النبی العالم اور النبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ تمام عرب عجم گوروں کالوں سے کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں ۔ آپ کی شرافت و عظمت ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام دنیا کے لئے صرف آپ ہی نبی ہیں ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت ( قل اللہ شھید بینی وبینکم واو حی الی ھذا القران لا نذر کم بہ ومن بلغ ) یعنی اعلان کر دے کہ مجھ میں تم میں اللہ گواہ ہے اس پاک قرآن کی وحی میری جانب اس لئے اتاری گئی ہے کہ میں اس سے تمہیں اور جن لوگوں تک یہ پہنچے سب کو ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے ( ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ ) یعنی مخلوق کے مختلف گروہ میں سے جو بھی آپ سے انکار کرے اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے اور آیت میں ہے ( وقل للذین اوتوا الکتاب ولا مبین ا اسلمتم فان اسلموافقد اھتدواوان تولوافانما علیک البلاغ ) یعنی اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سے کہدو کہ کیا تم مانتے ہو؟ اگر تسلیم کرلیں مسلمان ہو جائیں تو راہ پر ہیں ورنہ تیرے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہی ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی قرآنی آیتیں بکثرت ہیں اور حدیثیں تو اس بارے میں بیشمار ہیں ۔ دین اسلام کی ذرا سی بھی سمجھ جسے ہے وہ بالیقین جانتا اور مانتا ہے کہ آپ تمام جہان کے لوگوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اتفاق سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر میں کچھ چشمک ہو گئی ۔ حضرت صدیق نے حضرت فاروق کو ناراض کر دیا حضرت فاروق اسی حالت میں چلے گئے حضرت صدیق نے درخواست کی کہ آپ معاف فرمائیں اور اللہ سے میرے لئے بخشش جاہیں لیکن حضرت عمر راضی نہ ہوئے بلکہ کواڑ بند کر لئے ۔ آپ لوٹ کر دربار محمدی میں آئے اس وقت اور صحابہ بھی حضور کی مجلس میں موجود تھے آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی نے انہیں ناراض اور غضبناک کر دیا ۔ حضرت عمر حضرت صدیق کی واپسی کے بعد بہت ہی نادم ہوئے اور اسی وقت دربار رسالت مآب میں حاضر ہو کر تمام بات کہہ سنائی ۔ حضور ناراض ہوئے ۔ ابو بکر صدیق بار بار کہتے جاتے تھے کہ یارسول اللہ زیادہ ظلم تو مجھ سے سر زد ہوا ہے ۔ حضور نے فرمایا کیا تم میرے ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑتے نہیں؟ سنو جب میں نے اس آواز حق کو اٹھایا کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تم نے کہا تو جھوٹا ہے لیکن اس ابو بکر نے کہا آپ سچے ہیں ۔ ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ یاد رہے کہ میں اسے فخراً نہیں کہتا میں تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی جانب بھیجا گیا ہوں اور میری مدد مہینے بھر کے فاصلے سے صرف رعب کے ساتھ کی گئی ہے اور میرے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کیلئے حلال نہیں کئے گئے تھے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کے لئے حلال کر دی گئی ہے اور مجھے اپنی امت کی شفاعت عطا فرمائی گئی ہے جسے میں نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر رکھا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ ( مسند امام احمد ) روایت ہے کہ غزوہ تبوک والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے پس بہت سے صحابہ آپ کے پیچھے جمع ہوگئے کہ آپ کی چوکیداری کریں نماز کے بعد آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اس رات مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہیں دی گئیں میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے پہلے کے تمام رسول صرف اپنی اپنی قوم کی طرف ہی نبی بنا کر بھیجے جاتے رہے مجھے اپنے دشمنوں پر رعب کے ساتھ مدد دی گئی ہے گو وہ مجھ سے مہینے بھر کے فاصلے پر ہوں وہیں وہ مرعوب ہو جاتے ہیں ۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں حالانکہ مجھ سے پہلے کے لوگ ان کی بہت عظمت کرتے تھے وہ اس مال کو جلا دیا کرتے تھے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی پاک چیز بنادی گئی ہے جہاں کہیں میرے امتی کو نماز کا وقت آ جائے وہ تیمم کر لے اور نماز ادا کر لے مجھ سے پہلے کے لوگ اس کی عظمت کرتے تھے سوائے ان جگہوں کے جو نماز کے لئے مخصوص تھیں اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا آپ دعا کیجئے مانگئے کیا مانگتے ہیں؟ ہر نبی مانگ چکا ہے تو میں نے اپنے اس سوال کو قیامت پر اٹھا رکھا ہے پس وہ تم سب کے لئے ہے اور ہر اس شخص کیلئے جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دے ۔ اس کی اسناد بہت پختہ ہے اور مسند احمد میں یہ حدیث موجود ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے کہ میری اس امت میں سے جس یہودی یا نصرانی کے کان میں میرا ذکر پڑے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں نہیں جا سکتا یہ حدیث اور سند سے صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرا ذکر اس امت کے جس یہودی نصرانی کے پاس پہنچے اور وہ مجھ پر اور میری وحی پر ایمان نہ لائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں آپ نے ان پانچوں چیزوں کا ذکر فرمایا جو صرف آپ کو ہی ملی ہیں پھر فرمایا ہر نبی نے شفاعت کا سوال کر لیا ہے اور میں نے اپنے سوال کو چھپا رکھا ہے اور ان کے لئے اٹھا رکھا ہے جو میری امت میں سے توحید پر مرے ۔ یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت سے بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کے انبیاء کو نہیں دی گئیں مہی نے بھر کی مسافت تک رعب سے امداد و نصرت ، ساری زمین کا مسجد و طہور ہونا کہ میری امت کو جہاں وقت نماز آ جائے ادا کر لے ، غنیمتوں کا حلال کیا جانا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھیں ۔ شفاعت کا دیا جانا ، تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا جانا حالانکہ پہلے کے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف ہی بھیجے جاتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کہو مجھے اس اللہ نے بھیجا ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے سب چیزوں کا خالق مالک ہے جس کے ہاتھ میں ملک ہے جو مارنے جلانے پر قادر ہے جس کا حکم چلتا ہے ۔ پس اے لوگو تم اللہ پر اور اس کے رسول و نبی پر ایمان لاؤ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود دنیا کو پڑھا رہے ہیں انہی کا تم سے وعدہ تھا اور ان ہی کی بشارت تمہاری کتابوں میں بھی ہے ۔ انہی کی صفتیں اگلی کتابوں میں ہیں ۔ یہ خود اللہ کی ذات پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتے ہیں ۔ قول و فعل سب میں اللہ کے کلام کے مطیع ہیں ۔ تم سب ان کے ماتحت اور فرمانبردار ہو جاؤ ۔ انہی کے طریقے پر چلو انہی کی فرمانبرداری کرو ، تم راہ راست پر آ جاؤ گے ۔
158۔ 1 یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالمگیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کائنات کے انسانو میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری بنی نوع انسانی کے نجات دہندہ اور رسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذ ہب میں، نجات اور ہدایت اگر ہے تو صرف اسلام کے اپنانے اور اسے ہی اختیار کرنے میں ہے اس آیت میں بھی اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو النبی الأمی کہا گیا ہے۔ یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے۔ امی کے معنی ہیں ان پڑھ۔ یعنی آپ نے کسی استاد کے سامنے زانو بطور شاگرد نہیں کئے کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز و بلاغت کے سامنے دنیا بھر کے خوش بیان عالم فاضل عاجز آگئے اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت و حقانیت کی ایک دنیا اعتراف کرتی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقع اللہ کے سچے رسول ہیں ورنہ ایک ان پڑھ نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل و انصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لئے ناگزیر ہیں، انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن سکون اور راحت و عافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔
[١٥٩] آپ تا قیامت اور تمام لوگوں کے لیے رسول ہیں :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ آپ سابقہ انبیاء کی طرح نہ نسلی یا قومی پیغمبر تھے اور نہ علاقائی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ پوری دنیا کے انسان ہیں اور سارے کے سارے لوگ ہیں پھر آپ وقتی یا کسی مخصوص زمانہ کے بھی پیغمبر نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے پیغمبر ہیں اور آپ کی رسالت کا کام تاقیامت جاری رہے گا، کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی اللہ کی طرف سے آنے والا نہیں اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا اور کذاب ہوگا۔ آپ نے اپنی زندگی بھر امکانی حد تک تبلیغ رسالت کا فریضہ سر انجام دیا حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے بڑی تاکید سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ جن لوگوں تک اللہ کا پیغام نہیں پہنچ سکا، ان تک وہ پہنچا دیں لہذا اب اس امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا کام سر انجام دیں اور اس کام کے لیے جو ممکن ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہوں وہ کیے جائیں۔- [١٦٠] نبی خود سب سے پہلے اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ ہر نبی اور ہر رسول پر یہ فرض ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود اپنی نبوت اور رسالت پر ایمان لائے پھر دوسرے لوگوں کو دعوت دے اور تمہارا یہ نبی امی بھی سب سے پہلے اس اللہ اور اس کے کلمات ہدایت و ارشاد پر ایمان لا چکا ہے جو زمین و آسمان کی سلطنت کا خالق ومالک اور خود تمہاری زندگی اور موت کا بھی مالک ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق ہے اور نہ کارساز۔ لہذا اگر ہدایت چاہتے ہو تو اس پر ایمان لا کر اس کی اتباع کرتے جاؤ۔
