Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہ سب آیتیں سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہیں اور وہیں ان کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم نے بیان کر دی ہے وہ سورت مدنیہ ہے اور یہ مکیہ ہے ۔ ان آیتوں اور ان آیتوں کا فرق بھی مع لطافت کے ہم نے وہیں ذکر کر دیا ہے دوبارہ کی ضرورت نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

160۔ 1 اَسْبَا ط، سِبْط، ُ کی جمع ہے۔ بمعنی پوتا یہاں اسباط قبائل کے معنی میں ہیں۔ یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے معرض وجود میں آئے ہر قبیلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایک نقیب (نگران) بھی مقرر فرمادیا یہاں پر اللہ تعالیٰ ان بارہ قبیلوں کی بعض بعض صفات میں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کی بنا پر ان کے الگ الگ گروہ ہونے کو بطور احسان کے ذکر فرما رہا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٢] بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے اور نقیبوں کی ذمہ داری :۔ بنی اسرائیل کی مردم شماری، پھر ان کو سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں کی اولاد ہونے کے لحاظ سے بارہ قبیلوں میں منظم کرنے کا کام سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے سر انجام دیا تھا پھر ان قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کا ایک نقیب یا سردار مقرر کیا۔ اس سردار کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے قبیلہ کے دینی، تمدنی اور معاشی مسائل کی نگرانی کرے اور ان لوگوں کو راہ راست پر رکھنے کا حتی المقدور انتظام کرے۔ پھر ان سب پر بنی لاوی کے سردار کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ اپنے قبیلہ کے مسائل کی نگرانی کے علاوہ دوسرے سب قبائل کے حالات کی بھی نگرانی کرے گا اور یہ وہی قبیلہ تھا جس سے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا ہارون (علیہ السلام) خود بھی تعلق رکھتے تھے۔- [١٦٣] صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر انعامات بادل من وسلویٰ کا نزول اور بارہ چشمے پھوٹنا :۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بنی اسرائیل پر تین احسانات کا ذکر فرمایا ہے اور یہ اس دور کے واقعات ہیں جب بنی اسرائیل کو چالیس سال کے طویل عرصہ کے لیے صحرائے سینا میں روک دیا گیا تھا کیونکہ ان لوگوں نے جہاد سے انکار کر کے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس میدان میں دور تک کہیں پانی کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا نہ کوئی کھانے پینے کی چیز ملتی تھی اور نہ کہیں کوئی سایہ یا مکان نظر آتا تھا جہاں جا کر وہ دھوپ سے پناہ لے سکیں گویا ان تینوں چیزوں سے ہر چیز انسان کی بنیادی ضروریات سے تعلق رکھتی تھی۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی انہیں وہاں عطا نہ کی جاتی تو سب کے سب وہیں ہلاک ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان ضروریات کا یوں اہتمام فرمایا کہ پورا چالیس سال کا عرصہ جب دھوپ تیز ہونے لگتی تو آسمان پر بادل چھا جاتے اور انہیں دھوپ سے بچاتے تھے پھر یہ کہ وہ برستے بھی نہیں تھے کہ بارش کی وجہ سے انہیں کہیں پناہ لینی پڑے اس طرح اس لاکھوں کی تعداد میں موجود انسانوں کے مکانات کا مسئلہ حل ہوا پینے کو پانی نہیں مل رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ چٹان پر اپنا عصا ماریں اس سے بارہ الگ الگ چشمے پھوٹ نکلے اور یہ چشمے بھی اس طویل مدت میں بہتے ہی رہے ہر قبیلہ کو الگ الگ چشمہ پر قابض بنادیا گیا تاکہ ان میں پانی کی تقسیم پر جھگڑا نہ پیدا ہو اس طرح ان کے پانی کی ضروریات کا مسئلہ حل ہوا پھر کھانے کو من اور سلویٰ نازل فرمائے۔ غور فرمائیے کہ اس لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے لیے کس قدر روزانہ اس من وسلویٰ کی ضرورت ہوتی ہوگی اور وہ اسی مقدار میں نازل کیا جاتا رہا اس طرح ان کی خوراک کا مسئلہ حل ہوا پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ اس لاکھوں کی تعداد کے لشکر کے لیے اگر اپنی ضروریات کا کسی بادشاہ یا کسی حکومت کو انتظام کرنا پڑتا تو اس کے کس قدر مصارف اٹھتے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ یہ انتظام پورے چالیس سال کے عرصہ تک کرنا پڑتے نیز یہ کہ اس چالیس سال کے عرصہ میں بنی اسرائیل کی اپنی ہی تربیت کی جا رہی تھی۔ تاکہ اس عرصہ میں ان کے اندر سے گؤ سالہ پرستی کے جراثیم دور ہوں اور اللہ کے ان احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اسی کی عبادت بجا لائیں اور ان سے وہ بزدلی دور ہو جو غلامی کی طویل زندگی میں ان کی رگ رگ میں بس گئی تھی اور اس صحرائی زندگی کی وجہ سے ان میں کچھ جرأت اور دلیری پیدا ہو اور پرانی بزدل نسل مر کھپ جائے اور نئی نسل آزادی کی فضاؤں میں جرأت مند پیدا ہو تاکہ وہ لوگ اس جہاد کے لیے تیار ہو سکیں جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔- [١٦٤] مگر ان لوگوں نے اللہ کے ان احسانات کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی نافرمانیاں شروع کردیں اور تاکیدی حکم کے باوجود من وسلویٰ کو ذخیرہ کرنا اور دوسروں کو ان کے حق سے محروم کرنا شروع کردیا پھر انہیں ان نافرمانیوں کی سزا خود ہی بھگتنا پڑی۔ ان کی ان نافرمانیوں سے آخر ہمارا کیا بگڑ سکتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا : ” اَسْبَاطًا “ یہ ” سَبْطٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی اولاد کی اولاد ہے۔ یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبائل وجود میں آئے۔ اپنے الگ الگ اوصاف کی وجہ سے ہر قبیلے نے اپنا الگ وجود برقرار رکھا، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے پر ایک نقیب مقرر فرمایا : ( وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ۭ ) [ المائدۃ : ١٢ ] ” اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے۔ “ ” اُمَمًا “ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تعداد میں بہت بڑھ گئے۔ - اس آیت میں ” فَانْۢبَجَسَتْ “ اور سورة بقرہ میں ” فَانْفَجَرَت “ ہے۔ راغب اصفہانی (رض) فرماتے ہیں کہ ” اِنْبَجَسَ “ اکثر اس کے متعلق کہا جاتا ہے جو تنگ چیز سے نکلے اور ” اِنْفَجَرَ “ اس معنی میں بھی آتا ہے اور اس کے متعلق بھی جو کھلی چیز سے نکلے۔ (مفردات) ان آیات کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٥٨ تا ٦٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے ( ایک انعام بنی اسرائیل پر یہ کیا کہ انکی اصلاح و انتظام کے لئے) ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کردی ( اور ہر ایک پر ایک سردار نگرانی کیلئے مقرر کردیا، جن کا ذکر مائدہ کے رکوع سوم میں (آیت) (وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا) اور (ایک انعام یہ کہ) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو حکم دیا جبکہ انکی قوم نے ان سے پانی مانگا ( اور انہوں نے حق تعالیٰ سے دعا کی، اس وقت یہ حکم ہوا) کہ اپنے اس عصاء کو فلاں پتھر پر مارو ( اس سے پانی نکل آوے گا) بس ( مارنے کی دیر تھی) فورا اس سے بارہ چشمے ( بعدد ان بارہ خاندانوں کے) پھوٹ نکلے ( چنانچہ) ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کرلیا اور ( ایک انعام یہ کیا کہ) ہم نے ان پر ابر کو سایہ افگن کیا اور ( ایک انعام یہ کیا کہ) ان کو ( خزانہ غیب سے) ترنجبین اور بٹیریں پہنچائیں، ( اور اجازت دی کہ) کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں ( لیکن وہ لوگ اس میں بھی ایک بات خلاف حکم کر بیٹھے) اور ( اس سے) انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا، لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے، ( یہ واقعات وادی تیہ کے ہیں جن کی تفصیل سورة بقرہ میں گزر چکی) اور ( وہ زمانہ یاد کرو) جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی میں جاکر رہو اور کھاؤ اس ( کی چیزوں میں) سے جس جگہ تم رغبت کرو اور ( یہ بھی حکم دیا گیا کہ جب اندر جانے لگو تو) زبان سے یہ کہتے جانا کہ توبہ ہی ( توبہ ہے اور ( عاجزی سے) جھکے جھکے دروازے میں داخل ہونا ہم تمہاری ( پچھلی) خطائیں معاف کردیں گے ( یہ تو سب کیلئے ہوگا اور) جو لوگ نیک کام کریں گے ان کو مزید براں اور دیں