Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انبیاء کا قاتل گروہ خبر ہے کہ امت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) ، اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے ، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے اور آیت میں ہے ( وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ١٩٩؁ ) 3-آل عمران:199 ) ، یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر ہے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ١٢١۝ۧ ) 2- البقرة:121 ) ، جو لوگ ہماری کتاب پائے ہوئے ہیں اور اسے حق تلاوت کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور فرمان ہے آیت ( قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ١٠٧؀ۙ السجدہ ) 17- الإسراء:107 ) جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں ۔ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خبر لکھی ہے کہ ابن جریج فرماتے ہیں جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ان کے بارہ گروہ تھے ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہا اللہ تعالیٰ سے معذورت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہوں میں وہ تفریق کر دے ۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آیت ( وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ١٠٤؀ۭ ) 17- الإسراء:104 ) کا یہی مطلب ہے ۔ اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے ۔ کہتے ہیں اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے ۔ کہتے ہیں اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

159۔ 1 اس سے مراد وہی چند لوگ ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، عبد اللہ بن سلام وغیرہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦١] ہر معاشرہ میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود ہوتے ہیں :۔ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دور نبوی میں یہود کے گروہوں میں ایک گروہ انصاف پسند موجود تھا۔ اگرچہ یہ گروہ قلیل تعداد میں تھا تاہم اس آیت کو صرف دور نبوی سے مختص کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں دور نبوی تک ایک ایسا انصاف پسند گروہ موجود رہا ہے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگرچہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ تاہم ان میں سے ایک گروہ ایسا ہوگا جو تاقیامت حق پر قائم رہے گا اور اگر ربط مضمون کے لحاظ سے یہ کہا جائے کہ جب بنی اسرائیل گؤ سالہ پرستی جیسے بڑے شرک میں مبتلا تھے تو اس وقت بھی امت میں ایک انصاف پسند گروہ موجود تھا جو دوسروں کو ہدایت پر رہنے کی تلقین کرتا تھا تو یہ بھی مناسب ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ۔۔ : اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو تورات پر قائم رہے اور وہ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر آپ پر ایمان لے آئے، جیسے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک حق پرست جماعت :- دوسری آت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو خود بھی حق کا اتباع کرتی ہے اور اپنے نزاعی معاملات کے فیصلوں میں حق کے موافق فیصلے کرتی ہے۔ سابقہ آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی کجروی، کج بحثی اور گمراہی کا بیان ہوا تھا، اس آیت میں بتلایا گیا کہ پوری قوم بنی اسرائیل ایسی نہیں بلکہ ان میں کچھ لوگ اچھے بھی ہیں جو حق کا اتباع کرتے ہیں، اور حق فیصلے کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تورات و انجیل کے زمانہ میں ان کی ہدایات کے موافق پورا عمل کیا، اور جب خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو تورات و انجیل کی بشارت کے موافق آپ پر ایمان لائے اور آپ کا اتباع کیا، بنی اسرائیل کی اس حق پرست جماعت کا ذکر بھی قرآن میں بار بار آیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) من اھل الکتب امۃ قآئمة یتلون ایت اللہ انآء الیل وھم یسجدون، یعنی اہل کتاب میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق پر قائم ہے، اللہ کی آیات کو رات بھر تلاوت کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) الذین اتینھم الکتب من قبلہ ھم بہ یؤ منون یعنی وہ لوگ جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کتاب ( تورات و انجیل دی گئی تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے ہیں۔