173۔ 1 یعنی ہم نے یہ اخذ عہد اپنی ربوبیت کی گواہی اس لئے لی تاکہ تم یہ عذر پیش نہ کرسکو کہ ہم تو غافل تھے یا ہمارے باپ دادا شرک کرتے تھے، یہ عذر قیامت والے دن بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہونگے۔
[١٧٦] عہدِالست اور اتمام حجت :۔ اس ازلی عہد کی اللہ تعالیٰ نے دو اغراض بیان فرمائیں ایک یہ کہ انسان پر اتمام حجت ہوجائے اور کوئی مشرک، ملحد، کافر یا نافرمان انسان قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو اس حقیقت کا پتہ ہی نہ چل سکا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عہد کو سمجھنے کی استعداد بھی انسان کے اندر رکھ دی ہے اور خارج میں انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھی بھیج دیں اور دوسری یہ کہ انسان اپنی سابقہ نسلوں پر یا بگڑے ہوئے ماحول پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر شخص سے یہ عہد انفرادی طور پر لیا گیا تھا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اصل میں مشرک یا قصوروار تو ہمارے بڑے بزرگ تھے اور ہمیں محض ان کی اولاد ہونے کی سزا کیوں دی جا رہی ہے ؟- معتزلہ کا اس عہد الست سے انکار اور اس کی تردید :۔ عہد الست کے وقت تمام بنی آدم کی ارواح کو حاضر کرنے کا قصہ بہت سی کتب احادیث مثلاً ترمذی، ابو داؤد، مالک اور احمد میں کئی صحابہ سے منقول ہے اس کے باوجود معتزلہ نے اس قصہ کا انکار کیا ہے اور ایسی احادیث کو خبر واحد کی بنا پر رد کردیا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اس طرح نکالی کہ وہ بصورت نطفہ پشت آباء میں تھے۔ پھر وہاں سے اپنی ماؤں کے رحموں میں آئے پھر ان کو علقہ، پھر مضغہ وغیرہ مراحل طے کرا کے کامل الخلقت بنا کر ماؤں کے پیٹ سے نکالا پھر عقل و حواس عطا کیا جس سے وہ کائنات میں غور کر کے اس کی وحدانیت پر دلائل قائم کرنے کے قابل ہوئے۔ سو یہی دلائل گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عہد اور خود ان کو اس بات پر گواہ بنانا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کائنات میں ایسے دلائل پیدا کرنا ہی گویا اقرار لینا اور ان کا اس حالت میں زبان حال سے اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہے۔- معتزلہ اپنے اس مطلب کے حق میں دو دلائل پیش کرتے ہیں ایک نقلی، دوسری عقلی۔ نقلی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کا ذکر ہے اسی طرح بنی آدم کی وجہ سے من ظہورہم کے الفاظ آئے ہیں اگر یہ قصہ سیدنا آدم (علیہ السلام) سے ہی متعلق ہوتا تو من ظہور ہم کی بجائے من ظہرہ آنا چاہیے تھا۔ ان کی اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ سلسلہ وار ہر ایک نبی کی پشت سے اس کی اولاد نکالی جو تاقیامت پیدا ہونے والی ہے۔ مثلاً زید کو عمرو کی پشت سے اور عمرو کو اس کے باپ خالد کی پشت سے علیٰ ہذا القیاس تو لامحالہ اوپر کی جانب سیدنا آدم (علیہ السلام) پر ہی یہ سلسلہ منتہی ہوگا کیونکہ سب بنی آدم کے وہی باپ ہیں یعنی آدم (علیہ السلام) کی اولاد پھر اس کی اولاد علیٰ ہذا القیاس تمام بنی آدم کی ارواح حاضر کرلی گئیں جن میں آدم (علیہ السلام) بھی شامل اور موجود تھے اور قیامت تک ان کی ہونے والی ساری اولاد بھی۔ اب اگر آدم (علیہ السلام) کے اور من ظہرہ کے الفاظ ہوں تو بھی یہی مفہوم نکلتا ہے جو بنی آدم اور من ظہورہم کے الفاظ آنے سے نکلتا ہے گویا الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے مفہوم میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔- اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ عہد تو اہل عقل و ادراک سے لیا جاتا ہے اور ارواح کو عقل و ادراک نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہم کو یاد بھی ہونا چاہیے تھا حالانکہ ایسا عہد کسی کو یاد نہیں اس دلیل کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔- ان دو دلائل کے بعد معتزلہ نے جو اس آیت کا مطلب پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کائنات میں دلائل پید اکر دینا ہی گویا اقرار لینا ہے اور لوگوں کا یا نبی آدم (علیہ السلام) کا اس حالت میں زبان حال سے اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہے۔ بالفاظ دیگر کوئی واقعہ بھی ظہور میں نہیں آیا۔ اللہ نے کائنات پیدا کردی تو اللہ کا اقرار لینا ہوگیا اور لوگوں نے اس کائنات کو دیکھ لیا تو یہ ان کا اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہوگیا اس توجیہہ میں جتنا وزن ہے وہ آپ خود ہی ملاحظہ فرما لیجئے۔
اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ ۔۔ : یا یہ عذر پیش کرو کہ ہم تو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شرک کی راہ پر چلتے رہے، ہمارا کیا قصور ہے، مطلب یہ ہے کہ شرک کے بارے میں مقلد کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ ” الْمُبْطِلُوْنَ “ سے مراد آباء و اجداد ہیں، یعنی یہ کہنا ہے کہ اصل مجرم وہی ہیں ہم نہیں، اس قسم کے عذر کا وہاں کوئی موقع نہیں ہوگا، کیونکہ ابتداءً ہر شخص کی فطرت میں اپنے رب کی پہچان اور اس کی توحید رکھ دی گئی ہے، پھر اس کی یاد دہانی اور تفسیر و تشریح کے لیے رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائی گئی ہیں اور کائنات میں اس کے دلائل رکھ دیے گئے ہیں اور ان کے فہم کے لیے عقل بھی عنایت کی گئی ہے۔
اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد فرمایا، (آیت) اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤ ُ نَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ، یعنی یہ اقرار ہم نے اس لئے بھی لیا ہے کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ عذر نہ کرنے لگو کہ شرک وبت برستی تو دراصل ہمارے بڑوں نے اختیار کرلی تھی اور ہم تو ان کے بعد ان کی اولاد تھے، کھرے کھوٹے اور صحیح غلط کو نہیں پہچانتے تھے اس لئے بڑوں نے جو کچھ کیا ہم نے بھی اسی کو اختیار کرلیا تو بڑوں کے جرم کی سزا ہمیں کیوں دی جائے۔ حق تعالیٰ نے بتلا دیا کہ دوسروں کے فعل کی سزا تم کو نہیں دی گئی بلکہ خود تمہاری غفلت کی سزا ہے کیونکہ اس اقرار ازلی نے انسان میں ایک ایسی عقل و بصیرت کا تخم ڈال دیا تھا کہ ذرا بھی غور و فکر سے کام لیتا تو اتنی بات سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں تھا کہ یہ پتھر جن کو ہم نے اپنے ہاتھوں تراشا ہے، یا آگ اور پانی، اور درخت یا کوئی انسان، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو کوئی انسان اپنا پیدا کرنے والا اور پروردگار یا حاجت روا مشکل کشا یقین کرسکے۔
اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّۃً مِّنْۢ بَعْدِہِمْ ٠ ۚ اَفَتُہْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ١٧٣- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔
(١٧٣) اور یہ نہ کہو کہ عہد شکنی تو ہم سے پہلے ہمارے بڑوں نے کی تھی اور ہم تو چھوٹے تھے ہم نے تو ان کی پیروی کرلی، تو کیا آپ ہمیں ہم سے پہلے ان مشرکوں کی بدعہدہ پر عذاب دیتے ہیں۔
آیت ١٧٣ (اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْم بَعْدِہِمْ ج) (اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ )- ہمارے بڑے جو راستہ ‘ جو طور طریقے چھوڑ گئے تھے ‘ ہم تو ان پر چلتے رہے ‘ لہٰذا ہمارا کوئی قصور نہیں ‘ اصل مجرم تو وہ ہیں جو ہمیں اس دلدل میں پھنسا کر چلے گئے۔ یہ با طل طور طریقے انہوں نے ہی ایجاد کیے تھے ‘ ہم تو صرف ان کے مقلد تھے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :135 اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسل آدم سے اقرار لیا گیا تھا ۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں ۔ اُنہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہوسکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے ، یا ایک گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکلیہ بری ہو سکتا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازِ آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہو چکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے ۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا ، لیکن وہ تحت الشعور ( - ) اور وِجدان ( ) میں یقیناً محفوظ ہے ۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے ۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة ( ) موجود تھا ۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اسے بالفعل کر دیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم ، کوئی تربیت ، کوئی ماحول تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی ، جو اس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو ، ہرگز پیدا نہیں کر سکتی ۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے ، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں ، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف ( ) کر دیں ۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی ، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی ، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی ۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے: وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں ، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ ان سب کے ظہور میں آنے کے لیے خارجی تذکیر ( یاد دہانی ) ، تعلیم ، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے ، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے ۔ ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر ، پردہ ڈال کر ، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کر سکتیں ، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی ( ) ممکن ہوتی ہے ۔ ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت ، اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے: اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں ، زمین کے ہر خطہ میں ، ہر بستی ، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے ۔ اس کے مطابق حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کار فرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں ۔ اس کو اُبھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے ، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں ۔ اسی لیے ان کو قرآن میں مذکِّر ( یاد دلانے والے ) ذِکر ( یاد ) تذکرہ ( یادداشت ) اور اب ان کے کام کو تذکیر ( یاد دہانی ) کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی ۔ نفس انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا ۔ پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک ، دہریت ، الحاد ، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے ۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں ۔ بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کر سکتے ہیں ۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہوگا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں روزِ ازل کے اس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا ۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الاشہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا ، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں ، اپنی اور اپنے گردوپیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی ، داعیان حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا ، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے ۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے ، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا ۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے ، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے ۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا ۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کَافِرِیْنَ ( الاَنعام ، ١۳۰ ) ۔