بلعم بن باعورا مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے ۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا ، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا ، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی ۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے ۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا ۔ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکرو فریب سے اپنا کر لیا ۔ اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کجھ انعام و اکرام دیا ۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا ۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابو صلت ہے ۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا ۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں ، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے ، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا ، لیکن مشرکین کے میل جول ، ان میں امتیاز ، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا ۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثئے کہے ، لعنتہ اللہ ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر ۔ اس نے منظور کر لیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو ۔ اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی ۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بےحقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے ۔ یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی ۔ اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں ۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے ۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہوگئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا ۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہدیا ہے کہ یہ نبی تھا ۔ یہ محض غلط ہے ، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سر ہوگئی ۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا ۔ بد دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا ۔ سدی کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں ۔ یہ آمادہ ہوگئے ، بیعت کر لی ۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا ۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا ، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاًہلاک ہو جائے گا ۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی ۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ شیطان اس پر غالب آ گیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہو گیا ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قران پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہوگا اور دینی ترقی پر ہوگا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا ، اسے پس پشت ڈال دے گا ، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہوگا ؟ یہ تہمت لگانے والا ؟ وہ جسے تہمت لگا رہا ہے فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں ، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں ، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہوگیا ۔ اسے سجدہ کر لیا ۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں ۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے ۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا ۔ اس کی بھی سمجھ میں آ گیا اٹھ کر بد دعا شروع کی ۔ اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی ۔ قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کیا کروں؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں ۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہوگی ۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے ۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا ۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کر دی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے ۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہوگئے حرام کاری سے بچ نہ سکے ۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی ۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا ۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں ، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی ۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرودیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا ۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہوگئے ۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی ۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے؟ اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا ۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا اس کا نام یا تو بلعام تھا ۔ یا بلعم بن با عورا یا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر ۔ یہ بلقا کا رئیس تھا ، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا ۔ واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا ، اسے اللہ نے زبان دی ۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں ۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا ۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا ۔ اب ان کیلئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی ۔ قوم نے کہا کیا کر رہے ہو؟ کہا بےبس ہوں ۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گذری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہوگیا ۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہدیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے؟ آپ نے کہا بیشک ۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا ، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا ۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا ۔ حضرت فحاص بن غیرار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کو کھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں ۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے ۔ دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آ جائیں ۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں ۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ کالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے ۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت ، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ جھوڑ دو ۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ انہیں وعظ و پند کہنا نہ کہنا سب برابر ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر اللہ انہیں نہیں بخشے گا ۔ یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے ۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں ، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا ۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے ۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں ، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں ۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں ۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے ۔ حضور فرماتے ہیں ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کر تے ہیں ۔ طاعت مولیٰ ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں ۔
175۔ 1 مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا۔ تاہم اس کے تعیین میں کوئی مسند بات مروی بھی نہیں۔ اس لئے اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔
[١٧٧] دنیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑنے والے لوگوں کی مثال :۔ اس شخص کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے اور نہ احادیث میں اور جو مفسرین کے اقوال ہیں وہ بھی مختلف ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کا طریق بیان ایسا ہے کہ عموماً کسی برے شخص کا نام لے کر اسے بدنام نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اس کی خصلت کو بیان کردیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے بچ جائیں اور یہ بات انتہائی اخلاقی بلندی کی دلیل ہے کہ کسی کو بدنام بھی نہ کیا جائے اور اصل مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اس کی مثال ہر اس شخص پر صادق آسکتی ہے جو ایسی صفات رکھتا ہو۔ یہ شخص آیات الٰہی کا عالم تھا باعمل اور مستجاب الدعوات تھا اور لوگوں میں اس کے زہد و اتقاء کی شہرت بھی تھی چند لوگوں نے اس کے پاس آ کر ایک ایسی دعا کی درخواست کی جو شرعاً ناجائز تھی پہلے تو اس نے ایسی ناجائز دعا کرنے سے انکار کردیا لیکن جب ان لوگوں نے اسے بہت سے مال و دولت کا لالچ دیا تو تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ اس ناجائز کام پر آمادہ ہوگیا اس طرح اسے دنیوی فائدہ تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقام بلند پر وہ جا رہا تھا اور آگے جانے کا اردہ رکھتا تھا اس سے گرگیا ۔ ایک دفعہ جب اس پر شیطان کا داؤ چل گیا تو آگے شیطان کا کام نسبتاً آسان تھا۔ چناچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ محض دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کا پورا نافرمان بن گیا اور اپنے ارفع مقام سے گرتا گرتا زمین کی انتہائی پستی تک پہنچ گیا اس شخص یا اس جیسے شخص کی مثال اللہ تعالیٰ نے اس کتے سے دی ہے جس کی حرص اور لالچ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کی طرف پتھر پھینکے تو بھی یہی سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کوئی ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہوگا۔ پھر وہ اسے نوچتا اور ایک بار ضرور منہ میں لیتا ہے اس کی زبان ہر وقت باہر نکلی اور رال ٹپکتی رہتی ہے اور ہر چیز کو اس لیے سونگھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید کہیں سے کھانے کی بو پا سکے اس کی حرص و آز کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے کھانے کے لیے کہیں سے مردار پڑا مل جائے اور وہ اس کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تو بھی اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کتا اس کے ساتھ اس مردار کے کھانے میں شریک نہ ہو اور یہ مثال ان دنیا کے کتوں پر راس آتی ہے جو اپنی خواہش اور دنیوی مفادات کی خاطر اپنی اچھی سے اچھی قدروں کو قربان کردینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ ۔۔ : ” سَلَخَ (ن، ف ) “ ” کھال اتارنا۔ “ ” مَسْلُوْخٌ“ وہ بکری جس کی کھال اتار لی گئی۔ ” اِنْسَلَخَ الْحَیَّۃُ “ ” سانپ اپنی کینچلی سے نکل گیا۔ “ (قاموس) ان الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا قصہ یہاں عبرت کے لیے بیان کیا جا رہا ہے وہ ضرور کوئی خاص شخص ہے، لیکن قرآن اور صحیح حدیث میں نہ تو اس کے نام کی تصریح ہے اور نہ ہی زمانے کا ذکر ہے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری جانے والی آیات کو جھٹلانے والوں کی بیان فرمائی۔ یہ اس شخص کی مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا فرمایا، وہ ان کا عالم، ان کے قواعد کا حافظ اور اس کے احکام کو بیان کرنے اور بحث کرکے ثابت کرنے کے لائق ہوگیا مگر شیطان نے اسے اپنے پیچھے ایسا لگایا کہ وہ اس علم پر عامل نہ ہوا، بلکہ اس کا عمل اپنے علم کے سراسر مخالف رہا تو پھر اس سے ان آیات کا علم بھی چھن گیا، کیونکہ جس علم پر عمل نہ ہو وہ تھوڑی مدت ہی میں ختم ہوجاتا ہے۔ تو یہ شخص اس سانپ کی طرح ہوگیا جو اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے اور اسے اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے، یا اپنے علم و عمل میں مخالفت کی وجہ سے اس شخص کی طرح ہوگیا جو اپنے علم سے نکل جاتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے، جیسے کوئی شخص اپنے پرانے کپڑے اتار دیتا ہے اور سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے کہ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہتا۔ مثال کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول پر نازل کردہ آیات کو جھٹلانے والے لوگ اس عالم کی طرح ہیں جو اپنے علم کے پھل سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوگیا ہو، کیونکہ دونوں ہی نے دلائل و آیات میں اخلاص کے ساتھ عبرت حاصل کرنے کے لیے غور نہیں کیا۔
خلاصہ تفسیر - اور ان لوگوں کو ( عبرت کے واسطے) اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ اس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں ( یعنی احکام کا علم دیا) پھر وہ ان ( آیتوں) سے بالکل ہی نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا، سو وہ گمراہ لوگوں میں داخل ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں ( کے مقتضا پر عمل کرنے) کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے ( یعنی اگر وہ ان آیتوں پر عمل کرتا جس کا وابستہ قضاء و قدر ہونا امر معلوم ہے تو اس کا رتبہ قبول بڑھتا) لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور ( اس میلان کے سبب) اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا ( اور آیات و احکام پر عمل چھوڑ دیا) سو ( آیات کو چھوڑ کر جو پریشانی اور ذلت دائمی اس کو نصیب ہوئی اس کے اعتبار سے) اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے ( اور مار کر نکال دے) تب بھی ہانپے یا اس کو ( اس کی حالت) پر چھوڑ دے تب بھی ہانپے ( کسی حالت میں اس کو راحت نہیں، اسی طرح یہ شخص ذلت میں تو کتے کے مشابہ ہوگیا اور پریشانی میں کتے کی اس صفت میں شریک ہوا پس جیسی اس شخص کی حالت ہوئی) یہی حالت ( عام طور پر) ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو ( جو کہ توحید و رسالت پر دال ہیں) جھٹلایا ( کہ وضوح حق کے بعد محض ہوٰی پرستی کے سبب حق کو ترک کرتے ہیں) سو آپ اس حال کو بیان کردیجئے شاید وہ لوگ (اس کو سن کر) کچھ سوچیں، ( حقیقت میں) ان لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے جو ہماری آیات (دالہ علی التوحید والرسالة) کو جھٹلاتے ہیں اور ( اس تکذیب سے) وہ اپنا ( ہی) نقصان کرتے ہیں۔- معارف ومسائل - مذکورہ آیات میں بنی اسرائیل کا ایک عبرت ناک قصہ مذکور ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک بڑے عالم اور مشہور مقتدا کا علم و معرفت کے اعلی معیار پر ہونے کے بعد دفعة گمراہ و مردود ہوجانے کا واقعہ مع اس کے اسباب کے بیان کیا گیا ہے اور اس میں بہت سی عبرتیں ہیں۔ - اور مناسبت اس واقعہ کی پچھلی آیتوں سے یہ ہے کہ ان میں عہد و میثاق کا ذکر تھا جو ازل میں حق تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے اور پھر خاص خاص حالات میں خاص خاص اقوام یہود و نصاری وغیرہ سے لئے تھے، اور مذکورہ آیات میں اس کا بھی ذکر آیا تھا کہ عہد کرنے والوں میں بہت سے لوگ اس عہد پر قائم نہیں رہے، جیسے یہود کہ حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا میں تشریف لانے سے پہلے آپ کے آنے کا انتظار کرتے اور آپ کی صفات و شمائل لوگوں سے بیان کیا کرتے اور ان کی تصدیق کیا کرتے تھے، مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو دنیا کی ذلیل اغراض کی خاطر آپ پر ایمان لانے اور آپ کا اتباع کرنے سے باز رہے۔- بنی اسرائیل کے ایک عالم مقتدا کی گمرای کا عبرتناک واقعہ : - ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ اپنی قوم کے سامنے یہ واقعہ پڑھ کر سنائیے جس میں بنی اسرائیل کے ایک بڑے عالم و عارف اور مشہور پیشوا کا ایسا ہی حال عروج کے بعد تنزل اور ہدایت کے بعد گمراہی کا مذکور ہے کہ وسیع علم اور پوری معرفت حاصل ہونے کے باوجود، جب نفسانی اغراض اس پر غالب آئیں تو یہ سب علم و معرفت اور مقبولیت ختم ہو کر گمراہ اور ذلیل و خوار ہوگیا۔ قرآن کریم میں اس شخص کا نام اور کوئی تشخص مذکور نہیں، ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے اس کے بارے مختلف روایتیں مذکور ہیں، جن میں زیادہ مشہور اور جمہور کے نزدیک قابل اعتماد روایت وہ ہے جو حضرت ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کی ہے کہ اس شخص کا نام بلعم بن باعوراء ہے یہ ملک شام میں بیت المقدس کے قریب کنعان کا رہنے والا تھا، اور ایک روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل میں سے تھا، اللہ تعالیٰ کی بعض کتابوں کا علم اس کو حاصل تھا، قرآن کریم میں جو اس کی صفت میں (آیت) الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فرمایا ہے اس سے اسی علم کی طرف اشارہ ہے۔- جب غرق فرعون اور فتح مصر کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا اور جبارین نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمام بنی اسرائیل کا لشکر لے کر پہنچ گئے اور ان کے مقابل قوم فرعون کا غرق و غارت ہونا ان کو پہلے سے معلوم ہوچکا تھا تو ان کو فکر ہوئی اور جمع ہو کر بلعم بن با عوراء کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سخت آدمی ہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لشکر ہیں اور وہ اس لئے آئے ہیں کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دیں، آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ان کو ہمارے مقابلہ سے واپس کردیں، وجہ یہ تھی کہ بلعم بن باعوراء کو اسم اعظم معلوم تھا وہ اس کے ذریعہ جو دعا کرتا تھا قبول ہوتی تھی۔ - بلعم نے کہا افسوس ہے تم کیسی بات کہتے ہو، وہ اللہ کے نبی ہیں ان کے ساتھ اللہ کے فرشتے ہیں میں ان کے خلاف بددعا کیسے کرسکتا ہوں حالانکہ ان کا مقام جو اللہ کے نزدیک ہے وہ بھی میں جانتا ہوں اگر میں ایسا کروں گا تو میرا دین دنیا دونوں تباہ ہوجائیں گے۔- ان لوگوں نے بےحد اصرار کیا تو اس پر بلعم نے کہا کہ اچھا میں اپنے رب سے اس معاملہ میں معلوم کرلوں کہ ایسی دعا کرنے کی اجازت ہے یا نہیں، اس نے اپنے معمول کے مطابق معلوم کرنے کے لئے استخارہ یا کوئی عمل کیا، خواب میں اس کو بتلایا گیا کہ ہرگز ایسا نہ کرے، اس نے قوم کو بتلا دیا کہ مجھے بددعا کرنے سے منع کردیا گیا ہے، اس وقت قوم جبارین نے بلعم کو کوئی بڑا ہدیہ پیش کیا جو درحقیقت رشوت تھی، اس نے ہدیہ قبول کرلیا تو پھر اس قوم کے لوگ اس کے پیچھے پڑگئے کہ آپ ضرور یہ کام کردو اور الحاح و اصرار کی حد نہ رہی، بعض روایات میں ہے کہ اس کی بیوی نے مشورہ دیا کہ یہ رشوت قبول کرلیں اور ان کا کام کردیں، اس وقت بیوی کی رضا جوئی اور مال کی محبت نے اس کو اندھا کردیا تھا، اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے خلاف بددعا کرنا شروع کی۔ اس وقت قدرت الہیہ کا عجیب کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ جو کلمات بددعا کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے لئے کہنا چاہتا تھا اس کی زبان سے وہ الفاظ بددعا خود اپنی قوم جبارین کے لئے نکلے، وہ چلا اٹھے کہ تم تو ہمارے لئے بددعا کر رہے ہو، بلعم نے جواب دیا کہ یہ میرے اختیار سے باہر ہے میری زبان اس کے خلاف پر قادر نہیں۔ - نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم پر بھی تباہی نازل ہوئی اور بلعم کو یہ سزا ملی کہ اس کی زبان اس کے سینہ پر لٹک گئی، اور اب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ میری تو دنیا و آخرت تباہ ہوگئی اب دعا تو میری چلتی نہیں لیکن میں تمہیں ایک چال بتاتا ہوں جس کے ذریعہ تم موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر غالب آسکتے ہو۔ - وہ یہ ہے کہ تم اپنی حسین لڑکیوں کو مزین کر کے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان کو یہ تاکید کردو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ان کے ساتھ جو کچھ کریں کرنے دیں، رکاوٹ نہ بنیں، یہ لوگ مسافر ہیں، اپنے گھروں سے مدت کے نکلے ہوئے ہیں، اس تدبیر سے ممکن ہے کہ یہ لوگ حرام کاری میں مبتلا ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام کاری انتہائی مبغوض چیز ہے جس قوم میں یہ ہوا، اس پر ضرور قہر و عذاب نازل ہوتا ہے، وہ فاتح و کامران نہیں ہوسکتی۔ - بلعم کی یہ شیطانی چال ان کی سمجھ میں آگئی، اس پر عمل کیا گیا، بنی اسرائیل کا ایک بڑا آدمی اس چال کا شکار ہوگیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اس وبال سے روکا مگر وہ باز نہ آیا، اور شیطانی جال میں مبتلا ہوگیا۔- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل میں سخت قسم کا طاعون پھیلا جس سے ایک روز میں ستر ہزار اسرئیلی مرگئے، یہاں تک کہ جس شخص نے برا کام کیا تھا اس جوڑے کو بنی اسرائیل نے قتل کرکے منظر عام پر ٹانگ دیا کہ سب لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور توبہ کی، اس وقت یہ طاعون رفع ہوا۔- قرآن مجید کی مذکور الصدر آیات میں اس کے متعلق فرمایا (آیت) فَانْسَلَخَ مِنْهَا یعنی ہم نے اپنی آیات اور ان کا علم و معرفت اس شخص کو عطا کیا تھا لیکن وہ اس سے نکل گیا، انسلاخ کا لفظ اصل میں جانور کے کھال کے اندر سے یا سانپ کا کیچلی کے اندر سے نکل جانے کے لئے بولا جاتا ہے اس جگہ علم آیات کو ایک لباس یا کھال کے ساتھ تشبیہ دے کر یہ بتلایا گیا کہ یہ شخص علم و معرفت سے بالکل جدا ہوگیا، (آیت) فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ یعنی پیچھے لگ گیا اس کے شیطان، مطلب یہ ہے کہ جب تک علم آیات اور ذکر اللہ اس کے ساتھ تھا، شیطان کا قابو اس پر نہ چل سکتا تھا جب وہ جاتا رہا تو شیطان اس پر قابو یافتہ ہوگیا (آیت) فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ ، یعنی پھر ہوگیا وہ گمراہوں میں سے، مطلب یہ ہے کہ شیطان کے قابو میں آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰہُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ ١٧٥- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - سلخ - السَّلْخُ : نزع جلد الحیوان، يقال : سَلَخْتُهُ فَانْسَلَخَ ، وعنه استعیر : سَلَخْتُ درعه : نزعتها، وسَلَخَ الشهر وانْسَلَخَ ، قال تعالی: فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة 5] ، وقال تعالی:- نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس 37] ، أي : ننزع، وأسود سَالِخٌ ، سلخ جلده، أي : نزعه، ونخلة مِسْلَاخٌ: ينتثر بسرها الأخضر .- ( س ل خ ) السلخ اس کے اصل معنی کھال کھینچنے کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ سلختہ فانسلخ میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھچ گئی پھر اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گزر جاں ے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے سلخت درعہ میں نے اس کی زرہ اتار لی ۔ سلخ الشھر و انسلخ مہینہ گزر گیا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة 5] جب غربت کے مہینے گزر جائیں ۔ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس 37] کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی «1» . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر 39] .- ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے کیونکہ انسان کا سب سے بڑا فرض ی ہے کہ وہ اپنے دوست کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم انہیں اپنی طرف سے فائدہ پہنچایا اور انہیں اپنے جیسا سمجھا تھا اور یہی معنی آیت ؛ فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا ( اور ) ہم نے خود بھی گمراہ تھے ۔ کے ہیں ۔ فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] جیسا کہ تم نے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے ( گناہوں کو ) آراستہ کر دکھاؤں گا اور ان ۔ کو بہکاؤں گا ۔
(١٧٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو اس شخص کا حال سنایئے جسے ہم نے اسم اعظم دیا اور پھر وہ اس سے بالکل نکل گیا اور گمراہ لوگوں میں داخل ہوگیا۔ ہو بلعم باعوراء ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم کی بدولت اسے ہدایت دی تھی اس نے اس کے ذریعے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بددعا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس سے اس کا علم چھین لیا اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ شخص امیہ ابن ابی الصلت ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اسے علم اور کلام کے حسن کے ساتھ عزت دی تھی مگر جب یہ ایمان نہ لایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ دولت اس سے چھین لی، شیطان نے اس کو دھوکا دیا تو یہ گمراہ کافروں میں سے ہوگیا۔