- اور ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ نے اس جگہ ایک عجیب حکایت نقل کی ہے کہ اس جماعت سے وہ جماعت مراد ہے جو بنی اسرائیل کی گمراہی اور بد اعمالیوں، قتل انبیاء وغیرہ سے تنگ آکر ان سے الگ ہوگئی تھی بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا جنہوں نے اپنی قوم سے تنگ آکر یہ دعا کی کہ یا اللہ ہمیں ان لوگوں سے دور کہیں اور بسا دیجئے تاکہ ہم اپنے دین پر پختگی سے عمل کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو ڈیڑھ سال کی مسافت پر مشرق بعید کی کسی زمین میں پہنچا دیا جہاں وہ خالص عبادت میں مشغول رہے، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد بھی نیرنگ قدرت سے ان کے مسلمان ہونے کا یہ سامان ہوا کہ شب معراج میں جبریل امین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرف لے گئے وہ لوگ آپ پر ایمان لائے آپ نے ان کو کچھ قرآن کی سورتیں پڑھائیں اور ان سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس ناپ تول کا کچھ انتظام ہے اور تم لوگوں کے معاش کا کیا سامان ہے ؟ جواب دیا کہ ہم زمین میں غلہ بوتے ہیں جب تیار ہوجاتا ہے کاٹ کر وہیں ڈھیر لگا دیتے ہیں ہر شخص کو جتنی ضرورت ہوتی ہے وہاں سے لے آتا ہے، ناپنے تولنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی شخص جھوٹ بھی بولتا ہے ؟ عرض کیا کہ نہیں، کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے تو فورا ایک آگ آکر اسے جلا دیتی ہے، آپ نے دریافت کیا کہ تم سب کے مکانات بالکل یکساں کیوں ہیں ؟ عرض کیا اس لئے کہ کسی کو کسی پر بڑائی جتلانے کا موقع نہ ملے، پھر دریافت کیا کہ تم نے اپنے مکانات کے سامنے اپنی قبریں کیوں بنا رکھی ہیں ؟ عرض کیا تاکہ ہمیں موت ہر وقت مسحضر رہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب معراج سے واپس مکہ میں تشریف لائے تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، تفسیر قرطبی نے اسی روایت کو اصل قرار دیا ہے اور دوسرے احتمالات بھی لکھے ہیں، ابن کثیر نے اس کو حکایت عجیبہ تو فرمایا مگر رد نہیں کیا، البتہ تفسیر قرطبی میں اس کو نقل کر کے کہا ہے کہ غلبا یہ روایت صحیح نہیں۔ - بہرحال اس آیت سے یہ مفہوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی ہے جو ہمیشہ حق پر قائم رہی خواہ یہ وہ لوگ ہوں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خبر پاکر مشرف باسلام ہوگئے، یا وہ بنی اسرائیل کا بارہواں قبیلہ ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے کسی خاص حصہ میں رکھا ہوا ہے جہاں دوسروں کی رسائی نہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّۃٌ يَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ يَعْدِلُوْنَ۝ ١٥٩- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی.- الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ - لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٩) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو اللہ کے موافق عمل کرتی ہے اور وہ نہر رمل کے پرے رہنے والے لوگ ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٩ (وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ ) ۔ - اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی اکثریت نافرمانوں پر مشتمل تھی مگر آپ ( علیہ السلام) کے پیروکاروں میں حق پرست اور انصاف پسند افراد بھی موجود تھے جو لوگوں کو حق بات کی تلقین کرتے تھے اور ان کے فیصلے بھی عدل و انصاف پر مبنی ہوتے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :117 بیشتر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور انصاف کرتا ہے ، یعنی ان کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کی وہ اخلاقی و ذہنی حالت بیان کی گئی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھی ۔ لیکن سیاق و سباق پر نظر کرتے ہوئے ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کا وہ حال بیان ہوا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا ، اور اس سے مدعا یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب اس قوم میں گوسالہ پرستی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا اور حضرت حق کی طرف سے اس پر گرفت ہوئی تو اس وقت ساری قوم بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ اس میں ایک اچھا خاصا صالح عنصر موجود تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

78: یہودیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی جو دعوت دی گئی، اور اس سے پہلے ان کی بہت سی بد عنوانیاں بیان ہوئیں، اس سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ تمام بنی اسرائیل بد عنوانیوں کے مرتکب ہیں، اس لئے جملہ معترضۂ کے آخر میں اﷲ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرمادی کے سارے بنی اسرائیل ایک جیسے نہیں ہیں، بلکہ اُن میں حق کو ماننے والے، اس پر عمل کرنے والے اور اُس کی طرف لوگوں کو ہدایت دینے والے بھی موجود ہیں، اس میں وہ بنی اسرائیل بھی داخل ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے دین حق پر قائم رہے، اور وہ بھی جو آپ پر ایمان لائے، مثلا حضرت عبداللہ بن سلامؓ وغیرہ۔ اس وضاحت کے بعد آگے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے بنی اسرائیل کا جو واقعہ دور سے چلا آرہا ہے، اس کو دوبارہ شروع کیا جارہا ہے۔