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا۔۔ : یعنی میری رسالت تمام دنیا کے لوگوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ ” جَمِيْعَۨا “ کے مفہوم میں یہ دونوں باتیں صاف ظاہر ہیں اور مجھے ہدایت کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجنے والا وہ ہے جو آسمان و زمین کا بادشاہ، اکیلا عبادت کا حق دار اور موت و حیات کا مالک ہے۔ اب مجھ پر ایمان نہ لانے کی صورت میں اپنا انجام سوچ لو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تاقیامت تمام قوموں کے لیے رسول ہونے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر کیا ہے۔ دیکھیے سورة سبا (٢٨) ، فرقان ( ١) اور احزاب (٤٠) ۔ ” جہاں تک پہنچے “ کے الفاظ کے ساتھ رسالت عام ہونے کی تصریح کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٩) عرب اور اہل کتاب کی صراحت کے ساتھ دیکھیے سورة آل عمران (٢٠) اور دوسری آیات۔- فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ ۔۔ : پچھلی آیت میں اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصف نبی امی کا خاص ذکر فرمایا ہے اور قرآن مجید میں کئی مقامات پر نبوت سے پہلے آپ کے ان پڑھ ہونے اور پہلی کتابوں اور ایمان کی حقیقت سے بالکل بیخبر ہونے کو کئی جگہ بیان فرمایا ہے، چناچہ فرمایا : ” آپ اس سے پہلے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا۔ “ [ العنکبوت : ٤٨ ] اور فرمایا : ” یہ غیب کی خبروں سے ہے۔ اس سے پہلے انھیں نہ آپ جانتے تھے، نہ آپ کی قوم۔ “ [ ھود : ٤٩ ] اور فرمایا : ” آپ وحی سے پہلے نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ “ [ الشوریٰ : ٥٢ ] بلکہ فرمایا : ” آپ کو امید تک نہ تھی کہ آپ کو کتاب عطا کی جائے گی۔ “ [ القصص : ٨٦ ] کئی لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہونے سے بھی پہلے ہر چیز کا علم رکھتے تھے، پھر آپ کا خاص وصف امی کیا ہوا کہ ایک بالکل ان پڑھ شخص دنیا کے تمام پڑھے لکھے، دانشور، فلسفی اور دوسرے علوم میں کمال رکھنے والوں کا استاد بن گیا۔ - يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ : اللہ تعالیٰ کے کلمات کے لامحدود ہونے کا تذکرہ دیکھیے سورة کہف (١٠٩) اور لقمان (٢٧) میں۔- لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ : معلوم ہوا اب ہدایت صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ کی پیروی میں ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی (انفرادی ہو یا اجتماعی اس) کے ہر گوشہ میں آپ ہی کی ہدایت اور نقش قدم پر چلا جائے، اس کے علاوہ ہدایت کا کوئی راستہ نہیں۔ دیکھیے سورة نجم (٣، ٤) ۔
خلاصہ تفسیر - آپ کہہ دیجئے کہ اے (دنیا جہان کے) لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا (پیغمبر) ہوں جس کی بادشاہت ہے تمام آسمانوں اور زمین میں، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی زندگی دیتا ہے وہی موت دیتا ہے، اس لئے اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر (بھی ایمان لاؤ) جو کہ (خود بھی) اللہ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں (یعنی جب باوجود اس رتبہ عظیمہ کے ان کو اللہ اور سب رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے سے عار نہیں تو تم کو اللہ و رسول پر ایمان لانے سے کیوں انکار ہے) اور ان (نبی) کا اتباع کرو تاکہ تم راہ (راست) پر آجاؤ اور (اگرچہ بعض لوگوں نے آپ کی مخالفت کی لیکن) قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو دین حق (یعنی اسلام) کے موافق (لوگوں کو) ہدایت بھی کرتے ہیں اور اسی کے موافق (اپنے اور غیروں کے معاملات میں) انصاف بھی کرتے ہیں (مراد اس سے عبداللہ بن سلام وغیرہ ہیں)- معارف ومسائل - اس آیت میں اسلام کے اصولی مسائل میں سے مسئلہ رسالت کے ایک اہم پہلو کا بیان ہے کہ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت دنیا کے تمام جن و بشر کے لئے اور ان میں بھی قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے عام ہے۔ اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اعلان عام کردینے کا حکم ہے کہ آپ لوگوں کو بتلا دیں کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، میری بعثت و رسالت پچلھے انبیاء کی طرح کسی مخصوص قوم یا مخصوص خطہ زمین یا خاص وقت کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لئے دنیا کے ہر خطہ ہر ملک ہر آبادی کے لئے اور موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے قیامت تک کے واسطے عام ہے، اور انسانوں کے علاوہ جنات بھی اس میں شریک ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تمام عالم کیلئے تا قیامت ہے، اسی لئے آپ پر نبوت ختم ہے یہی اصلی راز ہے مسئلہ ختم نبوت کا، کیونکہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت قیامت تک آنے والی سب نسلوں کے لئے عام ہے تو پھر کسی دوسرے رسول اور نبی کے مبعوث ہونے کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش، اور یہی راز ہے امت محمدیہ کی اس خصوصیت کا کہ اس میں ارشاد نبوی کے مطابق ہمیشہ ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو دین میں پیدا ہونے والے سارے فتنوں کا مقابلہ اور دینی معاملات میں پیدا ہونے والے سارے رخنوں کا انسداد کرتی رہے گی، کتاب و سنت کی تعبیر و تفسیر میں جو غلطیاں رائج ہوں گی یہ جماعت ان کو بھی دور کرے گی اور حق تعالیٰ کی خاص نصرت و امداد اس جماعت کو حاصل ہوگی جس کے سبب یہ سب پر غالب آکر رہے گی، کیونکہ درحقیقت یہ جماعت ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض رسالت ادا کرنے میں آپ کی قائم مقام ہوگی۔ - امام رازی نے آیت كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ کے تحت میں بتلایا ہے کہ اس آیت میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اس امت میں صادقین کی ایک جماعت ضرور باقی رہے گی ورنہ دنیا کو صادقین کی معیت وصحبت کا حکم ہی نہ ہوتا اور اسی سے امام رازی نے ہر دور میں اجماع امت کا حجت شرعیہ ہونا ثابت کیا ہے، کیونکہ صادقین کی جماعت کے موجود ہوتے ہوئے کسی غلط بات یا گمراہی پر سب کا اجماع و اتفاق نہیں ہوسکتا۔- امام ابن کثیر نے فرمایا کہ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النبیین اور آخری پیغمبر ہونے کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ جب آپ کی بعثت و رسالت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے اور پورے عالم کے لئے عام ہوئی تو اب کسی دوسرے جدید نبی و رسول کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اسی لئے آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں گے تو وہ بھی اپنی جگہ اپنی نبوت پر برقرار ہونے کے باوجود شریعت محمدی پر عمل کریں گے، جیسا کہ صحیح روایات حدیث سے ثابت ہے۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت و رسالت ساری دنیا اور قیامت تک کے لئے عام ہونے پر یہ آیت بھی بہت واضح ثبوت ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم کی متعدد آیات اس پر شاہد ہیں۔ مثلا ارشاد ہے (آیت) وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ۔ یعنی یہ قرآن مجھ پر بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ میں تم کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اور ان لوگوں کو بھی جن کو میرے بعد یہ قرآن پہنچے۔ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند اہم خصوصیات :- اور ابن کیثر نے بحوالہ مسند احمد سند قوی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز تہجد میں مشغول تھے، صحابہ کرام کو خوف ہوا کہ کوئی دشمن حملہ نہ کردے اس لئے آپ کے گرد جمع ہوگئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ آج کی رات مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی رسول و نبی کو نہیں ملیں، اول یہ کہ میری رسالت و نبوت کو ساری دنیا کی کل اقوام کے لئے عام کیا گیا ہے اور مجھ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ان کی دعوت و بعثت صرف اپنی اپنی قوم کے ساتھ مخصوص ہوئی تھی، دوسری بات یہ ہے کہ مجھے میرے دشمن کے مقابلہ میں ایسا رعب عطا کیا گیا ہے کہ وہ مجھ سے ایک مہینہ کی مسافت پر ہو تو میرا رعب اس پر چھا جاتا ہے، تیسرے یہ کہ میرے لئے کفار سے حاصل شدہ مال غنیمت حلال کردیا گیا حالانکہ پچھلی امتوں کے لئے حلال نہ تھا بلکہ اس کا استعمال کرنا گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا، ان کے مال غنیمت کا صرف یہ مصرف تھا کہ آسمان سے ایک بجلی آئے اور اس کو جلا کر خاک کردے، چوتھے یہ کہ میرے لئے تمام زمین کو مسجد اور پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا کہ ہماری نماز زمین پر ہر جگہ ہوجاتی ہے مسجد کے ساتھ مخصوص نہیں بخلاف پہلی امتوں کے کہ ان کی عبادت صرف ان کے عبادت خانوں کے ساتھ مخصوص تھی اپنے گھروں میں یا جنگل وغیرہ میں ان کی نماز و عبادت نہ ہوتی تھی، نیز یہ کہ جب پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو، خواہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی بیماری کے سبب تو وضو کے بجائے مٹی سے تیمم کرنا اس امت کے لئے