آیت ١٧٥ (وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا) - یہاں پر اس واقعے کے لیے لفظ نبأ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی خبر کے ہیں۔ اس سے وا ضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی تمثیل نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے۔ دوسرے جو یہ فرمایا گیا کہ اس شخص کو ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں ‘ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شخصصاحب کرامت بزرگ تھا۔ اس واقعے کی تفصیل ہمیں تورات میں بھی ملتی ہے جس کے مطابق یہ شخص بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اس کا نام بلعم بن باعور اء تھا اور یہ ایک بہت بڑا عابد ‘ زاہد اور عالم تھا۔- (فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ ) - یہاں پر یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ پہلے انسان خود غلطی کرتا ہے ‘ شیطان اسے کسی برائی پر مجبور نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق (اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ الاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ) (الحجر) شیطان کو کسی بندے پر کوئی اختیار حاصل نہیں ‘ لیکن جب بندہ اللہ کی نافرمانی کی طرف لپکتا ہے اور برائی کر بیٹھتا ہے تو وہ شیطان کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ شیطان ایسے شخص کے پیچھے لگ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ کر کے رجوع نہ کرے تو اسے تدریجاً دُور سے دور لے جاتا ہے یہاں تک کہ اسے برائی کی آخری منزل تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :138 ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بری مثال کا ذکر کردیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے ۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، کون تھا ۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے ۔ کوئی بلعم بن باعوراء کا نام لیتا ہے ، کوئی اُمیّہ بن ابی الصَّلت کا ، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا ، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں ہوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو ۔
89: عام طور سے مفسرین نے اس آیت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس میں بلعام بن باعور کی طرف اشار ہے۔ فلسطین کے علاقے مو آب میں یہ ایک عابد و زاہد شخص تھا، اور اس کے بارے میں یہ بات مشہور تھا کہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس وقت اس علاقے پر بت پرست قوموں کا قبضہ تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل کا لشکر لے کر اس علاقے پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فوجیں مو آب کے دروازے تک پہنچ گئیں تو وہاں کے بادشاہ نے بلعام سے کہا کہ وہ ان کے خلاف بد دعا کرے تاکہ وہ ہلاک ہوجائیں، بلعام نے شروع میں انکار کیا، مگر بادشاہ نے اسے رشوت دی تو وہ بد دعا پر راضی ہوگیا۔ مگر جب دعا کرنی شروع کی تو الفاظ بد دعا کے بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں دعا کے نکلے۔ بعد میں بلعام نے بادشاہ کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی عورتوں کو بنی اسرائیل کے خیموں میں بھیج دیں، تاکہ وہ بدکاری میں مبتلا ہوجائیں، بدکاری کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے قہر کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے بنی اسرائیل اپنی بدکاری کی وجہ سے اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بنی اسرائیل اس فتنے میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے ان میں عذاب کے طور پر طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ یہ قصہ بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ مذکور ہے (دیکھئے، گنتی، باب 22 تا 25، اور 16:31) قرآنِ کریم نے یہاں اس شخص کا نام نہیں لیا جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اور نہ یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے احکام کو چھوڑ کر کس طرح اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔ اور جو قصہ اوپر بیان کیا گیا ہے، وہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ اس لئے یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان آیات میں وہی مراد ہے۔ تاہم قرآنِ کریم کا اصل مقصد اس شخص کی تعیین پر موقوف نہیں ہے۔ سبق یہ دینا مقصود ہے کہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے علم اور عبادت کے شرف سے نوازا ہو، اس کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط اور تقویٰ سے کام لینا چاہئے۔ اگر ایسا شخص اﷲ تعالیٰ کی آیات کی خلاف ورزی کر کے ناجائز خواہشات کے پیچھے چل پڑے، تو اس کا انجام دُنیا اور آخرت دونوں میں بُرا ہوتا ہے۔