گے، سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس ( کے کہنے) کی ان سے فرمائش کی گئی تھی، اس پر ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی، اس وجہ سے کہ وہ حکم کو ضائع کرتے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَطَّعْنٰہُمُ اثْنَـتَيْ عَشْرَۃَ اَسْـبَاطًا اُمَمًا۝ ٠ ۭ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰي مُوْسٰٓي اِذِ اسْتَسْقٰىہُ قَوْمُہٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ۝ ٠ ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَيْنًا۝ ٠ ۭ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ۝ ٠ ۭ وَظَلَّلْنَا عَلَيْہِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْہِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝ ٠ ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۝ ١٦٠- قطع - القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] ، - ( ق ط ع ) القطع - کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا - سبط - أصل السَّبْط : انبساط في سهولة، يقال : شَعْرٌ سَبْطٌ ، وسَبِطٌ ، وقد سَبِطَ سُبُوطاً وسَبَاطَةً وسَبَاطاً ، وامرأة سَبْطَةُ الخلقة، ورجل سَبْطُ الكفّين :- ممتدّهما، ويعبّر به عن الجود، والسِّبْطُ : ولد الولد، كأنه امتداد الفروع، قال : وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْباطِ [ البقرة 136] ، أي : قبائل كلّ قبیلة من نسل رجل، وقال تعالی:- وَقَطَّعْناهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْباطاً أُمَماً [ الأعراف 160] ، والسَّابَاطُ : المنبسط بين دارین . وأخذت فلانا سَبَاطِ ، أي : حمّى تمطّه، والسُّبَاطَةُ خط من قمامة، وسَبَطَتِ النّاقة ولدها، أي : ألقته . ( س ب ط ) السبط اس کا اصل معنی سہولت کے ساتھ کسی چیز کا منبسط ہونا ہیں اور سبط ( س ) سبوطا و سباطۃ وسباطا کے معنی بالوں کے سیدھا اور دراز ہونے کے ہیں اور سیدھے بالوں کو جن مین گھنگٹ نہ ہوں سبط یا سبط کہا جاتا ہے ۔ اسیطرح خوش قامت عورت کو بھی سبطۃ کہا جاتا ہے اور دراز کف دست آدمی کو سبط الکفین کہتے ہیں اور یہ سخاوت سے کنایہ ہوتا ہے ۔ السبط اس کے معنی اولاد کی اولاد یعنی پوتے اور نواسے کے ہیں گویا اس میں فروع کے امتداد کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْباطِ [ البقرة 136] اور حضرت یعقوب اور ان کی اولاد ۔ یہاں اسباط سے مراد قبائل ہیں ۔ ہر قبیلہ ایک شخص کی اولاد سے تھا ۔ جیسے فرمایا : أَسْباطاً أُمَماً [ الأعراف 160] ( الگ الگ ) بارہ قبیلے بنا دیئے الساباط وہ مسقف راستہ جو دو مکانوں کے درمیان ہو ۔ اور اخذت فلانا سباط کے معنی ہیں فلاں کو بخار چڑھ گیا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) السباطۃ خیر میں قمامۃ کہ خاک روبہ کوڑے سے بہتر ہے ۔ سبطت الناقۃ ولدھا اونٹنی نے نا تمام بچہ گرا دیا ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - اسْتِسْقاءُ- والاسْتِسْقاءُ : طلب السّقي، أو الإسقاء، قال تعالی: وَإِذِ اسْتَسْقى مُوسی[ البقرة 60]- الاستسقاء کے معنی کسی سے پانی طلب کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ؟ ۔ وَإِذِ اسْتَسْقى مُوسی[ البقرة 60] اور جب موسٰی ( (علیہ السلام) ) نے اپنی قوم کے لئے ( خدا سے ) پانی مانگا ۔- ضرب - الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ- [ الأنفال 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا - [ الزخرف 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا - [ الكهف 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] .- والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ :- ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها .- ( ض ر ب ) الضرب - کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - بجس - يقال : بَجَسَ الماء وانْبَجَسَ : انفجر، لکن الانبج اس أكثر ما يقال فيما يخرج من شيء ضيق، والانفجار يستعمل فيه وفیما يخرج من شيء واسع، ولذلک قال عزّ وجل : فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ الأعراف 160] ، وقال في موضع آخر : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، فاستعمل حيث ضاق المخرج اللفظان قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، وقال : وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ولم يقل : بجسنا .