طہارت و وضو کے قائم مقام ہوجاتا ہے، پچھلی امتوں کے لئے یہ آسانی نہ تھی، پھر فرمایا : اور پانچویں چیز کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں وہ خود ہی اپنی نظیر ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر رسول کو ایک دعا کی قبولیت ایسی عطا فرمائی ہے کہ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا اور ہر رسول و نبی نے اپنی اپنی دعا کو اپنے خاص مقصدوں کے لئے استعمال کرلیا وہ مقصد حاصل ہوگئے مجھ سے یہی کہا گیا کہ آپ کوئی دعا کریں، میں نے اپنی دعا کو آخرت کے لئے محفوظ کرادیا، وہ دعا تمہارے اور قیامت تک جو شخص لآ الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا ہوگا اس کے کام آئے گی۔- نیز امام احمد کی ایک روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص میرا مبعوث ہونا سنے خواہ وہ میری امت میں ہو یا یہودی نصرانی ہو اگر وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے گا تو جہنم میں جائے گا۔- اور صحیح بخاری میں اسی آیت کے تحت میں بروایت ابو درداء نقل کیا ہے کہ ابوبکر و عمر (رض) کے درمیان کسی بات میں اختلاف ہوا، حضرت عمر (رض) ناراض ہو کر چلے گئے، یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر (رض) بھی ان کو منانے کے لئے چلے، مگر حضرت عمر نے نہ مانا، یہاں تک کہ اپنے گھر میں پہنچ کر دروازہ بند کرلیا، مجبورا صدیق اکبر واپس ہوئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے، ادھر کچھ دیر کے بعد حضرت عمر کو اپنے اس فعل پر ندامت ہوئی اور یہ بھی گھر سے نکل کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے اور اپنا واقعہ عرض کیا، ابو الدرداء کا بیان ہے کہ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناراض ہوگئے، جب صدیق اکبر نے دیکھا کہ حضرت عمر پر عتاب ہونے لگا تو عرض کیا یا رسول اللہ زیادہ قصور میرا ہی تھا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ میرے ایک ساتھی کو اپنی ایذاؤں سے چھوڑ دو ، کیا تم نہیں جانتے کہ جب میں نے باذن خداوندی یہ کہا کہ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا تو تم سب نے مجھے جھٹلایا صرف ابوبکر ہی تھے جنہوں نے پہلی بار میری تصدیق کی۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تمام موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اور ہر ملک ہر خطہ کے باشندوں کے لئے اور ہر قوم و برادری کے لئے رسول عام ہونا ثابت ہوا اور یہ کہ آپ کی بعثت کے بعد جو شخص آپ پر ایمان نہیں لایا وہ اگرچہ کسی سابق شریعت و کتاب کا یا کسی اور مذہب و ملت کا پورا پورا اتباع تقوی و احتیاط کے ساتھ بھی کررہا ہو وہ ہرگز نجات نہیں پائے گا۔ - آخر آیت میں بتلایا کہ میں اس ذات پاک کی طرف سے رسول ہوں جس کی ملک میں ہیں تمام آسمان اور زمین، وہ ہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا : (آیت) فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤ ْمِنُ باللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔ - یعنی جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام اقوام عالم کے لئے رسول و نبی ہیں، ان کے اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، تو ضروری ہے کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو خود بھی اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان لاتے ہیں، اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم صحیح راستہ پر قائم رہو۔ - اللہ کے کلمات سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتابیں تورات، انجیل، قرآن وغیرہ ہیں، ایمان کے حکم کے بعد پھر اتباع کا مزید حکم دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ محض ایمان لانا یا زبانی تصدیق کرنا آپ کی شریعت کا اتباع کرنے کے بغیر ہدایت کے لئے کافی نہیں۔- حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے کل راستے بند ہیں بجز اس راستہ کے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا ہے۔
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ٠ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ ١٥٨- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینا مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - کلام - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع،- فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5]- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
(١٥٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ میں تمام لوگوں کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو مرنے کے بعد زندہ کرتا اور دنیا میں موت دیتا ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب کریم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور کلمہ پڑھا جائے تو حضرت مراد ہوجائیں یعنی کہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن فرمانے سے وہ پیدا ہوگئے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی پیروی کرو تاکہ تمہیں گمراہی سے ایمان کی طرف ہدایت نصیب ہو۔
