وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ : ” اور تاکہ وہ پلٹ آئیں “ اور باطل کو چھوڑ دیں۔ یہ واقعہ یہود کو سنایا، کیونکہ وہ بھی مشرکوں کی طرح اپنے عہد سے پھرے ہوئے تھے۔
تیسری آیت میں اسی مضمون کا بیان اس طرح آیا ہے، (آیت) وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ، یعنی ہم اسی طرح اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کیا کرتے ہیں تاکہ لوگ غفلت اور کجروی سے باز آجائیں، مراد یہ ہے کہ آیات الہیہ میں ذرا بھی غور کریں تو وہ اس عہد و میثاق کی طرف لوٹ آئیں جو ازل میں کیا گیا تھا یعنی اللہ جل شانہ کی ربوبیت کا اعتراف کرنے لگیں اور اس کے نتیجہ میں اس کی اطا عت کو لازم سمجیں۔
وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ ١٧٤- تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
(١٧٤) اسی طرح ہم قرآن حکیم میں عہد ومیثاق کے واقعات بیان کرتے ہیں تاکہ یہ کفر وشرک سے میثاق اول کی طرف رجوع کریں۔
آیت ١٧٤ (وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ) - اب آئندہ آیات میں ایک شخصیت کا واقعہ تمثیلی انداز میں بیان ہوا ہے ‘ مگر حقیقت میں یہ محض تشبیہہ نہیں ہے بلکہ حقیقی واقعہ ہے۔ یہ قصہ دراصل ہمارے لیے درس عبرت ہے ‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت بدنصیب ہے وہ فرد یا قوم جس کو اللہ تعالیٰ اپنے بیش بہا انعام و اکرام اور قرب خاص سے نوازے ‘ مگر وہ اس کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے خود کو ان تمام فضیلتوں سے محروم کرلے اور اللہ کی بندگی سے نکل کر شیطان کا چیلہ بن جائے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :136 یعنی معرفت حق کے جو نشانات انسان کے اپنے نفس میں موجود ہیں ان کا صاف صاف پتہ دیتے ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :137 یعنی بغاوت و انحراف کی روش چھوڑ کر بندگی و اطاعت کے رویہ کی طرف واپس ہوں ۔