Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تکبر کا پھل محرومی تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے ایسے لوگوں کو حق سمجھنے ، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ ان کے بے ایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں ، آنکھ کان بیکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے ۔ علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے نہ جھکائے وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے ۔ متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہاں؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ اس امت کے لوگ ہوں یا اور امتوں کے سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لئے دشوار ہے ۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بےطرح اس پر لپکے ۔ اس لئے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بےخبر ہیں ۔ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، آخرت کا یقین نہ رکھیں ، اسی عقیدے پر مریں ان کے اعمال اکارت ہیں ۔ ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے ۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا ، جیسا کر وگے ویسا بھرو گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 تکبر کا مطلب ہے اللہ کی آیات و احکام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور لوگوں کو حقیر گرداننا۔ یہ تکبر انسان کے لئے زیبا نہیں دیتا، کیونکہ اللہ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق۔ مخلوق ہو کر، خالق کا مقابلہ کرنا اور اس کے احکام و ہدایات سے اعراض و غفلت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو تکبر سخت ناپسند ہے۔ اس ایت میں تکبر کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایات الہی سے دور ہی رکھتا ہے اور پھر وہ اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا (ترجمہ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئ وہ ایمان نہیں لائیں گے چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آجاوے حتی کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ 146۔ 2 اس میں احکام الٰہی سے اعراض کرنے والوں کی ایک عادت یا نفسیات کا بیان ہے کہ ہدایت کی کوئی بات ان کے سامنے آئے تو اسے تو نہیں مانتے، البتہ گمراہی کی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے فوراً اپنا لیتے اور راہ عمل بنا لیتے ہیں قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت کا ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم بھی ہر جگہ اور ہر معاشرے میں حتٰی کہ مسلمان معاشروں میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ نیکی منہ چھپائے پھر رہی ہے اور بدی انسان لپک لپک کر اختیار کر رہا ہے۔ 146۔ 3 یہ اس بات کا سبب بتلایا جا رہا ہے کہ لوگ نیکی کے مقابلے میں بدی کو اور حق کے مقابلے میں باطل کو کیوں زیادہ اختیار کرتے ہیں ؟ یہ سبب ہے آیات الٰہی کی تکذیب اور ان سے غفلت اور اعراض کا۔ یہ ہر معاشرے میں عام ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٣] تکبر کی تعریف اور علامات :۔ تکبر کی جامع تعریف درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔- عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو۔ ایک شخص نے کہا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ تکبر ہے ؟ ) آپ نے فرمایا اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبروبیانہ )- یعنی تکبر کی ایک علامت تو یہ ہوتی ہے کہ متکبر انسان اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے جیسے نہ تو وہ اللہ کا بندہ ہے اور نہ ہی اللہ اس کا پروردگار ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے فروتر سمجھ کر ان سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے حالانکہ اس کی اس خودسری کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں اللہ کی زمین پر رہتے ہوئے اور اس کا رزق کھاتے ہوئے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کا نافرمان اور متکبر بن کر رہے اسی لیے اللہ نے یہاں بغیر الحق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔- [ ١٤٣۔ الف ] تکبرکا اثر انسانی طبائع پر :۔ پورے جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بلاوجہ تکبر کرنے والوں کی نگاہیں اللہ کی آیات کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ خواہ پوری کی پوری کائنات اللہ کی ایسی نشانیوں سے بھری ہوئی ہو اور ایسی ہی بیشمار آیات ان کے اپنے جسم کے اندر بھی موجود ہوں یا انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے دل کوئی اثر قبول نہیں کرتے اور اگر کوئی خرق عادت معجزہ بھی دیکھ لیں تو اس کی تاویلات و توجیہات تلاش کرنے پر تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن راہ راست پر آنے کا نام نہیں لیتے ہاں اگر کوئی گمراہی کی بات ہو اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی بات ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا کمزور مسلمانوں پر پھبتیاں کسی جا رہی ہوں تو ایسی باتیں ان کو بہت راس آتی ہیں اور بھلی معلوم ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ ۔۔ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو (کیا یہ بھی کبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو بڑا بنتے ہوئے حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر اور بےوقعت جاننے کا نام ہے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١، عن ابن مسعود (رض) ] اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر جو لوگ اپنی بڑائی اور برتری کے زعم میں حق قبول نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ بھی انھیں اپنی آیات قبول کرنے سے دفع دور کردیتا ہے۔ یہاں فرمایا : ” میں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا۔۔ “ یعنی انھیں یہ سزا دوں گا کہ وہ میری عظمت، شریعت اور احکام کو سمجھ نہ سکیں گے اور پھر جاہل رہنے کی وجہ سے دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل ہوں گے۔ (نیز دیکھیے انعام : ١١٠) اس لیے بعض سلف کا قول ہے : ” متکبر شخص علم حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے ایک ساعت کی ذلت گوارا نہیں کرسکتا وہ جاہل رہ کر ہمیشہ کی ذلت مول لیتا ہے۔ “ (ابن کثیر) ” ِ بِغَيْرِ الْحَقِّ “ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں حق بنتا ہو وہاں بڑا بن کے دکھانا درست ہے، مثلاً کفار کے مقابلے میں میدان جنگ کے اندر اللہ تعالیٰ کو متکبرانہ انداز کی چال بھی محبوب ہے جو عام حالات میں اسے سخت ناپسند ہے۔ - وَكَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ : یعنی یہ سب ان کے اپنے کیے کی سزا ہوگی، جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ( اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ ) [ الصف : ٥ ] ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کرو۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” الواح (تختیاں) دے کر یہ بھی فرمایا کہ قوم کو تقید (پابند) کرو کہ عمل کریں اور یہ بھی فرما دیا کہ جو بےانصاف ہیں اور حق پرست نہیں ان کے دل میں پھیر دوں گا، اس پر عمل نہیں کریں گے، یعنی ان حکموں کی توفیق نہ ہوگی اور جو اپنی عقل سے کریں گے وہ قبول نہ ہوگا۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اب ترغیب اطاعت کے بعد ترہیب مخالفت کے لئے ارشاد ہے کہ) میں لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں (احکام ماننے سے) تکبر کرتے ہیں جس کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں (کیونکہ اپنے کو بڑا سمجھنا حق اس کا ہے جو واقع میں بڑا ہو، اور وہ ایک خدا کی ذات ہے) اور (برگشتگی کا ان پر یہ اثر ہوگا کہ) اگر تمام (دنیا بھر کی) نشانیاں ( بھی دیکھ لیں تب بھی ( غایت قسادت سے) ان پر ایمان نہ لاویں اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں ( یعنی حق کے قبول نہ کرنے سے پھر دل سخت ہوجاتا ہے اور برگشتگی اس حد تک پہنچ جاتی ہے) یہ ( اس درجہ کی برگشتگی) اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو ( تکبر کی وجہ سے) جھوٹا بتلایا اور ان (کی حقیقت میں غور کرنے) سے غافل رہے ( یہ سزا تو دنیا میں ہوئی کہ ہدایت سے محروم رہے) اور ( آخرت میں یہ سنرا ہوگی کہ) یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام ( جن سے ان کو توقع نفع کی تھی) غارت گئے ( اور انجام اس خبط کا جہنم ہے) ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے اور ( جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تورات لانے تشریف لے گئے تو) موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم ( یعنی بنی اسرائیل) نے ان کے ( جانے کے) بعد اپنے ( مقبوضہ) زیوروں کا ( جو کہ قبطیوں سے مصر سے نکلتے وقت یہ بہانہ شادی کے مانگ لیا تھا) ایک بچھڑا ( بناکر جس کا قصہ سورة طہ میں ہے، اس کو معبود) ٹھہرایا جو کہ ( صرف اتنی حقیقت رکھتا تھا کہ) ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی ( اور اس میں کوئی کمال نہ تھا، جس سے کسی عاقل کو اس کی معبودیت کا شبہ ہو سکے) کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ( اس میں آدمی کے برابر بھی تو قدرت نہ تھی چنانچہ) وہ ان سے بات تک نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو ( دنیا یا دین کی) کوئی راہ بتلاتا تھا ( اور خدا کی سی صفات تو اس میں کیا ہوتیں، غرض یہ کہ) اس لئے (بچھڑے) کو انہوں نے معبود قرار دیا اور ( چونکہ اس میں اصلا کوئی شبہ کی وجہ نہ تھی اس لئے انہوں نے) بڑا ڈھنگا کام کیا اور ( بعد رجوع موسیٰ (علیہ السلام) کے جس کا قصہ آگے آتا ہے ان کے تنبیہ فرمانے سے) جب ( متنبہ ہوئے اور اپنی اس حرکت پر) نادم ہوئے اور معلوم ہوا کہ واقعی وہ لوگ گمراہی میں پڑگئے تو ( ندامت سے بطور معذرت) کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارا ( یہ) گناہ معاف نہ کرے تو ہم بالکل گئے گزرے۔ چناچہ خاص طریقہ سے ان کو تکمیل توبہ کا حکم ہوا جس کا قصہ سورة بقرہ آیت فاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ میں گزرا ہے) اور ( موسیٰ (علیہ السلام) کو متنبہ فرمانے کا قصہ یہ ہوا کہ) جب موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف ( طور سے) واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے (کیونکہ ان کو وحی سے یہ معلوم ہوگیا تھا، طہ میں ہے فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا۔ الخ) تو ( اول قوم کی طرف متوجہ ہوئے) فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی نامعقول حرکت کی، کیا اپنے رب کے حکم (آنے) سے پہلے ہی تم نے ( ایسی) جلد بازی کرلی ( میں تو احکام ہی لینے گیا تھا اس کا انتظار تو کیا ہوتا) اور ( پھر حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور دینی حمیت کے جوش میں) جلدی سے ( توریت کی) تختیاں ( تو) ایک طرف رکھیں ( اور جلدی میں ایسے زور سے رکھی گئیں کہ دیکھنے والے کو اگر غور نہ کرے تو شبہ ہو کہ جیسے کسی نے پٹک دی ہوں) اور ( ہاتھ خالی کرکے) اپنے بھائی ( ہارون (علیہ السلام) کا سر (یعنی بال) پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے ( کہ تم نے کیوں پورا انتظام نہ کیا اور چونکہ غلبہ غضب میں ایک گونہ بےاختیاری ہوگئی تھی اور غضب بھی دین کے لئے تھا اس لئے اس بےختیاری کو معتبر قرار دیا جائے گا اور اس اجتہادی لغزش پر اعتراض نہ کیا جائے گا) ہارون ( علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے ( بھائی میں نے اپنی کوشش بھر بہت روکا لیکن) ان لوگوں نے مجھ کو بےحقیقت سمجھا اور ( بلکہ نصیحت کرنے پر) قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر ( سختی کرکے) دشمنوں کو مت ہنسواؤ اور مجھ کو ( برتاؤ سے) ان ظالم لوگوں کے ذیل میں مت شمار کرو ( کہ ان کی سی ناخوشی مجھ سے بھی برتنے لگو) موسیٰ ( علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور) کہا کہ اے میرے رب میری خطا ( گو وہ اجتہادی ہو) معاف فرمادے اور میرے بھائی کی بھی ( کوتاہی جو ان مشرکین کے ساتھ معاملہ متارکت میں شاید ہوگئی ہو جیسا اس قول سے معلوم ہوتا ہے، مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْٓا۔ الایہ) اور ہم دونوں کو اپنی رحمت ( خاص) میں داخل فرمایئے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں ( اس لئے ہم کو قبول دعا کی امید ہے) - معارف ومسائل - پہلی آیت میں جو ارشاد فرمایا کہ " میں پھیر دوں گا اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو جو بڑے بنتے ہیں زمین میں بغیر حق کے "۔- اس میں بِغَيْرِ حَقِّ سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تکبر کرنے لوگوں کے مقابلہ میں تکبر کرنا حق ہے وہ برا اور گناہ نہیں، کیونکہ وہ صرف صورت کے ( اعتبار سے تکبر ہوتا ہے حقیقت کے اعتبار سے نہیں ہوتا، جیسا کہ مشہور ہے التکبر مع المتکبرین تواضع ( مسائل السلو ک) - تکبر انسان کو فہم سلیم اور علوم الہیہ سے محروم کردیتا ہے :- اور تکبر کرنے والوں یعنی بڑے بننے والوں کو اپنی آیتوں سے پھیر دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے آیات الہیہ کے سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ - اور آیات الہیہ بھی اس جگہ عام مراد ہو سکتی ہیں، جن میں آیات منزلہ تورات و انجیل کی یا قرآن کریم کی بھی داخل ہیں اور آیات تکوینیہ جو تمام زمین و آسمان اور ان کی مخلوقات میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لئے خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہوا کہ تکبر یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اور افضل سمجھنا ایسی مزموم اور منحوس خصلت ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوتا ہے اس کی عقل وفہم سلیم نہیں، اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے نہ اس کو قرآنی آیات صحیح سمجھنے کی توفیق باقی رہتی ہے اور نہ آیات قدرت میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے میں اس کا ذہن چلتا ہے۔