اب اگلی آیت کا مطالعہ کرنے سے پہلے دو باتیں اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ایک تو گزشتہ آیات کے مضمون کا اس آیت کے ساتھ ربط کا معاملہ ہے۔ اس ربط کو یوں سمجھنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد انباء الرسل کے اس سلسلے کو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک لانے میں بہت تفصیل درکار تھی۔ اس تفصیل کو چھوڑ کر اب براہ راست آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بتادیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمام بنی نوع انسان کی طرف۔ چناچہ پچھلی آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر اور تورات و انجیل میں نبی آخرالزماں کے بارے میں بشارتوں کے حوالے سے اس آیت کا سیاق وسباق گویا یوں ہوگا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب آپ علی الاعلان کہہ دیجیے کہ میں ہی وہ رسول ہوں جس کا ذکر تھا تورات اور انجیل میں ‘ مجھ پر ہی ایمان لانے کی تاکید ہوئی تھی موسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو ‘ میری ہی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے وعدہ ہے اللہ کی خصوصی رحمت کا ‘ اور اب میری ہی نصرت اور اطاعت کا حق ادا کرنے والوں کو ضمانت ملے گی ابدی و اخروی فلاح کی - دوسری اہم بات یہاں یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ اس سورة میں ہم نے اب تک جتنے رسولوں کا تذکرہ پڑھا ہے ‘ ان کا خطاب یَا قَوْمِ (اے میری قوم کے لوگو ) کے الفاظ سے شروع ہوتا تھا ‘ مگر محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ امتیازی شان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مخصوص قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوئے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت آفاقی اور عالمی سطح کی رسالت ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری بنی نوع انسانی کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢١ میں عبادتِ رب کا حکم جس آفاقی انداز میں دیا گیا ہے اس میں بھی اسی حقیقت کی جھلک نظر آتی ہے : (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) ۔ اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں : آیت ١٥٨ (قُلْ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا) - یہ بات مختلف الفاظ اور مختلف انداز میں قرآن حکیم کے پانچ مقامات پر دہرائی گئی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پوری نوع انسانی کے لیے ہے۔ ان میں سورة سبا کی آیت ٢٨ سب سے نمایاں ہے : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا) ہم نے نہیں بھیجا ہے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کو مگر پوری نوع انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر۔ - (فَاٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ ) ۔ - یہ گویا اعلان عام ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کہ میری بعثت اس وعدے کے مطابق ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد کی یہ آیات گویا اس خطاب کی تمہید ہے جو یہود مدینہ سے ہونے والا تھا۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ سورت ہجرت سے قبل نازل ہوئی تھی اور اس کے نزول کے فوراً بعد ہجرت کا حکم آنے کو تھا ‘ جس کے بعد دعوت کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدینہ کے یہودی قبائل سے براہ راست سابقہ پیش آنے والا تھا۔ مکی قرآن میں ابھی تک یہود سے براہ راست خطاب نہیں ہوا تھا ‘ ابھی تک یا تو اہل مکہ مخاطب تھے یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ یا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اہل ایمان۔ لیکن اب انداز بیان میں جو تبدیلی آرہی ہے اس کا اصل محل ہجرت کے بعد کا ماحول تھا۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :116 اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی ۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہو رہا ہے ۔
77: چونکہ پیچھے یہ ذکر آیا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے وقت ان کو یہ بتادیا گیا تھا کہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ان کی آئندہ نسلوں کے لئے ضروری ہوگا، اس لئے اس موقع کی مناسبت سے جملۂ معترضہ کے طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت عطا فرمائی کہ وہ بنی اسرائیل سمیت تمام انسانوں کو اپنی نبوت پر ایمان لانے اور اپنی اتباع کی دعوت دیں۔