- ( ب ج س ( بحبس الماء وانبحبس ۔ پانی پھوٹ کر بہ نکلا یہ انفخو کے ہم معنی ہے مگر انبج اس عام طور پر اس مقام پر بولا جاتا ہے جب کسی تنگ مقام سے پانی بہ نکلا ہو اور انفخار کا لفظ عام ہے یعنی وہ کسی تنگ مقام سے پانی بہ نکلنے پر بھی بولا جاتا ہے اور وسیع جگہ سے بھی ۔ یہی وجہ سے قرآن میں ایک مقام پر فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ الأعراف 160] آیات سے اور دوسرے مقام پر فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] آیا ہے نیصنی تنگ مقام ( پھتر ) سے پانی بہ نکلنے پر دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ( مگر جہاں یہ معنی ملحوظ نہیں ) جیسے وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] کہ دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کردی ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] کہ ہم نے زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں صرف فجر کا لفظ استعمال ہوا بحبسنا نہیں فرمایا ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - شِّرْبُ- : النّصيب منه قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین،- الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - غم - الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه .- ( غ م م ) الغم - ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - منّ ( من و سلوي)- في قوله : وَأَنْزَلْنا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوى[ البقرة 57] فقد قيل : المنّ شيء کالطّلّ فيه حلاوة يسقط علی الشجر، والسّلوی: طائر، وقیل : المنّ والسّلوی، كلاهما إشارة إلى ما أنعم اللہ به عليهم، وهما بالذّات شيء واحد لکن سماه منّا بحیث إنه امتنّ به عليهم، وسماه سلوی من حيث إنّه کان لهم به التّسلّي . ومَنْ عبارة عن النّاطقین، ولا يعبّر به عن غير النّاطقین إلا إذا جمع بينهم وبین غيرهم، کقولک : رأيت مَنْ في الدّار من النّاس والبهائم، أو يكون تفصیلا لجملة يدخل فيهم النّاطقون، کقوله تعالی: فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي الآية [ النور 45] . ولا يعبّر به عن غير النّاطقین إذا انفرد،- بعض نے کہا ہے منۃ بالقول بھی اسی سے ہے کیونکہ احسان جتلانے نعمت کو قطع کر دیاتا ہے اور شکر گزرای کئ انقطاع کو مقتضی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوى[ البقرة 57] اور تمہارے لئے من سلوی اتارتے رہے ۔ میں من سے شبنمی گوند مراد ہے جو رات کو درخت کو درخت کے پے وں پر چم جاتی تھی اور سلویٰ ایک پرند کا نام ہے بعض نے کہا ہے کہ من اور سلوی سے احسانات کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے تھے اور یہ دونوں اصل میں ایک ہی چیز سے عبارت ہیں ؛لیکن ان پر احسان کرنے کے لحاظ سے اسے من کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ نعمت ان کے لئے باعث اطمینا ن تھی اسے سلویٰ فرمایا ہے جو کہ تسلی سے ماخوذ ہے ۔ اس سے ذوی العقول مراد ہوتے ہیں اور غیر ذوی العقول پر اس کا اطلاق یا تو اس وقت ہوتا ہے ۔ جب وہ ذوی العقول کے ملتبع مراد ہوں مثلا رایت من فی الدار کہہ کر گھر کے لوگ اور بہا ئم دونوں مراد لئے جائیں ۔ اور یا اس وقت جب اہل نطق کے ساتھ شامل کر کے پھر ان کی تفصیل بیان کرنا مقصود ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي الآية [ النور 45] تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور یہ یہ تنہا غیر ذوی العقول کے لئے استعمال نہیں ہوتا - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٠) ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ (١٢) خاندانوں میں تقسیم کردیا، نو (٩) خاندان علاحدہ ہیں اور ڈیڑھ خاندان مشرق کی طرف چین کی نہر رمل پر ارون کے اندر ہے اور ڈھائی خاندان تمام دنیا میں ہیں۔- اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اس عصا کو فلاں پتھر پر مارو، چناچہ اس سے بارہ نہریں پھوٹ پڑیں اور ہر ایک خاندان نے اپنی نہر کو معلوم کرلیا اور وادی تیہ میں ان کو ابردن میں سورج کی شدت سے محفوظ رکھتا تھا اور رات کو چراغ کی طرح چمکتا تھا اور ہم نے انھیں من وسلوی دیا۔- مگر انہوں نے غلطی کی اور اس سے محروم ہوگئے انہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ اپنا ہی نقصان کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٠ (وَقَطَّعْنٰہُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ اَسْبَاطًا اُمَمًاط۔ - ان کی نسل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں سے چلی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لحاظ سے ان میں ایک مضبوط قبائلی نظام کو قائم رکھا۔ ہر بیٹے کی اولاد سے ایک قبیلہ وجود میں آیا اور یہ الگ الگ بارہ جماعتیں بن گئیں۔- (فَانْبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًاط قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ ط) ۔ - مَشرب اسم ظرف ہے ‘ یعنی پانی پینے کی جگہ۔ ہر قبیلے نے اپنا گھاٹ معین کرلیا تاکہ پانی کی تقسیم میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ جنم نہ لے۔- (وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ ) ۔ - وہ اللہ کا کچھ نقصان کر بھی کیسے سکتے تھے۔ اللہ کا کیا بگاڑ سکتے تھے ؟ ایک حدیث قدسی کا مفہوم اس طرح سے ہے :- اے میرے بندو ‘ اگر تمہارے اوّلین بھی اور آخرین بھی ‘ انسان بھی اور جن بھی ‘ سب کے سب اتنے متقی ہوجائیں جتنا کہ تم میں کوئی بڑے سے بڑا متقی ہوسکتا ہے ‘ تب بھی میری سلطنت اور میرے کارخانۂ قدرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔۔ اور اگر تمہارے اوّلین و آخرین اور انس و جن سب کے سب ایسے ہوجائیں جتنا کہ تم میں کوئی زیادہ سے زیادہ سرکش و نافرمان ہوسکتا ہے ‘ تب بھی میری سلطنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (١)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :118 اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ١۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی ، پھر ان کے ١۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا ، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کے اندر اخلاقی ، مذہبی ، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے ۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اولاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے ، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمع حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :119 اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ ان احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے ۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا ۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا ۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریات زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی ، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی ، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے ۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے اس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے ۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے ۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل ناقابل تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی ، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے ۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل ان نافرمانیوں اور غداریوں کی مرتکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۷ حواشی نمبر ۷۲ ، ۷۳ ، ۷٦ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :120 اب تاریخ بنی اسرائیل کے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کو جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

79: آیت نمبر ١٦٠ تا ١٦٢ میں جن واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ سورۂ بقرہ (٢۔ ٥٧ تا ٦١) میں گزرچکے ہیں، تشریح کیلئے ان آیتوں کے حواشی ملاحظہ فرمائیں۔