- روح البیان میں ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ تکبر اور نخوت ایک ایسی بری خصلت ہے جو علوم ربانیہ کے لئے حجاب بن جاتی ہے کیونکہ علوم ربانیہ صرف اس کی رحمت سے حاصل ہوتے ہیں اور رحمت خداوندی تواضع سے متوجہ ہوتی ہے، مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے - ہر کجا پستی ست آب آنجا رود ہر کجا مشکل جواب آنجا رود - پہلی دو آیتوں میں یہ مضمون ارشاد فرمانے کے بعد پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا باقی قصہ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰــتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝ ٠ ۭ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَۃٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِہَا۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْہُ سَبِيْلًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۝ ١٤٦- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] - ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

متکبہ لو گ حق سے محروم ہیں - قول باری ہے ساصرف عن ایاتی الذین یتکبرون فی الارض بغیر الحق۔ میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیردوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں پڑے بنتے ہیں) ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ میرے عزوشرف کی وہ نشانیاں جو دلالت کے ذریعے معلوم کی جاتی ہیں اور ان کا علم دنیا اور آخرت دونوں میں ترقی درجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ انہیں میری آیات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے سے روک دیا جائے گا یعنی یہ لوگ ان آیات کو جھٹلا نہیں سکیں گے اور نہ ہی لوگوں کے سامنے انہیں ظاہر ہونے سے روک سکیں گے۔ آیت کا یہ مفہوم لینا درست نہیں کہ میں انہیں ان آیات پر ایمان لانے سے روک دوں گا۔ اس لئے کہ یہ بات نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان لانے کا حکم دے اور پھر انہیں اس سے روک بھی دے ایسا اقدام تو نادانی اور مذاق کی نشاندہی کرتا ہے جس سے اللہ کی ذات مبرا اور پاک ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٦) اور میں اپنی آیات کے اقرار سے ایسے لوگوں کو برگشتہ رکھوں گا جو ناحق تکبر کیا کرتے تھے یا یہ معنی ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عنقریب گنہگاروں کو ان کی جگہ اور قیام دکھاؤں گا جو مقام بدر ہے یا مکہ مکرمہ اور فرعون اور اس کی قوم یا ابوجہل اور اس کے ساتھی تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ان پر ایمان نہ لائیں گے۔- اور اگر اسلام اور نیکی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ نہ بنائیں اور اگر کفر وشرک کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا لیں، اور یہ برگشتگی اس بنا پر ہے کہ انہوں نے ہماری کتاب اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی اور وہ اس کے منکرہی تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦ (سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط۔ - یہاں ایک اصول بیان فرما دیا گیا کہ جن لوگوں کے اندر تکبر ہوتا ہے ہم خود ان کا رخ اپنی آیات کی طرف سے پھیر دیتے ہیں ‘ چناچہ وہ ہماری آیات کو سمجھ ہی نہیں سکتے ‘ ان پر غور کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ تکبر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِیْ ) (١) یعنی تکبر میری چادر ہے ‘ اگر کوئی انسان تکبر کرتا ہے تو وہ گویا میری چادر میرے شانے سے گھسیٹ رہا ہے ‘ لہٰذا ایسے ہر انسان کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ ) (٢) وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر تکبر ہے ہم خود انہیں اپنی آیات سے برگشتہ کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم اس لائق ہی نہیں سمجھتے کہ وہ ہماری آیات کو دیکھیں اور سمجھیں۔ ایسے مغرور لوگوں کو ہم سیدھی راہ کی طرف توجہ مرکوز کرنے ہی نہیں دیتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :104 یعنی میرا قانون فطرت یہی ہے کہ ایسے لوگ کسی عبرت ناک چیز سے عبرت اور کسی سبق آموز شے سے سبق حاصل نہیں کر سکتے ۔ ”بڑا بننا“یا ”تکبّر کرنا“ قرآن مجید اس معنی میں استعمال کرتا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالا تر سمجھنے لگے اور خدا کے احکام کی کچھ پروا نہ کرے ، اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گویا کہ وہ نہ خدا کا بندہ ہے اور نہ خدا اس کا رب ہے ۔ اس خودسری کی کوئی حقیقت ایک پندار غلط کے سوا نہیں ہے ، کیونکہ خدا کی زمین میں رہتے ہوئے ایک بندے کو کسی طرح یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ غیر بندہ بن کر رہے ۔ اسی لیے فرمایا کہ ”وہ بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں ۔ “

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani