧) کے حواشی۔ استاد محمد عبدہ (رض) نے لکھا ہے، یعنی اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ میری نافرمانی کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور انھیں کس قسم کی تباہی و بربادی سے دو چار ہونا پڑتا ہے (گویا ” دَارَ الْفٰسِقِيْنَ “ سے مراد جہنم ہے) ۔ (ابن جریر) بعض نے لکھا ہے کہ ” دَارَ الْفٰسِقِيْنَ “ سے مراد اہل شام ہیں، گویا اس میں وعدہ ہے کہ ملک شام تمہارے قبضے میں آئے گا۔ (کبیر) یا یہ کہ اگر تم نے نافرمانی کی تو تم کو اسی طرح ذلیل کریں گے جس طرح شام کا ملک ان سے چھین کر تم کو دیا۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ ، اس جگہ دار الْفٰسِقِيْنَ سے کیا مراد ہے، اس میں دو قول ہیں، ایک ملک مصر، دوسرا ملک شام، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے فتح کرنے سے پہلے مصر پر فرعون اور اس کی قوم حکمران اور غالب تھی اس کی وجہ سے مصر کو دار الْفٰسِقِيْنَ اور ملک شام پر عمالقہ کا قبضہ تھا وہ بھی کافر فاسق تھے اس لئے اس وقت شام بھی دار الْفٰسِقِيْنَ تھا، ان دونوں میں سے اس جگہ کونسا ملک مراد ہے، اس میں اختلاف اس بنیاد پر ہے کہ غرق فرعون کے بعد بنی اسرائیل مصر میں واپس چلے گئے تھے یا نہیں، اگر اس وقت مصر میں واپس گئے اور مملکت مصر پر قابض ہوئے جیسا کہ آیت وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ سے اس کی تائید ہوئی تو مصر پر قبضہ اور غلبہ اس واقعہ تجلی طور سے پہلے ہوچکا ہے اس میں سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ کا مفہوم ملک شام متعین ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس وقت واپس نہیں گئے تو دونوں ملک مراد ہو سکتے ہیں۔- وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات کی تختیاں لکھی لکھائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کی گئی تھی، انہی تختیوں کے مجموعہ کا نام تورات ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَتَبْنَا لَہٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ۝ ٠ ۚ فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا۝ ٠ ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ۝ ١٤٥- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- لوح - اللَّوْحُ : واحد أَلْوَاحِ السّفينة . قال تعالی: وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] وما يكتب فيه من الخشب ونحوه، وقوله تعالی: فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج 22] فكيفيّته تخفی علینا إلا بقدر ما روي لنا في الأخبار، وهو المعبّر عنه بالکتاب في قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] واللُّوحُ : العَطَشُ ، ودابّة مِلْوَاحٌ: سریع العطش، واللُّوحُ أيضا، بضمّ اللام : الهواء بين السماء والأرض، والأکثرون علی فتح اللام إذا أريد به العطش، وبضمّه إذا کان بمعنی الهواء، ولا يجوز فيه غير الضّمّ. ولَوَّحَهُ الحرّ : غيّره، ولَاحَ الحرّ لَوْحاً : حصل في اللوح، وقیل : هو مثل لمح . ولَاحَ البرق، وأَلَاحَ : إذا أومض، وأَلَاحَ بسیفه : أشار به .- ( ل و ح ) اللوح ۔ تختہ ( کشتی وغیرہ کا ) اس کی جمع الواح ہے ۔ قرآن میں ہے : وَحَمَلْناهُ عَلى ذاتِ أَلْواحٍ وَدُسُرٍ [ القمر 13] اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا ۔ اور لوح لکڑی وغیرہ کی اس تختی کو بھی کہتے ہیں جس پر کچھ لکھا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ [ البروج 22] لوح محفوظ میں ۔ میں لوح محفوظ کی اصل کیفیت کو ہم اسی قدر جان سکتے ہیں اور احادیث میں مروی ہے اسی کو دوسری آیت میں کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] بیشک یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ کسب خدا کو آسان ہے ۔ اللوح کے معنی پیاس کے ہیں ۔ اور جس جو پایہ کو جلدی پیاس لگتی ہوا سے دابۃ ملواح کہا جاتا ہے ۔ اور لوح ( ضمہ لام کے ساتھ ) آسمان اور زمین کے درمیانی خلا کو بھی کہتے ہیں لیکن اکثر علمائے لغت کے نزدیک فتحہ لام کے ساتھ بمعنی پیاس کے ہے اور ضمہ لام کے ساتھ زمین وآسمان کے درمیانی خلا کے معنی میں آتا ہے گو اس میں فتحہ لام بھی جائز ہے ۔ لوحہ الحرا سے گرمی نے جھلس دیا ۔ لاح الحرلوحا گرمی فضا میں پھیل گئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لمح کی طرح ہے اورا لاح بسیفہ کے معنی ہیں اس نے تلوار سے اشارہ کیا ۔- وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعمارل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٥) اور ہم نے چند تختیوں پر حلال و حرام اور امر و نواہی ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی اس پر پوری کوشش کے ساتھ عمل کرو اور قوم کو حکم دو کہ وہ محکم پر عمل کرے اور متشابہ پر ایمان لائے، بہت جلد میں گنہگاروں کا مقام دکھلاتا ہوں اور وہ دوزخ ہے یا عراق یا مصر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٥ (وَکَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْءٍ ج) ۔ - یعنی شریعت کے تمام بنیادی احکام ان الواح میں درج کردیے گئے تھے۔ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے بنیادی احکام شاہراہ حیات پر انسان کے لیے گویا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے کسی پر پیچ پہاڑی سڑک پر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے جگہ جگہ نصب کیے جاتے ہیں اسی طرح انسانی تمدن کے پیچیدہ راستے پر آسمانی شریعت اپنے احکامات کے ذریعے نصب کر کے انسانی تگ و دو کے لیے ایک محفوظ دائرہ مقرر کردیتی ہے تاکہ انسان اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے ‘ اپنی عقل کو بروئے کار لاکر اپنی مرضی اور پسند ناپسند کے مطابق زندگی گزارے۔ اس دائرے کے باہر محرمات ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کے قریب بھی مت جانا : (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا ط) (البقرۃ : ١٨٧) ۔- (فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا ط) ۔ - کسی بھی حکم پر عمل درآمد کے لیے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ یہ عمل درآمد ادنیٰ درجے میں بھی ہوسکتا ہے ‘ اوسط درجے میں بھی اور اعلیٰ درجے میں بھی۔ لہٰذا یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) اپنی قوم کو ترغیب دیں کہ وہ احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہی نکتہ ہم مسلمانوں کو بھی قرآن میں بتایا گیا : (الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ط) ( الزمر : ١٨) یعنی وہ لوگ کلام اللہ کو سنتے ہیں پھر جو اس کی بہترین بات ہوتی ہے اس کو اختیار کرتے ہیں۔ ایک طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں ڈھیل اور رعایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ امتیازی پوزیشن نہ سہی ‘ فرسٹ یا سیکنڈڈویژن بھی نہ سہی ‘ بس کافی ہیں ‘ لیکن یہ معاملہ دین میں نہیں ہونا چاہیے۔ دینی امور میں عمل کا اچھے سے اچھا اور اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم سورة المائدۃ میں بھی پڑھ آئے ہیں : (اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) ۔ دنیوی امور میں تو ہر شخص ع ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں کے نظریے کا حامل نظر آتا ہی ہے ‘ لیکن دین کے سلسلے میں بھی ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کا آج اس کے کل سے بہتر ہو۔ دینی امور میں بھی وہ ترقی کے لیے حتی الامکان ہر گھڑی کوشاں رہے۔- (سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ ) ۔ - اس سے مرادفلسطین کا علاقہ ہے جس پر حملہ آور ہونے کا حکم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنے والا تھا۔ بنی اسرائیل کا قافلہ مصر سے نکلنے کے بعد خلیج سویز کو عبور کر کے صحرائے سینا میں داخل ہوا تو خلیج سویز کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا ‘ یہاں تک کہ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی کونے میں پہنچ گیا جہاں کوہ طور واقع ہے۔ یہاں پر اس قافلے کا طویل عرصے تک قیام رہا۔ یہیں پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر طلب کیا گیا اور جب آپ ( علیہ السلام) تورات لے کر واپس آئے تو آپ ( علیہ السلام) کو فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم ملا۔ چناچہ یہاں سے یہ قافلہ خلیج عقبہ کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف عازم سفر ہوا۔ بنی اسرائیل سات آٹھ سو سال قبل حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعوت پر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آب سے تھے۔ اب فلسطین میں وہ مشرک اور فاسق قوم قابض تھی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ سخت اور زور آور لوگ ہیں۔ چناچہ جب ان کو حکم ملا کہ جا کر اس قوم سے جہاد کرو تو انہوں نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کردی کہ ایسے طاقتور لوگوں سے جنگ کرنا ان کے بس کی بات نہیں : (قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَق) ( المائدۃ : ٢٢) اس واقعے کی تفصیل سورة المائدۃ میں گزر چکی ہے۔ یہاں اسی مہم کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں عنقریب تم لوگوں کو اس سر زمین کی طرف لے جاؤں گا جو تمہارا اصل وطن ہے لیکن ابھی اس پر فاسقوں کا قبضہ ہے۔ ان نافرمان لوگوں کے ساتھ جنگ کر کے تم نے اپنے وطن کو آزاد کرانا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :101 بائیبل میں تصریح ہے کہ یہ دونوں تختیاں پتھر کی سلیں تھیں ، اور ان تختیوں پر لکھنے کا فعل بائیبل اور قرآن دونوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسُوب کیا گیا ہے ۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم اس بات کا تعیُّن کر سکیں کہ آیا ان تختیوں پر کتابت کا کام اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنی قدرت سے کیا تھا ، یا کسی فرشتے سے یہ خدمت لی تھی ، یا خود حضرت موسیٰ کا ہاتھ استعمال فرمایا تھا ۔ ( تقابل کے لیے ملاحضہ ہو بائیبل ، کتاب خروج ، باب ۳١ ، آیت١۸ ۔ باب ۳۲ ، آیت ١۵ ، ١٦ و استثناء باب ۵ آیت ٦ ۔ ۲۲ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :102 یعنی احکامِ الہٰی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل عام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد ، یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو ۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اور حیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں ، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :103 یعنی آگے چل کر تم لوگ ان قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزروگے جنہوں نےخدا کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا اور غلط روی پر اصرار کیا ۔ ان آثار کو دیکھ کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

66: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تورات کے تمام ہی احکام بہترین ہیں، ان پر عمل کرنا چاہئے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جہاں تورات نے ایک کام کو جائز کہا ہو، لیکن دوسرے کام کو بہتر یا مستحب قرار دیا ہو تو اللہ تعالیٰ کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کام کو اختیار کرلیا جائے جس کو اس میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔ 67: بظاہر اس سے مراد فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت عمالقہ کے قبضے میں تھا۔ اور دکھانے سے مراد یہ ہے کہ وہ علاقہ بنی اسرائیل کے قبضے میں آجائے گا۔ جیسا کہ حضرت یوشع اور حضرت سموئیل علیہما السلام کے زمانے میں ہوا۔ بعض مفسرین نے ’’ نافرمانوں کے گھر‘‘ کا مطلب دوزخ بتایا ہے اور مقصد یہ بیان کیا ہے کہ آخرت میں تمہیں نافرمانوں کا یہ انجام دکھا دیا جائے گا کہ جنہوں نے تم پر ظلم کیے تھے وہ کس برے حال میں ہیں۔